وہ اہم سوالات متلاشیان حق نوجوانوں کوراہ حق سے ہم کنارکرنے میں بڑاعظیم کردارہے!
70 UNANSWERED QUESTIONS to Shia, Eye-opening questions to Shia. May Allah guide the Shia through these questions. Amin. [.........]
ALSO seem more questions at the end of this page.....
شيعہ حضرات كا عقيده هے كہ حضرت على رضى الله عنہ امام معصوم هيں اور هم يہ بھى ديكھتے هيں كہ انہوں نے اپنى صاجزادى ام كلثوم كى شادى عمر بن خطاب سے كى جو كہ حسن و حسين رضى الله عنهم كى حقيقى بہن تھيں ، اور اس بات كا ذکر شيعہ حضرات كے كبار علماء نے اپنى كتب ميں كيا هے (مثلا كلينى ، طوسى اور ديگر كئى حوالہ جات كے لئے ديكھئے كتاب هذا ، صفحہ نمبر : 14، حاشيه نمبر : 1) ، شیعہ اپنے اس اعتراف كى بنياد پر دو صورتوں ميں سے كسى ايك صورت كو قبول كرنے پر مجبور هيں۔
سوال 1 : سيدنا على رضى الله عنہ غير معصوم هيں كيونكہ انھوں نے اپنى بيٹى كى شادى كافر سے كى هے! اور يہ چيز شيعہ مذهب كے عقائد اساسى كے منافى هے ۔ بلكہ اس سے يہ بھى پتہ چلا كہ كوئى امام بھى معصوم نهيں كيونكہ وه بھى تو انهىں كى اولاد ميں سے هيں۔
سوال 2: سيدنا على رضى الله عنہ نے برضا ورغبت سيدنا عمر رضى الله عنہ كو اپنا داماد بنايا هے ، لهٰذا يہ ان كے مسلمان هونے كى واضح دليل هے ۔
سوال3:۔۔ شیعہ حضرات ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو کافر گردانتے ہیں، ہمارے لیے تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ جو کہ شیعوں کے نزدیک امام معصوم ہیں، نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کو بسر وچشم قبول کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے دونوں کی بیعت بھی کی ہے۔
اس سے یہ لازم آتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ غیر معصوم تھے کیونکہ انہوں نے ، بقول شیعہ، ظالم دھوکے باز اور کافروں کی بیعت کی اور ان دونوں کے منصب خلافت کا بذات خود اقرار بھی کیا؟۔ یہ چیز علی رضی اللہ عنہ کی عصمت کو نیست و نابود کرنے والی ہے اور ظالم کو ظلم کے لیے شہ دینے والی بھی ہے جب کہ ایسی حرکت کسی صورت میں بھی معصوم سے سرزد نہیں ہوسکتی۔ علی رضی اللہ عنہ کا یہ موقف مبنی برصواب ہے کیونکہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں مومن صادق ہیں، دونوں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور دونوں ہی عدل و انصاف کا پیکر ہیں مذکورہ جواب سے پتا چلا کہ شیعہ حضرات، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی تکفیر اور ان پر لعن و طعن اور گالی گلوچ کرنے میں اور ان دونوں کی خلافت سے عدم رضامندی کے اظہار میں اپنے امام کے مخالف ہیں۔ یہاں ہم مذکورہ قضیہ میں حیرت و استعجاب کا شکار ہوجاتے ہیں کیا ہم ابولالحسن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی راہ اختیار کریں یا ان گنہگار و بدکردار شیعوں کا طریقہ اپنائیں؟
سوال4:۔۔ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد کئی عورتوں سے شادی کی ہے اور ان سے کئی بیٹے اور بیٹیاں بھی پیدا ہوئے جن میں سے درج ذیل اسماء قابل ذکر ہیں:
1۔ عباس بن علی بن ابی طالب
2- عبداللہ بن علی بن ابی طالب
3۔ جعفر بن علی بن ابی طالب
4- عثمان بن علی بن ابی طالب
ان لوگوں کی والدہ کا نام اُم البنین بنت حزام بن دارم ہے۔{ کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمہ}
5- عبیداللہ بن علی بن ابی طالب
6۔ ابوبکر بن علی بن ابی طالب
ان دونوں کی والدہ کا نام لیلی بنت مسعود الدارمیۃ تھا۔ {نفس المصدر}
علی رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کے ناموں میں سے یہ بھی ہیں:
7- یحیی بن علی ابی طالب
8- محمد اصغر بن علی بن ابی طالب
9- عون بن علی بن ابی طالب
یہ تینوں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے ہیں۔{نفس المصدر۔}
آپ رضی اللہ کی اولاد میں مندرجہ ذیل نام بھی ہیں:
10- رقیہ بنت علی بن ابی طالب۔
11- عمر بن علی بن ابی طالب، جو 35 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ان دونوں کی والدہ کا نام ام حبیب بنت ربیعہ تھا۔{کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، لعلی الاربلی}۔
12- ام الحسن بنت علی بن ابی طالب
13- رملہ الکبری
ان دونوں کی والدہ کا نام ام مسعود بنت عروہ بن مسعودالثقفی تھا۔{نفس المصدر}۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی باپ اپنے جگر گوشہ کا نام اپنے دشمن کے نام پر رکھ سکتا ہے؟ ہمیں تعجب ہے کہ ایسا باپ جو غیرت و حمیت کا پیکر تھا۔ اپنے بیٹوں کو کیونکر ان مذکورہ ناموں سے موسوم کرسکتا ہے؟ ہم شیعہ حضرات سے پوچھتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں کو ان لوگوں کے ناموں سے کس طرح موسوم کرسکتے ہیں؟ جن کو تم علی رضی اللہ عنہ کا دشمن گردانتے ہو؟
کیا یہ بات باور کی جاسکتی ہے کہ ایک عقل مند انسان اپنے احباء و اقرباء کے نام اپنے دشمنوں کے ناموں پر رکھ سکتا ہے تا کہ ان کا نام زندہ جاوید رہے؟
یہ بات بھی معلوم ہے کہ علی رضی اللہ عنہ قریش خاندان کے سب سے پہلے فرد ہیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر، عمر اور عثمان رکھے ہیں؟ اگر انہیں ان ناموں سے بغض ہوتا تو وہ اپنے بیٹوں کو ان ناموں سے کیوں موسوم کرتے؟
نہج البلاغہ جو شیعوں کے نزدیک معتبر کتاب تسلیم کی جاتی ہے، کا مولف بیان کرتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے خلافت سے استعفی دے دیا اور استعفی دیتے وقت آپ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ میری جان چھوڑ دو!اور میرے علاوہ کسی اور کو اس منصب کے لیے تلاش کرو۔{ملاحظہ کریں نہج البلاغہ}۔
یہ فرمان مذہب شیعہ کے بطلان پر دلالت کرتا ہے جس کے شیعہ حضرات قائل ہیں، یہ بات کیسے ممکن ہے کہ علی رضی اللہ عنہ خلافت سےاستعفی دیکر دست بردار ہوں؟ جبکہ ان کو امام وقت کے منصب پر فائز کرنا اور خلیفہ وقت کا عہدہ دینا۔ بقول شیعہ اللہ تعالی کی طرف سے فرض عین لازمی حکم ہے اور وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اس کا مطالبہ بھی کیا کرتے تھے جیسا کہ تمہارا شیعہ حضرات کا خیال ہے۔
سوال 5:۔۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ جگر گوشہ رسول فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا کی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بے عزتی اور بے حرمتی کی گئی حتی کہ زدوکوب کے دوران میں ان کی پسلی توڑ دی گئی ان کے گھر کو جلانے کی کوشش کی گئی اور ان کے جنین کو ساقط کر دیا گیا جس کا انہوں نے محسن نام بتایا ہے،
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ کے ساتھ اس طرح کا حادثہ پیش آیا تو علی رضی اللہ عنہ کہاں بیٹھے رہے۔ انہوں نے اپنی بیوی کی بے حرمتی کا بدلہ تک نہیں لیا جبکہ علی رضی اللہ عنہ شجاعت و بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔ کمال حیرت ہے کہ اتنا سانحہ ہوجانے کے باوجود ان کی غیرت و حمیت کو جوش تک نہیں آیا؟
تاریخ شاہد ہے کہ کتنے کبار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اہل بیت نبی علہیم السلام سے رشتہ مصاہرت جوڑا۔ اس خاندان عالی شان میں شادی بیاہ کیے اور اپنی بیٹیوں کو بھی اس خاندان میں دیا۔ خصوصا شیخین نے اس خاندان میں شادی بیاہ کرکے آل بیت سے اپنے تعلقات کو مستحکم رکھا۔ ان حقائق کو مورخین و اہل سیر نے باتفاق بیان کیا ہے۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ اور حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہ سے شادی کی اور یکے بعد دیگر اپنی دو بیٹیوں رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا رشتہ تیسرے خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیا۔ دنیا آپ رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کے لقب سے پکارتی ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب سے شادی کی۔ ام قاسم بنت الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب کی بیٹی مروان بن ابان بن عثمان کی زوجیت میں تھیں۔ زید بن عمرو بن عثمان کے عقد میں سکینہ بنت حسین تھین۔
ہم صحابہ کرام میں سے صرف خلفائے ثلاثہ کے ذکر پر اکتفا کریں گے ورنہ خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے علاوہ اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جن کا اہل بیت سے سسرالی تعلق تھا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل بیت اور صحابہ کرام کا آپس میں رشتہ و ناطہ تھا۔ {دامادی و رشتوں کی تفصیل الدرالمنثور من اھل البیت میں دیکھیں}۔
شیعہ حضرات کے معتمد علیہ مصادر و مراجع میں منقول ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کا نام ، جو آپ کی بیوی لیلی بنت مسعود کے بطن سے تھا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام پر رکھا تھا۔
علی رضی اللہ عنہ بنی ہاشم میں وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نے اپنے بیٹے کو اس نام سے موسوم کیا ہے۔ {مقاتل الطالبین لابی الفرج الاصبھانی الشیعی}
حسن بن علی رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹوں کے یہ نام رکھے تھے:
1-ابوبکر
2-عبدالرحمن
3-طلحہ
4۔ عبیداللہ
{التنبیہ والاشراف للمسعودی الشیعی}
علاوہ ازیں حسن بن حسن بن علی نے اپنے بیٹوں کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں سے موسوم کیا تھا۔ {مقاتل الطالبین لابی الفرج الاصبھانی الشیعی}
موسی کاظم نے اپنی صاحبزادی کا نام عائشہ رکھا تھا۔ اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ لوگوں نے ازراہ محبت اپنی کنیت ابوبکر رکھی تھی اگرچہ انکا نام کچھ اور تھا، مثال کے طور پر زین العابدین بن علی {کشف الغمۃ لاربلی} اور علی بن موسی الرضا۔ {مقاتل الطالبین لابی الفرج الاصبھانی الشیعی} نے اپنی اپنی کنیت کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام سے موسوم کررکھا تھا۔
اب ہم ان لوگوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کو عمر رضی اللہ عنہ کے نام سے موسوم کر کے پکارا تھا۔ ان میں بھی سر فہرست علی رضی اللہ عنہ کا نام نامی آتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کا نام عمر الاکبر رکھا تھا جو ام حبیب بنت ربیعہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے باللف کے مقام پر اپنے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کی معیت میں ان کی شہادت کا حادثہ پیش آیا اور علی رضی اللہ نے اپنے دوسرے بیٹے کا نام عمر الاصغر رکھا تھا۔ ان کی والدہ کا نام الصہباء التغلبیہ رضی اللہ عنہا تھا۔ اللہ تعالی نے انہیں طویل زندگی سے نوازا تھا اور انہوں نے اچھی خاصی زندگی پائی اور اپنے بھائیوں کی شہادت کے بعد ان کے صحیح وارث اور جانشین کہلائے۔{ملاحظہ ہو: الارشاد للمفید، معجم رجال الحدیث للخوئی، و مقاتل الطالین لابی الفرج}
علی بن الحسین بن علی {الارشاد للمفید}، علی زین العابدین موسی کاظم، حسین بن زید بن علی، اسحاق بن الحسن بن علی بن الحسین، حسن بن علی بن الحسن بن الحسن بن الحسن نے اپنے آباو اجداد کی سنت کو زندہ رکھا اور اپنے بیٹوں کو خلیفہ ثانی کے اسم گرامی سے موسوم کر کے ان سے اپنے تعلق کا ثبوت پیش کیا۔
ان کے علاوہ اسلاف کی ایک طویل فہرست ہے لیکن اندیشہ طوالت کے باعث ہم صرف اہل بیت میں سے انہی متقدمین کے ذکر پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔{مزید تفصیل: مقاتل الطالبین، الدرالمنثور}
جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جنہوں نے اپنی بیٹیوں کا نام عائشہ رضی اللہ عنہا کے نام پر رکھ کر آل بیت سے محبت کا ثبوت دیا ہے ان میں موسی کاظم {الارشاد}اور علی بن الھادی کا نام نامی سرفہرست ہے۔{الارشاد المفید}
یہاں پر ہم صرف ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذکر پر اکتفا کریں گے۔
سوال6:۔۔کلینی نے کتاب الکافی میں ذکر کیا ہے کہ ائمہ علیہم السلام جاتنے ہیں کہ وہ کب مریں گے اور جب مریں گے اپنے اختیار سے ہی مریں گے {اصول الکافی للکلینی} مجلسی اپنی کتاب بحارالانوار میں ایک حدیث بیان کرتے ہیں کہ کوئی ایک امام ایسا نہیں جو فوت ہوا ہو بلکہ ان میں سے ہر ایک مقتول ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوا ہے۔
یہاں ہم شیعہ برداری سے پوچھنا چاہیں گے کہ اگر آپ کے امام علم غیب جانتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو اس بات کا پتہ تھا کہ انہیں کھانے کے لیے دستر خوان پر کیا پیش کیا جارہا ہے لہذا اگر کھانے پینے کی چیز تھی تو یہ بھی ان کے سابقہ علم میں تھی کہ یہ کھانا زہریلا ہے جس سے بچنا چاہیے۔ علم کے باوجود ان کا اس کو کھانا اور اس کو کھانے سے پرہیز نہ کرنا تو خودکشی ہے کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر زہریلا کھانے سے اپنے آپ کو لقمہ اجل بنایا ہے گویا وہ خودکشی کرنے والے ہوئے حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے متنبہ فرما دیا ہے کہ خودکشی کرنے والا آگ کا ایندھن ہے۔ کیا شیعہ حضرات اپنے آئمہ کے اس انجام سے راضی ہیں ؟
سوال 7 :۔۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت سے ایسے موقع پر دستبرداری اور مصالحت کا اعلان کیا تھا، جس وقت ان کے پاس جان نثار بھی موجود تھے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ جاری رکھنا بھی ممکن تھا۔ اس کے برخلاف آپ رضی اللہ عنہ کے بھائی حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے خلاف اپنے چند اقارب کے ساتھ جنگ کو ترجیح دی۔ جبکہ باعتبار وقت، آپ رضی اللہ عنہ کے لیے نرمی اور مصلحت اندیشی کا پہلو اختیار کرنا زیادہ مناسب تھا۔
مذکورہ صورت حال اس نتیجے سے خالی نہیں کہ دونوں بھائیوں میں سے ایک حق پر تھے اور دوسرے غلطی پر، یعنی اگر حسن رضی اللہ عنہ کا لڑنے کی صلاحیت کے باوجو اپنے حق سے دستبرداری اختیار کرنا برحق ہے تو حسین رضی اللہ عنہ کا مصالحت کا امکان ہوتے ہوئے اور طاقت و قوت سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے خروج کرنا باطل ہوگا اور اگر حسین رضی اللہ عنہ کا کمزوری اور ناتوانی کے باوجود خروج کرنا برحق تھا تو حسین رضی اللہ عنہ کا قوت کے باوجود مصالحت اختیار کرنا اور اپنے حق خلافت سے دستبردار ہونا باطل ہوگا۔
اس سوال کا شیعہ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ اگر وہ یہ کہیں کہ حسنین رضی اللہ عنہما دونوں ہی حق پر تھے تو انہوں نے اجتماع ضدین کا ارتکاب کیا۔
اور اگر وہ حسن رضی اللہ عنہ کے فعل کے بطلان کی بات کرتے ہیں تو ان کے قول سے حسن رضی اللہ عنہ کی امامت کا بطلان لازم آتا ہے اور ان کی امامت کے باطل ہونے سے ان کے والد علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور عصمت خودبخود باطل ہوجاتی ہے کیونکہ علی رضی اللہ عنہ نے آپ کے بارے میں وصیت کی تھی اور شیعہ کے مطابق امام معصوم اپنے جیسے معصوم شخص کے لیے ہی وصیت کر سکتا ہے۔
اور اگر وہ حسین رضی اللہ عنہ کے فعل کے بطلان کی بات کرتے ہیں تب بھی ان کے لیے مفر نہیں ہے کیونکہ ان کے اس قول سے حسین رضی اللہ عنہ کی امامت و عصمت پر زد پڑتی ہے اور ان کی امامت اور عصمت کے باطل قرار پانے سے ان کے تمام بیٹوں اور کی ساری اولاد کی امامت اور عصمت باطل ہوجاتی ہے کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ کے دم سے ہی ان کی ذریت کی امامت و عصمت قائم ہے جب اصل کا بطلان ہوگیا تو فرع خودبخود باطل ہوگئی۔
سوال 8:۔۔ شیعہ کے مشہور عالم کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں یہ روایت نقل کی ہے کہ ہم سے ہمارے کئی ساتھیوں نے ابوبصیر رحمہ اللہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ میں ایک مرتبہ ابوعبداللہ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے ان سے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان جاوں، دراصل میں آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہیں کوئی ہماری سرگوشی سن تو نہیں رہا ہے؟ کہتے ہیں کہ ابوعبداللہ علیہ السلام نے پردہ گرادیا، پھر ابوبصیر کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: کہ اے ابو محمد!اب تمہارے جی میں جو آئے پوچھو۔ میں نے کہا میں قربان جاوں آپ پر ۔۔۔اس کے بعد آپ علیہ السلام نے تھوڑی دیر کے لیے سکوت اختیار کیا پھر فرمایا: ہمارے پاس مصحف فاطمہ علیھا السلام ہے اور ان کو کیا پتا کہ مصحف فاطمہ علیھا السلام کیا ہے؟ ابو بصیر نے کہا میں نے استفسارکیا! مصحف فاطمہ علیھا السلام کیا ہے؟ فرمایا: یہ وہ مصحف ہے جس میں تمہارے اس قرآن کے تین گنا زیادہ مواد موجود ہے اور تمہارے قرآن کا اس میں ایک حرف بھی موجود نہیں ہے۔ بصیر نے کہا میں نے کہایہی تو علم ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مصحف فاطمہ کی خبر تھی؟ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مصحف فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خبر نہیں تھی تو آل بیت کو اس کی خبر کیسے پہنچی؟ حالانکہ آپ تو اللہ کے رسول تھے؟ بالفرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر تھی تو آپ نے اس کو اپنی اُمت سے مخفی رکھا؟ جبکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
" اے رسول ! جو کچھ بھی آپ پر آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔ آپ اسے اُمت تک پہنچا دیجئے اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کی رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔"
سوال 9 :۔۔ کلینی کی کتاب الکافی کےجزء اول میں ان ناموں کی ایک فہرست ہے جن کے واسطے سے شیعہ حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور اہل بیت کے اقوال نقل کیے ہیں ان میں مندرجہ ذیل نام بھی ہیں۔
1-مفضل بن عمر، 2- احمد بن عمرالحلبی، 3- عمر بن ابان، 4- عمر بن اذینہ، 5- عمر بن عبدالعزیز، 6- ابراہیم بن عمر، 7- عمر بن حنظلۃ، 8- موسی بن عمر، 9- عباس بن عمر۔۔۔ وغیرہ
ان تمام ناموں میں عمر ہے۔ خواہ وہ راوی کا نام ہے خواہ راوی کے باپ کا، بہرحال عمر ہر نام میں موجود ہے۔
آخر ان تمام لوگوں کا نام عمر کیوں رکھا گیا ہے؟ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان لوگوں کو عمر رضی اللہ عنہ سے محبت اور لگاو تھا۔
سوال 10:۔۔ اللہ تعالی اپنی کتاب محکم میں ارشاد فرماتا ہے:
"اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے جنہیں جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو اس وقت وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایات یافتہ ہیں۔"
" اور تنگ دستی تکلیف و جنگ کے وقت صبر سے کام لینے والے ہیں۔"
علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: " اے نفس!اگر تجھے جزع و فزع اور نوحہ و ماتم سے نہ منع کیا گیا ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کی تلقین نہ کی ہوتی تو میں رو رو کر آنکھوں کا پانی خشک کر لیتا۔"{نہج البلاغہ اور مستدرک الوسائل}۔
یہ روایت بھی مروی ہے کہ علی علیہ السلام نے فرمایا ہے " جس نے مصیبت کے وقت اپنی رانوں پر ہاتھ مارا تو اس کا عمل ضائع اور برباد ہوئے گا۔{الخصال للصدوق اور وسائل الشیعہ}۔
حسین رضی اللہ عنہ نے حادثہ کربلا میں اپنی بہن زینب کو مخاطب کرکے فرمایا تھا میری پیاری بہن! میں تم کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں اگر میں قتل کر دیا جاوں تو تم مجھ پر گریبان چاک نہ کرنا اور اپنے ناخنوں سے اپنے چہرے کو نہ چھیدنا اور میری شہادت پر ہلاکت و تباہی کی دہائی نہ دینا۔
ابو جعفر القمی نے نقل کیا ہے امیر المومنین علیہ السلام کو جب اپنے ساتھیوں کے متعلق معلوم ہوا فرمایا: "تم کالا لباس زیب تن مت کیا کرو کیونکہ یہ فرعون کا لباس ہے۔ " {من لا یحضرہ الفقیہ اور کتاب وسائل الشیعہ}
تفسیر صافی میں اس آیت { وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ۔۔﴿١٢﴾ سورۃ الممتحنۃ} کے ضمن میں یہ ہی کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے اس بات پر بیعت لی کہ وہ بطور سوگ کالا لباس نہیں پہنیں گی اور نہ گریبان چاک کریں گی اور نہ ہلاکت وبربادی کی پکار لگائیں گی۔
