''علی ولی اللہ'' سے شیعہ کی مراد ولایت علی ہے۔ اور ولایت علی سے مراد ان کا ''خلیفہ بلا فصل'' ہونا ہے، جو غلو ہے- اہل سنت کے نزدیک اہل بیت سے محبت عین ایمان ہے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اہل بیت رسول میں شامل ہیں جن سے وہ محبت کرتے ہیں- صحابہ کرام کے مسئلے میں بعض لوگ دو انتہاوں پر ہیں، ایک روافض اور دوسرے نواصب۔
The Arabic word ‘walayah’’ means; rule, kingship, governorship, authority, ownership, some thing under control, to help. In Shi’aism, (walayah) denotes the characteristics required for succession to the Imamate. Successors must be descents of (Prophet) Muhammad (peace be upon him), who are appointed based on their esoteric knowledge. They are expected to provide political leadership, be actively involved in upholding religious laws, and possesses special knowledge of the esoteric dimension of Qur’anic revelation. Keep reading .. [........]
خلیفہ چہارم امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لَیُحِبُّنِي قَوْمٌ حَتّٰی یَدْخُلُوا النَّارَ فِي حُبِّي، وَلَیُبْغِضُنِي قَوْمٌ حَتّٰی یَدْخُلُوا النَّارَ فِي بُغْضِي .
''مجھ سے محبت کی وجہ سے ایک اور مجھ سے نفرت کے بنا پر ایک قوم جہنم میں چلی جائے گی۔''
(فضائل الصحابۃ لأحمد بن حنبل : ٩٥٢، سندہ، صحیحٌ)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨ھ) لکھتے ہیں:
طَائِفَۃٌ رَافِضَۃٌ یُظْہِرُونَ مُوَالَاۃَ أَہْلِ الْبَیْتِ، وَہُمْ فِي الْبَاطِنِ إمَّا مَلَاحِدَۃٌ زَنَادِقَۃٌ، وَإِمَّا جُہَّالٌ، وَأَصْحَابُ ہَوًی، وَطَائِفَۃٌ نَاصِبَۃٌ تَبْغُضُ عَلِیًّا، وَأَصْحَابَہ،، لِمَا جَرٰی مِنْ الْقِتَالِ فِي الْفِتْنَۃِ مَا جَرٰی .
''روافض کا ایک گروہ اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دم بھرتا ہے، درحقیقت یہ ملحد و زندیق ہیں یا دین سے کورے اور نفس پرست ۔ ایک گروہ ناصبی ہے، جو (سیدنا معاویہ اور سیدہ عائشہr کے خلاف ہونے والی ) جنگوں کی وجہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں سے بغض رکھتا ہے ۔''
(الفتاوی الکبریٰ : ١/١٩٥، مجموع الفتاویٰ : ٢٥/٣٠١)
نیز فرماتے ہیں:
وَأَمَّا أَہْلُ الْحَدِیثِ وَالسُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ فَقَدِ اخْتَصُّوا بِاتِّبَاعِہِمُ الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ الثَّابِتَۃَ عَنْ نَبِیِّہِمْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْأُصُولِ وَالْفُرُوعِ، وَمَا کَانَ عَلَیْہِ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِخِلَافِ الْخَوَارِجِ وَالْمُعْتَزِلَۃِ وَالرَّوَافِضِ وَمَنْ وَافَقَہُمْ فِي بَعْضِ أَقْوَالِہِمْ، فَإِنَّہُمْ لَا یَتَّبِعُونَ الْأَحَادِیثَ الَّتِي رَوَاہَا الثِّقَاتُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّتِي یَعْلَمُ أَہْلُ الْحَدِیثِ صِحَّتَہَا، فَالْمُعْتَزِلَۃُ یَقُولُونَ : ہَذِہِ أَخْبَارُ آحَادٍ، وَأَمَّا الرَّافِضَۃُ فَیَطْعَنُونَ فِي الصَّحَابَۃِ وَنَقْلِہِمْ، وَبَاطِنُ أَمْرِہِمُ الطَّعْنُ فِي الرِّسَالَۃِ .
''اہل سنت کا شیوہ ہے کہ وہ عقیدہ اور مسائل میں قرآن ،صحیح احادیث اور منہج صحابہ کے پیروہیں۔ جب کہ خوارج، معتزلہ، روافض اور ان کے ہم نوا ایسے نہیں ہیں، وہ ثقہ راویوں سے مروی احادیث کا اتباع نہیں کرتے۔ معتزلہ کہتے ہیں: یہ احادیث اخبار آحاد ہیں، روافض صحابہ کرام اور ان کی روایات پر طعن کرتے ہیں، لیکن در حقیقت اس کی زد رسالت مآب پر پڑتی ہے۔''
(منھاج السنۃ النبویۃ : ٣/٤٦٣)
رافضیت اور ولایت علی رضی اللہ عنہ
شیعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں غلو کرتے ہیں کہ آپ خلیفہ بلا فصل ہیں، اس لیے انہوں نے کلمہ طیبہ میں اضافہ کی جسارت کی ہے۔ ان کا کلمہ ہے:
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، علی ولی اللہ۔
''علی ولی اللہ'' سے ان کی مراد ولایت علی ہے۔ اور ولایت علی سے مراد ان کا ''خلیفہ بلا فصل'' ہونا ہے۔ یہ بے ثبوت اور بے حقیقت نظریہ ، سراسر غلو پر مبنی ہے۔ لکھا ہے :
وَلَایَۃُ عَلِيًّ علیہ السلام مَکْتُوبَۃٌ فِي جَمِیعِ صُحُفِ الْـأَنْبِیَائِ، وَلَنْ یَبْعَثَ اللّٰہُ رَسُولًا إِلَّا بِنُبُوَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہَ عَلَیْہِ وَآلِہٖ، وَوَصِیِّۃِ عَلِيٍّ عَلَیْہِ السَّلَامُ .
