عبداﷲ بن سبا علماء یہود میں سے ایک سربر آوردہ عالم تھا اور جب سے سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے 2 یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکال کر فلسطین کی طرف دھکیل دیا تھا۔ اس وقت سے اس کے دل میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی آگ سلگ رہی تھی اور وہ اندر ہی اندر ایسی تراکیب سوچتا رہتا تھا جس کے ذریعے مسلمانوں سے بغض و عداوت کی وجہ سے کوئی نہ کوئی مصیبت کھڑی کرسکے۔ انہی تراکیب میں سے ایک ترکیب اسے یہ سوجھی کہ مسلمان ہوکر پھر ان کے رازونیاز سے واقفیت حاصل کی جائے اور کچھ ساتھی ڈھونڈے جائیں تاکہ مستقل گروہ بن جانے پر اسلام کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ چنانچہ وہ یمن سے مدینہ آیا اور مدینہ آکر اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا۔ اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ امیر المومنین تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ کی نرم دلی اور خوش خلقی سے اس نے یہ ناجائز فائدہ اٹھایا کہ مختلف حیلوں بہانوں سے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا اعتماد حاصل کرلیا اور اس اعتماد سے اب وہ اپنی مخفی دشمنی کے لئے راستہ ہموار کرنے کے درپے رہنے لگا اور اپنے ہم خیال لوگوں کی تلاش میں مصروف ہوا۔
[عبدللہ بن سبا کا تذکرہ "یہودی انسکیکلوپیڈیا " میں آج بہ فخریہ موجود ہے .. لنک :]
[عبدللہ بن سبا کا تذکرہ "یہودی انسکیکلوپیڈیا " میں آج بہ فخریہ موجود ہے .. لنک :]
’’جویندہ یابندہ‘‘ کے مطابق اسے ایسے ہمنوا مل گئے جو بظاہر مسلمان تھے لیکن دل سے سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دشمن تھے۔ ان سے میل جول صلاح و مشورہ شروع ہوا اور خفیہ خفیہ ایک منظم گروہ تیار کرلیا۔ اسی منظم کے ذریعے اس نے اولین کامیابی یہ حاصل کی کہ سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو شہید کرادیا۔ اس یہودی عالم (عبداﷲ ابن سبا) کی ان خفیہ سرگرمیوں اور اسلام و مسلمانوں کے ساتھ بغض و عداوت کی تفصیلات شیعہ سنی دونوں مکتبہ فکر کے مورخین کے ہاں صراحتاً ملتی ہیں۔
وکان ذلک ان عبداﷲ بن سبا کان یہودیا و اسلم ایام عثمان ثم تنقل فی الحجاز ثم بالبصرۃ ثم بالکوفۃ ثم بالشام یرید اضلال الناس فلم یقدر منہم علی ذلک فاخرجہ اہل الشام فاتیٰ مصراً فاقام فیہم وقال لہم العجب ممن یصدق ان عیسٰی یرجع و یکذب ان محمدا یرجع فوضع لہم الرجعۃ فقبلت منہ ثم قال لہم بعد ذلک انہ کان لکل نبی وصی وعلی وصی محمد فمن اظلم ممن لم یجزو صییۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فوثب علی وصییتہ وان عثمان اخذہا بغیر حق فانہفوا فی ہذا الامر وابداوا بالطعن علی امرائکم
(الکامل فی التاریخ لابن الاثیر جلد سوم ص 154، دخلت سنۃ خمس وثلاثین مطبوعہ بیروت طبع جدید)
ترجمہ: بات یہ تھی کہ عبداﷲ بن سبا اصل یہودی تھا اور سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں اسلام قبول کرکے حجاز آگیا۔ پھر بصرہ پھر کوفہ اور اس کے بعد شام گیا اور ہر مقام پراس نے لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی اور شامیوں نے اسے شام سے باہر نکال دیا۔ وہاں سے یہ مصر پہنچا اور وہاں آکر قیام پذیر ہوا۔ وہاں اس نے مصریوں کو کہا کہ بڑی تعجب کی بات ہے کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسٰی دوبارہ آئیں گے تو لوگ اس کی تصدیق کرتے ہیں اور اگر حضورﷺ کے انتقال کے بعد واپسی کا کہا جائے تو اسے جھٹلاتے ہیں، اس طرح ’’رجعت‘‘ کاعقیدہ اس نے گھڑا۔ کچھ لوگوں نے اس کی یہ بات قبول کرلی۔ اس کے بعد دوسرے عقیدہ کوپھیلایا اور کہا کہ ہر پیغمبر کا کوئی نہ کوئی ’’وصی‘‘ ہوا ہے اور ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ کے ’’وصی‘‘ حضرت علی رضی اﷲ عنہ ہیں تو جو شخص حضورﷺ کی وصیت کو جاری نہیں کرتا، اس سے بڑھ کر اور ظالم کون ہوگا۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے ناحق خلافت پر قبضہ کررکھا ہے۔ اس کی ان باتوں کو سن کر لوگ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے حاکموں پر لعن طعن کا آغاز کردیا۔
وذکر سیف بن عمر ان سبب تالف الاحزاب علی عثمان ان رجلا یقال لہ عبداﷲ بن سبا کان یہودیاً فاظہر الاسلام وصار الیٰ مصر فاوحیٰ الیٰ طآئفۃ من الناس کلا ما اخترعہ من عند نفسہ مضمونہ انہ یقول للرجل الیس قد ثبت ان عیسٰی ابن مریم سیعود الیٰ ہذہ الدنیا فیقول الرجل نعم فیقول لہ فرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم افضل منہ فما تنکر ان یعود الیٰ ہٰذہ الدنیا وہوا اشرف من عیسٰی ابن مریم علیہما السلام ثم یقول وقد کان اوصیٰ الیٰ علی ابن ابی طالب فمحمد خاتم انبیآء و علی خاتم الاوصیاء ثم یقول فہوا حق بالامر من عثمان وعثمان معتدفی ولایتہ ما لیس لہ فانکروا علیہ واظہر والامر بالمعروف والنہی عن المنکر فافتتن بہ بشر کثیر من اہل مصر و کتبوا الی جماعات من عوام اہل الکوفۃ والبصرۃ فتما لوا علی ذلک وتکاتبوا فیہ وتواعدوا ان یجتمعوا فی الانکار علی عثمان وارسلوا الیہ من یناظر O ویذکرلہ ماینقمون علیہ من تو لییتہ اقرباۂ وذویٰ رحمہ وعزلہ کبار الصحابۃ فرخل ہذا فی قلوب کثیر من الناس
(البدایہ والنہایہ جلد ہفتم ص 167 تا 168 فی تذکرہ سنۃ اربع وثلاثین مطبوعہ بیروت طبع جدید)
ترجمہ: سیف بن عمر نے کہا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے خلاف لشکر کشی کا سبب یہ تھا کہ ایک شخص عبداﷲ بن سبا نامی یہودی تھا۔ اس نے اسلام لانا ظاہر کیا اور مصر جاکر لوگوں کو ایک من گھڑت ’’وحی‘‘ سنائی جس کا مضمون یہ تھا کہ ایک آدمی کو وہ کہتا ہے کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے؟ وہ آدمی جواباً کہتا ہے یہ درست ہے پھر اسی شخص کو وہ کہتا ہے کہ اگر یہی بات کوئی رسول اﷲﷺ کے متعلق کہے (یعنی آپﷺ بھی دوبارہ تشریف لائیں گے) تو تم اس بات کا انکار کرتے ہو حالانکہ رسول اﷲﷺ حضرت عیسٰی بن مریم علیہ السلام سے افضل ہیں (لہذا انہیں ضرور دوبارہ آنا ہے)
پھر وہ کہتا ہے کہ حضورﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو اپنا ’’وصی‘‘ مقرر فرمایا ہے۔ جب حضورﷺ خاتم الانبیاء ہیں تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ خاتم الوصیاء ہوئے۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اس وجہ سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ امر خلافت کے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے زیادہ حقدار ہیں۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے امر خلافت میں زیادتی کی اور خود امیر بن بیٹھے یہ سن کر لوگوں نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ پر بہت سے اعتراضات کرنے شروع کردیئے اور اپنے مذموم عزائم کو ’’امربالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ کے رنگ میں پھیلانا شروع کیا۔ اس سے اہل مصر کی ایک کثیر تعداد فتنہ کی زد میں آگئی۔ انہوں نے کوفہ اور بصرہ کے عوام کو رقعہ جات لکھے جس کے بعد کوفی اور بصری لوگ ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی خلافت کے انکار پر سب متفق ہوگئے۔ انہوں نے کئی ایک آدمی حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے ساتھ مناظرہ کے لئے بھیجے اور کچھ ایسے پیغامات بھیجے کہ ہم آپ کے اس رویہ پر احتجاج کرتے ہیں آپ نے اپنے عزیزواقارب اور رشتہ داروں کو مختلف عہدے پر کیوں فائز کیا؟ اور بڑے بڑے صحابہ کرام کو کوئی اہمیت نہ دی تو یہ باتیں بہت سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرگئیں۔
بانی مذہب شیعہ عبداﷲ بن سبا یہودی کے عقائد کے بیان میں اہل سنت کی مذکورہ کتب کی تائید شیعہ تواریخ سے بھی ہوتی ہے۔ یہاں چند ایک شیعہ کتب کی عبارات پیش کی جاتی ہیں۔
3: روضۃ الصفاء
شیعہ عقائد کی مشہور تاریخ روضۃ الصفاء میں موجد اہل تشیع عبداﷲ بن سبا کے عقائدکی تشریح ان الفاظ میں موجود ہے۔
ابن السواد کہ در کتب مورخان عجم بعبداﷲ ابن سبا اشتہار یافتہ جہری بوداز احبار یہود صنعا بسودای آنکہ عثمان اور امعزز ومحترم دار دبمدینہ آمدہ ایمان آوردہ ورسلک ارباب اسلام انتظام یافت چوں جمال مطلوب اواز حجاب نقاب منکشف نگشت باطائفہ از اصحاب کہ از عثمان نقاری در دل داشتند اختلاط وانبساط آغاز نہادہ قواعد محبت و الفت استحکام دادند وبہ بدگوئی و عیب جوئی عثمان باایشاں ہمداستاں شدہ باب فتنہ و فساد بکشاد چوں عثمان از اینحال آگاہ گشت گفت ایں جہود بارے کیست کہ ازوی ایں ہمہ تحمل باید کردوباخراج او آخر از مدینہ فرمانداد چوں عبداﷲ چوں میدانست کہ مخالفان عثمان در مصر بسیار اندر وی توجہ بداں دیار نہاد بمصریاں ملحق گشتہ باظہار تقویٰ و علم خویش بسیاری از اہل مصر را بفریت بعد از رسوخ عقیدہ از طائفہ بالیشیاں درمیان نہاد کہ نصاری میگویند کہ عیسٰی مراجعت غودہ از آسمان بزمین نازل خواہد شد و ہمگنان راشن است کہ حضرت خاتم الانبیاء افضل از عیسٰی است پس اوبرجعت اولیٰ باشد و خدائے عزو علاے رانیز بایں وعدہ فرمو چنانچہ میفر مائدکہ ’’ان الذین فرض علیک القرآن لرادک الیٰ معاد‘‘ وبعد از آنکہ سفہائے مصر بر ایں مفی عبداﷲ را مصداق دا شتند باایشان گفت کہ ہر پیغمبر یرا خلیفہ ووصی مے بودہ است و خلیفہ رسول علی است کہ بحلیہ زہد و تقویٰ و علم فتویٰ آراستہ است و بشمہ کرم وشجاعت و شیوہ امانت ودیانت و تقویٰ و علم وفتویٰ آراستہ دامت بخلاف نص محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بر علی رضی اﷲ عنہ ظلم روا داشتند وخلافت حق دے بودیا دنگذا شتند اکنوں نصرت و معاونت آنحضرت برجہانیاں واجب و لازم است واتباع اقوال وافعال اوبر ذمت ہمت عالمیان امر تحتم ویساراز مردم مصر کلمات ابن السوا درادر خاطر جائے دادہ پائے از دائرہ متابعت مطاوعت عثمان بروں نہادند
(روضۃ الصفا جلد دوم ص 470 ذکر خلافت عثمان رضی اﷲ عنہ)