کلینی کی کتاب فروع الکافی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وصیت کی تھی کہ جب میرا انتقال ہوجائے تو نہ تو اپنے چہرے کو نوچنا اور نہ ہی مجھ پر بال لٹکا لٹکا کر غم کا اظہار کرنا اور نہ ہی ہلاکت و بربادی کی دہائی دینا اور نہ میرے لیے کسی نوحہ کناں کو مقرر کرنا۔ {ملاحظہ ہو:فروع الکافی}۔
شیعہ کے علماء المجلسی، النوری اور البردجردی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" نوحہ و ماتم اور گانے بجانے کی آوازیں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔"{بحارالانوار، مستدرک الوسائل، جامع احادیث الشیعہ اور من لایحضرہ الفقیہ}۔
ان تمام روایات اور حقائق کی نقاب کشائی کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیعہ حضرات کیوں حق کی مخالفت پر آمادہ ہیں؟ اب آپ ہی بتلائیں کہ ہم کس کی تصدیق کریں اللہ کی، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اہل بیت کی یا شیعہ کے ذاکرین کی؟؟۔
سوال 11:۔۔ اگر زنجیر زنی، نوحہ خوانی اور سینہ کوبی میں عظیم اجروثواب ہے جیسا کہ شیعہ حضرات کا دعوی ہے { دیکھیے ارشاد السائل اور صراط النجاۃ}۔ تو شیعوں کے مذہبی رہنما اور ان کے ملاں و ذاکر زنجیر زنی کیوں نہیں کرتے ہیں؟؟۔
سوال 12 :۔۔ شیعوں کے دعوی کے مطابق غدیر خم کے دن ہزاروں صحابہ کرام وہاں موجود تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی وصیت براہ راست سنی تھی ، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان ہزاروں صحابہ کرام میں سے ایک صحابی بھی علی رضی اللہ عنہ کی طرفداری کے لیے کیوں نہیں کھڑا ہوا؟؟۔ حتی کہ عمار بن یاسر، مقداد بن عمرو اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم بھی خلیفہ وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں استغاثہ لے کر کیوں نہیں آئے کہ آپ نے علی رضی اللہ کی خلافت کا حق غصب کیا؟ جبکہ آپ کو پتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیرخم کے دن کیا وصیت فرمائی تھی یا کیا تحریر لکھوائی تھی۔ علی رضی اللہ عنہ تو بڑے بے باک صحابی تھے جنہیں اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف نہ تھا اور نہ ہی وہ کسی سے دب کر بات کرنے کے عادی تھے اور انہیں پتا تھا کہ حق بات پر سکوت اختیار کرنے والا گونگا شیطان کہلاتا ہے۔
سوال 13:۔۔ عالم شیعہ کی مذہبی کتاب الکافی کی اکثر و بیشتر روایات ضعیف ہیں؟ اس کے باوجود یہ لوگ کس بنیاد پر یہ دعوی کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی تفسیر ایک کتاب میں مدون ہے، جس کی اکثر وبیشتر روایات ان کے اعتراف کے مطابق ضعیف اور مردود ہیں، کیا یہ دورغ گوئی اور بہتان تراشی نہیں ہے؟
سوال 14 :۔۔ عبودیت صرف اللہ تعالی کی ذات کے لیے خاص ہے، ارشاد باری تعالی ہے: {بَلِ اللَّـهَ فَاعْبُدْ۔۔ سورۃ الزمر} بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کرو۔ شیعہ حضرات اپنی برادری کے لوگوں کو عبدالحسین، عبد علی، عبدالزھراء اور عبدالامام وغیرہ ناموں سے موسوم کرتے ہیں؟ لیکن ائمہ اپنے بچوں کے نام عبد علی اور عبدالزھراء وغیرہ نہیں رکھتے تھے۔
سوال 15:۔۔ اگر علی رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم تھا کہ وہ نص قطعی کی بنیاد پر اللہ تعالی کی طرف سے خلیفہ متعین ہیں تو انہوں نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاتھوں بیعت خلافت کیوں کی؟
اگر تم یہ کہو کہ وہ مجبور تھے، تو عاجز اور مجبور شخص خلافت کے لیے کیونکر موزوں ہوسکتا ہے؟ کیونکہ خلافت اسی کے لائق ہے جو خلافت کے بوجھ اور ذمہ داریوں کو اپنے کاندھوں پر اُٹھا سکتا ہے۔ اور اگر تم یہ کہو کہ وہ خلافت کے بوجھ اُٹھانے کی استطاعت رکھتے تھے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تو یہ قول خیانت ہے اور خائن کو امامت کے منصب پر فائز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی رعایا کے بارے میں اس پر اعتماد اور بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
جب کہ ہمارا ایمان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی ذات ان تمام عیوب سے منزہ اور مبرا ہے۔
تمہارا جواب کیا ہے؟
سوال 16:۔۔ علی رضی اللہ عنہ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اپنے پیش رو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین ہی کا راستہ اختیار کیا بلکہ آپ رضی اللہ عنہ منبر خلافت سے برابر یہی کلمات دہراتے "خیر ھذہ الامۃ بعدنبیھا ابوبکر وعمر"
"اس اُمت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل ترین ابوبکر اور عمر ہیں"
لطف کی بات یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نےحج تمتع نہیں فرمایا، اور فدک کا مال بھی نہیں حاصل کیا ایام حج میں لوگوں پر متعہ واجب نہیں کیا اور نہ ہی اذان میں "حی علی خیر العمل" کے کلمہ کو رواج دیا اور نہ اذان سے "الصلاۃ خیر من النوم" کا جملہ حذف کیا۔
اگر شیخین رضی اللہ عنہما کافر ہوتے اور انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے خلافت زبردستی غصب کی ہوتی تو اس چیز کو علی رضی اللہ عنہ نے کھول کر بیان کیوں نہیں کیا؟ جبکہ حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں تھی۔ بلکہ ہم کو تو علی رضی اللہ عنہ کا ذاتی عمل اس کے برعکس نظر آتا ہے کہ انہوں نے شیخین {ابوبکر و عمر} کی تعریف کی ہے اور دل کھول کر ان کی مدح سرائی کی ہے۔
تم کو اسی قدر پر اکتفا کرنا چاہئے جس پر امیرالمومنین نے اکتفا کیا یا تم پر یہ بات لازم آتی ہے کہ تم یہ کہو امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ نے اُمت اسلامیہ کے ساتھ خیانت سے کام لیتے ہوئے ان کے سامنے حقیقت بیانی سے کام نہیں لیا ہے حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ اس سے پاک اور مبرا ہیں۔
سوال 17:۔۔ شیعوں کا خیال ہے کہ خلفائے راشدین کافر تھے ان کے ہاتھوں پر اللہ تعالی نے اسلامی فتوحات کا دروازہ کھول کر اسلام اور مسلمانوں کو عزت و سربلندی عطا فرمائی تھی اور مسلمانوں کو تاریخ میں ایسا دورمشاہدہ کرنے کو نہیں ملا۔
کیا یہ بات اللہ تعالی کے اس دوٹوک فیصلے کے موافق ہے جس کی رو سے اللہ تعالی نے کفار اور منافقین کو ذلیل و رسوا کیا ہے؟
اس کے بالمقابل ہم دیکھتے ہیں کہ امام معصوم کی خلافت میں جن کی ولایت کو اللہ تعالی نے لوگوں کے لیے رحمت بنایا ہے اُمت اسلامیہ کا شیرازہ منتشر ہوگیا اور خانہ جنگی کی آگ بھڑک اُٹھی یہاں تک اعدائے اسلام، اسلام اور مسلمان کے خلاف کمربستہ ہوگئے۔ کیا امام معصوم کےدور کو اس طرح کی صورتحال کے تناظر میں رحمت سے تعبیر کیا جائے گا؟ آخر یہ کون سی رحمت ہے جس کا امام معصوم کی خلافت کے دوران وجود پذیر ہونے کا شیعہ حضرات دعوی کر رہے ہیں؟ کیا اس قسم کی کوئی باعث رحمت صورت حال ائمہ معصوم کے دور میں پیش آئی، اگر نہیں اور بالکل نہیں، تو پھر یہ شیعہ حضرات کس رحمت کے متقاضی ہیں؟
سوال 18:۔۔ شیعہ کا دعوی ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کافر تھے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے ان کے حق میں خلافت سے دست برداری کا اعلان کیا، حالانکہ حسین امام معصوم ہیں لہذا یہاں پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے ایک کافر کے لیے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا حالانکہ یہ چیز حسین رضی اللہ عنہ کی عصمت کے خلاف ہے یا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہیں ، ان دو صورتوں میں ایک صورت کو بہرحال تسلیم کرنا ہے۔
سوال 19:۔۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تربت حسینی پر سجدہ کیا ہے؟ جس پر شیعہ حضرات سجدہ کرتے ہیں؟
اگر شیعہ حضرات ہاں میں جواب دیتے ہیں تو ہمارا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ اللہ کی قسم یہ جھوٹ ہے۔
اور اگر وہ نفی میں جواب دیتے ہیں تو ہم ان سے یہ کہنے کے مجاز ہیں کہ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو۔
ہم یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دیں کہ شیعہ کی روایات بتاتی ہیں کہ جبریل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں کربلا کی مٹی لائے تھے۔
سوال 20:۔۔ شیعوں کا دعوی ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور وہ پہلی کیفیت پر آگئے تھے۔
ہمارا شیعہ حضرات سے سوال کہ کیا اصحاب رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل شیعہ اثنا عشریہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اہل سنت والجماعت ہوگئے تھے۔یا لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل اہل سنت والجماعت تھے اور بعد از وفات شیعہ اثنا عشریہ ہوگئے ؟
کیونکہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کو ہی انقلاب، تغیر اور تبدل کہا جاتا ہے؟؟
Al-Hassan bin Ali relinquished for Mu'awiya and made peace with him, that happened at a time where he had enough armies and allies which would allowed him to continued fighting. Al-Hussain bin Ali came out to war despite the small number of his followers at a time when he could have made peace. This tells us that one of them was right and the other was wrong because:
If Al-Hassan's concession with the ability to fight was right, then Al-Hussain's war with lack of means was wrong.
If Al-Hussain's war with lack of means was right, then Al-Hassan's concession with the ability to fight was wrong.
And this puts you in a place where no one can envy you. Because if you say that both of them are right, you agree to two opposite things and this destroys your roots and logic.
So if you say that Al-Hussain's action was wrong then you have to believe in the falsehood of his leadership "Imamah" and the falsehood of the leadership of his father and his infallibility. Because he was given a trust and the infallible leader does not give the trust to anyone but an infallible like him. And if you say that Al-Hassan's action was wrong then you have to believe in the falsehood of his leadership "Imamah" and the falsehood of the leadership of his children and progeny because he is the root of their leadership and through him came the leadership. And if the root is wrong, then the branches are all wrong.
And we say to every Shia:
Regardless of what you answer to this conundrum, your answer is not convincing for this reason:
You would believe that Ali accepted to himself what the low Bedouins of the Arabs would not accept for themselves and he is from the Prophet's family? And I repeat the question to you, if Umar's shortcomings are like what you describe then how would Ali accept him as a husband to his daughter? So do the Shia put Ali in a class that's lower than the Bedouins (since Bedouins won't accept this shame for themselves)? And would Al-Hussain accept this? Or would Al-Hasan accept this?
And if you accept that, then they are less class than the Bedouin of Arabs! and that is not acceptable to us. The issue is that you make up accusations against Umar bin Al-Khattab and then you want us to accept an excuse which is worse than the sin itself. And your excuse is Taqiyya. So was it for Taqiyya that Ali married his daughter off to Umar? You curse Umar, make up bad things about him, and allege that he was an apostate, then after all that you want to claim that Ali was a coward too? This is not acceptable to us for Umar nor for Ali. And if Umar in your opinion is an Infidel and you claim that Ali knew that, then why did he marry him off to his daughter?!
The whole thing is illogical completely. If the Sahaba (companions of the Prophet) were really apostates, as you claim, then did Ali use Taqiyyah instead of fighting them? If using Taqiyyah is the right thing to do, then why did Ali fight the infidels during the time of the Prophet instead of using Taqiyyah to end the matter? If the Kuffar's land was a land of war (Dar Harb), then the Muslim land -under Abu Bakr and Umar- is for sure a land of war as well. In the land of the Kuffar, the infidels used to be fought and calls for war were called. And in the Muslim land under Abu Bakr and Umar, as you claim it to be a land of war, you consider the Rightly Guided Khalifas infidels just like you consider Yazeed and even worse. Don't you consider them Murtadeen (apostates)? Then what is Ali's duty? To get along with this one and be submissive to others? Would the Imam Ali submit to an infidel (as you claim) who took the mother of Mohammad bin Al-Hanafiyah (the son of Imam Ali bin Abi Talib) as a woman prisoner during the time of Abu Bakr (who in your opinion is an unfair oppressor)? According to Shia Fiqh, everything that an oppressor does and all his rulings are invalid. So why did Imam Ali take that woman and have a child from her? This is an insult to the Imam form your side.
If you compare Ali with Ammar, then you should remember that Ali's class is much higher than Ammar's since Ali's position to the Prophet was like the status of Haroon to Musa, isn't that what you say? Then how do you compare this to that? And despite all that, it was an exception for Ammar to be used only in times of necessity. But for you, it is a religion and a creed. It is a profession rather than a hobby. Doesn't one of your sayings say "Taqiyya is my religion and the religion of my fathers and grandfathers"? Then it is a religion and not an exception. It is a creed and a root and not a special case. So would Ali submit to the infidels? and would he marry his daughter off to an infidel? and would Ali accept to himself what the lowest of Arabs would never accept? And is there an insult worse than submitting to the infidels? And is there is any more humiliation than marrying his daughter off to a pervert who allegedly hit and caused his wife, Fatimah, to miscarriage? Wouldn't you declare war against him? And you also claim that Umar used to drink Alcohol? And you curse him and accuse him of more insults than that but you still expect Ali to submit to him?
Then why did Imam Ali go to war against the Kuffar if he was going to submit to the alleged apostates? Then who is supposed to fight against the oppressors and the apostates? And you say that Ammar was given an excuse by the messenger? There were no Ayahs from the Quran about Ammar's leadership as you claim for Ali. And he will not be considered an Imam by you at any case. And he does not carry a responsibly like the responsibility of Ali as you say. This is because Ammar was led but did not lead. And Ali lead, but you claim that he cannot be lead. He was a leader, not a follower. However, he submitted once to Abu Bakr, once to Umar, and once to Uthman and they were all apostates as you claim! Your Taqiyya is a rubber that extends here and shrinks there! You give it to Ammar when he was under torture while it was an exception for one time only. And for Imam Ali, the free man and the brave war hero, you used it to justify his submission to Abu Bakr and then his submission to Umar. Then you used it again to explain his submission to Uthman. Then once again, it was used as a justification for him marrying his daughter Umm Kulthoom to Umar. And again it was used to justify Ali taking Umm Mohammad bin Al-Hanafyeh even though she was a war prisoner and the ruler was an oppressor. This is not allowed in Shia Jurisprudence at all. So it is actually an admittance of the leadership of Abu Bakr. Then what was Ali's duty in the first place if he did not fight oppression and injustice? This is basically the truth of your words.
2- Al-Forroh min Al-Kafy, the book of Al-Nikah, Chapter of The Marriage of Umm Kulthoom. Volume 5, Page 346.
3- Tahzeeb Al-Ahkam, the book of inheritance, the chapter of inheritance from the drowned and the ones who die under collapsed buildings. Volume 9, Page 115-116.
4- Al-Shafi by Mr. Murtada Alam Al-Huda, Page 116 and his book "Tanzeeh Al-Anbya" page 141, Tahran Issue.
5- Ibn Shaher Ashob in his book "Manaqeb Aal Ali bin Abi Talib" volume 3 page 162.
6- Ibn Aby Al-Hadeed in his commentary on "Nahj Albalagha" volume 3 page 124
معاویہ بن ابو سفیان ایک مشہور صحابی تھے اور اموی سلطنت کے بانی تھے۔ آپ کے عہد سے مسلم طرز حکومت خلافت سے ملوکیت میں تبدیل ہو گیا۔ امیر معاویہ کاتبین وحی میں سے تھے۔ معاویہ ابوسفیان بن حرب کے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ کا نام ہندہ تھا۔ جنہوں نے غزوہ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حمزہ کا کلیجا چبایا تھا۔ ظہور اسلام سے قبل ابوسفیان کا شمار رؤسائے عرب میں ہوتا تھا۔ جبکہ ابوسفیان اسلام کے بڑے دشمنوں میں شمار ہوتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا تو ابوسفیان، ہندہ اور ان کے تمام خاندان نے اسلام قبول کر لیا۔ امیر معاویہ بھی ان میں شامل تھے۔
Muawiyah I (602–680) was the fifth Islamic caliph, following after the Rashidun caliphs, and founder of the Umayyad Caliphate. His sister Ramla bint Abi Sufyan known as Umm e Habiba was married to Muhammad so he was brother in law of Prophet Muhammad (pbuh) He was the first who established the Umayyad dynasty in Islam of the caliphate, and was the second caliph from the Umayyad clan, the first being Uthman ibn Affan. Muawiyah was appointed as the Governor of Syria after his brother Yazid ibn Abu Sufyan died. During the time of Ali ibn Abi Talib, Muawiyah convinced Talha and Zubayr to revolt against Ali. This led to the Battle of the Camel, the first battle in the First Fitna (the first Islamic civil war). In 657, Muawiya's army attacked the army of Ali at the Battle of Siffin. After the death of Ali in 661, Muawiya's army approached that of Ali's son and successor, Hasan ibn Ali. In order to avoid further bloodshed, Hasan signed a peace treaty with Muawiyah. Muawiyah then assumed power; however, Muawiyah ended up breaking all his requirements set out by the peace treaty. In power, Muawiyah developed a navy in the Levant and used it to confront the Byzantine Empire in the Aegean Sea and the Sea of Marmara. The caliphate conquered several territories including Cyzicus which were subsequently used as naval bases. Keep reading...... [..........]