''علی کی ولایت سابقہ تمام انبیاء کے صحیفوں میں مندرج تھی اور اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور علی کی وصیت دے کر بھیجا۔''(أصول الکافي للکلیني : ١/٤٣٧)
یہ کیسا دعوی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے عقل، دین اور ذرہ برابر حیا سے نوازا ہے، وہ ایسی بات کرنے سے ''عاجز و قاصر''ہے۔ یہ تو یہاں تک کہتے ہیں :
سیدنا یونسu ولایت علی کے منکر تھے، تب مچھلی کے میں پیٹ میں رہے۔ اقرار کرنے پر خلاصی ملی۔ (بحار الأنوار للمجلسي : ٢٦/٣٣٣)
یہ لوگ بیسیوں آیات میں تحریف معنوی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں بھی شرک سے روکا گیا ، وہاں علی رضی اللہ عنہ کی ولایت میں شریک ٹھہرانے سے روکا گیا ہے، جہاں کفر و انکارکی بات وہاں ولایت علی سے انکار مراد ہے۔ شاید اسی بنیاد پر انہوں نے عقیدہ تحریف قرآن گھڑ لیا ہے کہ قرآن مجید میں ولایت علی کا ذکر تھا، جو نکال دیا گیا۔
اس باب میں انہوں نے بے شمار حدیثیں بھی گھڑی ہیں، صحیح حدیث 'من کنت مولاہ فعلي مولاہ' میں مولا کا معنی ''والی'' کرتے ہیں، جو کسی بھی صورت میں درست نہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَأَمَّا حَدِیثُ الْمُوَالِاۃِ فَلَیْسَ فِیہِ۔ إِنْ صَحَّ إِسنَادُہ،۔ نَصٌّ عَلٰی وَلَایَۃِ عَلِيٍّ بَعْدَہ، ۔۔۔۔۔۔ فَأَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَذْکُرَ اخْتِصَاصَہ، بِہٖ وَمَحبَّتَہ، إِیَّاہُ وَیَحُثُّہُمْ بِذَالِکَ عَلٰی مَحَبَّتِہٖ وَمُوَالِاتِہٖ وَتَرْکِ مُعَادَاتِہٖ فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ وَلِیَّہ، فَعَلِيٌّ وَلِیُّہ، وَفِي بَعْضِ الرُّوَایَاتِ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاہُ أَللّٰہُمَّ وَالِ مِنْ وَالِاہُ وَعَادِ مِنْ عَادَاہُ . وَالْمُرَادُ بِہٖ وَلَاءُ الْإِسْلَامِ وَمَودَّتُہ،، وَعَلَی الْمُسْلِمِینَ أَنْ یوَالِیَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا وَلَا یُعَادِي بَعْضُہُمْ بَعْضًا وَہُوَ فِي مَعْنٰی مَا ثَبَتَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّہ، قَالَ : وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَبَرَأَ النَّسَمَۃَ إِنَّہ، لَعَہْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ أَنَّہ، لَا یُحِبُّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا یُبْغِضُنِي إِلَّا مُنَافِقٌ .
''حدیث موالاۃ ، اگر صحیح ہے، تو اس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بلا فصل ہونے پر کوئی نص نہیں۔۔۔۔۔۔۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنی خصوصیت و محبت کا ذکر کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو ان سے محبت و موالات کرنے کا اور ان سے عداوت کو ترک کرنے پر ترغیب دے رہے ہیں۔ یہاں مراد اسلام کا تعلق اور اسلام کی محبت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' جس کامیں دوست ہوں، اس کے علی دوست ہیں۔ ''دوسری روایت میں ہے :''جس کا میں دوست ہوں اس کے علی دوست ہیں۔ اللہ! جو علی سے محبت کرے، تو بھی اس سے محبت کر اور جو علی سے بغض وعداوت رکھے، تو بھی اس سے عداوت رکھ۔'' لازم ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے محبت رکھیں، دشمنی نہ رکھیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں یہی معنی بیان ہوا ہے :'' اس ذات کی قسم، جس نے دانے کو پھاڑا اور جان پیدا کی! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وعدہ دیا تھا کہ مجھ سے کوئی مومن ہی محبت کرے گا اور مجھ سے عداوت کوئی منافق ہی رکھے گا۔'' (الإعتقاد، ص ٣٥٤)
ناصبیت اور اہل بیت
مشہور لغوی علامہ ابن منظور (٧١١ھ) لکھتے ہیں:
قومٌ یَتَدَیَّنُونَ ببِغْضَۃِ عَلِيٍّ عَلَیْہِ السَّلَامُ .
''ناصبی وہ گروہ ہے، جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنا ثواب جانتے ہیں۔''
(لسان العرب : ١/٧٢٦)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨ھ) فرماتے ہیں:
تُبْغِضُ عَلِیًّا، وَ أَصْحَابَہ، .
''ناصبی سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں سے بغض رکھتے ہیں۔''
(مجموع الفتاویٰ : ٢٥/٣٠١)
نیز فرماتے ہیں:
یُکَفِّرُونَ عَلِیًّا أَوْ یُفَسِّقُونَہ، أَوْ یَشُکُّونَ فِي عَدَالَتِہٖ .
''ناصبی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کافر و فاسق سمجھتے ہیں اور آپ کی عدالت میں شک کرتے ہیں۔''
(منھاج السنۃ النبویۃ : ٤/٣٨٦)
سیدنا عبد اللہ بن عباسw بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا صَفَنَ بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقَامِ فَصَلّٰی، وَصَامَ ثُمَّ لَقِیَ اللّٰہَ وَہُوَ مُبْغِضٌ لِأَہْلِ بَیْتِ مُحَمَّدٍ دَخَلَ النَّارَ .