ترجمہ: ابن اسواد جوکہ غیر عرب مورخین میں عبداﷲ بن سبا کے نام سی مشہور ہے، صنعا کے یہودیوں میں سے ایک بڑا عالم تھا۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ چونکہ اسے عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ ان کے اس رویہ کی بناء پر مدینہ میں آکر جماعت مسلمین میں شامل ہوگیا۔ جب ان کا مقصد ناکامیابی کے پردوں سے باہر نہ نکل سکا یعنی اس کا دلی مقصد پورا نہ ہوا تو اس نے ان لوگوں کے ساتھ میل جول بڑھانا شروع کردیا جو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے ساتھ دلی کدورت رکھتے تھے۔ باہمی محبت و پیار کے عہدوپیمان باندھے۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی عیب جوئی اور بدگوئی میں ان کا ساتھ دینا شروع کردیا۔ اس طرح فتنہ و فساد کا دروازہ کھولا۔ جب حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ حالات سے آگاہ ہوئے تو خیال فرمایا کہ یہ شخص کون ہے جو اتنے بڑے فتنہ کا باعث بن رہا ہے۔ اسے کیوں برداشت کیاجارہا ہے۔ آپ نے اسے مدینہ سے نکالنے کا فیصلہ فرمالیا جب عبداﷲ بن سبا کو یہ معلوم ہوا کہ مصر میں حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے مخالفین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے تو جانب مصر روانہ ہوگیا۔ وہاں جاکر اپنے تقویٰ اور علم کی بہتات سے لوگوں کو اپنا فریفتہ کرلیا جب بہت سے لوگوں نے اس کے خیالات و عقائد کو قبول کرلیا تو فورا ایک نیا عقیدہ ان کے سامنے پیش کردیا۔ وہ یہ کہ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمانوں سے اتر کر دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضرت خاتم الانبیاءﷺ حضرت عیسٰی علیہ السلام سے افضل ہیں لہذا آپ کو دوبارہ تشریف لانے کا زیادہ حق ہے۔ خود اﷲ تعالیٰ نے بھی آپ سے دوبارہ واپسی کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔
ان الذی فرض علیک القرآن لرادک الی معاد
جس نے آپ پر قرآن نازل فرمایا وہ یقیناًآپ کو لوٹنے کی جگہ کی طرف لوٹائے گا۔
جب عبداﷲ بن سبا کی اس کوشش اورعقیدہ کو مصریوں نے قبول کرلیا تو اس نے ان سے کہا کہ دیکھو ہر پیغمبر کا ایک نہ ایک خلیفہ اور وصی ہوتا رہا ہے اور حضورﷺ کے خلیفہ اور وصی حضرت علی رضی اﷲ عنہ ہیں جو زہدوتقویٰ اور علم و فتویٰ سے مزین ہیں اور کرم و سخاوت، شجاعت و امانت اور تقویٰ و دیانت سے آراستہ ہیں لیکن امت (لوگوں) نے آپ کی واضح ہدایت کے خلاف چل کر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو خلافت نہ دے کر ظلم کیا ہے۔ اب تمام لوگوں پر یہ لازم و واجب ہے کہ حضورﷺ کی وصیت کے اجراء میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی معاونت و نصرت کریں اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے اقوال و افعال کی تعمیل سب لوگوں پر واجب ہے۔
ان کلمات کو سنکر بہت سے مصری لوگ ان کے شیدائی ہوگئے اور ان کی باتوں کو دل سے قبول کرلیا اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی متابعت و اطاعت سے روگردان ہوگئے
وحکٰی جماعۃ من اہل العلم من اصحاب علی علیہ السلام ان عبداﷲ بن سبا کان یہودیاً فاسلم ووالیٰ علیاً علیہ السلام وکان یقول وہو علی یہودییتہ فی یوشع بن نون بعد موسیٰ علیہ السلام بہذہ المقالۃ فقال فی اسلامہ بعد وفاۃ النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ فی علی علیہ السلام بمثل ذلک وہوا ول من اشہر القول بفرض امامۃ علی علیہ السلام واظہرا البرآء ۃ من اعداۂ وکاشف مخالفیہ فمن ہناک قال من خالف الشیعۃ ان اصل الرفض ماخوذ من الیہودیۃ
(کتاب فرق الشیعۃ لابی محمد بن موسیٰ النو نجتی ص 22 مطبوعہ حیدریہ نجف اشرف من علماء قرن الثالث تحت فرقۃ السبائیۃ)