ہجرت مدینہ سے تقریباً 15 برس پیشتر مکہ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ اظہارنبوت کے وقت آپ کی عمر کوئی چار برس کے قریب تھی۔ جب اسلام لائے تو زندگی کے پچیسویں برس میں تھے۔ فتح مکہ کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان لوگوں کے تالیف قلب کے لیے ابوسفیان کے گھر کو بیت الامن قرار دیا۔ یعنی جو شخص ان کے گھر چلا جائے وہ مامون ہے۔ اور ان کے بیٹے معاویہ کو کاتب وحی مقرر کیا۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے آئے ہوئے لوگوں اور ملاقاتیوں کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال کا کام بھی آپ کے سپرد تھا۔ یہ دور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کا آخری حصہ تھا۔ اس لیے امیر معاویہ زیادہ عرصہ آستانہ نبوت سے منسلک نہ رہ سکے۔
ابوبکرصدیق نے آپ کے بھائی یزید بن ابوسفیان کو شام کے محاذ پر بھیجا تو معاویہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ عہد فاروقی میں یزید کی وفات کے بعد آپ کو ان کی جگہ دمشق کا حاکم مقرر کیا گیا۔ رومیوں کے خلاف جنگوں میں سے قیساریہ کی جنگ آپ کی قیادت میں لڑی گئی جس میں 80 ہزار رومی قتل ہوئے تھے۔ عثمان غنینے آپ کو دمشق ،اردن اور فلسطین تینوں صوبوں کا والی مقرر کیا اور اس پورے علاقہ کو شام کا نام دیا گیا۔ والی شام کی حیثیت سے آپ کا بڑا کارنامہ اسلامی بحری بیڑے کی تشکیل اور قبرص کی فتح ہے۔ عثمان غنی آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے اور آپ کا شمار عرب کے چار نامور مدبرین میں ہوتا تھا۔
عثمان غنی کے اندوہناک واقعہ شہادت کے بعد علی المرتضی کے ہاتھ پر بیعت خلافت ہوئی تو معاویہ نے (جو اس وقت ملک شام کے امیر تھے) علی سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ پہلے قاتلانِ عثمان سے قصاص لیں۔ علی نے جواب میں فرمایا کہ ابھی ہرطرف شورش اور ہنگامہ ہے، یہ فرو ہو جائے اس کے بعد قصاص لیں گے۔ اس کے بعد سبائیوں نے ریشہ دوانیاں شروع کیں اورایک دوسرے سے بدظن کرتے رہے اور انھیں جھوٹی سچی باتیں کہہ کر ورغلاتے رہے، یہاں تک کہ ان سبائیوں نے دونوں میں جنگ کرادی،( دونوں کی نیت صحیح تھی اختلاف پیدا کرنے والے اور باہم جنگ کرانے والے سبائی اور صرف سبائی تھے۔ ہمیں مشاجراتِ صحابہ میں نہ الجھنا چاہیے۔ اس سے کسی صحابی کے بارے میں مبادا بدگمانی پیدا ہو جائے اور ہم ایمانی خرابی میں مبتلا ہوجائیں۔) جنگ (صفین) کے بعد آپ کی خلافت کا اعلان کر دیا گیا یہ اعلان دھوکا دہی سے کیا گیا۔ اس طرح اسلامی مملکت دو حصوں میں بٹ گئی۔
حضرت علی رضی الله کو اپنے دور خلافت میں خوارج کا مقابلہ کرنا پڑا - علی کی شہادت کے بعد اہل کوفہ نے امام حسن کی بیعت کر لی لیکن آپ کے اعلان خلافت کے فوراً بعد امیر معاویہ نے عراق پر فوج کشی کر دی۔ کوفی قابل اعتماد نہ تھے اس کے علاوہ امام حسن کی پوزیشن بھی مستحکم نہ تھی اس لیے آپ نے بہتر یہی سمجھا کہ امت مسلمہ کو مزید خونریزی سے بچانے کے لیے وہ امیر معاویہ کے حق میں دست بردار ہو جائیں۔ آپ کے اعلان دست برداری کے بعد 661ء میں امیر معاویہ نے اپنی خلافت کا اعلان کیا۔ امام حسن نے امیر معاویہ کے ساتھ صلح کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پر بیعت کی یہیں سے اموی خلافت کا آغاز ہوا۔
امیر معاویہ نے خوارج سے مقابلہ کیا، مصر، کوفہ، مکہ، مدینہ میں باصلاحیت افراد کو عامل و گورنر مقرر کیا، مصر میں عمرو بن العاص- کو حاکم بنایا، پھر ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمرو بن العاص کو بنایا، ان کے دور حکومت میں جوبیس سال کو محیط ہے۔ سجستان، رقہ، سوڈان، افریقہ، طرابلس، الجزائر اور سندھ کے بعض حصے فتح ہوئے۔ ان کا دور حکومت ایک کامیاب دور تھا، ان کے زمانہ میں کوئی علاقہ سلطنت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوا، بلکہ اسلامی سلطنت کا رقبہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی، کاتب اور ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں۔ قرآنِ مجید صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والے گرد و غبار کی قسمیں کھاتا ہے:
’’(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں۔‘‘ العاديت، 100: 4
جن شہسواروں سے گھوڑوں کو، گھوڑوں سے گرد وغبار کو یہ مقام ملا، ان شہسواروں کی شان کیا ہو گی۔ ان میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی یقینا شامل ہیں۔ لہٰذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں:
وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْاج.
اور اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔‘‘ المومن، 40: 7
حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جنگ صفین ہوئی جس کا سبب بنیادی طور پر خلیفہ راشد، امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت تھی جس کے پس پردہ وہی یہودی و مجوسی سازش کارفرما تھی جو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ دار تھی۔ صحیح صورتحال کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بروقت پہنچ جانا، اس زمانہ میں ممکن نہ تھا، جبکہ اسلام دشمن عناصر گمراہ کن افواہیں تسلسل سے پھیلانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں عوام و خواص میں غلط فہمیوں کا پیدا ہو جانا باعث تعجب نہیں۔ غلط فہمیاں پھیلیں اور اس کے نتیجہ میں باہمی جنگیں ہوئیں جسمیں مسلمانوں کو ایک طرف تو ناقابلِ بیان جانی و مالی نقصان ہوا، دوسری طرف ان کی ملی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اور تیسری طرف وہ فاتحانہ قدم جو بڑی تیزی کے ساتھ یورپ، افریقہ اور ایشیاء کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے، یکدم رک گئے۔
یہ قضا و قدر کے وہ قطعی فیصلے تھے جن کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے ان واقعات کے رونما ہونے سے بہت پہلے دے دی تھی۔ دونوں طرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے۔ کسی ایک کو موردِ الزام ٹھہرانا نہ تو درست ہے اور نہ ہی انصاف ہے۔ اس مسئلہ میں وہ لوگ بھی غلط ہیں جو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کی شان اقدس میں زبان طعن دراز کرتے ہیں اور وہ بھی غلط ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی اجتہادی خطاء پر ان کی شان و عظمت میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ہمارے نزدیک اﷲ تعالیٰ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ علیھم اجمعین، آئمہ کرام، اولیائے عظام اور علماء و اہل اسلام کا ادب واحترام ہی ایمان اور تقویٰ ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان ہونے والے باہمی نزاعات سے متعلق اہل سنت کے مؤقف کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: مشاجرات صحابہ میں اہلِ سنت کا کیا مؤقف ہے؟
آپ نے تاریخ کی کتب میں جو گالیاں وغیرہ دینے کے بارے میں پڑھا یا سنا ہے وہ عربی کتب میں ’سب وشتم‘ کے الفاظ سے مذکور ہے۔ سب وشتم کا مطلب ہے برا بھلا کہنا۔ عربی میں ان الفاظ کا مفہوم وسیع ہے، جس میں تنقید بھی شامل ہے۔ یہ تنقید سخت الفاظ میں بھی ممکن ہے اور نرم الفاظ میں بھی۔ اس میں گالی دینے کا مفہوم بھی شامل ہے اور نرم انداز میں ناقدانہ تبصرے کا بھی۔ لہٰذا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت اور جنگ صفین کے بعد بننے والے ماحول میں سخت اور نرم الفاظ سے تنقید بھی کی جاتی تھی اور منافقین گالی گلوچ بھی کیا کرتے تھے۔ دورِ یزید میں برسر منبر اہل بیت اطہار کو برا بھلا کہنا اور بیہودہ گالیاں دینا رواج بن گیا تھا۔
بنو امیہ کے اکثر حکمران اہل بیت سے بغض رکھتے تھے۔ اس کا آغاز یزید کے دورِ حکومت سے ہوا۔ یزید نے ایک نئی طرز پیدا کر دی۔ اُس بدبخت اور ملعون کے زمانہ میں ایک کلچر develop ہوگیا، سارے معاملہ نے سیاسی رنگ اختیار کرلیا، معاملہ Politicize ہوگیا۔ حکومت کے چھوکرے، لونڈے، عمال، انتظامیہ، بیوروکریسی، وزیر، مشیر، سیاسی نمائندگان، جن کو چھوٹی چھوٹی سطح کا اقتدار ملتا ہے، علاقوں میں اُن کے ذمہ داران، یہ تمام اہل بیت اطہار کے خلاف ہر سطح پر ایک ماحول پیدا کرتے اور انہیں گالیاں دیتے تھے۔ سیدنا مولا علی المرتضی اور اہل بیت اطہارکو برا بھلا کہتے۔
حتی کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ جو پانچویں خلیفہ راشد کہلاتے ہیں، جب اُن کا دور آیا، تو انہیں یہ قانون نافذکرنا پڑا کہ جو یزید کو امیرالمومنین کہے گا، شرعی طور پہ اُس کو بیس کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو اس حوالے سے مزید سخت اقدامات لینے پڑے۔ آپ نے منبروں پر حضرت مولا علی شیرخدا رضی اللہ عنھما اور اہل بیت اطہار کو گالی دینے کا کلچر حکماً بند کردیا۔ لوگوں کے ذہن اتنے یکطرفہ اور اتنے زہر آلودہ ہو چکے تھے کہ باقاعدہ احکامات صادر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔
جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اہل بیت اطہار کو اور سیدنا مولاعلی المرتضی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے پر پابندی لگادی تو تاریخ کی کتب، اسماء الرجال کی کتب، محدثین کے ہاں یہ درج ہے کہ عامۃ الناس نے شور مچایا کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے سنت بند کردی۔ حالانکہ وہاں سنت سے لغوی معنی مراد ہے کہ وہ ایک طریقہ اور شیوہ جو پرانا چلا آرہا تھا، اس کو ختم کردیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ سنت بند نہیں کی بلکہ جو بند کیا وہ بےہودگی تھی، دین کے خلاف ایک ماحول تھا، جو بعض لوگوں نے اپنے مفادات کے لئے بنا رکھا تھا تاکہ حکومت سے مراعات لیں‘ اُس کوبند کیا ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو اپنا ولی عہد بنایا دیا، جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اختلاف بھی کیا لیکن انہوں نے اپنا فیصلہ واپس نہ لیا جو بعد میں مسلمانوں کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا۔ یہ اُن کی اجتہادی خطاء تھی۔ [آخر میں ملاحظہ کریں ... یزید کی نامزدگی]
https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3990 Back to Index
............................
سب و شتم کی حقیقت
شیعوں کی طرف سے اکثر اوقات یہ بات کہی جاتی ہے کہ حضرت معاویہ رضہ نے اپنے گورنروں کو حکم دے رکہا تھا کہ ہر خطبہ مین امیر المومنین علی رضہ کو گالیاں دیں اور انہیں برا بھلا کہیں ۔ اس کام کو وہ خود بھی کرتے تھے اپنے ہر خطبہ میں سیدنا علی رضہ کو برا بھلا کہتے تھے۔ ہم اس آرٹیکل میں انشاء اللہ اس کا رد کریں گے
کیوں کہ حضرت معاویہ رضہ سے ایسی کوئی بات مروی نہیں ہے بس چند روایات ہیں جن کا مقصد توڑ موڑ کر بیان کیاجاتا ہے جن کو ہم یہاں نقل کریں گے ۔اس سے پہلے ہم عربی کے لفظ سب کی مختلف معنی اور استعما ل پر ایک نظر ڈالتے ہیں
عربی لفظ سب کی معنی
عربی لفظ سب کی بہت دی معنی ہی٘ں جس کو مختلف شکلوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس لٖفظ معنی گالی دینا بھی ہے ، کسی کو غلط کہنا بھی ہے ، کسی کو کسی بات پر ٹوکنا بھی ہے ۔ کسی کو آڑے ہاتھوں لینا اور تنقید کرنے کو بھی سب ہی کہتے ہیں ۔
چناچہ یہ لفظ صرف گالی دینے یا برا بھلا کہنے کے لئے استعمال نہیں ہوتا اس کی اور بھی بہت معنی ہیں ہم یہاں ثبوت کے طور پر کچھ روایات پیش کر رہیں ہیں
صحیح مسلم (کتاب الفضائل ، باب معجزات النبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی ایک حدیث ہے
فسبهما النبي صلى الله عليه وسلم وقال لهما ما شاء الله أن يقول قال ثم غرفوا بأيديهم
یہ واقعہ تبوک کے متعلق ہے ، یہا ں صحابہ نے کچھ غلطی کردی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سرزنش کی اور زیادہ سے زیادہ سخت سست کہا ہوگا۔ پر گالیاں نہیں دیں ہونگی اور نہ ہی معاذ اللہ برا بھلا کہا ہوگا کیوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس سے پاک ہے
سب معنی تنقید حافظ ابن جریر طبری اپنی تاریخ میں لکہتے ہیں
قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ” لتنتھین عن سبک او لنھجون ربک ” یعنی
آپ ہمارے معبودوں کو سَبّ (یہاں قریش کا مطلب یہ تھا کہ آپ ہمارے معبودوں کا تزکرہ ایسے انداز میں نہ کریں کہ ان کی شان میں کمی ہو) کرنے سے باز رہیں ، نہیں تو ہم تھمارے رب کی ہجو شروع کردیں گے۔ تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 164۔
اور جناب ابو طالب نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ کیا کہتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ: ان کو کہیں کہ میں انہیں ایسی دعوت دیتا ہوں جو ان کی بت پرستی سے بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی لا اللہ الا للہ
اب کوئی عقلمند یہ نہیں کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گالیاں دیں ہونگی۔ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ یہ بے زبان ہیں نہ کوئی نفع پہنچاتے ہیں نہ نقصان ، کتنے بے عقل ہو کہ خود ہی انہیں بناتے ہو اور خود ہی پوجتے ہو۔ یعنی دوسرے الفاظ میں آپ علیہ السلام جھوٹے معبودوں پر تنقید کرتے تھے اسے وہ ” سَبّ ” کہتے تھے۔
ان سب روایات سے اور خاص کر طبری کی روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تنقید کرنے کو بھی عربی میں سب ہی کہتے ہیں کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب واقعات میں تنقید ہی کی تھی ۔ اب اگر شیعوں کی یہ بات ماں لیں کہ سب کی معنی صرف گالی اور برا بھلا کہنا ہے تو پھر معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو گالیو ں سے پاک ہیں۔
اسی طرح یہ دیگر معانی میں بھی استمعال ہوتا ہے ، جیسے نکتہ چینی کرنا ، دوسرے کی رائے کو بلا کسی سبب غلط کہنا۔ چنانچہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پہلے تو کبھی حضرت علی کو ” سَبّ ” کیا ہی نہیں ، آپ کو یہ بھی کہیں نہیں ملے گا کہ انہوں نے خود کبھی ” سَبّ ” کیا ہو ... لفظ ” سَبّ ” کی معنی برائی - اب اگر اس لفظ سے مراد برائی کرنا ہی لیا جائے تو بہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ یا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ، فحش الفاظ استعمال نہیں کرتے ہونگے (معاذ اللہ جیسے شیعہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ برائی کرنا مطلب گندے الفاظ استمعال کرنا اور پھر جب ہمارے سنی بھائی حدیث کی معنی دیکھتے ہیں تو وہ اس پروپگینڈا میں آجاتے ہیں اور وہ برائی کرنا کا مطلب محض فحش الفاظ ہی سمجھتے ہیں ، کم سے کم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں)۔
چونکہ نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی آپ کے اصحاب بشمول حضرت معاویہ رضوان اللہ عنہم ، معاذ اللہ فحش گو تھے اور نہ ہی برے الفاظ استمعال کرتے تھے۔ مثال کے طور پر کسی بھائی کو میں یہ کہہ دوں کہ تہمارے بال صحیح نہیں ، یا یہ کہ میں کسی کو ٹوک دوں ، یا کسی کے کسی کے کئے ہوئے کام کو بنا سبب غلط کہہ دوں ، تو یہ بھی برائی کے دائرے میں آتا ہے۔ہمیں صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ کبھی بھی گمان نہیں کرنا چاہئے کہ وہ معاذ اللہ فحش گو تھے
کیا حضرت معاویہ رضہ، حضرت علی رضہ کی برائی کرتے تھے۔
کہیں پر بھی کوئی بھی ایسی روایت نہیں ملتی جہاں پر حضرت معاویہ رضہ کے کسی بیان میں حضرت علی کی برائی پائی جاتی ہو یا پھر ایسے الفاظ جو کہ حضرت علی کے شان میں سخت ہوں ۔ کہیں پر بھی حضرت معاویہ کے کسی بھی خطبہ میں ایسے الفاظ نہیں ہیں بس صرف ایسی روایت ملتی ہیں جس میں یہ لکہا ہوتا ہے کہ انہوں علی رضہ سعد رضہ سے پوچھا کہ آپ علی رضہ کو سب کیوں نہیں کرتے (یعنی قتل عثمان کے مسئلے میں ان پر تنقید کیوں نہین کرتے ) یا پھر ان کے سامنے سب کیا وغیرہ ارے بھائی جنہوں نے سب کی روایات کی ہے انہوں نے پھر حضرت معاویہ کے گالیوں یا پھر برائی کے الفاظ کیوں بیان نہیں کئے جبکہ حضرت معاویہ رضہ کا چھوٹہ بڑے کام کو توڑ موڑ کر پھلانہ کچھ محدیثین خاص طور پر شیعوں کا تو مشغلہ رہا ہے پھر کیوں وہ اسیے گستاخانہ الفاظ روایت نہیں کر پائے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ سیدنا معاویہ حضرت علی رضہ کو قصاص عثمان رضہ کے مسئلے پر غلط سمجھتے تھے پھر جب ان کی خلافت میں اس کا تزکرہ چلتا تھا تو وہ حضرت علی کے اجتہاد کو غلط کہتے تھے اور ان پر تنقید کرتے تھے اسی کو روایت میں سب کہا گیا ہے ۔یہ نا سمجھ میں آنے والی بات ہے نہ کہ حضرت معاویہ رضہ کی ہر بات ، ہرفعل غالی راویوں نے مرچ مصالعہ ملا کہ لکھ دئے ہیں آخر وہ حضرت معاویہ کی گالیاں اور لعنتیں (نعوذ بااللہ) وہ بھی حضرت علی رضہ کو ، کیسے رہ گئیں تاریخ میں۔
مولانا تقی عثمانی اپنی کتاب حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق میں مولانا مودودی کی پیش کردہ تاریخی روایات پر تبصرہ کرتے ہو ئے فرماتے ہیں ”
"مولانا مودودی صاحب نے حضرت معاویہ رضہ کی طرف یہ مکروہ بدعت غلط منصوب کی ہے کہ وہ خطبہ میں حضرت علی رضہ پر سب و ستم کی بوچھاڑ کرتے تھے اس کا ثبوت نہ مولانا مودودی کے دئے ہوئے تاریخی حوالوں میں موجود ہے اور نہ ہی کسی تاریخ اور حدیث کی معتبر کتاب میں””
مولانا کی اس کا بات کا اقرار جناب غلام علی صاحب(یہ وہی ہیں جنہوں نے مولانا مودودی کو صحیح ثابت کرنے کے جوش میں حضرت عائشہ رضہ پر کذب کا الزام لگایا تھا ) انہوں نے بھی تسلیم کرتے ہوئے لکہا کہ مجہے عثمانی صاحب کی یہ شکایت اس حد تسلیم ہے کہ مولانا مودودی کے دئے ہوئے حوالات میں صراحت سے مزکور نہیں کہ حضرت معاویہ رضہ خود سب و ستم کرتے تھے (ترجمان القرآن جولاء 1969 ص 24-25)
حضرت معاویہ کی طرف سے سب و شتم کی روایات
یہ سب و شتم کی روایت اکثر حضرت سعد بن ابی وقاص سے کی جاتی ہے جو کہ مختلف کتب میں پائی جاتی ہے ہم یہاں صحیح مسلم کتاب فضائل باب فضائل امیر المومنین علی رضہ عنہ سے حوالہ پیش کریں گے۔
عن عامر بن سعد بن أبي وقاص ، عن أبيه ، قال أمر معاوية بن أبي سفيان سعدا فقال ما منعك أن تسب أبا التراب فقال أما ما ذكرت ثلاثا قالهن له رسول الله صلى الله عليه وسلم فلن أسبه لأن تكون لي واحدة منهن
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو کون سی چیز مانع کرتی ہے کہ آپ ابو تراب (حضرت علی رضی اللہ عنہ) پر سَبّ کریں؟ حضرت سعد نے اس کا سبب بتایا اور حضرت علی کے متعلق ۳ باتوں کا ذکر کیا جو بطور فضائل رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائے تھے۔۔۔۔
یہاں میں نے حدیث کا وہ حصہ نقل کیا ہے جس پر اعتراض کیا جاتا ہے۔
(1) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقصد تھا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کیوں نہیں کرتے (یاد رہے ہم اوپر ہم نے طبری کی روایت سے ثابت کیا تھا کہ سب کی معنی تنقید بھی ہے اور یقینن حضرت معاویہ حضرت علی پر تنقید ہی کرتے تھے ) قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں ، یعنی اُن کا اجتہاد ٹھیک نہیں۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل بتائے ان میں یہ بھی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ہارون علیہ السلام کی جگہ دی ، جس کا مطلب ہے وہ بلند پائے کے عالم تھے ، وہ اجتہاد میں غلط نہیں ہو سکتے۔
(2) اہل شام قصاص نہ لینے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خائف تھے ، یہ ہو سکتا ہے ان کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل سنانا مقصود تھے ، تبھی ایسا سوال کیا کیوں کہ سیدھا کہتے تو اھل شام کے شور کا اندیشہ تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید نہیں کریں گے ، تبھی ایسا سوال کیا۔
حدیث میں اُن پر تنقید کرنے کو نہیں کہا گیا بلکہ سبب دریافت کیا گیا ہے۔
علامہ ابن کثیر نے اس سے ملتا جلتا واقعہ نقل کیا ہے ، میں واقعہ پیش کئے دیتا ہوں:۔
عبد اللہ بن بدیل نے بیان کیا ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو کہا کہ آپ ہمارے ساتھ مل کر نہیں لڑے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تاریک آندھی میرے پاس سے گزرے اور میں اخ اخ کروں تو میں اونٹنی بٹھا دیتا ہوں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کتاب اللہ میں اخ اخ نہیں بلکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ” اگر مومنین کی ۲ جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیاں صلح کرا دو اور اگر ایک جماعت دوسری پر زیادتی کرے تو اس کے ساتھ جنگ کرو حتی کہ امر اللہ ہی کی طرف واپس آجائے ” خدا کی قسم آپ نہ عادل جماعت کے مقابلہ میں باغی جماعت کے ساتھ ہیں نہ ہی باغی کے مقابلہ میں عادل کے ساتھ ہیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس شخص سے لڑنے کا نہیں جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا تھا کہ تو میرے لئے ایسے ہے جیسے ہارون علیہ السلام موسی علیہ السلام کے لئے تھے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ائے گا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا آپ کے علاوہ اور کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا فلاں فلاں اورام سلمہ رضی اللہ عنہ نے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں نے آپ سے یہ بات پہلے سنی ہوتی تو میں ان سے جنگ نہیں کرتا۔ (تاریخ ابن کثیر جلد ۸ زکر وفات سعد رضی اللہ عنہ)۔
اس میں کہیں بھی سَبّ کا لفظ نہیں بلکہ بہت جگہوں پر یہ واقعہ مختلف لفظوں کے ساتھ مذکور ہے۔ بعض روایات میں ” فزکرو علیا فنال منہ معاویہ ” تو کہیں ” فذکرو علیا فقال سعد لہ ثلاث خصال ” جس سے اس واقعہ کی صداقت میں شبہ ہوتا ہے اور کہیں پر جگہ مکہ ہے تو کہیں پر شام ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔
یہاں سبب دریافت کر ریے ہیں کہ کیا چیز مانع ہے یا یہ کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے اجتہادی کو غلط کیوں نہیں کہہ رہے۔ یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد کے متعلق ایک بزرگ صحابی سے رائے لے رہے ہیں۔
ابن ماجہ کی روایت
حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعد وقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله
ینعی حضرت معاویہ سعد رضہ کے پاس آئے اور ان سے حضرت علی کی شکایت کرنے لگے جس پر حضرت سعد غصہ ہوگئے اور فرمایا کہ اس آدمی کی بات کرتے ہو جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا انہوں نے کہا کہ جس میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے اور یہ بھی سنا تھا کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہاروں کو موسی علیہ االسلام سے تھی لیکن میری بعد کوئی نبی نہیں آئے گا یہ بھی سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ کل میں جھنڈا اسے عطا کرون گا جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہے۔
اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تبھی بھی یہاں گالیاں مراد نہیں لے سکتے ، کیوں کہ حضرت سعد کا غضبناک ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت معاویہ حضرت امیر المومنین رضہ کی شکایت کرنے لگے (یہاں نال کی معنی شکایت کرنا ہے ناکہ گالیاں دینا) اس بات پر حضرت سعد غصہ ہوئے اور حضرت امیر المومنین رضہ کے فضائل بیان کئے ۔ حضرت سعد غصہ ہونا اسی وجہ سے تھا کیوں کہ حضرت امیر المومنین رضہ ، حضرت ابی بکر و عمر کی جماعت سے بلکہ ان کے فضائل سب سے زیادہ ہیں بہت سے علماء اہل سنت ان کو افضل مانتے تھے ۔ ایسے شخص کی اگر حضرت معاویہ خود سے موازنہ کرںن اور تو اور ان کے اجتہاد کو غلط کہیں تو حضرت سعد کا غصہ میں آنا فطری بات ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے حضرت معاویہ بار بار یہ کہتے رہے ہوں جس سے سعد رضہ غصہ ہوئے ہون ۔
اور پھر یہ روایت منقتع ہے ابن سابط نے سعد رضہ سے حدیث نہیں سنی اور ابو معاویہ پر بھی کلام ہے
ابن ماجہ کی اس روایت کے دو راویوں کے بارے میں کلام ہے
عبدالرحمن بن سابط
تہذیب الکمال میں المزی لکہتے ہیں
عبد الرحمان (2) بن سابط، ويقال:عبد الرحمان بن عبد الله بن سابط، ويقال: عبد الرحمان بن عبد الله بن عبد الرحمان بن سابط بن أبي حميضة بن عمرو ن أهيب بن حذافة بن جمح القرشي الجمحي المكي.