''اگر کوئی شخص حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان نماز پڑھتا ہو، روزہ رکھتا ہو، لیکن مرتے وقت دل میں اہل بیت سے بغض ہوا، تو جہنم میں جائے گا۔''
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٣/١٤٨۔١٤٩، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ''امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح'' کہا ہے۔
امام ابو بکر محمد بن حسین آجری رحمہ اللہ (٣٦٠ھ) لکھتے ہیں:
قَدْ أَثْبَتُّ مِنْ بَیَانِ خِلَافَۃِ أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ مَا إِذَا نَظَرَ فِیہَا الْمُؤْمِنُ سَرَّہ،، وَزَادَہ، مَحَبَّۃً لِلْجَمِیعِ، وَإِذَا نَظَرَ فِیہَا رَافِضِيُّ خَبِیثٌ أَوْ نَاصِبِيُّ ذَلِیلٌ مُہِینٌ، أَسْخَنَ اللّٰہُ الْکَرِیمُ بِذَالِکَ أَعْیُنَہُمَا فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ؛ لِأَنَّہُمَا خَالَفَا الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ، وَمَا کَانَ عَلَیْہِ الصَّحَابَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ واتَّبَعَا غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ .
''میں نے ابو بکر، عمر، عثمان اور علیy کی خلافت کے بیان سے وہ وہ کچھ ثابت کردیا ہے، کہ جسے دیکھتے ہی مومن باغ باغ ہو جائے گا اور ان تمام سے محبت میں اضافہ ہو گا اور خبیث رافضی اوررسوا ناصبی سیخ پا ہو جائے گا۔ اللہ کریم دنیا و آخرت میں ان دلائل و براہین سے ان کی آنکھوں کو ُسوجاتا رہے۔ کیوں کہ یہ کتاب و سنت، مسلک صحابہ اور منہج محدثین کے مخالف و معاند ہیں۔'' (الشریعۃ : ٤/١٧٦٧)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نواصب و روافض کا دعوی ہے کہ
إِنَّ حُبَّ عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ لَا یَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبٍ مُؤْمِنٍ وَکَذَبُوا قَدْ جَمَعَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ حُبَّہُمَا بِحَمْدِ اللّٰہِ فِي قُلُوبِنَا .
''ایک مومن کے دل میں سیدنا عثمان اور سیدنا علیw (دونوں) کی محبت سمانہیں سکتی، یہ ان کا جھوٹ ہے، الحمد للہ! اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل میں دونوں کی محبت کو جمع کر دیا ہے۔''
(الشریعۃ : ١٢٢٦، ١٢٢٧، معجم ابن الأعرابي : ٩٥، سندہ، صحیحٌ)
امام ابو شہاب حناط رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَا یَجْتَمِعُ حُبُّ أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ إِلَّا فِي قُلُوبِ أَتْقِیَاءِ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ .
''ابو بکر، عمر، عثمان اور علیy (سب) کی محبت اس امت کے پارسا لوگوں کے دلوں میں ہی سما سکتی ہے۔''
(الشریعۃ : ١٢٢٨، وسندہ، صحیحٌ)
میمون بن مہران رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إِنَّ أَقْوَامًا یَقُولُونَ : لَا یَسَعُنَا أَنْ نَسْتَغْفِرَ لِعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ، وَأَنَا أَقُولُ : غَفَرَ اللّٰہُ لِعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ وَطَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرِ .
''ایک گروہ کہتا ہے : عثمان و علیw کے حق میں استغفار کرنا ہمارے بس میں نہیں، میںکہتا ہوں: اللہ عثمان، علی، طلحہ اور زبیرy کو معاف کرے۔''
(الشریعۃ : ١٢٢٩، وسندہ، حسنٌ)
اہل حدیث اور اہل بیت:
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے موقع پر تین مرتبہ فرمایا:
أُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَہْلِ بَیْتِي .
''میں آپ کو اہل بیت کے بارے میں اللہ کا خوف دلاتا ہوں۔''
(صحیح مسلم : ٢٤٠٨)
سیدہ ام سلمہr بیان کرتی ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسینy کو چادر میں لے کر یہ دعا کی:
أَللّٰہُمَّ أَہْلُ بَیْتِي أَذْہِبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِیرًا .
''اللہ! یہ میرے اہل بیت ، گندگی ان کے قریب نہ پھٹکنے دینا اور انہیں کمال درجہ کی طہارت نصیب فرما۔''
(مسند الإمام أحمد : ٦/٢٩٨، وسندہ، حسنٌ)
سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ آیت مباہلہ (آل عمران : ٦١) نازل ہوئی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسینy کو بلا کر فرمایا:
أَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَاءِ أَہْلِي .
''اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔''
(صحیح مسلم : ٢٤٠٤)
سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَاءِ أَہْلُ بَیْتِي، وَأَہْلُ بَیْتِي أَحَقُّ .
''اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں اور میرے اہل بیت عزت و تکریم کے زیادہ حق دار ہیں۔''
(مسند الإمام أحمد : ٤/١٠٧، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (٦٩٧٦) نے ''صحیح'' کہا ہے، نیز امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ''صحیح'' کہا ہے۔(السنن الکبریٰ : ٢/١٥٢)
امام حاکم رحمہ اللہ (٣/١٤٧)نے ''امام بخاری و مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح '' اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ''امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر'' قرار دیا ہے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ لَا یُبْغِضُنَا أَہْلَ الْبَیْتِ أَحَدٌ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللّٰہُ النَّارَ .
''اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ہم اہل بیت سے بغض رکھنے والے کو اللہ ضرور واصل جہنم کرے گا۔''
(صحیح ابن حبان : ٦٩٧٨، المستدرک للحاکم : ٣/١٥٠، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے '' امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح'' قرار دیا ہے۔
خلیفہ اول سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ چہارم سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ، لَقَرَابَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي .
''اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا خیال رکھنا مجھے اپنی عزیز داری سے کہیں زیادہ محبوب ہے۔''
(صحیح البخاري : ٣٧١٢)
نیز فرمایا:
اُرْقُبُوا مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي أَہْلِ بَیْتِہٖ .
''اہل بیت کے حوالے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کا خیال رکھیں۔''
(صحیح البخاري : ٣٧١٣)
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
صَلّٰی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ العَصْرَ، ثُمَّ خَرَجَ یَمْشِي، فَرَأَی الحَسَنَ یَلْعَبُ مَعَ الصِّبْیَانِ، فَحَمَلَہ، عَلٰی عَاتِقِہٖ، وَقَالَ : بِأَبِی، شَبِیہٌ بِالنَّبِيِّ لاَ شَبِیہٌ بِعَلِیٍّ وَعَلِيٌّ یَضْحَکُ .
''سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عصر کی نماز ادا کی اور پیدل چل دیے، (رستے میں) سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا، تو انہیں کندھے پر اٹھا لیا اور فرمایا: میرا باپ قربان! یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہے، نہ کہ علی کے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہنس دیے۔'' (صحیح البخاري : ٣٥٤٢)
سیدہ عائشہr بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھ قسم کے لوگوں پر میں لعنت بھیجتا ہوں، اللہ بھی ان پر لعنت کرے!، یاد رہے کہ ہر نبی مستجاب الدعوات ہوتا ہے۔
ان میں سے ایک یہ ہے:
وَالمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اللّٰہُ .
''میرے اہل بیت کے حقوق کا استحصال کرنے والا۔''
(سنن الترمذي : ٢١٥٤، وسندہ، حسنٌ)
علامہ امیر صنعانی رحمہ اللہ (١١٨٢ھ) لکھتے ہیں:
مِنْ أَبْدَانِہِمْ وَتَرْکِ تَعْظِیمِہِمْ فَإِنَّ لَہُمْ عَلَی اْلأُمَّۃِ حَقًّا لَا یَجْہَلُہ، إِلَّا مَنْ غَطَّی الشَّقَاءُ عَلٰی نُورِ بَصِیرَتِہٖ وَکَذٰلِکَ الْمُسْتَحِلُّ مَنْ غَیْرِ الْعَتِیرَۃِ آثِمٌ إِلَّا أَنَّہُمْ لَمَّا کَانَ حَقُّہُمْ آکَدَ وَقَدْ عَلِمَ اللّٰہُ سُبْحَانَہ، أَنَّہ، یَکْثُرُ لَہُمُ الْأَعْدَاءُ وَالحُسَّدُ فَخَصَّہُمْ .
''یعنی اہل بیت کو جسمانی تکلیف سے دو چار کرنے والا اور ان کی عزت و توقیر میں کوتاہی برتنے والا (لعنتی ہے۔) کیوں کہ اہل بیت کا امت پر باقاعدہ حق ہے، جس سے وہی نا آشنا رہ سکتا ہے، جس کی بصیرت پر شقاوت و بدبختی چھا جائے۔ ویسے تو اہل بیت کے علاوہ دوسروں کی بے حرمتی کرنے والا بھی قابل مذمت ہے لیکن چوں کہ اہل بیت کے حقوق زیادہ ہیں اور اللہ کے علم میں تھا کہ ان کے دشمن اور حاسدین زیادہ ہوں گے، اس لیے انہیں بہ طور خاص ذکر کر دیا۔'' (التنویر شرح الجامع الصغیر : ٦/٣٧٢)
سیدنا معاویہ بن ابو سفیان بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمُصُّ لِسَانَہ، أَوْ شَفَتَہ،، یَعْنِي الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِ، وَإِنَّہ، لَنْ یُعَذَّبَ لِسَانٌ أَوْ شَفَتَانِ مَصَّہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
''میں عینی شاہد ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی زبان یا ہونٹ چوس رہے تھے اور جس زبان یا ہونٹوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چوس لیں، انہیں کبھی عذاب نہیں چھوئے گا۔''
(مسند الإمام أحمد : ٤/٩٣، وسندہ، صحیحٌ)
سیدہ ام فضل لبابہ بنت حارثr بیان کرتی ہیں:
أَتَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ : إِنِّي رَأَیْتُ فِي مَنَامِي، فِي بَیْتِي، أَوْ حُجْرَتِي عُضْوًا مِنْ أَعْضَائِکَ، قَالَ : تَلِدُ فَاطِمَۃُ إِنْ شَاءَ اللّٰہُ غُلَامًا، فَتَکْفُلِینَہُ، فَوَلَدَتْ فَاطِمَۃُ حَسَنًا، فَدَفَعَتْہُ إِلَیْہَا، فَأَرْضَعَتْہُ بِلَبَنِ قُثَمَ، وَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا أَزُورُہ،، فَأَخَذَہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعَہ، عَلٰی صَدْرِہٖ، فَبَالَ عَلٰی صَدْرِہٖ، فَأَصَابَ الْبَوْلُ إِزَارَہ،، فَزَخَخْتُ بِیَدِي عَلٰی کَتِفَیْہِ، فَقَالَ : أَوْجَعْتِ ابْنِي أَصْلَحَکِ اللّٰہُ أَوْ قَالَ : رَحِمَکِ اللّٰہُ، فَقُلْتُ : أَعْطِنِي إِزَارَکَ أَغْسِلْہُ، فَقَالَ : إِنَّمَا یُغْسَلُ بَوْلُ الْجَارِیَۃِ، وَیُصَبُّ عَلٰی بَوْلِ الْغُلَامِ .
''میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میں نے عالم رؤیت میں اپنے گھر یا کمرے میں آپ کے جسم کا ایک عضو دیکھا ہے، (تعبیر فرما دیں!) فرمایا: فاطمہ بچہ جنم دیں گی اور آپ اس کی دایہ گیری کریں گی۔ سیدہ فاطمہr نے حسن کو جنم دیا، اسے میرے حوالے کردیا گیا۔ میں نے اسے بڑی فیاضی سے دودھ پلایا۔ ایک روز میں حسن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملانے کے لیے لے آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نواسہ سینے سے لگا لیا۔ اس نے آپ کے سینہ پر پیشاب کر دیا اور پیشاب کی نمی آپ کے ازار بند تک پہنچ گئی۔ میں نے اس کی گردن پر ہلکی سی تھپکی دی، تو فرمانے لگے: اللہ آپ کو ہدایت دے یا فرمایا: اللہ آپ پہ رحم کرے! آپ نے میرے لخت جگر کو تکلیف پہنچائی ہے۔ میں نے عرض کیا: اپنا ازار دیجئے، دھو دیتی ہوں، فرمایا: شیر خواربچی پیشاب کرے، تو دھونا ہو گا اور بچہ کرے، تو چھینٹے ہی کافی ہیں۔''
(مسند الإمام أحمد : ٦/٣٤٠، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (١٩٦ھ) فرماتے ہیں:
لَوْ کُنْتُ فِیمَنْ قَتَلَ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِيٍّ، ثُمَّ غُفِرَ لِي، ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّۃَ، اسْتَحْیَیْتُ أَنْ أَمُرَّ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَیَنْظُرَ فِي وَجْہِي .
''اگر (بالفرض والمحال) میں قاتلینِ حسین میں شریک ہوں اور میرا یہ جرم معاف کر دیا جائے، جنت میں بھی چلا جاؤں، تب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کرنے سے شرم محسوس کروں گا۔''
(المعجم الکبیر للطبراني : ٣/٢١٢، ح : ٢٩٢٨، وسندہ، حسنٌ)
شیخ الاسلام، امام، عمران بن ملحان ابو رجا عطاردی رحمہ اللہ (١٠٥ھ) فرماتے ہیں:
لَا تَسُبُّوا عَلِیًّا وَلَا أَہْلَ ہٰذَا الْبَیْتِ، فَإِنَّ جَارًا لَنَا مِنْ بَلْہُجَیْمِ قَالَ : أَلَمْ تَرَوْا إِلٰی ہٰذَا الْفَاسِقِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِيٍّ قَتَلَہُ اللّٰہُ، فَرَمَاہُ اللّٰہُ بِکَوْکَبَیْنِ فِي عَیْنَیْہِ، فَطَمَسَ اللّٰہُ بَصَرَہ، .
''سیدنا علی اور اہل بیتy کو برا مت کہیں، کیوں کہ ہمارے پڑوس میں قبیلہ بلھجیم کا ایک شخص رہتا تھا، اس نے کہا : کیا تم اس فاسق (ابن فاسق) حسین بن علی کو نہیں دیکھتے؟ اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کر ڈالا۔ یہ کہنا تھا کہ اللہ نے اس کی آنکھوں میں دو کیل مارے اور وہ ہمیشہ کے لیے آنکھوں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔''
(فضائل الصَّحابۃ لأحمد : ٩٧٢، المعجم الکبیر للطَّبراني : ٢٨٣٠، وسندہ، صحیحٌ)
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حُبَّ أَہْلَ بَیْتِ نَبِیِّکَ، وَلَا تَکُنْ رَّافِضِیًّا، وَاعْمَلْ بِالْقُرْآنِ، وَلَا تَکُنْ حَرُورِیًّا، وَاعْلَمْ أَنَّ مَا أَتَاکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ، وَمَا أَتَاکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ، وَلَا تَکُنْ قَدَرِیًّا، وَأَطِعِ الْإِمَامَ، وَإِنْ کَانَ عَبْدًا حَبَشِیًّا .
''اہل ِبیت ِرسول سے محبت کیجئے، رافضی نہ ہو جائیے۔ قرآن پر عمل کیجئے، خارجی نہ ہوئیے۔ یاد رکھئے کہ آپ کی ہر نیکی اللہ کی طرف سے ہے اور ہر برائی آپ کی طرف سے ہے۔ منکر تقدیر نہ ہوئیے اور حاکم وقت کی اطاعت کیجئے، بھلے وہ حبشی ہی کیوں نہ ہو!'' (السنّۃ للخَلاّل، ٨ : وسندہ، حسنٌ)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨ھ) لکھتے ہیں:
وَیَتَبَرَّؤُونَ مِنْ طَرِیقَۃِ الرَّوَافِضِ الَّذِینَ یُبْغِضُونَ الصَّحَابَۃَ وَیَسُبُّونَہُمْ، وَطَرِیقَۃِ النَّوَاصِبِ الَّذِینَ یُؤْذُونَ أَہْلَ الْبَیْتِ بِقَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ .
''اہل سنت (اہل حدیث) روافض سے بری ہیں، جو صحابہ کرام سے بغض رکھتے ہیں اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں، ناصبیوں سے بھی اعلان براء ت ہے، جو بزبان قال و حال اہل بیت کو تکلیف دیتے ہیں۔''
(العقیدۃ الواسطیۃ، ص ١٩٢)
نیز فرماتے ہیں:
وَأَمَّا أَہْلُ السُّنَّۃِ فَیَتَوَلَّوْنَ جَمِیعَ الْمُؤْمِنِینَ، وَیَتَکَلَّمُونَ بِعِلْمٍ وَعَدْلٍ، لَیْسُوا مِنْ أَہْلِ الْجَہْلِ وَلَا مِنْ أَہْلِ الْأَہْوَائِ، وَیَتَبَرّؤُونَ مِنْ طَرِیقَۃِ الرَّوَافِضِ وَالنَّوَاصِبِ جَمِیعًا، وَیَتَوَلَّوْنَ السَّابِقِینَ وَالْأَوَّلِینَ کُلَّہُمْ، وَیَعْرِفُونَ قَدْرَ الصَّحَابَۃِ وَفَضْلَہُمْ وَمَنَاقِبَہُمْ، وَیَرْعَوْنَ حُقُوقَ أَہْلِ الْبَیْتِ الَّتِي شَرَعَہَا اللّٰہُ لَہُمْ .
''اہل سنت تمام مؤمنوں سے محبت کرتے ہیں ۔ علم و انصاف پر مبنی کلام کرتے ہیں، کسی جہالت اور نفس پرستی کا اظہار نہیںکرتے۔ روافض اور نواصب سے اعلان ِ براء ت کرتے ہیں، تمام سابقین واولین سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں، صحابہ کرام کی فضیلت و مراتب کی مکمل معرفت رکھتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے اہل بیت کے حقوق مقرر کیے ہیں کا خیال رکھتے ہیں۔'' (منھاج السنۃ النبویۃ : ٢/٧١)
امام ابو بکر محمد بن حسین آجری رحمہ اللہ (٣٦٠ھ) ''حدیث ثقلین'' کے تحت لکھتے ہیں:
''یہ دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کا خطبہ منی میں ارشاد فرمایا اور امت کو کتاب وسنت مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا۔حج سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر حکم دیا کہ کتاب اللہ کو تھامے رکھیں، اہل بیت سے محبت و مودت قائم رکھیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے عقیدت رکھیں، لوگوں کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضلیت اور مقام و مرتبہ سے روشناس کرایا اورعقل و بینش والے مسلمانوں کی راہنمائی کی کہ کتاب وسنت اور خلفائے راشدین مہدیین کے طریقے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں۔ ان سے محبت اور اہل بیت سے عقیدت کا دم بھریں، نیز ان کی عمدہ خصلتوں کی خوشہ چینی اور پیروی کریں۔ ایسا شخص صراط مستقیم پر گامزن ہے۔ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پرغور کیجئے، بیان کرتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا پر تاثیر وعظ کیا کہ ہماری آنکھیں چھم چھم بہنے لگی، دلوں پر رقت طاری ہو گئی۔ ہم عرض گزار ہوئے : اللہ کے رسول! یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے، کیا وصیت فرماتے ہیں؟ فرمایا: میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ امیر کی طاعت گزاری کا کہتا ہوں ، اگرچہ وہ امیر حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ عنقریب میری وفات کے بعد شدید اختلافات کا منہ دیکھنا پڑے گا، ایسے حالات میںمیری سنت کو تھامے رکھنا اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنا ۔دین میں نئے کام جاری کرنے سے بچیں، دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت و گمراہی ہے۔
خلفائے راشدین ابو بکر ، عمر، عثمان اور علیy ہیں۔ جو ان سے محبت و عقیدت رکھے، ان کی خلافت پر راضی ہو اور ان کی اقتدا کرے، وہ کتاب و سنت کی پیروی کر رہا ہے۔ جو پاک باز اہل بیت سے محبت ومودت کرے، ان کے خصائل حمیدہ کو اپنا شعار و دثار بنا لے اور کما حقہ ادب بجا لائے، ایسا شخص واضح دلیل پر قائم ہے، جادہئ مستقیم کا راہی ہے اور نجات کی امید رکھے۔
اگر کوئی کہے کہ آپ ایسے شخص کے بارے میں کیا فتویٰ صادر فرمائیں گے، جو کہتا ہو کہ میں ابو بکر ، عمر اور عثمان سے محبت کرتا ہوں اور علی اور حسنین کریمین سے محبت نہیں رکھتا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت تسلیم نہیں کرتا؟ آیا اسے ابو بکر ، عمر اور عثمان کی محبت کوئی فائدہ دے گی؟