ترجمہ: حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے اہل علم ساتھیوں نے بیان کیا ہے کہ عبداﷲ بن سبا یہودی تھا۔ پھر مسلمان ہوگیا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے محبت کا دعویدار ہوا۔ یہودیت کے دوران وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے انتقال کے بعد حضرت یوشع بن نون کے بارے میں اس قسم کی باتیں کرتا تھا (یعنی حضرت یوشع بن نون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اور وصی تھے) مسلمان ہونے کے بعد حضور علیہ السلام کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں بھی وہی باتیں کہیں۔ یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی امامت کی فرضیت کو مشہور کیا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار کیا اور آپ کے مخالفین کو لوگوں کے سامنے ظاہر کیا۔ اسی وجہ سے شیعہ لوگوں کے مخالفین کہتے ہیں کہ رفض (شیعیت) کی جڑ یہودیت سے (یعنی یہودیت نے ہی ظہور اسلام کے بعد شیعیت کا روپ دھار لیا ہے)
مذہب تشیع کی بنیاد یہود نے رکھی، شیعہ مورخین کا اعتراف
ناسخ التواریخ
عبداﷲ بن سبا مرد جہود بود در زمان عثمان بن عفان مسلمانی گرفت داواز کتب پیشین ومصاحب سابقین نیک دانا بودچوں مسلمان شد خلافت عثمان در خاطر او پسندیدہ نیفتاد پس در مجالس و محافل اصحاب بنشتے وقبائح اعمال و مثالب عثمان راہبرچہ توانستے باز گفتے، ایں خبر بعثمان بروند گفت بارے ایں جمہود کیست وفرمان کردتا اورا از مدینہ اخراج نمودند، عبداﷲ بمصر آمد وچوں مرد عالم و دانا بود مردم بردے گرد آمدند وکلمات اور اباورداشتند، گفت ہاں اے مردم مگر نشنیدہ اید کہ نصاریٰ گوبند عیسٰی علیہ السلام بدیں جہاں رجعت کندوباز آید چنانکہ در شریعت مانیز ایں سخن استوار است چوں عیسٰی رجعت تواں کرد محمد کہ بیگماں فاضلتر از وست چگونہ رجعت نکند وخدا وندنیز در قرآن کریم میفر ماید ان الذی فرض علیک القرآن لرادک
الی معاد
چوں ایں خن در خاطر ہاجائے گیر ساخت گفت خداوند صدوبیست وچہار ہزار پیغمبر بدیں زمین فروفر ستاد دہر پیغمبرے را وزیرے وخلیفتے بود چگونہ یشود پیغمبرے ازجہاں برود خاصہ وقتیکہ صاحب شریعت باشد ونائبے وخلیفتے بخلق نگمار دو کارامت رامہمل بزارد؟ ہمانا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم راعلی علیہ السلام وصی وخلیفہ بود چنانکہ خود فرمود انت منی بمتزلۃ ہارون من موسیٰ، ازیں میتواں دانست کہ علی علیہ السلام خلیفہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم است و عثمان ایں منصب را غصب کردہ وباخود بستہ عمر نیز بناحق ایں کار بشوریٰ افگسند وعبدالرحمن بن عوف بہوائے نفس دست بردست عثمان زدودست علی را کہ گرفتہ بودبا او بیعت کند رہا داد
اکنوں برما کہ در شریعت محمدیم واجب میکند کہ از امر بالمعروف و نبی از منکر خویشتن داری نکنیم، چنانکہ خدا فرماید کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر۔ پس بامردم خویش گفت مارا ہستوز آں نیز ونیست کہ بتوانیم عثمان رادفع داد واجب میکند کہ چندانکہ بتوانیم عمال عثمان را کہ آتش جوروستم رادامن ہمیز نند ضعیف داریم وقبائح اعمال ایشاں رابر عالمیاں روشن سازیم ودلہائے مردم را از عثمان و عمال اوبگردانیم، پس نامہ ہانوشتند واز عبداﷲ بن سعد بن ابی سرح کہ امارت مصر داشت باطراف جہاں شکایت فرستادند ومردم رایکدل ویکجہت کردند کہ در مدینہ گر دآیند وبرعثمان امر بالمعروف کنند واورا از خلیفتے خلع فرمایند