تابعي، أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم (ت).روى عن: أنس بن مالك من وجه ضعيف،وسعد بن أبي وقاص وقيل: لم يسمع منه،(جلد ۱۷ فحہ127)
ینعی انہوں نے سعد رضہ سے روایت کی ہے لیکن ان سے سماع نہیں کیا
تاریخ کبیر میں امام بخاری نے انہیں مرسل کہا ہے (جلد 5 ص 294
دارلقطنی نے حدیث سعد کے اسانید میں ان جناب کا زکر نہیں کیا ملاحضہ ہو علل دارالقطنی
ابن حجر نے جو لکہا ہے وہ یہ ہے تہذیب التہذیب جلد 6 ص 164
عبد الرحمن بن سابط ويقال عبد الرحمن بن عبد الله بن سابط ويقال عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن سابط بن أبي حميضة ابن عمروابن أهيب بن حذافة بن جمح الجمحي المكي.تابعي أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم. وروى عن عمر وسعد بن أبي وقاص والعباس بن عبد المطلب وعباس بن أبي ربيعة ومعاذ بن جبل وأبي ثعلبة الخشني وقيل لم يدرك واحدامنهم . قيل ليحيى بن معين سمع عبد الرحمن بن سعد ابن أبي وقاص قال لا.
یعنی یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل روایت کرتے ہیں حضرت عمر ، سعد رضہ ، عباس رضہ ،عباس بن ابی ربیعہ اور معاذ بن جبل سے روایت کرتے ہیں لیکن ان میں کسی کو بھی انہوں نے نہیں دیکہا۔یحی بن معین سے پوچھا گیا کہ عبدالرحمن نے سعد رضہ سماع کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ نہیں
اسی طرح ابن حجر نے ال اصابہ جلد ۵ ص 176 پہ ان کا زکر کیا ہے
یہ نہ صرف صحابہ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی روایت کر تے ہیں ، اس کے علاوہ انہوں نے حضرت ابی بکر رضہ عمر رضہ اور عائشہ رضہ سے بھی روایات کی ہیں لیکن علماء نے ان روایات کو مراسیل کہا ہے اورابن حجر نے لکہا ہے ان میں کسی کو بھی نہیں ملے ۔ بھر حال یہ بات تو طئے ہے کہ یہ مرسل ہیں اور بہت علماء نے اس بات میں ابن معین کی بات کو ہی صحیح مانا ہے ۔
اس لئے علماء انہیں کثیر الارسال کہتے ہیں ۔اسی بنا پر ابن معین نے انہیں سعد رضہ کی روایات میں مرسل قرار دیا اور ان کی صحابہ سے حدیث کو مر سل کہا ہے ۔ یہ بات صحیح کہ ابن معین ان کی بارے میں منفرد ہیں لیکن علماء اہل سنت میں سے کسی نے ابن معین کی بات سے اختلاف نہیں کیا ابن حاتم کو اگر اختلاف تھا تو انہوں جابر رضہ کے مسئلے میں لکہ دیا کہ یہ متصل ہے لیکن سعد رضہ کے بارے میں انہوں نے بھی نہیں لکہا ، گو کہ وہ بھی ابن معین کی بات صحیح جانتے تھے۔اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہاں تمام علماء رجال ابن معین کا ساتھ دے رہے ہیں
راوی ابو معاویہ
علماء نے انہیں اعمش کے طریق سے تو پسندیدہ کہا ہے لیکن ان کی دوسری احادیث کو مضطرب کہا ہے مدلس بھی تھے اور وہ مرجئی مذہب کے تھے جن کا ماننا ہے کہ انسان ایک بار کلمہ پڑہ کر مسلمان ہو جائے تو پھر اسے جہنم سے نجات مل جاتی ہے دنیا مین پھر جو چاہے کرے۔
ان کا ترجمہ اس طرح ہے ان کا نام محمد بن خازم الاعمی تھا
ابن حجر طبقات مدلسین صفحہ 46 میں ان کا نام بھی زکر کیا ہے
ابن حبان نے اثقات میں ان کا زکر اس طرح کیا ہے
كان حافظا متقنا ولكنه كان مرجئا خبيثا
یہ حافظ تھے لیکن ساتھ میں مرجئی خبیث بھی تھے
امام ابی داود السجستانی کہتے ہیں کہ كان مرجئا، ومرة: كان رئيس المرجئة بالكوفة
امام احمد بن حنبل
أبو معاوية الضرير في غير حديث الأعمش مضطرب , لا يحفظها حفظا جيدا(تھذیب الکمال)
ینعی ابو معاویہ اعمش کے علاوہ دوسری احادیث میں مضطرب ہے اور ان کا حافظہ بھی کم تھا۔
الذهبي :الحافظ، ثبت في الأعمش، وكان مرجئا (تہذیب الکمال)
یعنی اعمش کے طریق سے صحیح ہیں اور مرجئے تھے
يحيى بن معين: أبو معاوية أثبت من جرير في الأعمش وروى أبو معاوية , عن عبيد الله بن عمر أحاديث مناكير(تہذیب الکمال)
وقال عبدارحمن ابن خراش صدوق، وهو في الأعمش ثقة، وفي غيره فيه اضطراب (اتھذیب الکمال)
قال ابن سعد كان ثقة كثير الحديث يدلس، وكان مرجئا (طبقات ابن سعد: ٦ / ٣٩٢
قال عبد الرحمان بن أبي حاتم:سمعت أبي يقول: أثبت الناس في الأعمش: الثوري، ثم أبو معاوية الضرير، ثم حفص بن غياث، وعبد الواحد بن زياد، وعبدة بن سليمان أحب إلى من أبي معاوية يعنى في غير حديث الأعمش. (الجرح والتعديل: ٧ / الترجمة 1360.
. وقال ابن حجر في التهذيب قال النسائي: ثقة في الأعمش وقال أبو داود: قلت لأحمد كيف حديث أبي معاوية عن هشام بن عروة؟ قال: فيها أحاديث مضطربة يرفع منها أحاديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم (اتہذیب 9 / 139).
ان دونوں راویون پر جرح کے بعد یہ روایت خود بخود ہی ضعیف ہوجاتی ہے پھر اس حدیث(یعنی ابن ماجہ کی حدیث) میں سب کا لفظ موجود نہیں ہے ۔
باقی جو بھی روایات ہیں وہ تقریبن اسی ہی مضمون کی ہیں اور ہم نے جیسا کہ اوپر لکہا کہ اس میں مقام کا بھی تعین نہیں ہے کہیں پر شام لکہا ہے کہیں پر مکہ تو کہیں پر مدینہ بھرحال ہمنے ان روایات کی مناسب تعویل پیش کی ہے اور پھر ابن ماجہ کی روایت تو صحیح نہیں ہونی چاہئے اگر صحیح ہے بھی تو اس میں صرف شکایت کرنے کا لکہا جس کا مطلب ہے وہ حضرت علی رضہ کا قصاص کے مسئلہ میں جو اجتہا د تھا یا انہوں نے قصاص نہیں لیا تھا تو ہو سکتا ہے وہ اس کی ہی
شکایت کرنے لگیں ہوں۔اس میں سب کا لفظ تک نہیں ہے باقی جن بھی کتب مین یہ روایات پائیں جاتی ہیں وہ ایسی ہی ہیں۔
حضرت معاویہ کی طرف سے حضرت علی کی تعریف
شیعہ تو سیدنا معاویہ کے ایسے الفاظ پیش کر نے سے قاصر ہیں جس میں انہوں نے سیدنا علی رضہ کو گالیاں دیں ہوں لیکن ہم یہاں ان کے ایسے الفاظ پیش کرتے ہیں جن میں علی رضہ کی تعریف کی گئی ہے۔
حضرت معاویہ رضہ حضرت علی کی تعریف سنتے تھے اور لوگوں کو فرمائش کرتے کہ آپ حضرت علی کی تعریف سنائیں اگر برائی کرتے تو لوگوں سے ان کی برائی کرنے کو کہتے لیکن ایسی کو ئی روایت نہیں جس میں انہوں نے کسی کو کہا کہ آپ حضرت علی کی برائی کریں ، بلکہ تعریف روایات ہیں اور بھت ہیں میں ایک شیعہ کی روایت نقل کر دیتا ہوں۔
ابن کثیر البدایہ و النہایہ جلد ۷ ص 129 پر حضرت معاویہ کا قول نقل کرتے ہیں
علی رضہ مجھ بہت بہتر تھے میں صرف ان مخالفت قصاص عثمان کے مسئلہ پر کرتا ہوں اگر وہ حضرت عثمان کا قصاص لیں تو شامیوں میں سے سب سے پہلے میں ان کی بیعت کرلوں گا
ضرار بن ضمرہ ایک دفعہ حضرت معاویہ کے پاس گیا تو آپ نے اس کہا حضرت علی کی خوبیاں بیاں کرو اس نے کہا جب آپ تبسم فرماتے تو گویا موتی جھڑتے تھے امیر معاویہ نے کہا کچھ اور بیان کرو ضرار بولا علی رضہ پر اللہ رحم فرمائے وہ کم سونے والے ذیادہ شب بیدار اور رات دن قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے تھے یہ سن کر امیر معاویہ رو پڑے اور فرمانے لگے بس کرو ضرار خدا کی قسم علی رضہ ایسے ہی تھے خدا ابوالحسن پر رحم فرمائے (املی شیخ صدوق ص 371 ، حلیۃ الابرار جلد 1 ص 338)
حافظ ابن کثیر اپنی تاریخ میں لکتے ہیں کہ
ابن جریر بیان کیا ہے کہ جب حضرت معاویہ رضہ کے پاس حضرت علی رضہ کے قتل کی خبر پہنچی تو آپ رونے لگے آپ کی بیوی نے کہا آپ اس پر روتے ہیں حالانکہ آپ نے ان سے جنگ کی ہے آپ نے فرمایا تو ہلاک ہو جائے تجھے معلوم نہیں کہ ہم نے کس قدر علم ، فقہ و فضل کو کھو دیا ہے ۔
ان روایات سے حضرت معاویہ کی طرف سے حضرت علی کی مدح ثابت ہوتی ہے ۔
حضرت معاویہ کے گورنر
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ
حدیث امام احمد
سند أحمد .. أول مسند الكوفيين .. حديث زيد بن أرقم رضي الله تعالى عنه
حدثنا محمد بن بشر حدثنا مسعر عن الحجاج مولى بني ثعلبة عن قطبة بن مالك عم زياد بن علاقة قال :نال المغيرة بن شعبة من علي فقال زيد بن أرقم قد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينهى عن سب الموتى فلم تسب عليا وقد مات
تخریج حدیث امام احمد
اس روایت میں حجاج بن ایوب مولی بنی ثعلبہ ایک مجہوں حال راوی ہے لہذا یہ روایت کسی صحابی پر الزام بازی کے لئے ہر گز استمعال نہیں ہوسکتی۔پھر اس روای سے جو روایت ابن مبارک نے کی ہے وہی سند ہے لیکن وہاں مغیرہ رضی اللہ عنہ کا نام نہیں ہے اس کے علاوہ امام احمد کی حدیث میں نال کے الفاظ ہیں (جس کی معنی شکایت کرنے کی ہیں ) اور اسی سند سے حدیث ابن مبارک میں پھر سب امیر کا الفاظ ہیں چناچہ اسی ہی سند سے روایت کی گئی حدیث میں الفاظ بھی ایک جیسے نہیں ہین اس لئے یہ حدیث خود ہی اختلاف کا شکار ہے اور یہ اس کی ضعف پر دلالت ہے
حدیث مستدرک ، طبرانی وغیرہ
حدثنا أبو بكر محمد بن داود بن سليمان ثنا عبد الله بن محمد بن ناجية ثنا رجاء بن محمد العذري ثنا عمرو بن محمد بن أبي رزين ثنا شعبة عن مسعر عن زياد بن علاقة عن عمه أَنَّ المغيرة بن شعبة نَالَ : مِن عَلِيٌّ فَقَامَ إليه زيد بن أرقم فقال : يا مغيرةُ أَلمْ تَعلم أَن رسولَ اللَّه e : نهى عن سَبِّ الأَمْوَاتِ ؛ فَلِمَ تَسُبَّ عَلِيًّا وقد مَاتَ؟!”.
تخریج حدیث مستدرک وغیرہ
اس حدیث کی سند جو کہ شعبہ عن مسعر ہے اس میں اسی طرح اختلاف ہے
طبرانی حاکم وغیرہ نے اس حدیث تین مختلف سندوں سے بیاں کیا ہے جو یہ ہیں
فَرَوَاهُ عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ ، عن شعبة ، عن مِسعر ، عن زياد بن عِلاَقَة ، عن عَمِّهِ ،[أن] المغيرة بن شعبة
وَرَوَاهُ عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ مرةً ، عن شعبة ، عن مِسعر ، عن زيادٍ ، عن المغيرة
وَرَوَاهُ جَمْعٌ ، عن مِسعر ، عن مَولَى بني ثعلبة ، عن عَمِّ زياد بن عِلاقة (یعنی قطبہ بن مالک)
اس حدیث کے بارے میں دارالقطنی علل 7/126 #1249 میں فرماتے ہیں
حديث شعبة عن مسعر وهم ، والآخران محفوظان
یعنی حدیث شعبہ عن مسعر مین عیب پایا جاتا ہے
اس کے علاوہ سفیان اثوری سے روایت کی گئی حدیث میں سب کے الفاظ نہیں ہین جو کہ صحیح ہے اور اس تین سندوں میں بقول دارقطنی عیب ہے
اس کے علاوہ راوی عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ کے بارے میں تقریب 8/8مین حافظ ابن حجر لکہتے ہیں ذكره ابن حبان فى كتاب ” الثقات ” ، و قال : ربما أخط یعنی ابن حبان نے ان کو ثقہ کہا ہے لیکن یہ بہت غلطیان کرنے والا ہے
زیاد بن علاقہ کے بارے میں حافظ تقریب 3/381 میں لکہتے ہین
سىء المذهب ، كان منحرفا عن أهل بيت النبى صلى الله عليه وآله وسلم
ینعی یہ بدمذہب تھے اور اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف تھے
اس حدیث کی جتنی سندیں مختلف اتنے ہی الفاظ بھی مختلف ہین چناچہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں روایوں کی خطا شامل ہے
حدیث ابن المبارك اپنی المسند میں نقل کرتے ہیں ان سے پھر طبرانی معجم کبیر 5/168 (4975 حاکم ابو نعیم وغیرہ نے ابن مبارک سے یہ روایت کی ہے 1/156(253) مستدرک میں
ابن المبارك، ووكيع، عن محمد بن بشرٍ، عن مِسعر عن الحجَّاج مولى بني ثعلبة ،عن قُطْبة بن مالكٍ،قال: سَبَّ أَمِيرٌ مِنَ الأُمَرَاءِ عَلِيًّا ، فَقَامَ إليه زيد بن أرقم فقال : أَمَا لقد عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ e نهى عن سَبِّ الْمَوْتَى فَلِمَ تَسُبُّ عَلِيًّا وقد مَاتَ
تخریج حدیث ابن مبارک
یہاں روایت شعبہ کے بغیر عن مسعر عن مولی بنی ثعلبہ (حجاج بن ایوب) ہے اس میں پھر مغیرہ رضہ کا نام نہیں ہے بلکہ امیر کا لفظ ہے جس یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ امیر مغیرہ تھے
اور پھر حدیث ابن مبارک کے اسناد بھی ضعیف ہیں کیوں کہ اس میں ایک مجھول راوی ہے یعنی مولی بنی ثعلبہ حجاج بن ایوب .