ایسے شخص کے بارے میں کہا جائے گا : معاذ اللہ! یہ منافق کی خصلت ہے، نہ کہ مومن کی۔ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ''آپ سے مؤمن ہی محبت کرے گا اور منافق ہی بغض رکھے گا۔'' (صحیح مسلم : ٧٨) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس نے علی کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی'' (زوائد فضائل الصحابۃ للقطیعی : ١٠٧٨، وسندہ، حسنٌ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلافت، جنت اور شہادت کی خبر دی ہے، آپ اللہ و رسول کے محب اور اللہ و رسول آپ کے محب ہیں، وہ تمام فضائل جن کا ہم ذکر کر چکے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنین کریمینw سے محبت کرنا وغیرہ۔ جو ان نفوس قدسیہ سے محبت و عقیدت نہیں رکھتا، وہ دنیا و آخرت میں لعنتی ہے ، ایسے بد بخت سے ابو بکر، عمر اور عثمان بری ہیں۔
اسی طرح جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت عظام سے محبت کا دم بھرے اور کہے کہ میں ابو بکر، عمر اور عثمان کی خلافت کو نہیں مانتا، نہ ہی ان سے محبت کرتا ہوں، ان سے براء ت کا اعلان کرے اور ان پر طعن و تشنیع کے نشتر چلائے، ایسے شخص کے متعلق ہم اللہ کو گواہ بنا کر بر ملا کہتے ہیںکہ سیدنا علی اور حسنین کریمینy بھی اس سے بری ہو ں گے ۔ اسے ان کی محبت کچھ فائدہ نہ دے گی، تا آنکہ ابو بکر، عمر اور عثمانy سے بھی محبت کرنے لگ جائے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان پاک باز ہستیوں کی تعریف کی ہے، فضائل بیان کیے ہیں اور ہر اس شخص سے اعلان براء ت کیا ہے، جو ان سے محبت نہیںکرتا۔ اللہ تعالیٰ آپ او را ۤپ کی آل سے راضی ہو۔
یہ عقلمند مسلمانوں کا راستہ ہے۔ ہم ایسے شخص سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، جو اہل بیت پر تہمت لگائے کہ انہوں نے ابو بکر، عمر اور عثمانy پر طعن کیا ہے۔ اہل بیت پر جھوٹ تھونپے گئے ہیں اور انہیں ایسی ایسی باتوں سے متہم کیا گیا ہے، جن سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بچائے رکھا۔ کیا ابو بکر، عمر اور عثمانy کے اکثر فضائل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایات میں نہیں ملتے؟''
(الشریعۃ : ٥/٢٢٢١)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (٧٤٨ھ) لکھتے ہیں:
إِنَّ تَرْکَ التَّرَحُّمِ سُکُوْتٌ، وَالسَّاکتُ لاَ یُنْسَبُ إِلَیْہِ قَوْلٌ، وَلٰکِنْ مَنْ سَکَتَ عَنْ تَرحُّمِ مِثْلِ الشَّہِیْدِ أَمِیْرِ المُؤْمِنِیْنَ عُثْمَانَ، فَإِنَّ فِیْہِ شَیْأاً مِنْ تَشَیُّعٍ، فَمَنْ نَطَقَ فِیْہِ بِغَضٍّ وَتَنَقُّصٍ وَہُوَ شِیْعِيٌّ جَلْدٌ یُؤَدَّبُ، وَإِنْ تَرَقّٰی إِلَی الشَّیْخَیْنِ بِذَمٍّ، فَہُوَ رَافِضِيٌّ خَبِیْثٌ، وَکَذَا مَنْ تَعرَّضَ لِلإِمَامِ عَلِيٍّ بِذَمٍّ، فَہُوَ نَاصِبِيٌّ یُعَزَّرُ، فَإِنْ کَفَّرَہ،، فَہُوَ خَارِجِيٌّ مَارِقٌ، بَلْ سَبِیْلُنَا أَنْ نَستغفِرَ لِلْکُلِّ، وَنُحِبُّہُم، وَنَکَفَّ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَہُم .
''صحابہ کرام کے حق میں دعائے رحمت نہ کرنا سکوت ہے، اور ساکت کی طرف کسی بات کی نسبت نہیںکی جاسکتی، لیکن جو جام شہادت نوش فرمانے والے امیر المؤمنین سیدنا عثمان کے حق میں دعائے رحمت سے سکوت اختیار کرے، ایسے شخص سے شیعیت کی بدبو آتی ہے۔ جو آپ کے بارے میں زبان درازی کرے اور شان میں تنقیص کرے، وہ شیعہ ہے اور تادیبی کوڑوں کا مستحق ہے۔ شیخین (ابو بکر و عمرw) پر طعن کی جرأت و جسارت کرنے والا خبیث شیعہ ہے۔ اسی طرح جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں نازیبا حرکت کرے، وہ ناصبی ہے اور تعزیر کا مستحق ہے۔ آپ کی تکفیر کرنے والا خارجی ہے۔ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ ہم ان سب کے لیے استغفار کرتے ہیں، ان سے محبت و مودت رکھتے ہیں اور مشاجرات صحابہ میں زبان بندی کرتے ہیں۔'' (سیر أعلام النبلاء : ٧/٣٧٠)
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨ھ) لکھتے ہیں:
وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، مَا زَالَا مُکْرِمَیْنِ لَہ، غَایَۃَ الْإِکْرَامِ بِکُلِّ طَرِیقٍ، مُقَدِّمَیْنِ لَہ،، بَلْ وَلِسَائِرِ بَنِي ہَاشِمٍ عَلٰی غَیْرِہِمْ فِي الْعَطَائِ، مُقَدِّمَیْنِ لَہ، فِي الْمَرْتَبَۃِ وَالْحُرْمَۃِ وَالْمَحَبَّۃِ وَالْمُوَالَاۃِ وَالثَّنَاءِ وَالتَّعْظِیمِ، کَمَا یَفْعَلَانِ بِنُظَرَائِہٖ، وَیُفَضِّلَانِہٖ بِمَا فَضَّلَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہٖ عَلٰی مَنْ لَیْسَ مِثْلَہ،، وَلَمْ یُعْرَفْ عَنْہُمْ کَلِمَۃُ سُوءٍ فِي عَلِيٍّ قَطُّ، بَلْ وَلَا فِي أَحَدٍ مِنْ بَنِي ہَاشِمٍ .