عثمان ایں معنی را تفرس ہمیلکر دو مردان بن الحکم جاسوسال بشہر ہا فرستاد تاخبر باز آور دند کہ بزرگان ہربلد در خلع عثمان ہمدانستاں اندلاجرم عثمان ضعیف ودرکار خود فروماند
(ناسخ التواریخ تاریخ خلفاء جلد سوم صفحہ238,237 طبع جدید مطبوعہ تہران دوران خلافت عثمان بن عفان، مصنفہ مرزا محمد تقی)
ترجمہ: عبداﷲ بن سبا ایک یہودی آدمی تھا۔ عہد عثمانی میں اسلام لایا اور کتب سابقہ اور مصاحف گزشتہ سے خوف واقف تھا۔ جب مسلمان ہوا تو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی خلافت اس کو اچھی نہ لگی چنانچہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ محافل میں بیٹھتا اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے خلافت جتنا کچھ قبیح افعال کا ذکر کرسکتا کرتا رہتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو یہ خبر ملی تو کہا الٰہی یہ یہودی کون ہے؟ چنانچہ حکم دیا کہ اسے مدینہ شریف سے نکال دیا جائے۔ عبداﷲ بن سبا مصر آپہنچا چونکہ عالم و دانا آدمی تھا۔ اس لئے لوگ اس کے گرد جمع ہونے شروع ہوئے اور اس کی باتیں قبول کرنے لگے۔ تب اس نے کہا! اے لوگو! تم نے سنا نہیں کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ عیسٰی علیہ السلام دنیا میں واپس آئیں گے اور ہماری شریعت کے مطابق بھی یہ بات درست ہے۔ اگر عیسٰی واپس آسکتے ہیں تو حضرت محمدﷺ جوان سے افضل ہیں، کیوں واپس نہیں آسکتے۔ اﷲ تعالی ٰبھی قرآن کریم میں فرماتا ہے (ترجمہ) جس خدا نے تجھے قرآن دیا وہ تجھے لوٹنے کے وقت پر لوٹائے گا۔
جب یہ بات لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوگئی (رجعت کا عقیدہ پختہ ہوگیا) تو اب ابن سبا نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اس زمین پربھیجے اور ہر پیغمبرکا ایک وزیر اور خلیفہ ہوا ہے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک پیغمبرﷺ دنیا سے جائے جبکہ وہ صاحب شریعت نبی ہو مگر اپنا خلیفہ و نائب لوگوں میں نہ چھوڑ جائے۔ اپنی امت کا معاملہ (مسئلہ خلافت) مہمل چھوڑ جائے۔
لہذا محمدﷺ کے لئے علی علیہ السلام وصی ہیں اور خلیفہ ہیں۔
جیسا کہ آپ نے علی کو خود فرمایا تو میرے لئے یوں ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہارون علیہ السلام، اسی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ علی علیہ السلام ہی محمدﷺ کے خلیفہ ہیں اور عثمان نے یہ منصب (خلافت) غصب کرکے اپنے اوپر چسپاں کررکھا ہے۔ عمر نے بھی کسی حق کے بغیر یہ شوریٰ پر ڈال دیا اور عبدالرحمن بن عوف نے نفسانی ہوس سے عثمان کی بیعت کرلی اور علی کا ہاتھ بھی اس نے پکڑ رکھا تھا جب علی نے بیعت کرلی تو اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
اب جو ہم شریعت محمدی میں ہیں ہم پر واجب آتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے سستی نہ کریں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے (ترجمہ) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے لائی گئی تاکہ انہیں نیکی کا حکم کرے، برائی سے روکے۔
پھر ابن سبا نے لوگوں سے کہا بھی ہم میں یہ طاقت نہیں کہ عثمان کو خلافت سے اتار سکیں۔ البتہ یہ ہم پر ضروری ہے کہ جتنا ہوسکے عثمان کے عمال (گورنروں) کو جو ظلم و ستم روا رکھے ہیں، کمزور کر ڈالیں۔ ان کے قبیح اعمال اہل دنیا پر واضح کریں اور لوگوں کے دل عثمان اور اس کے عمال سے متنفر کر ڈالیں۔ چنانچہ انہوں نے کئی خطوط لکھے اور والی مصر عبداﷲ بن سعد (کے ظلم) کی شکایت کرتے ہوئے جہاں میں ہر طرف ارسال کردیئے اس طرح انہوں نے لوگوں کو اس بات پر یکدل بنایا کہ وہ مدینہ میں جمع ہوکر عثمان کو امر بالمعروف کریں اور اسے خلافت سے اتاردیں۔