اس سب یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ روایت راویوں کی خطا ہے اس لئے جتنی اسانید ہیں اتنے اختلاف ہیں پھر بالفرض اس حدیث کو صحیح مان بھی لیں تو امام احمد کی حدیث کے الفاظ ہیں نال مغیرہ یعنی مغیرہ نے شکایت کی یا پھر دوسری حدیث کے الفاظ ہیں سب مغیرہ یعنی مغیرہ نے تنقید کی ۔ ہو سکتا ہے حضرت مغیرہ نے حضرت علی کی طرف سے عثمان رضہ کا قصاص نہ لینے یا پھر فتنہ میں شامل ہونے پر ان پر تنقید کی ہو اور زید بن ارقم رضہ نے انہیں یہ کہکر منع کیا کہ وہ وفات پا چکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ مرنے کے بعد کسی پر تنقید نہ کی جائے اس میں کوئی اسیی بات نہیں ہے کیوں کہ نہ تو اس سے سیدنا علی گستاخی ہوتی اور نہ ان ٘مغیرہ رضہ ان کو گالیاں دے رہے ہیں وہ ان سے اختلاف کر رہے ہیں اس سے وہ گنہگار نہین ہوتے اور پھر حضرت مغیرہ فتنہ کے دوران الگ رہے تھے انہوں نے نہ تو علی رضہ کو سپورٹ کیا تھا نہ ہی معاویہ رضہ کو سپورٹ کیا تھا اس لئے غالب گمان یہی ہے کہ وہ حضرت علی کے بارے میں خاموش ہی رہتے تھے جیسا کہ تاریخ کی کتب میں آتا ہے کہ کوفیون کی شرارتیں وہ برداشت کر لیتے تھے اور ان پر سختی نہیں کرتے تھے
حدیث سنن ابوداود ۔کتاب السنہ باب خلفاء
حدثنا أبو كامل حدثنا عبد الواحد بن زياد حدثنا صدقة بن المثنى النخعي حدثني جدي رياح بن الحارث قال كنت قاعدا عند فلان في مسجد الكوفة وعنده أهل الكوفة فجاء سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل فرحب به وحياه وأقعده عند رجله على السرير فجاء رجل من أهل الكوفة يقال له قيس بن علقمة فاستقبله فسب وسب فقال سعيد من يسب هذا الرجل قال يسب عليا قال ألا أرى أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يسبون عندك ثم لا تنكر ولا تغير
"ریاح بن حارث کھتے ہیں کہ ہم ایک شخص کے ساتھ کوفہ کی جامع مسجد میں بیٹھے تھے اتنے میں سعید بن زید رضہ آئے ان کا استقبال کرنے کے بعد ان کو بٹھایا گیا اس دوران اہل کوفہ میں سے ایک شخص جس کو قیس بن علقمہ کہتے ہیں برا بھلا کہنے لگا۔سعید بن زید رضہ کے معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ حضرت علی رضہ کو برا بھلا کہ رہا ہے راوی کہتا ہے کہ جس شخص کے ساتھ ہم بیٹھے تھے اس پر سعید بن زید نے ان کو زجروتوبیخ کی اور فرمایا کہ یہ سب آپ کے سامنے ہو رہا اور ان کو روکتے نہیں”
یہ ابی داود کی روایت ہے اس میں میزبان کا نام نہیں لیکن مسند امام احمد کے مطابق یہ حضرت مغیرہ ہیں۔
۱)اس روایت میں حضرت معاویہ کا دور تک زکر نہیں تو ان پر اس روایت کی وجہ سے الزام لگانا جہالت ہے
۲) ابی داود میں زکر نہیں کہ میزبا کون تھے تو حضرت مغیرہ پر بہی الزام نہیں لگتا وہ کو ئی اور بہی ہوسکتا ہے۔بلکہ گمان یہی ہے کیوں کہ حضرت مغیرہ گورنر تھے انہیں راوی جانتا ہوگا۔
۳) مسند امام احمد میں حضرت مغیرہ کا نام آیا ہے ۔ پر حضرت مغیرہ کے بارے میں یہ واضع لکھا ہے کہ وہ کوفہ میں لوگوں سے نرمی برتتے تھے۔یہ شخص جس نے برا بھلا کہا قیس بن علقمہ تھا اور یہ خوارج میں سے تھا ۔ جس طرح حضرت مغیرہ شیعان علی سے نرمی برتتے تھے بلکل ویسے دوسروں کے ساتھ بھی نرمی کرتے تھے
روایت تاریخ طبری کے ص ۱۸۷ سے ۱۸۸ تک جلد ۴
ابو مخنف کی روایت
”
حضرت معاویہ نے جب حضرت مغیرہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو دوسری باتوں کے ساتھ ان کو اس بات کی وصیت کی کہ حضرت علی اور ان کے اصحاب کو برا بھلا کہنا نہیں چھوڑنا اور حضرت عثمان اور ان کے اصحاب کی تعریٖف کرنا۔ آگے راوی کہتا ہے حضرت مغیرہ بہیت اچھے آدمی تھے( کیوں کہ شیعوں سے نرمی برتتے تھے اس لئی راوی نے کہا آدمی اچھے تھے) لیکن وہ حضرت علی کو برا بھلا کہنا نہیں چھوڑتے تھے۔”
اسی صفحہ پر اسی روایت کے آگے لکہا ہے کہ وہ کیا کہتے تھے
"حضرت مغیرہ کھڑے ہوئے حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں جو کہنا تھا کہا ان کے الفاظ یہ تھے ۔یا اللہ عثمان بن عفان پر رحم فرما اور ان سے درگزر فرما اور ان کے بہتر عمل کی انہیں جزا دے کیونکہ انہوں نے تیرے کتاب پر عمل کیا تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اور ہماری بات ایک کی ہمارے خون کو بچایا اور مظلوم ہو کر قتل ہو گئے۔یا اللہ ان کےدوستوں ان کے قصاص کا مطالبہ کرنے والوں پر رحم فرما اور انکے قاتلوں کے لئے بد عا کرتے تھے۔”
اس میں نہ تو حضرت علی کو برا کہنے کی بات ہے اور نہی ان کے ساتھیوں کو۔ قاتلوں کو بد دعا کرتے تھے ۔ حضرت علی نعوذ باللہ حضرت عثمان کے قاتل تو نہیں تھے کہ یہ بد دعا ان کے لئے ہو لیکن ان لوگوں کے لئے تھی جو خود کو شیعہ علی کھتے تھے کیوں کی یہی لوگ حضرت عثمان کے قتل میں ملوث تھے اس لئے جب حضرت مغیرہ یہ الفاظ کہتے تو یہ لوگ بھڑک جاتے اور کہتے ” تم مجرموں کے لئے دعا کرتے ہو اور نیکوں کو بد دعا کرتے ہو۔ ” حضرت مغیرہ کے استمال کئے گئے الفاظ کا مطلب آپ خود جائزہ لیں کیا ان سے یہ تاثر ملتا ہے جو شیعہ راویوں نے لیا ہے۔
وضاحت:
” حضرت مغیرہ کھڑے ہوئے حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں جو کہنا تھا کہا”
اس کے الفاظ آگے راوی نے خود بتا دیئے یہ روی کا کہنا ہے کیوں کہ اکثر لوگ پھلے جملے کو پڑہ کر الزام تراشی کردیتے ہیں حالانکہ راوی نے خود ہی آگے الفاظ نقل کئے ہیں
، مطلب یہ کہ حضرت مغیرہ رضہ جب حضرت عثمان رضہ کی تعریف کرتے اور قاتلوں کے لئے بد دعا کرتے ، اسے راوی نے ” حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں جو کہنا تھا کہا” ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے ۔
اس روایت میں راوی شیعہ ہیں
ابو مخنف شیعہ خبیث ہے
دوسرا ھشام کلبی ہے جس کے بارے میں تمام علماء رجال کہتے ہیں یہ امامی شیعہ اور جہوٹا تھا ۔
فضیل بن خدیج
یہ اشتر کے غلام سے روایت کرتا ہے اور ابن حجر نے اسے مجہول کہا ہے۔
مروان بن الحکم
یہ حضرت عثمان کے عمزاد تھے ان کے والد الحکم حضرت عثمان کے حقیقی چچا تھے ۔ یہ حضرت عثمان کے کاتب تھے اور انہی کے قتل کے لئے باغیوں نے حضرت عثمان سے سے مطالبہ کیا تھا ۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جب حضرت معاویہ کے مدینہ میں گورنر تھے تو حضرت علی کو برا بھلا کہتے تھے اور آپ کو ابو تراب کہ کر پکارتے تھے حالانکہ بیچارے کو معلوم نہیں تھا کہ یہ لقب حضرت علی کو حضو علیہ السلام نے خود دیا ہے پھر راویون نے تو یہاں تک غلو کیا ہے کہ یہ اگر حسنین کو مسجد میں نہ دیکھتے تو ان کے گھر جا کر حضرت علی کو برا بھلا کہ آتے لیکن یہ سب صرف غلو ہے
صحیح بخاری میں باب مناقب علی میں ہے کہ
” ان رجل جاء الی سھل بن سعد فقال ھذا فلان لامیر المدینہ یدعو علیا عندالمنبر قال فیقول ماذا قال یقول لہ ابا تراب فضحک وقال واللہ مااسماء الانبی صلی اللہ علیہ وسلم وما کان لہ اسم احب الیہ منہ۔
ایک شخص حضرت سہل بن سعد کے پاس آیا اور کہا کہ امیر مدینہ حضرت علی کی منبر پر برائی کرتا ہے سہل رضہ نے پوچھا کہ کیا کہتا ہے اس نے کہا کہ انہیں ابو تراب کہتا ہے سہل رضہ ہنس پڑے کہا کہ یہ نام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا تھا ان کے لئے انہیں یہ سب سے پیارہ تھا۔”
یہ حدیث مختلف جگہوں پر مختلف طریق سے حضرت سہل سے روایت ہے لیکن مفہوم بلکل یہی ہے
اس میں کہیں بھی حضرت علی کو گالیاں دینے کا زکر نہیں ہاں حضرت سہل سے پو چھنے والے نے لفظ ابو تراب (یعنی مٹی کا باپ) کو بھی برا ہی سمجھا (یعنی سب سے تعبیر کیا) تبھی آپ کو اکہ شکایت کی کیوں کہ اس کو پتا نہیں تھا کہ یہ حضرت علی کا پیارہ نام جو رسول اللہ نے خود رکہا تھا یعنی یہ ان کی مناقبت میں سے ہے تبھی امام بخاری نے اس کو ٘مناقب علی میں زکر کیا ۔
اور سہل بن سعد رضہ ۸۸ یا ۹۰ ھجری میں وفات کر گئے ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد ۸ زکر وفات سہل بن سعد ، التہزیب الکمال میں لکہا ہے کہ صحابہ میں یہ آخری وفات کرنے والے ہیں ) مطلب حضرت سہل بن سعد سے جو احادیث سب علی رضہ کے بارے میں ہیں وہ حضرت معاویہ نہیں بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بنی مروان کے دور کی ہوںوہ بھی حضرت علی رضہ کو ابا تراب کہتے تھے جسی ناواقف لوگ برائی (سب) سے تعبیر کرتے تھے۔
اس سے ایک بات واضع ہوتی ہے کہ راویوں نے جو اکثر بھر مار کی ہے حضرت علی کو برا بھلا کھنے کی وہ لفظ ابو تراب کی وجہ سے ہے۔ جس بعد کے لوگوں نے گالی سمجھ لیا۔
شیعوں کو چیلینج
ہم یہاں شیعوں کو چلینج کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ کے حضرت علی کے بارے میں کوئی بھی ایسے الفاظ یا خطبہ صحیح روایات سے پیش کریں جس میں سیدنا علی رضہ کو گالیاں ہو یا پھر آپ کی بیعزتی کی گئی ہو یا پھر آپ پر سیدنا معاویہ نے معاذاللہ لعنت کی ہو آپ کے کسی گورنر کا ایسا خطبہ جس میں سیدنا علی رضہ کو جی بھر کر برا بھلا کہا گیا ہو۔
اعتراض : چلو ہم مان لیتے ہیں کہ حضرت معاویہ تنقید کرتے تھے لیکن حضو ر علیہ اسلام نے تو فرمایا ہے کہ جس نے علی رضہ پر تنقید کی اس نے مجھ پر تنقید کی۔
روایت ایک
مستدرک حاکمج س 122 3
احمد بن كامل القاضى ثنا محمد بن سعد العوفي ثنا يحيى بن ابى بكير ثنا اسرائيل عن ابي اسحاق عن ابي عبد الله الجدلي قال دخلت على ام سلمة رضى الله عنها فقالت لى ايسب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فيكم فقلت معاذ الله أو سبحان الله أو كلمة نحوها فقالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول من سب عليا فقد سبني
یعنی ام سلمہ نے کہا کہ تمہارے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کیا جاتا ہے میں نے کہا معاذاللہ سبحان اللہ کیا کہتی ہیں آپ انہوں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا تھا کہ جس نے علی کو سب کیا اس نے مجھ کو سب کیا
اس روایت میں محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية بن سعد بن جنادة العوفی جس کے بارے میں خطیب کہتے ہین کہ یہ ضعیف ہین حدیث مین ،
دوسرے راوی ابی اسحاق عمرو بن عبد الله بن عبيد ہیں جس کے ابن عینیہ کہتے ہیں یہ تشیع کی طرف ہیں اور مدلس ہیں ابن صلاح کہتے ہیں کہ یہ غلطیاں کرتے ہین ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ مدلس ہیں اور یہ یہاں پر ابی عبداللہ سے عن سے روایت کر رہے ہیں اس لئے تدلیس ممکن ہے یہاں پر ۔
تیسرے راوی ابی عبداللہ الجدلی ہین جس کے بارے مین ابن سعد کہتے ہیں کہ حدیث میں ضعیف ہیں اور ان میں شد ید شیعت پائی جاتی ہے امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ حاسد شیعہ ہے حافظ ابن حجر تہذیب میں کہتے ہیں کہ حدیث میں ضعیف ہیں اور شیعت میں سخت ہیں مختار کی پولیس کے رکن تھے۔
دوری روایت
أبو جعفر احمد بن عبيد الحافظ بهمدان ثنا احمد بن موسى بن اسحاق التميمي ثنا جندل بن والق ثنا بكير بن عثمان البجلى قال سمعت ابا اسحاق التميمي يقول سمعت ابا عبد الله الجدلي يقول حججت وانا غلام فمررت بالمدينة وإذا الناس عنق واحد فاتبعتهم فدخلوا على ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وآله فسمعتها تقول يا شبيب بن ربعى فأجابها رجل جلف جاف لبيك يا امتاه قالت يسب رسول الله صلى الله عليه وآله في ناديكم قال وانى ذلك قالت فعلي بن ابي طالب قال انالنقول اشياء نريد عرض الدنيا قالت فاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول من سب عليا فقد سبنى ومن سبنى فقد سب الله تعال
جندل بن والق
البذار کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں ہیں ، ابو زرعہ الرازی کہتے ہیں کہ حدیث کو بگاڑ دیتے ہیں ابن حجر کہتے ہیں کہ غلطیاں کرتے ہیں اور حدیث کو بگاڑ دیتے ہیں امام مسلم کہتے ہیں کہ متروک الحدیث (ترک کرنے کے لائق ہیں)
بکیر بن عثمان یہ راوی مجہوں الحال ہیں
ابو عبداللہ الجدلی کی بارے میں آپ پہلی روایت میں پڑھ آئے ہیں کہ اس کی حدیث حجت کیسے ہوسکتی ہے جو کہ شیعت میں شدید بھی ہو اور بغض رکہنے والا بھی ہو۔
پھر حضرت معاویہ کی طرف ایسی کوئی روایت ثابت نہیں جس میں انہون نے علی رضہ کو سب کیا ہو۔یہ روایت تقریبن ہر جگہ پر ابو عبداللہ الجدلی سے ہی روایت ہے جس کا حاسد شیعہ ہو نا سورج کی طرح صاف ہے۔
https://defenseofsahaba.wordpress.com/2013/07/16/سب-و-شتم-کی-حقیقت/ Back to Index
.....................................