''ابو بکر و عمر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ہر اعتبار سے کماحقہ اکرام کرتے تھے، آپ تو کجا، دیگر بنو ہاشم کو بھی نوازش میں پیش پیش رکھتے تھے۔ مقام و مرتبہ، عزت و توقیر، محبت اور مودت اور تعظیم میں مقدم کرتے تھے۔ اسی طرح آپ کے ہم نواؤں سے بھی یہی سلوک تھا، انہیں اللہ کی دی ہوئی فضلیت کے مطابق ان پر
فضلیت دیتے تھے، جنہیں وہ فضلیت نصیب نہ ہوئی ہو۔ نیز ابو بکر و عمرw اور دیگر صحابہ کرام کی طرف سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ بل کہ کسی ہاشمی کے بارے میں نازیبا کلمہ کہنا قطعا ثابت نہیں۔'' (منھاج السنۃ النبویۃ : ٦/١٧٨)
مؤرخ اسلام مفسر قرآن حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٧٤ھ) لکھتے ہیں:
وَلَا تُنْکَرُ الْوَصَاۃُ بِأَہْلِ الْبَیْتِ، وَالْأَمْرُ بِالْإِحْسَانِ إِلَیْہِمْ، وَاحْتِرَامِہِمْ وَإِکْرَامِہِمْ، فَإِنَّہُمْ مِنْ ذُرِّیَّۃٍ طَاہِرَۃٍ، مِنْ أَشْرَفِ بَیْتٍ وُجِدَ عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضِ، فَخْرًا وَحَسَبًا وَنَسَبًا، وَلَا سِیَّمَا إِذَا کَانُوا مُتَّبِعِینَ لِلسُّنَّۃِ النَّبَوِیَّۃِ الصَّحِیحَۃِ الْوَاضِحَۃِ الْجَلِیَّۃِ، کَمَا کَانَ عَلَیْہِ سَلَفُہُمْ، کَالْعَبَّاسِ وَبَنِیہِ، وَعَلِيٍّ وَأَہْلِ بَیْتِہٖ وَذُرِّیَّتِہٖ، رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُمْ أَجْمَعِینَ .
''اہل بیت کے بارے میں وصایا نبویہ اور ان سے حسن سلوک، رواداری اور عزت و اکرام کا انکار نہیںکیا جاسکتا۔ کیوں کہ یہ پاکیزہ ہستیاں ہیں ۔ فخر اور حسب و نسب کے اعتبار سے کرہئ ارض پر سب سے باعزت گھرانا ہے، خاص کر جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث کی دل و جان سے پیروی کرنے والے ہوں ، جیسا کہ پہلے سید زادے ہوا کرتے تھے۔ مثلاً سیدنا عباس، آل عباس، سیدنا علی اور ان کے آل بیت''(تفسیر ابن کثیر : ٧/٢٠١، ت سلامۃ)
ولایت علی رضی اللہ عنہ اور اہل سنت:
اہل سنت کا اتفاقی عقیدہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ چوتھے خلیفہ راشد اور امیر المؤمنین ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨ھ) لکھتے ہیں:
وَمَنْ طَعَنَ فِي خِلاَفَۃِ أَحَدٍ مِنْ ہٰؤُلائِ؛ فَہُوَ أَضَلُّ مِنْ حِمَارِ أَہْلِہٖ .
''جو خلفائے راشدین میں کسی ایک کی خلافت پر طعن کرے، وہ گدھے سے زیادہ بے وقوف ہے۔''
(العقیدۃ الواسطیۃ، ص ١٨٤)
نیز فرماتے ہیں:
أَمَّا عَلِيٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَإِنَّ أَہْلَ السُّنَّۃِ یُحِبُّونَہ، وَیَتَوَلَّوْنَہ،، وَیَشْہَدُونَ بِأَنَّہ، مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ وَالْأَئِمَّۃِ الْمَہْدِیِّینَ .
''جہاں تک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی کا تعلق ہے، تو اہل سنت آپ سے محبت و دوستی رکھتے ہیں اور دل و جان سے گواہی دیتے ہیں کہ آپ خلفائے راشدین اور ہدایت یافتہ ائمہ میں سے ہیں۔''
(منھاج السنۃ النبویۃ : ٦/١٨)
اہل سنت والجماعت اعتدال پسند ہیں، غلو و تقصیر سے کوسوں دور ہیں۔ افراط و تفریط سے مبرا ہیں، ہر ایک کو اس کا پورا پورا حق دیتے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت عظام سے محبت و مودت عین ایمان سمجھتے ہیں۔ ان کی شان میں تنقیص کے تصور سے بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہیں، آپ کو چوتھا خلیفہ برحق تسلیم کرتے ہیں، آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ فاطمہr کے تقدس کا خیال رکھتے ہیں، حسنین کریمینw کی منقبت و فضیلت کے قائل ہیں۔ ان کی شہادت باسعادت کو برحق تسلیم کرتے ہیں۔ جو ان سے محبت رکھے اس سے محبت ، جو ان سے عداوت رکھے، اس سے عداوت رکھتے ہیں اور اس کی شقاوت و بدبختی سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں۔
تمام صحابہ کرام کو مدار اسلام سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان کی امانت، دیانت، عدالت، صداقت اور للہیت مسلم ہے۔ تمام صحابہ کرامy سے محبت جزو ایمان سمجھتے ہیں، ہر ایک کو اس کا مقام و مرتبہ دیتے ہیں۔ کسی کے حق میں کمی نہیںلاتے۔ انہیں ہدف تنقید و ملامت بنانابرے لوگوں کا شیوہ ہے۔ ان کی تنقیص در حقیقت رسالت مآب کی تنقیص ہے۔
صحابہ کے بارے میں ائمہ محدثین کے عقیدہ اور منہج سے سرِ ُمو منحرف نہیں۔ صحابہ کے مابین اختلافات و مشاجرات میں اہل سنت کے عقیدہ پر ہیں اور ان کے بارے میں اپنی زبانیں بند رکھتے ہیں، طرف داری سے گریزاں رہتے ہیں۔ ان کے حق میں معافی کے طالب گار رہتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ تمام صحابہ پر اللہ تعالیٰ کی رضوان ہے اور قطعی جنتی ہیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے گئے، تو ان سے راضی تھے۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے ان کے مشاجرات کے بارے میں اپنے نبی کو آگاہ فرما دیا تھا۔
ہمارے نزدیک صحابیت گراں قدر شرف ہے۔ صحابی وہ ہے کہ جس نے متاع ایمان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رخِ زیبا کا دیدار کیا ہو یا آپ سے ملاقات کی ہو اور حالت ایمان میں وفات پائی ہو۔
تحریر (اقتباس) : غلام مصطفی ظہیر امن پوری