عثمان یہ معاملہ سمجھتے تھے اور مروان بن حکم نے ہر شہر میں جاسوس بھیجے چنانچہ وہ یہ خبر لے کر واپس آئے کہ ہر شہر کے بڑے لوگ عثمان کو اتار دینے میں یک زبان ہیں ناچار عثمان کمزور ہوگئے اور اپنے معاملہ میں عاجز آگئے، قتل ہوگئے۔
ثابت ہوا
معتبر شیعہ مورخ مرزا تقی کی مذکورہ عبارت سے یہ امور ثابت ہوگئے۔
1: عبداﷲ بن سبا پکا یہودی تھا جو عہد عثمانی میں اسلام لایا۔ مگر درپردہ یہودی ہی رہا جیسا کہ فرقہ شیعہ کی عبارت نمبر 4 نے اس پر نص کردی ہے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوا کہ وہ ایک فاضل ودانائے کتب سابقہ شخص تھا۔
2: اس نے شیعہ مسلک کی بنیاد یوں ڈالی کہ سب سے اول مسئلہ رجعت پیدا کیا اور لوگوں کو ذہن نشین کرایا جوکہ شیعہ عقائد کی جڑ ہے۔
3: مسئلہ رجعت کے ایجاد کے بعد لوگوں کو یہ ذہن نشین کرایا کہ علی رضی اﷲ عنہ ہی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا صحیح خلیفہ اور وصی ہے اور خلفاء ثلاثہ نے یہ حق ان سے غصب کیا۔
4: یہ دو عقیدے ایجاد کرنے کے بعد اس نے چاہا کہ انہیں لوگوں میں عام ترویج دی جائے چنانچہ اس نے مختلف ممالک میں ہر طرف خطوط روانہ کئے اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو خلافت سے اتارنے کے لئے سازش کا ایک وسیع جال پھیلا دیا جس میں وہ کامیاب ہوا اور نتیجتاً حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ شہید ہوگئے اور فرقے شیعہ کی بنیاد مضبوط ہوگئی۔
خلاصہ یہ ہوا کہ اہل تشیع فرقے کی بنیاد رکھنے والا بہت بڑا یہودی عالم تھا جو بظاہر اسلام لانے کے باوجود درپردہ یہودی ہی رہا جیسا کہ تاریخ روضۃ الصفاء اور فرق شیعہ جیسی معتبر شیعہ کتب سے اس کی نہایت وقباحت ہوچکی اور آئندہ مزید شواہد آرہے ہیں، اس یہودی عالم نے اسلام کے متعلق اپنی قلبی شقاوت و عداوت کو تسکین دینے کے لئے شیعہ مذہب کی بنیاد رکھی اور اسلام کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب ہوا اور قتل حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ میں کامیاب ہوکر فساد کا وہ دروازہ کھولا جو آج تک بند نہیں ہوسکا۔
قال عبداﷲ بن سبا لعلی انت الا لہ حقاً فنفاہ علی علیہ السلام الی المدآئن وقیل انہ کان یہودیاً فاسلم وکان فی الیہودیۃ یقول فی یوشع بن نون وفی موسیٰ مثل ما قال فی علی علیہ السلام وقیل انہ اول من اظہر القول بوجوب امامۃ علی
(انوار نعمانیہ مصنفہ نعمت اﷲ جزائری ص197، طبع قدیم مطبوعہ ایران طبع جدید جلد 2، ص 234، فرقہ سبائیہ)
ترجمہ: عبداﷲ بن سبا نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں ’’الہ‘‘ ہونے کا عقیدہ ایجاد کیا۔ اس پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اسے جلاوطن کردیا اور کہا گیا ہے کہ یہ اصل میں یہودی تھا پھر مسلمان ہوگیا۔ یہودیت کے دوران حضرت یوشع بن نون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے بارے میں اسی قسم کی باتیں کیا کرتا تھا جیسی حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے متعلق کیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’وجوب امامت‘‘ کا عقیدہ اسی کی اختراع و ایجاد ہے۔