یزید کی نامزدگی
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر جو آخری بڑا اعتراض کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا۔ ان پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے حضرت حسین، ابن عمر، ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے اکابر صحابہ کے لائق بیٹوں کے ہوتے ہوئے اپنے نالائق بیٹے کو خلافت کے لیے نامزد کیا۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر خانہ جنگی کی آگ بھڑک اٹھی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ایسا واقعہ ہے جس کے بارے میں ایک خاص انداز میں سوگ کو رواج دے دیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں ایک ایسی فضا بنا دی گئی ہے کہ جو شخص بھی عقل سے تجزیہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسے "دشمن اہل بیت" کا خطاب دے دیا جاتا ہے۔ ایک اور فریق ایسا موجود ہے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید کے دفاع میں اس حد تک چلا جاتا ہے کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مطعون کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ دونوں رویے درست نہیں ہیں۔ جب تک واقعات کو جذباتی رنگ سے دیکھا جائے، ان کی حقیقت درست معلوم نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم تھوڑی دیر کے لیے اپنے جذبات کو ایک طرف رکھ کر ٹھنڈے دل سے تجزیہ کریں اور اچھی طرح تجزیہ کر کے ہی کوئی رائے قائم کریں۔
کیا سانحہ کربلا کی ذمہ داری حضرت معاویہ پر ہے؟
اس بات میں شک نہیں ہے کہ یزید کے دور میں سانحہ کربلا ہوا اور اس کے بعد پہلے مدینہ اور پھر مکہ میں بغاوت کی آگ بھڑکی اور ان واقعات میں یزید سے فاش غلطیاں سرزد ہوئیں۔ لیکن یہ سب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ہوا۔ جب کوئی خلیفہ دوسرے کو نامزد کرتا ہے، تو اس وقت وہ اپنے دور کے حالات کے لحاظ سے تجزیہ کرتا ہے اور مستقبل کی صورتحال کا اندازہ کرتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے۔ ہم اپنی زندگی میں عام طور پر دیکھتے ہیں کہ ہم پوری نیک نیتی سے کوئی فیصلہ کرتے ہیں مگر بعد کے حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ وہ فیصلہ غلط ثابت ہوتا ہے اور ہمیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ بعد کے کسی غلط واقعے کی بنیاد پر ماضی کے کسی فیصلے کے بارے میں سبق تو سیکھا جا سکتا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ فیصلہ کرتے وقت نیت میں کوئی کھوٹ تھا۔
اس وجہ سے بعد کے واقعات کی بنیاد پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو طعنہ دینا یا آپ پر تہمت لگانا جائز نہیں ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے 56/676 میں جب یہ نامزدگی فرمائی تو اس وقت واقعہ کربلا کو ہونے میں ابھی پانچ برس باقی تھے۔ آپ کو قطعاً یہ امید نہ تھی کہ اس نوعیت کا واقعہ پیش آ جائے گا۔
کیا یزید کی نامزدگی کی تحریک حضرت مغیرہ بن شعبہ نے شروع کی؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یزید کی نامزدگی کی تحریک حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے شروع کی اور انہوں نے خالصتاً اپنے ذاتی مفاد میں یہ کام کیا تاکہ خلیفہ ان سے خوش ہو جائیں۔ واضح رہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ان جلیل القدر صحابہ میں ہیں جو بیعت رضوان میں شامل تھے اور ان کے بارے میں اللہ تعالی نے یہ فرما دیا ہے :
"یقیناً اللہ ان اہل ایمان سے راضی ہو چکا ہے جنہوں نے درخت کے نیچے آپ کی بیعت کی تھی۔ وہ اس بات کو جانتا تھا کہ ان کے دلوں میں کیا ہے۔ اس نے ان کے دلوں میں سکون نازل کر دیا اور انہیں قریبی فتح (مکہ) تک پہنچا دیا۔" (الفتح 48:18)
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ چونکہ طویل عرصہ تک کوفہ کے گورنر رہے جو کہ باغی تحریک کا مرکز تھا اور آپ نے نہایت حکمت و دانش سے باغی تحریک کو بغیر کسی خون خرابہ کے پنپنے نہ دیا۔ آپ نے باغی تحریک کے خلاف کوئی فوجی کاروائی نہ کی بلکہ نہایت ہی پیار اور محبت سے باغیوں کا ذہن تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ ان کاوشوں کے خاطر خواہ نتائج نکلے اور کثیر تعداد میں باغیوں نے اپنے تحریک کو چھوڑ کر مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو قبول کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ باغیوں کو حضرت مغیرہ سے خاص طو رپر بغض ہے اور ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ آپ کو نہایت ہی گیا گزرا مفاد پرست سیاستدان ثابت کریں۔ اس بیک گراؤنڈ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب ہم اس روایت کا مطالعہ کرتے ہیں جن کے مطابق آپ نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے یزید کی ولی عہدی کی تجویز پیش کی۔طبری بیان کرتے ہیں:
حدثني الحارث، قال: حدثا علي بن محمد، قال: حدثنا أبو إسماعيل الهمداني وعلي بن مجاهد، قالا: قال الشعبي: اس سال (56/676) میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو ولی عہد کیا اور لوگوں سے اس کے لیے بیعت لی۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ کے پاس آ کر بڑھاپے کی شکایت کی اور (کوفہ کی گورنری سے ) استعفی دے دیا۔ حضرت معاویہ نے استعفی منظور کر لیا اور سعید بن عاص رحمہ اللہ کو اس خدمت پر مقرر کرنا چاہا۔ یہ خبر ابن خنیس کو ملی جو کہ مغیرہ کے سیکرٹری تھے، تو یہ سعید بن عاص کے پاس پہنچے اور انہیں بات بتا دی۔ سعید کے پاس ربیع یا ربیعہ خزاعی بیٹھے تھے، انہوں نے مغیرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: "مغیرہ! میں سمجھا ہوں کہ امیر المومنین آپ سے ناراض ہیں۔ میں نے آپ کے سیکرٹری ابن خنیس کو سعید بن عاص کے پاس دیکھا ہے اور وہ کہہ رہے تھے کہ امیر المومنین انہیں کوفہ کا گورنر مقرر کرنے والے ہیں۔"
مغیرہ نے کہا: "اسے تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ مغیرہ پھر اپنے عہدے پر بڑی قوت سے واپس آنے والے ہیں۔ ٹھہرو! میں یزید کے پاس جاتا ہوں۔" پھر مغیرہ نے یزید کے پاس جا کر بیعت لینے کا ذکر کیا اور یزید نے اپنے والد سے یہ بات کی۔ حضرت معاویہ نے پھر مغیرہ رضی اللہ عنہما ہی کو امارت کوفہ پر واپس بھیجا اور حکم دیا کہ وہ یزید کی بیعت کی کوشش کریں۔[1]
طبری نے اس واقعے کو 56/676 کے باب میں نقل کیا ہے۔ یہی طبری اس سے پہلے 51/671 کے باب میں نقل کرتے ہیں:
41/661 میں مغیرہ (بن شعبہ) کوفہ کے گورنر بنے اور 51/671 میں انہوں نے وفات پائی۔[2]
اس سال 51/671 میں حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد زیاد بن ابی سفیان کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا جن کے گورنری سنبھالتے ہی حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں نے بغاوت کی اور اس کی پاداش میں قتل کیے گئے۔ اس کی تفصیل کا مطالعہ ہم پہلے کر چکے ہیں اور اس واقعے کے حقیقی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ اگر 51/671 میں وفات پا چکے تھے تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ 56/676 میں آپ نے استعفی دیا اور پھر استعفی کو واپس کروانے کے لیے یزید کی ولی عہدی کی تحریک شروع کر دی؟ کیا یہ سب کام آپ نے اپنی وفات کے پانچ سال بعد دنیا میں دوبارہ آ کر کیے؟
معترضین کہہ سکتے ہیں کہ طبری نے غلطی سے اس واقعے کو 56/676 کے باب میں نقل کر دیا ہے، دراصل یہ واقعہ آپ کی وفات سے پہلے کہیں 50-51/670-671 میں پیش آیا ہوگا۔ اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس روایت میں داخلی اور خارجی تضادات موجود ہیں۔ روایت کے مطابق حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے استعفی میڈیکل گراؤنڈز پر دیا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں معزول نہ کیا تھا۔ اگر حضرت معاویہ انہیں معزول کرتے، پھر تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ دوبارہ بحالی کے لیے ایسی کوشش کی جا سکتی ہے۔ خود استعفی دے کر پھر بحالی کی کوشش ایک نامعقول بات ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی صحت دوبارہ بہتر ہو گئی تھی، اس وجہ سے انہوں نے اپنی بحالی کی تحریک شروع کی تو یہ بات بھی نامعقول ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ براہ راست حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے درخواست کر لیتے اور ان کی طویل سابقہ خدمات کی وجہ سے حضرت معاویہ بھی انہیں مقرر کر دیتے۔ اس کے لیے یزید کی نامزدگی کی تحریک پیدا کرنے کی حضرت مغیرہ کو کوئی ضرورت نہ تھی۔
نامزدگی کی ضرورت کیا تھی؟
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو نامزدگی کی ضرورت کیا پیش آئی؟ وہ یہ بھی کر سکتے تھے کہ معاملے کو مسلمانوں کے مشورے پر چھوڑ دیں۔ یقیناً آپ ایسا کر سکتے تھے لیکن مسئلہ یہ درپیش تھا کہ کوفہ میں باغی تحریک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھی۔ اگرچہ حضرت معاویہ اور زیاد رضی اللہ عنہما نے حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کاروائی کی تھی، جس سے یہ تحریک وقتی طور پر دب گئی تھی، لیکن راکھ میں چنگاریاں موجود تھیں اور آپ کو یہ نظر آ رہا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد یہ چنگاریاں دوبارہ آگ کو بھڑکا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو باہمی جنگ و جدال سے بچانے کے لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ اقدام کیا۔ یہ بات درست ہے کہ آپ کا اندازہ صحیح ثابت نہ ہوا اور یہ خانہ جنگی ہو کر رہی لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے امت کی خیر خواہی کے لیے یہ نامزدگی فرمائی۔
نامزدگی کے لیے یزید ہی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نامزدگی ہی کرنا تھی اور اس کا مقصد امت کو جنگ و جدال سے بچانا تھا تو پھر اس کے لیے یزید ہی کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے جن میں جلیل القدر صحابہ بھی تھے، ان لوگوں میں سے کسی کو نامزد کیوں نہ کر دیا گیا؟
اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں اس زمانے یعنی 56/676 کی صورتحال کو دیکھنا پڑے گا۔ جیسا کہ سن سے ہی ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو اب 45 برس گزر چکے تھے۔ سب کے سب اکابر صحابہ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھی تھے، وفات پا چکے تھے۔ صرف ایک حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ زندہ تھے جو کہ نہایت ہی ضعیف العمر ہو چکے تھے۔ حضور کی وفات کے وقت جو صحابہ نوجوان تھے، وہ بھی اب ستر کے پیٹے میں تھے۔ ہاں آپ کی وفات کے موقع پر جو صحابہ بچے تھے، وہ اب پچاس ساٹھ سال کی عمر میں تھے اور ان لوگوں میں ابن عمر، ابن عباس، حسین بن علی اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم نمایاں تھے۔ اب ہم ان تمام بزرگوں کے حالات کو تفصیل سے دیکھتے ہیں۔
1۔ سب سے پہلے بزرگ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تھے جو فاروق اعظم کے بیٹے تھے اور ان کی پرورش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوئی تھی۔ آپ کو سیاسی سرگرمیوں سے دلچسپی نہیں تھی بلکہ اس کی بجائے آپ اپنا زیادہ وقت عبادت اور تعلیم کے میدان میں گزارتے تھے۔ کئی مرتبہ آپ کو خلیفہ بنانے کی تجویز پیش ہوئی تو آپ نے اسے مسترد کر دیا تھا۔
2۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی پبلک ایڈمنسٹریشن کے میدان کے آدمی نہ تھے بلکہ ان کی سرگرمیوں کا میدان علمی تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں آپ بصرہ کے گورنر رہ چکے تھے لیکن اب طویل عرصہ سے ایڈمنسٹریٹو معاملات سے دور تھے۔ آپ نے مکہ میں ایک بہترین تعلیمی اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کر رکھا تھا اور یہی پراجیکٹ آپ کی زندگی کا اب مشن بن چکا تھا۔ اس ادارے میں آپ نہایت ذہین و فطین طلباء کو مستقبل میں امت کی فکری قیادت کے لیے تیار کر رہے تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسی ادارے نے وہ جلیل القدر عالم پیدا کیے جو اگلی نسل میں مسلمانوں کے چوٹی کے فکری و مذہبی راہنما بنے۔
3۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ایک نہایت جلیل القدر بزرگ اور عالم تھے۔ آپ ہجرت نبوی کے بعد پیدا ہونے والے پہلے بچے تھے اور خلفاء راشدین اور خود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اہم خدمات انجام دے چکے تھے۔ آپ کا معاملہ یہ تھا کہ آپ کا اثر و رسوخ صرف مکہ اور مدینہ تک محدود تھا اور آپ کو پورے عالم اسلام میں وہ اثر و رسوخ حاصل نہ تھا جو کہ خلیفہ کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں جب آپ نے اپنی خلافت کا اعلان کیا تو عراق اور شام کے لوگوں نے آپ کے خلاف بغاوت کر دی۔
4۔ چوتھے شخص حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما تھے جو کہ منصب خلافت کے لیے نہایت اہل تھے اور عالم اسلام میں آپ کی شخصیت کو مقبولیت حاصل تھی۔ افسوس کہ آپ کے معاملے میں عراق کے باغیوں نے ایک ایسا منصوبہ بنا رکھا تھا کہ جس کے باعث یہ شدید خطرہ لاحق تھا کہ یہ لوگ آپ کے ساتھ وہی معاملہ کریں گے جو اس سے پہلے آپ کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر چکے تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں عراق ایک مشکل صوبہ تھا۔ یہاں ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی باغی تحریک کے خلاف کاروائی کی گئی تھی اور اس کے زخم ابھی تازہ تھے۔ باغی زخمی سانپ کی طرح بل کھا رہے تھے اور ان کے سینے حکومت کے خلاف بغض و عناد سے بھرے ہوئے تھے۔ ان باغیوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہمدردی نہیں تھی مگر اپنے اقتدار کے لیے یہ ان حضرات کو بطور سیڑھی استعمال کرنا چاہتے تھے۔ ان کے سامنے اپنے پیشروؤں کا وہی ماڈل تھا کہ خلیفہ کو کٹھ پتلی بنا کر اس کے پردے میں اپنا اقتدار قائم کیا جائے۔ اس کے لیے ان باغیوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو نظر میں رکھا ہوا تھا اور اس سے پہلے آپ کو کئی مرتبہ ترغیب دلا چکے تھے کہ آپ بغاوت کے لیے اٹھیں تو یہ ان کا ساتھ دیں گے لیکن حضرت حسین نے انہیں خاموش کر دیا تھا۔ حجر بن عدی کی جو روایت ہم نے اوپر درج کی ہے، اسے یہاں دوبارہ تازہ کر لیجیے:
(صلح کے بعد) حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی ملاقات سب سے پہلے حجر بن عدی سے ہوئی۔ اس نے حضرت حسن کو ان کے اس فعل (صلح) پر شرم دلائی اور دعوت دی کہ وہ (حضرت معاویہ سے) دوبارہ جنگ شروع کریں اور کہا: "اے رسول اللہ کے بیٹے! کاش کہ میں یہ واقعہ دیکھنے سے پہلے مرجاتا۔ آپ نے ہمیں انصاف سے نکال کر ظلم میں مبتلا کر دیا۔ ہم جس حق پر قائم تھے، ہم نے وہ چھوڑ دیا اور جس باطل سے بھاگ رہے تھے، اس میں جا گھسے۔ ہم نے خود ذلت اختیار کر لی اور اس پستی کو قبول کر لیا جو ہمارے لائق نہ تھی۔ "
حضرت حسن کو حجر بن عدی کی یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے فرمایا : ’’میں دیکھتا ہوں کہ لوگ صلح کی طرف مائل ہیں اور جنگ سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ کیوں اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ میں لوگوں پر وہ چیز مسلط کروں جسے وہ ناپسند کرتے ہیں۔ میں نے خاص طور پر اپنے شیعوں کی بقا کے لیے یہ صلح کی ہے۔ میری رائے کہ جنگوں کے اس معاملے کو مرتے دم تک ملتوی کر دیا جائے۔ یقیناً اللہ ہر روز نئی شان میں ہوتا ہے۔‘‘
اب حجر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا، اس کے ساتھ عبیدہ بن عمرو بھی تھا۔ یہ دونوں کہنے لگے: "ابو عبداللہ! آپ نے عزت کے بدلے ذلت خرید لی۔ زیادہ کو چھوڑ کر کم کو قبول کر لیا۔ آج ہماری بات مان لیجیے، پھر عمر بھر نہ مانیے گا۔ حسن کو ان کی صلح پر چھوڑ دیجیے اور کوفہ وغیرہ کے باشندوں میں سے اپنے شیعہ کو جمع کر لیجیے ۔ یہ معاملہ میرے اور میرے ساتھیوں کے سپر د کر دیجیے۔ ہند کے بیٹے (معاویہ) کو ہمارا علم اس وقت ہو گا جب ہم تلواروں کے ذریعے اس کے خلاف جنگ کر رہے ہوں گے۔‘‘ حضرت حسین نے جواب دیا: "ہم بیعت کر چکے اور معاہدہ کر چکے۔ اب اسے توڑنے کا کوئی راستہ نہیں۔" [3]
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی انٹیلی جنس کا نظام بہت مضبوط تھا اور وہ یقینی طور پر ان باغیوں کے عزائم سے باخبر تھے۔ اگر وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو نامزد کر دیتے تو اس بات کا پورا خطرہ موجود تھا کہ یہ باغی اقتدار پر قابض ہو جائیں گے۔ اہل شام ان کی مخالفت کریں گے اور خانہ جنگی دوبارہ شروع ہو جائے گی۔
اس زمانے کے سیاسی حالات میں ایک اور بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اہل شام اور بنو امیہ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سوا اور کسی خاندان کی حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ کسی بھی اور خاندان سے اگر خلیفہ بنتا تو اس بات کا غالب امکان موجود تھا کہ شام میں بغاوت ہو جائے گی۔ شام چونکہ قیصر روم کی سرحد پر واقع تھا، اس وجہ سے وہاں کسی بھی خانہ جنگی کا رسک نہیں لیا جا سکتا تھا کیونکہ قیصر ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا اور اس سے پہلے بھی بار بار حملے کر چکا تھا۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ سن 64/684 میں یزید کی وفات کے فوراً بعد اہل شام میں اختلاف پیدا ہو گیا اور وہ ایک سال تک کسی خلیفہ پر متفق نہ ہو سکے تھے۔ علم عمرانیات کے بانی علامہ ابن خلدون (732-808/1332-1405) جیسے مورخ نے بھی یہی بات کہی ہے۔ لکھتے ہیں:
حضرت معاویہ نے یزید کو ولی عہد بنایا کیونکہ اگر یزید ولی عہد نہ ہوتا تو مسلمانوں میں پھوٹ پیدا ہونے کا ڈر تھا۔ کیونکہ بنو امیہ اپنے سوا کسی دوسرے کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اگر کسی غیر کو ولی عہد بنا دیا جاتا تو وہ اسے مانتے نہیں اور اس طرح اتحاد میں خلل آتا، اگرچہ مقرر شدہ ولی عہد کے بارے میں ولی عہدی سے قبل اچھا ہی گمان ہوتا۔ [4]
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی تھا اور وہ یہ کہ حضرات حسین، ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم پبلک ایڈمنسٹریشن سے کافی عرصہ سے دور تھے اور انہوں نے اپنی پوری توجہ امت کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ نفس کی طرف وقف کر دی تھی۔ اس وجہ سے انہیں امور حکومت کا تجربہ نہ تھا۔ اس کے برعکس یزید امور حکومت کو انجام دینے میں مسلسل حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا تھا اور اس نے تجربہ حاصل کر رکھا تھا۔ موجودہ دور میں بھی اصول یہی ہے کہ تجربہ کار افراد ہی کو ذمہ داری دی جاتی ہے۔ اگر ہمیں مثلاً اپنا مکان ہی بنوانا ہوتو ہم کس سے بنوائیں گے: ایک انتہائی نیک اور افضل بزرگ سے جنہیں مکان بنوانے کا تجربہ نہ ہو یا پھر ایک ایسا انجینئر جو کہ تعمیرات کا ماہر ہو، اگرچہ وہ فضیلت اور بزرگی میں ان بزرگ کے مقام پر نہ ہو۔
یہی وہ فیکٹرز تھے جن کی وجہ سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو نامزد کیا۔ ہم ایک بار پھر واضح کر دیں کہ اس وقت نہ تو سانحہ کربلا ہوا تھا اور نہ ہی بعد کی خانہ جنگیاں سامنے آئی تھیں۔ ہمارے ہاں لوگ صورتحال کا تجزیہ کرتے وقت سانحہ کربلا کی وجہ سے جذباتی ہو جاتے ہیں لیکن 56/676 میں سانحہ کربلا کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ آیا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پورے خلوص نیت کے ساتھ اپنے زمانے کے حالات کو دیکھتے ہوئے بہترین فیصلہ کیا اور سوائے دو حضرات کے امت مسلمہ کی غالب اکثریت، جس میں صحابہ کرام بھی تھے، نے آپ کے اس فیصلے کو قبول کیا۔ بعد میں حالات بدل گئے اور یہ فیصلہ درست ثابت نہ ہوا لیکن اس معاملے میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعنہ زنی ایک نہایت ہی غلط حرکت ہے۔
واضح رہے کہ اس تفصیل کے بیان کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم یزید کے غلط اقدامات کی حمایت کرنا چاہتے ہیں۔ یزید نے اپنے دور میں جو کچھ کیا، اس کا وہ ذمہ دار ہے۔ یہاں ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے شوری کے اصول کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ امت کے اتفاق و اتحاد کے لیے یہ اقدام کیا اور اس اقدام کی امت کی غالب اکثریت نے تائید کی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جن حضرات نے اختلاف رائے کیا، انہوں نے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نیت پر کسی شک کا اظہار نہیں کیا بلکہ محض اپنا اختلاف بیان کیا۔ چودہ سو سال بعد اب اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ حضرت معاویہ اور ان تمام بزرگوں کے دل میں جھانک کر دیکھ سکتا ہے اور آپ کی نیت سے آگاہ ہو سکتا ہے، تو پھر یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ جو چاہے رائے قائم کرے لیکن اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اپنی اس رائے کے لیے اسے روز قیامت اللہ تعالی کے ہاں جواب دہ ہونا پڑے گا۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی نامزدگی کے بعد جمعہ کے خطبے میں منبر پر جو دعا کی، اس سے ان کے خلوص کا اندازہ ہوتا ہے:
اے اللہ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ میں نے اسے (یزید) کو اس لیے نامزد کیا ہے کہ وہ میری رائے میں اس کا اہل ہے تو اس ولایت کو اس کے لیے پورا فرما دیجیے۔ اور اگر میں نے اس لیے اس کو محض اس لیے ولی عہد بنایا ہے کہ مجھے اس سے محبت ہے تو اس ولایت کو پورا نہ فرمایے۔ [5]
اے اللہ! اگر میں نے یزید کو اس کی اہلیت دیکھ کر ولی عہد بنایا ہے تو اسے اس مقام تک پہنچا دیجیے جس کی میں نے اس کے لیے امید کی ہے اور اس کی مدد فرما۔ اگر مجھے اس کام پر صرف اس کی محبت نے آمادہ کیا ہے جو باپ کو بیٹے سے ہوتی ہے تو اس کے مقام خلافت تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کی روح قبض فرما لیجیے۔ [6]
غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ جس باپ کے دل میں چور ہو، کیا وہ عین نماز جمعہ میں اپنے بیٹے کے لیے یہ دعا کر سکتا ہے؟
کیا یزید کے انتخاب کے لیے مشورہ کیا گیا؟
باغی راویوں نے یزید کی نامزدگی کی تصویر کچھ یوں پیش کی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یزید کو نامزد کرنے کا خیال آیا اور انہوں نے آمرانہ انداز میں اسے نافذ کر دیا حالانکہ حقیقت اس سے بالکل مختلف تھی۔ عربوں کے ہاں دور جاہلیت میں بھی اس طرح کی آمریت کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ ان کے ہاں قبائلی سرداروں کا انتخاب بھی باہمی مشورے سے ہوتا تھا۔ اسلام نے اس معاملے کو مزید موکد کیا اور قرآن مجید میں یہ حکم دیا کہ مسلمانوں کے اجتماعی امور باہمی مشورے سے چلائے جائیں۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے صورتحال یہ تھی کہ تمام عرب قبائل نے متفقہ طور پر قریش کو خلافت کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔ قریش میں ان مہاجرین و انصار کو الیکٹورل کالج کی حیثیت حاصل تھی جو غزوہ بدر سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے۔ یہی حضرات باہمی مشورے سے خلیفہ کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ ان صحابہ کو یہ خاص حیثیت دینے کی وجہ یہ تھی کہ یہ اس وقت اسلام میں داخل ہوئے تھے جب مسلمانوں کو عرب میں کوئی خاص سیاسی مقام حاصل نہ تھا اور یہ مشرکین کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے۔ اس وجہ سے ان حضرات کے خلوص نیت میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کوئی شخص بھی ایسے نظریے کے لیے عذاب نہیں جھیل سکتا ہے جس پر وہ یقین نہ رکھتا ہو۔ ان حضرات کو قرآن مجید میں "السابقون الاولون" کا نام دیا گیا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب بھی انہی مہاجرین و انصار نے متفقہ طور پر کیا۔ انہی کے مشورے سے حضرت ابوبکر نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کو خلیفہ نامزد کیا۔ پھر یہی السابقون الاولون اس بات پر متفق ہوئے کہ چھ افراد میں سے ایک کو خلیفہ بنایا جائے اور ان حضرات نے اپنے اندر سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا۔ اس کے بعد انہی السابقون الاولون نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا اور آپ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ اس کے بعد انہی مسلمانوں نے باہمی اتفاق رائے سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا۔ اس طرح سے خلیفہ کے انتخاب کے لیے اگرچہ مختلف طریقے اختیار کیے گئے لیکن بنیادی اصول یہی رہا کہ مسلمانوں کی مرضی کے خلاف ان پر کسی کو مسلط نہ کیا جائے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے آخری زمانے میں 56/676تک کیفیت یہ ہو چکی تھی کہ السابقون الاولون کی بڑی تعداد وفات پا چکی تھی۔ ظاہر ہے کہ جنگ بدر 2/624 میں ہوئی تھی اور اب اسے گزرے 54 برس ہو چکے تھے۔ اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ ضرورت محسوس کی کہ بدلے ہوئے حالات میں اب مناسب یہ رہے گا کہ مشورے کے اس عمل کو بڑے پیمانے پر کیا جائے۔ اس میں یہ وجہ بھی رہی ہو گی کہ اب معاملہ چونکہ آپ کے اپنے بیٹے کا تھا، اس وجہ سے آپ محض چند لوگوں کی رائے پر یہ فیصلہ نہ کرنا چاہتے تھے۔ معروف شیعہ مورخ مسعودی کے بیان کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک بڑا جرگہ منعقد کیا، جس میں پوری امت کے نمائندے شریک ہوئے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی تجویز پیش کی اور سب لوگوں کو آزادانہ رائے دینے کا حق دیا۔ اس اجتماع میں اہل عراق بھی آئے اور ان میں سے بعض لوگوں نے حضرت معاویہ کی تجویز کی مخالفت بھی کی تاہم غالب اکثریت نے یزید کے انتخاب کے حق میں فیصلہ دے دیا۔[7]
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے امت کو افتراق و انتشار سے بچانے کے لیے مدینہ اور مکہ کا سفر کیا۔ اس سفر میں آپ نے اہل مدینہ اور پھر اہل مکہ سے بھرپور مشورہ لیا اور ان کی رائے معلوم کی۔ سوائے چند ایک حضرات کے پوری امت نے ان کی رائے سے اتفاق کیا اورپھر آپ نے مکہ مکرمہ میں یزید کی نامزدگی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد پورے عالم اسلام سے وفود آئے اور انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کی تائید کی۔اس پورے عمل میں صرف چار حضرات نے اختلاف رائے کیا اور وہ حضرت حسین، ابن عباس، ابن عمر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم نمایاں تھے۔ ان میں سے بھی دو حضرات ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے یزید کی بیعت کر لی تھی اور آخر تک اس پر قائم رہے تھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی بعد میں بیعت کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ صرف ایک ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیعت نہیں کی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سوائے چند ایک افراد کے، اس دور کی پارلیمنٹ کی غالب ترین اکثریت نے یزید کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا جن میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ (d. 58/678) جیسے جلیل القدر بزرگ شامل تھے جو کہ عشرہ مبشرہ میں سے آخری شخص تھے۔[8]
اس واقعے کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں خود حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس طرح روایت کیا ہے:
ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں (اپنی بہن ام المومنین سیدہ) حفصہ کے گھر گیا تو ان کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ میں نے کہا: "کیا آپ ان لوگوں کی باتیں دیکھ رہی ہیں کہ (مشورے کے) اس معاملے میں میری کوئی حیثیت نہیں سمجھی گئی۔" انہوں نے فرمایا: "آپ وہاں (مسجد میں) جا کر بیٹھیں ۔ یہ لوگ آپ کے انتظار ہی میں ہیں۔ مجھے خطرہ ہے کہ آپ کے رک جانے سے کہیں کوئی اختلاف نہ پیدا ہو جائے۔" وہ انہیں اس وقت تک بار بار کہتی رہیں جب تک وہ چلے نہ گئے۔
(مشورے کے بعد) جب عام لوگ چلے گئے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ دیا اور فرمایا: "اب کوئی صاحب اس معاملے میں بولنا چاہیں تو سر اٹھا کر بات کریں۔ (عام لوگوں کی رائے سے ظاہر ہو گیا ہے کہ) ہم ان سے اور ان کے والد دونوں سے اس امر (خلافت) کے زیادہ حق دار ہیں۔" حبیب بن مسلمہ نے (ابن عمر سے) پوچھا: "پھر آپ نے ان کی اس بات کا جواب بھی دیا؟" انہوں نے کہا: "میں چاہتا تھا کہ انہیں جواب میں کہوں کہ اس معاملے میں میں آپ اور آپ کے والد سے زیادہ مستحق ہوں جو اسلام کی خاطر آپ لوگوں سے جنگ کر چکا ہے۔ لیکن میں اس وجہ سے رک گیا کہ کہیں اجتماعیت میں اختلاف نہ پڑ جائے اور خانہ جنگی نہ ہو جائے۔ میں جنت کے ثواب پر قناعت کر گیا۔" حبیب نے کہا: "آپ نے خود کو فساد سے بچا لیا۔"[9]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ بات معلوم و معروف ہے کہ آپ نے کبھی خلافت کی تمنا نہ کی تھی۔ مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر آپ کے دل میں کچھ تردد پیدا ہوا تھا لیکن آپ نے امت مسلمہ کی مصلحت کی خاطر اپنی خواہش کو دبا دیا۔ اس سے آپ کے کردار کی عظمت کا علم ہوتا ہے۔ آپ کے دل میں جو یہ خیال پیدا ہوا کہ " میں آپ اور آپ کے والد سے زیادہ مستحق ہوں جو اسلام کی خاطر آپ لوگوں سے جنگ کر چکا ہے" تو یہ محض جذبات میں سوچی گئی ایک بات ہی تھی۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تو کبھی مسلمانوں کے خلاف کفار کی جانب سے کسی ایک بھی جنگ میں شریک نہ ہوئے تھے البتہ ان کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ ضرور شریک ہوئے تھے لیکن انہیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف کر دیا تھا۔
کیا یزید کی بیعت کے لیے ناجائز ہتھکنڈے اختیار کیے گئے؟
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والے مورخین کو بھی اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی نامزدگی کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر مشورے کا اہتمام کیا لیکن انہوں نے اس مشورے کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے ایسی روایات وضع کی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو آمادہ کرنے کے لیے انہیں لالچ دیا گیا تھا اور بعض حضرات بالخصوص حضرات ابن زبیر اور حسین رضی اللہ عنہم پر جبر کیا گیا تھا۔ مناسب ہو گا کہ ہم ان میں سے ایک ایک روایت کو لے کر اس کا تجزیہ کریں اور یہ دیکھیں کہ ان کی سند میں کون کون سے لوگ موجود ہیں۔ پہلے دو ابواب میں روایات کے تجزیہ کے جو اصول بیان ہوئے ہیں، مناسب رہے گا کہ ان کے خلاصے پر آپ دوبارہ ایک نظر ڈال لیجیے۔ طبری نے اس سلسلے میں دو روایتیں بیان کی ہیں:
1۔ فحدثني يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، قال: حدثنا ابن عون، قال: حدثني رجل بنخلة: حضرت معاویہ مدینہ آئے اور آ کر حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہم کو بلا بھیجا اور ان سے فرمایا: "میرے بھائی کے بیٹے! قریش میں سے پانچ افراد کے علاوہ سب لوگ بیعت پر آمادہ ہیں اور آپ ان پانچ میں مرکزی شخص آپ ہیں۔ اس اختلاف رائے کا سبب کیا ہے؟ حسین نے فرمایا: "کیا میں ان میں سے مرکزی شخص ہوں۔" معاویہ نے فرمایا: "جی ہاں! آپ ان کے قائد ہیں۔" حسین نے فرمایا: "ان لوگوں کو بلا لیجیے۔ اگر وہ بیعت کر لیں گے تو میں بھی ان کے ساتھ ہوں ورنہ میرے معاملے میں جلدی نہ کیجیے۔" معاویہ نے پوچھا: "کیا آپ ایسا کرنے کو تیار ہیں؟" انہوں نے کہا: "جی ہاں۔" یہ سن کر حضرت معاویہ نے ان سے وعدہ لیا کہ کسی سے ان باتوں کا ذکر نہ کریں۔ حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے پہلے تو انکار کیا لیکن پھر قبول کر لیا اور باہر نکل آئے۔
ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے انتظار میں بٹھا رکھا تھا۔ اس نے پوچھنا شروع کیا کہ آپ کے بھائی ابن زبیر پوچھ رہے ہیں کہ کیا معاملہ ہے۔ (آپ نے حسب وعدہ بات نہ کی لیکن) آخر وہ کچھ مطلب سمجھ گیا۔ اب حضرت معاویہ نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو بلا بھیجا اور ان سے فرمایا: "پانچ افراد کےعلاوہ جن میں آپ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، سب لوگ اس معاملے میں آمادہ ہیں۔ اختلاف رائے کا سبب کیا ہے؟" ابن زبیر نے فرمایا: "کیا میں ان میں سے مرکزی شخص ہوں؟" معاویہ نے فرمایا: "جی ہاں! آپ ان کے قائد ہیں۔" ابن زبیر نے فرمایا: "ان لوگوں کو بلا لیجیے۔ اگر وہ بیعت کر لیں گے تو میں بھی ان کے ساتھ ہوں ورنہ میرے معاملے میں جلدی نہ کیجیے۔" معاویہ نے پوچھا: "کیا آپ ایسا کرنے کو تیار ہیں؟" انہوں نے کہا: "جی ہاں۔" یہ سن کر حضرت معاویہ نے ان سے وعدہ لیا کہ کسی سے ان باتوں کا ذکر نہ کریں۔ ابن زبیر نے کہا: "امیر المومنین! ہم لوگ اللہ عزوجل کے حرم میں ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالی کے نام پر وعدہ کرنا بڑا معاملہ ہے۔ انہوں نے وعدہ کرنے سے انکار کیا او رباہر چلے گئے۔
اب حضرت معاویہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہم کو بلا بھیجا اور ان کے ساتھ نرمی سے بات کی اور فرمایا: "میں نہیں چاہتا کہ امت محمدیہ کو اپنے بعد ایسے چھوڑ جاؤں کہ جیسے بغیر چرواہے کے بھیڑوں کا گلہ۔ قریش میں پانچ افراد کے سوا، جن میں آپ نمایاں ہیں، سب لوگ اس امر (یزید کی بیعت) پر آمادہ ہیں۔ اختلاف رائے کا سبب کیا ہے؟" ابن عمر نے فرمایا: "میں ایسی بات کیوں نہ کروں جس میں نہ تو کوئی برائی ہے او رنہ خونریزی اور آپ کا کام بھی ہو جائے گا۔" حضرت معاویہ نے فرمایا: "میں یہی چاہتا ہوں۔" انہوں نے کہا: "آپ اپنی کرسی باہر نکال کر بیٹھیے۔ میں یہ کہہ کر آپ سے بیعت کر لوں گا کہ آپ کے بعد جس بات پر مسلمان متفق ہوں گے ، میں بھی اسی اتفاق میں داخل ہو جاؤں گا۔ واللہ! آپ کے بعد اگر کسی حبشی غلام پر بھی قوم متفق ہو تو میں بھی اس اتفاق رائے میں داخل ہوں گا۔" انہوں نے پوچھا: "کیا آپ ایسا ہی کریں گے؟" جواب دیا: "جی ہاں۔" ابن عمر یہ کہہ کر باہر نکل آئے اور گھر پر آ کر دروازہ بند کر کے بیٹھ گئے۔ لوگ ملنے آئے تو انہیں اجازت نہ دی۔
اب حضرت معاویہ نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہم کو بلوایا اور پوچھا: "ابوبکر کے بیٹے! کس ہاتھ اور کس پاؤں سے آپ مجھ سے اختلاف کر رہے ہیں؟" انہوں نے کہا: "میں سمجھتا ہوں کہ میرے حق میں یہی بہتر ہے۔" فرمایا: "میں ارادہ کر چکا ہوں کہ آپ کو قتل کروں گا۔" فرمایا: "آپ ایسا کریں گے تو اللہ دنیا میں بھی آپ پر لعنت بھیجے گا اور آخرت میں بھی آپ کو جہنم میں ڈالے گا۔"
طبری کہتے ہیں کہ اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں ہے۔[10]
اس روایت کی سند میں غور کیجیے تو اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے: یعقوب بن ابراہیم نے ہم سے روایت بیان کی، ان سے اسماعیل بن ابراہیم نے، ان سے ابن عون نے اور ان سے "نخلہ" کے مقام پر ایک شخص نے۔ اب یہ نخلہ کا ایک شخص کون تھا ، ہم نہیں جانتے۔ کیا وہ باغی پارٹی کا رکن تھا جسے حضر ت معاویہ رضی اللہ عنہ سے خاص بغض تھا یا کوئی بڑا ہی دیانتدار مومن تھا؟ ہم نہیں جانتے۔
روایت کو وضع کرنے والے نے ایک بڑی فاش غلطی کی ہے جس کا اسے خود اندازہ نہیں ہے۔ اس نے اس روایت میں حضرت معاویہ اور عبدالرحمن ابن ابی بکر رضی اللہ عنہم کا مکالمہ بھی نقل کر دیا ہے جو کہ 56/676 میں ہو رہا ہے حالانکہ حضرت عبدالرحمن اس واقعے سے تین برس پہلے 53/673 میں وفات پا چکے تھے۔ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ ان کی وفات 53/673 میں ہوئی اور ایک قول یہ ہے کہ 55/675 میں ہوئی تاہم اکثریت پہلی رائے پر متفق ہے۔ [11]
اس سلسلے کی دوسری روایت یہ ہے:
ذكر هشام بن محمد، عن أبي مخنف، قال: حدثني عبد الملك بن نوفل بن مساحق بن عبد الله بن مخرمة: پھر سن 60/680 شروع ہوا۔ ۔۔ اس سال عبیداللہ بن زیاد چند سفیروں کو ساتھ لیے حضرت معاویہ کے پاس آیا اور حضرت معاویہ نے ان لوگوں سے اپنے بیٹے یزید کے لیے بیعت لی۔ اسی سال انہیں مرض الموت لاحق ہوا تو یزید کو بلا بھیجا اور فرمایا: "بیٹا! میں نے تمہیں زحمت اور مشقت سے بچا لیا ہے اور تمہارے لیے ہر معاملے کو آسان کر دیا ہے۔ تمہارے لیے عرب کی گردنوں کو میں نے جھکا دیا ہے اور تمہارے لیے جو کچھ جمع کیا ہے، وہ کسی نے نہ کیا ہو گا۔ مجھے اس بات کا اندیشہ نہیں ہے کہ امر خلافت جو تمہارے لیے مستحکم ہو چکا ہے، قریش میں سے چار افراد کے سوا کوئی اور تم سے اس بارے میں اختلاف کرے گا: حسین بن علی، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن زبیر اور عبدالرحمن بن ابی بکر۔
1۔ ان میں سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا تو عبادت نے ستیا ناس کر دیا ہے۔ جب وہ دیکھیں گے کہ ان کے سوا اور کوئی باقی نہیں رہا تو وہ بھی تمہاری بیعت کر لیں گے۔
2۔ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو عراق کے لوگ جب تک بغاوت پر آمادہ نہ کر لیں، نہیں چھوڑیں گے۔ اگر وہ تمہارے خلاف بغاوت کریں اور تم ان پر قابو پا لو، تو ان سے درگزر کرنا۔ انہیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہماری) قریبی رشتہ داری حاصل ہے اور وہ بڑا حق رکھتے ہیں۔
3۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے وہ ہیں جو اپنے ساتھیوں کو جو کام کرتا دیکھیں، ویسا ہی خود کرتے ہیں۔ انہیں خواتین اور کھیل تماشوں کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہیں ہے۔
4۔ جو شخص شیر کی طرح تمہاری گھات میں بیٹھے گا اور لومڑی کی طرح تمہیں دھوکہ دے گا اور جب موقع ملے حملہ کرے گا، وہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما۔ اگر ایسی حرکتیں وہ تمہارے ساتھ کریں اور تم ان پر قابو پا لو تو ان کے ٹکڑے کر دینا۔ [12]
اس روایت کی سند دیکھیے تو اس میں وہی ہشام کلبی اور ابو مخنف موجود ہیں جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کے متعلق دل میں ایسا بغض رکھتے ہیں کہ جس کی مثالیں اس پوری کتاب میں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں۔ حضرات ابوبکر، عمر اور زبیر رضی اللہ عنہم کے بیٹوں کے لیے الفاظ کا جو انتخاب کیا گیا ہے، وہ راویوں کی ان سے نفرت کو ظاہر کر رہا ہے جسے انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زبان سے کہلوانے کی کوشش کی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہشام کلبی اور ابو مخنف بھی حضرت حسین کے لیے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کی محبت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ وہ اس بیعت کے واقعے سے تین برس پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔
ابن اثیر (555-630/1160-1233)نے "الکامل" میں ایک جھوٹا قصہ نقل کیا ہے جس کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب یزید کی خلافت کا اعلان کیا تو ان چاروں حضرات کے پیچھے ایک ایک تلوار بردار کو کھڑا کر دیا تھا اور اسے حکم تھا کہ اگر یہ حضرات چون و چرا کریں تو ان کی گردن اڑا دی جائے۔[13] انہوں نے اس بے سر وپا قصے کی کوئی سند بیان نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ من گھڑت ہے۔ دوسری طرف اس قصے میں صرف حضرت معاویہ ہی کی نہیں بلکہ حضرات حسین، ابن عمر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کی کردار کشی بھی ہے کہ یہ حضرات نعوذ باللہ اتنی ہمت نہ کر سکے کہ اپنی جان کا خطرہ مول لے کر امت کو غاصبوں سے بچا سکیں۔
اسی طرح ابن اثیر نے چند او رجھوٹے قصے نقل کیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے معاذ اللہ لوگوں کو رشوت دے کر یزید کی بیعت پر تیار کیا تھا۔ [14] انہوں نے رشوت کی جو رقم بیان کی ہے، وہ بھی مضحکہ خیز ہے۔ کسی کو تیس ہزار درہم، کسی کو چار سو دینار، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک لاکھ درہم اور اسی نوعیت کی دیگر رقموں کا انہوں نے ذکر کیا ہے۔ ان قصوں کی بھی کوئی سند بھی ابن اثیر بیان نہیں کی جس سے ظاہر ہو کہ انہوں نے یہ بات کس سے سن کر اپنی کتاب میں لکھی ہے۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں بیان کیا ہے انہوں نے تاریخ طبری کو اپنی کتاب کی بنیاد بنایا ہے لیکن خود طبری نے ان قصوں کو درج نہیں کیا ہے۔
ابن اثیر کا زمانہ ان تمام واقعات کے چھ سو سال بعد کا ہے۔ ان سے پہلے کے مورخین ان واقعات کا کہیں ذکر نہیں کرتے ہیں اور وہ نجانے کہاں سے یہ واقعات اپنی کتاب میں درج کر دیتے ہیں۔ اگر ان واقعات کو صحیح مان لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ نہ تو اس دور کے اہل سیاست ، ہمارے دور کے سیاستدانوں سے کچھ مختلف تھے اور نہ ہی اس دور کے عام لوگ ، جن میں صحابہ و تابعین شامل تھے، کردار کے اعتبار سے ہمارے ووٹروں سے کچھ بڑھ کر تھے کہ جنہیں محض دس دس ہزار درہم (جو اس دور میں کوئی خاص وقت نہ رکھتے تھے) رشوت دے کر خریدا جا سکتا تھا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اسلام اپنی پہلی صدی ہی میں ناکام ہو گیا کہ اس کے ماننے والوں کی اکثریت کا کردار یہ تھا۔
یزید کا کردار کیسا تھا؟
غالی راویوں بالخصوص ابو مخنف اور ہشام کلبی نے بھی یزید کے خلاف زبردست پراپیگنڈا کیا اور اسے شرابی، بدکار اور ہم جنس پرست ظاہر کیا۔[15] سانحہ کربلا کی وجہ سے چونکہ لوگوں میں یزید کے خلاف شدید نفرت پھیل گئی، اس وجہ سے ان کے پراپیگنڈے کو قبول عام حاصل ہوا اور لوگوں نے بالعموم ان روایات کو اس طرح تسلیم کر لیا کہ گویا یہ سچ ہے۔ حالانکہ اگر نامزدگی کے وقت یزید کا کردار ویسا ہی ہوتا جیسا کہ ان روایات میں بیان کیا گیا ہے تو پھر اس کی مخالفت کرنے والے صرف دو افراد نہ ہوتے بلکہ صحابہ کرام اور تابعین کی کثیر تعداد اس کی بیعت سے انکار کر دیتی۔ پھر تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یزید کو نامزد کرنے کے ارادے کا اظہار ہی کرتے اور مشرق و مغرب میں بے چینی کی لہر دوڑ جاتی۔ جو صحابہ کرام ، حضرت معاویہ کی پبلک ایڈمنسٹریشن کا حصہ تھے، وہی اٹھ کھڑے ہوتے۔ دیگر شہروں سے بھی نیک لوگ دمشق آ پہنچتے اور حضرت معاویہ کو مجبور کرتے کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے لیں۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ دو افراد کے سوا سبھی نے اس فیصلے کو تسلیم کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یزید کے کردار میں کچھ ایسا مسئلہ نہ تھا۔ اگر بالفرض بعد میں اس کے کردار میں کچھ مسئلہ پیدا ہوا ہو تو اس کی ذمہ داری حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر عائد نہیں ہوتی ہے۔
اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم نے بھی جب یزید کی بیعت سے انکار کیا تو انہوں نے اس کے کردار کی کسی خامی کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ حضرت حسین تو ہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے مہمان بنتے تھے اور وہ انہیں بہت سے تحائف اور عطیات دے کر رخصت کرتے تھے۔ حضرت حسین کے فرسٹ کزن عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیٹی کی شادی یزید سے کر رکھی تھی جو کہ نہایت ہی متقی و پرہیز گار خاتون تھیں۔ اس اعتبار سے یزید حضرت حسین کی بھتیجی کا شوہر تھا۔[16] حضرت حسین اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ آپ یزید کے کردار سے ناواقف رہے ہوں گے۔ آگے چل کر ہم بیان کریں گے کہ سانحہ کربلا سے کچھ دیر پہلے آپ اس بات پر تیار بھی ہو گئے تھے کہ آپ یزید کی بیعت کر لیں۔ اگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خیال میں یزید کا کردار ایسا ہی گیا گزرا ہوتا تو کیا آپ اس کی بیعت کے لیے تیار ہو جاتے؟
یہاں ہم ایک مرتبہ پھر واضح کرتے چلیں کہ یزید نے اپنے دور حکومت میں جو غلط کام کیے یا اس سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں، ہم ہرگز ان کی حمایت نہیں کرتے۔ اس موقع پر ہم یزید کے کردار سے متعلق جو کچھ لکھ رہے ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ اس فیصلے کی وضاحت کی جائے جو اس زمانے کے تمام جلیل القدر صحابہ و تابعین نے یزید کی بیعت کر کے کیا۔ اگر ولی عہدی کی بیعت کے وقت یزید کا کردار ویسا ہی ہوتا، جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے تو پھر نہ صرف حضرت حسین و ابن زبیر، بلکہ تمام کے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اس کی مخالفت کرتے۔ اس کے برعکس کتب تاریخ میں ایسی متعدد روایا ت ملتی ہیں ، جن میں جلیل القدر صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کی جانب سے یزید کا ذکر مثبت انداز میں ملتا ہے۔ یہاں ہم چند روایتیں پیش کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، جن کے بارے میں باغی راویوں وغیرہ نے یہ افسانہ مشہور کر دیا ہے کہ انہوں نے یزید کی نامزدگی پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا، کی رائے اس کے بارے میں کیا تھی؟
المدائني عن عبد الرحمن بن معاوية قال، قال عامر بن مسعود الجمحي: عامر بن مسعود جمحی کہتے ہیں کہ ہم لوگ مکہ میں تھے جب ڈاک کے ذریعے معاویہ کی وفات کی اطلاع ہمیں ملی۔ ہم اٹھ کر ابن عباس کے پاس چلے گئے اور وہ بھی مکہ ہی میں تھے۔ ان کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے اور دستر خوان بچھ چکا تھا مگر ابھی کھانا نہیں آیا تھا۔ ہم نے ان سے کہا: ’’ابو عباس! ڈاک کے ذریعے معاویہ کی وفات کی اطلاع آئی ہے۔‘‘ ابن عباس کافی دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا: "یا اللہ! معاویہ کے لیے اپنی رحمت وسیع فرما دیجیے۔ واللہ! وہ اپنے سے پہلے (خلفاء) کی طرح تو نہیں تھے لیکن ان کے بعد ان جیسا بھی نہیں آئے گا۔ بلاشبہ ان کا بیٹا یزید ان کے صالح اہل خانہ میں سے ہے۔ لہذا آپ لوگ اپنی اپنی جگہ اطمینان رکھیے اور اس کی اطاعت اور بیعت کر لیجیے۔ اے بیٹے! کھانا لے آؤ۔" راوی کہتے ہیں کہ ہم وہیں پر تھے کہ خالد بن عاص، جو اس وقت مکہ کے گورنر تھے، کا قاصد آیا اور انہیں بیعت کی دعوت دی۔ ابن عباس نے کہا: ’’آپ جا کر ان سے کہیے : ’’جو لوگ اس وقت آپ کے پاس ہیں، ان سے اپنا معاملہ نمٹا لیجیے۔ شام کو میں آپ کے ہاں آؤں گا۔‘‘ قاصد (چلا گیا) اور پھر پلٹ کر آیا اور کہنے لگا: ’’آپ کا وہاں پر موجود ہونا بہت ضروری ہے۔‘‘ پھر آپ چلے گئے اور بیعت کر لی۔ [17]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، جن کے بارے میں بھی باغی راویوں وغیرہ نے یہ بات مشہور کر دی ہے کہ انہوں نے یزید کی نامزدگی پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا، کی رائے اس کے بارے میں کیا تھی؟
نافع بیان کرتے ہیں کہ جب اہل مدینہ (کے بعض لوگوں نے) یزید بن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ساتھیوں اور اولاد کو جمع کر کے فرمایا: "میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ 'قیامت کے دن ہر معاہدہ توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔' ہم لوگ اللہ اور رسول کے نام پر اس شخص (یزید) کی بیعت کر چکے ہیں۔میں نہیں جانتا کہ اللہ اور رسول کے نام پر کی گئی بیعت کو توڑنے اور بغاوت کرنے سے بڑھ کر کوئی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ ہر ایسا شخص جو اس بیعت سے الگ ہو جائے اور اس معاملے (بغاوت) کا تابع ہو جائے، تو اس کے اور میرے درمیان علیحدگی ہے۔ [18]
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یزید کے کردار میں پھر کیا ایسی خامی تھی، جس کے باعث بعض حضرات نے اس کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں طبری نے یہ روایت نقل کی ہے:
حدثني الحارث، قال: حدثنا علي، عن مسلمة: معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابی سفیان کو خط لکھ کر اس بارے میں مشورہ طلب کیا۔ زیاد نے عبید بن کعب نمیری کو بلا کر کہا: "مشورہ امانت دار سے لینا چاہیے۔ لوگوں کو دو عادتوں نے خراب کر رکھا ہے۔ راز فاش کرنا اور نااہلوں کے ساتھ خیر خواہی کرنا۔ وہی شخص راز کو راز رکھ سکتا ہے جو یا تو دین دار ہو اور آخرت اس کی ترجیح ہو یا پھر ایسا شریف النفس دنیا دار ہو جسے اپنی عزت بچانے کی عقل ہو۔ میں نے یہ دونوں وصف آپ میں دیکھے ہیں اور مجھے پسند آئے ہیں۔ اس وقت میں نے آپ کو ایسی بات کے لیے لکھا ہے کہ یزید کے لیے بیعت لینے کا جو ارادہ امیر المومنین نے کیا ہے، اس میں وہ مجھ سے مشورہ طلب کر رہے ہیں۔ اسلام کا تعلق اور ذمہ داری بہت بڑی چیز ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ یزید کی طبیعت میں کاہلی اور سہل پسندی بہت ہے۔ پھر وہ سیر اور شکار کا شوقین ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میری طرف سے امیر المومنین کے پاس جائیں اور یزید کے جو مسائل میں نے بیان کیے ہیں، ان سے بیان کر دیجیے اور کہیے کہ ابھی تامل کیجیے۔ آپ جو چاہتے ہیں ، یہ بات ہو کر رہے گی۔ جلدی نہ کیجیے۔ جس تاخیر میں بہتری ہو، وہ اس جلدی سے بہتر ہے جس میں ہدف کے حاصل نہ ہونے کا اندیشہ ہو۔"
عبید نے کہا: "آپ کے خیال میں کیا اور کوئی طریقہ نہیں ہے؟" زیاد نے کہا: "اور کیا طریقہ سے کیا مراد ہے؟" عبید نے کہا: "حضرت معاویہ کی رائے پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے کہ ان کے بیٹے کی طرف سے انہیں نفرت دلانا مناسب نہیں ہے۔ میں انہیں بتائے بغیر یزید سے ملاقات کروں گا اور آپ کا پیغام دوں گا کہ امیر المومنین نے تمہاری بیعت کے لیے مجھ سے مشورہ کیا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ تمہاری بعض عادات سے لوگ بیزار ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہاری بیعت میں وہ مخالفت کریں گے۔ میری رائے یہ ہے کہ جن باتوں کو لوگ پسند نہیں کرتے، وہ سب باتیں ترک کر دو۔ اس سے امیر المومنین کی بات بھی پوری ہو جائے گی اور آپ بھی جو چاہتے ہیں (کہ یزید کی اصلاح ہو،) وہ کام بھی آسانی سے ہو جائے گا۔ اس طرح آپ یزید سے بھی خیر خواہی کریں گے اور امیر المومنین بھی راضی رہیں گے۔ امت اسلام کی ذمہ داری کے بارے میں بھی آپ کو جو خدشہ ہے، اسے سے بھی آپ محفوظ رہیں گے۔"
زیاد نے کہا: "یہ تو بڑا تیر بہدف نسخہ ہے۔ اب خیر و برکت کے ساتھ آپ روانہ ہو جائیے۔ اگر (یزید کی) اصلاح ہو جائے تو اس سے بہتر کیا بات ہو سکتی ہے۔ اگر کچھ غلط بھی ہو گیا تو اس فعل میں کوئی خطرہ نہیں۔ اللہ نے چاہا تو وہ ہمیں غلطی سے بھی محفوظ رکھے گا۔" عبید نے کہا: "آپ اپنی رائے سے جو یہ بات کہتے ہیں، باقی اللہ کو جو منظور، وہ تو غیب میں ہے۔"
عبید یزید کے پاس پہنچے اور اس سے بات کی۔ زیاد نے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو انتظار کے لیے لکھا اور جلدی سے منع کیا۔ حضرت معاویہ نے ان کی بات مان لی۔ یزید نے بھی اکثر افعال کو ترک کر دیا۔
زیاد جب فوت ہو گئے تو حضرت معاویہ نے ایک تحریر نکالی اور لوگوں کے سامنے پڑھی۔ اس میں یزید کو جانشین کرنے کا مضمون تھا کہ اگر معاویہ فوت ہو گئے تو یزید ولی عہد ہو گا۔ یہ سن کر پانچ افراد کے سوا سب لوگ یزید کی بیعت پر تیار ہو گئے۔ پانچ افراد حسین بن علی، ابن عمر، ابن زبیر، عبدالرحمن بن ابی بکر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے بیعت نہیں کی۔[19]
سند کے اعتبار سے یہ روایت بھی کمزور ہے کیونکہ یہ مسلمہ بن محارب کا بیان ہے اور ان کے حالات کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ہیں کہ وہ کس درجے میں قابل اعتماد تھے۔ البتہ اس روایت سے یہ بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یزید کی طبیعت میں کچھ کاہلی اور تن آسانی پائی جاتی تھی۔ وہ سیر و تفریح اور شکار کا شوقین تھا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ چیزیں اخلاقی برائی کے زمرے میں نہیں آتیں تاہم خلیفہ وقت کا جو منصب تھا، اس کا تقاضا یہ تھا کہ ان خامیوں پر قابو پایا جائے۔ روایت کے مطابق یزید نے ان خامیوں پر قابو پا لیا۔
دوسری طرف روایات کا ایک ایسا گروپ ہے، جس کے مطابق یزید شراب، بدکاری اور ہم جنس پرستی کا شوقین تھااور نمازیں ترک کر دیتا تھا۔ ان روایات کی یا تو سند ہی نہیں ملتی یا پھر اگر ملتی ہے تو اس میں بھی وہی ہشام کلبی اور ابو مخنف نظر آتے ہیں۔ تاریخی تجزیہ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جو شخص کسی دوسرے شخص کے معاملے میں متعصب ہو، اس کی اس شخص کے بارے میں بات کو قبول نہ کیا جائے۔
شراب اور بدکاری جیسے جرائم دو طرح ہی انجام دیے جا سکتے ہیں۔ ایک تو کھلے عام اور دوسرے چھپ کر۔ اگر یزید یہ افعال کھلے عام انجام دیتا تو صحابہ کرام بشمول سعد بن ابی وقاص، ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کبھی اس کی بیعت نہ کرتے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ چھپ کر یہ افعال کرتا تھا۔ ایسی صور ت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان راویوں کو کیسے علم ہوا کہ وہ چھپ کر یہ کام کرتا تھا؟ کیا یہ راوی خود بھی اس کے شریک مجلس رہے تھے یا یزید نے خود آ کر ان کے سامنے اپنی بدکاریوں کا اعتراف کیا تھا؟ یہی وہ جواب ہے جو حضرت علی کے تیسرے بیٹے اور حسین رضی اللہ عنہما کے چھوٹے بھائی محمد بن علی رحمہ اللہ، جو کہ اپنی والدہ کی نسبت سے ابن حنفیہ کے نام سے مشہور ہیں، نے ان معترضین کو دیا تھا جب وہ یزید کے خلاف بغاوت کے لیے انہیں تیار کرنے گئے تھے۔ انہوں نے کہا:
"ہمارے ساتھ نکلیے کہ ہم یزید سے جنگ کریں۔‘‘ محمد بن علی نے ان سے کہا: ’’کس بات پر میں اس سے جنگ کروں اور اسے منصب خلافت سے ہٹاؤں؟‘‘ وہ بولے: ’’وہ کفر اور فسق و فجور میں مبتلا ہے، شراب پیتا ہے اور دین کے معاملے میں سرکشی کرتا ہے۔"
اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا: "کیا آپ لوگ اللہ سے نہیں ڈرتے۔ کیا آپ میں سے کسی نے اسے ایسا کرتے دیکھا ہے جو آپ ذکر کر رہے ہیں۔ میں اس کے پاس رہا ہوں اور میں نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔" وہ کہنے لگے: ’’اس نے آپ کو اپنے اعمال کی خبر نہ ہونے دی ہو گی۔‘‘ محمد بن علی نے فرمایا: ’’تو کیا اس نے آپ لوگوں کو خبر کر کے یہ برائیاں کی ہیں؟ اس صورت میں تو آپ بھی اس کے ساتھی رہے ہوں گے۔ اگر اس نے آپ کو نہیں بتایا تو پھر تو آپ لوگ بغیر علم کے گواہی دینے چل پڑے ہیں۔‘‘[20]
ہمارے ہاں جب یزید کی مذمت کی جاتی ہے تو لوگوں کے سامنے سانحہ کربلا، سانحہ حرہ اور مکہ مکرمہ پر حملے کے واقعات ہوتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ تقریباً پچھلے چودہ سو برس سے یزید کے خلاف جو کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے، وہ ہوتا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب یزید کو نامزد کیا تو اس وقت نہ تو سانحہ کربلا ہوا تھا اور نہ ہی اور سانحات وجود میں آئے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ سانحات وجود میں آ جائیں گے۔ اس وجہ سے حضرت معاویہ پر الزام تراشی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
حضرت حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم نے اختلاف کیوں کیا؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یزید کا کردار اگر برا نہ تھا، تو پھر حضرت حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم نے اس کی نامزدگی میں اختلاف کیوں کیا اور اس کے حکومت سنبھالنے کے بعد اس کی بیعت میں پس و پیش کیوں کیا ؟ اس سوال کے جواب میں بعض حضرات ان دونوں بزرگوں سے بدگمانی کرتے ہیں اور نعوذ باللہ انہیں بغاوت کا مجرم سمجھتے ہیں۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ حضرت حسین اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے بارے میں بدگمانی کریں۔
ان دونوں کے معاملے کی تفصیل انشاء اللہ ہم اگلے باب میں بیان کریں گے۔ یہاں مختصراً اتنا عرض کر دینا ضروری ہے کہ ان دونوں حضرات نے اگر یزید کی نامزدگی کے سلسلے میں اختلاف رائے کیا تو انہیں اس کا حق حاصل تھا۔ ہر انسان کو اپنی رائے کا حق حاصل ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں کہ انسان کوئی بھی رائے رکھے۔ برائی اس وقت ہوتی ہے جب انسان محض اپنی انا اور اقتدار کے لیے فتنہ و فساد برپا کرے۔ ان دونوں حضرات نے ایسا کوئی فتنہ و فساد برپا نہیں کیا۔ ممکن ہے کہ ان دونوں حضرات نے دیانتداری سے یہ رائے قائم کی ہو کہ باپ کے بعد بیٹے کا خلیفہ بننا مناسب عمل نہیں ہے اور انہیں یہ خطرہ محسوس ہوا ہو کہ ا ن حضرات کے اس عمل کے نتیجے میں مستقبل میں کہیں ملوکیت کی راہیں ہموار نہ ہو جائیں۔ اس وجہ سے انہوں نے اس باب میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے سے اختلاف کیا۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید کے اقتدار سنبھالتے ہی عراق، بالخصوص کوفہ میں انارکی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ اہل کوفہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یزید کی نامزدگی کے معاملے میں اتفاق کر لیا تھا۔ اب انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھ کر اپنے پاس بلانا شروع کیا اور آپ وہاں تشریف لے گئے۔ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے کسی ایسے عزم کا اظہار نہیں فرمایا کہ آپ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے۔ اس کے برعکس آپ کو جب اطلاع ملی کہ اہل کوفہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں تو آپ نے یزید کی بیعت کر لینے کا ارادہ فرمایا۔ اس کے بعد وہ سانحہ پیش آیا جس میں آپ کو شہید کر دیا گیا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے یزید کی بیعت نہیں کی لیکن انہوں نے اس کی زندگی کے دوران اپنی خلافت کا دعوی بھی نہیں کیا۔ جب انہیں یزید کی وفات کی اطلاع ملی تو اس وقت سرکاری فوج کے کمانڈر حصین بن نمیر نے انہیں خلافت کی پیشکش کی اور انہوں نے اس کے بعد اسے قبول کر لیا۔ یہ تفصیلات ہم انشاء اللہ اگلے باب میں بیان کریں گے۔