وذکر بعض اہل العلم ان عبداﷲ بن سبا کان یہودیاً فاسلم ووالی علیاً علیہ السلام وکان یقول وہو علی یہودیتہ فی یوشع بن نون وصی موسیٰ بالغلو فقال فی اسلامہ بعد وفاۃ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فی علی علیہ السلام مثل ذلک وکان اول من اشہر بالقول بفرض امامۃ علی و اظہر البراءۃ من اعدآۂ وکاشف مخالفیہ وکفرہم فمن ہنا قال من خالف الشیعۃ ان اصل التشیع والرفض ماخوذ من الیہودیۃ
(رجال کشی مصنفہ عمر بن عبدالعزیز الکشی ص 101 تذکرہ عبداﷲ بن سبا مطبوعہ کربلا)
ترجمہ: بعض علماء نے ذکر کیا ہے کہ عبداﷲ بن سبا یہودی تھا، پھر مسلمان ہوا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے دوستی کی۔ دوران یہودیت حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وصی بطور غلو کہا کرتا تھا۔ اسلام لانے کے بعد حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں بھی اس نے اسی طرح کی بات کہی۔ یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی امامت کے فرض ہونے کا عقیدہ مشہور کیا۔
اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے مخالفوں سے بیزاری کا اظہار کیا اور انہیں عوام میں مشتہر کیا۔ اسی وجہ سے شیعہ لوگوں کے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ شیعیت اور رافضیت کی اصل اور جڑ یہودیت ہے اور یہ مذہب یہودیت سے اخذ کیا گیا ہے۔
عن ابان بن عثمان قال سمعت ابا عبداﷲ علیہ السلام یقول لعن اﷲ عبداﷲ بن سبا انہ ادعی الربو بیتہ فی امیر المومنین علیہ السلام وکان واﷲ امیر المومنین علیہ السلام عبداﷲ طائعاً الویل لمن کذب علینا وان قوما یقولون قینا مالا نقولہ فی انفسنا نبرا الی اﷲ منہم نبراالی اﷲ منہم
(رجال کشی صفحہ 100 مطبوعہ کربلا تذکرہ عبداﷲ بن سبا)
ترجمہ: ابان بن عثمان سے مروی ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر رضی اﷲ عنہ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ اﷲ تعالیٰ عبداﷲ بن سبا پر لعنت کرے کہ اس نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے متعلق خدا ہونے کا دعویٰ کیا۔ حالانکہ قسم بخدا حضرت امیر المومنین خدا کے اطاعت گزار بندے تھے۔ ہم پر افترا بازی کرنے والے کے لئے ہلاکت ہو۔ تحقیق جو قوم ہمارے متعلق وہ بات کہتی ہے جو ہم خود اپنے لئے کہنا روا نہیں سمجھتے۔ ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔ ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔
مذکورہ عبارات سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے
1: مملکت اسلامیہ میں پھوٹ ڈالنے والا پہلا شخص دور عثمانی میں عبداﷲ بن سبا (منافق) تھا اور یہی آدمی شہادت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا باعث تھا۔
2: سب سے پہلے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے لئے ربوبیت اور فرض امامت کا دعویٰ عبداﷲ بن سبا نے کیا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے مخالفین پر تبرا بازی اور لعن طعن کی ابتدا بھی اسی نے کی۔
3: حضرت عیسٰی علیہ السلام کی طرح وہ حضورﷺ کی رجعت دوبارہ تشریف آوری کا قائل تھا۔
4: حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ ان عقائد باطلہ کی بناء پر ہی عبداﷲ بن سبا کو خارج از اسلام قرار دیتے تھے۔
5: عبداﷲ بن سبا اصل میں یہودی تھا اور بظاہر اسلام لایا تھا لیکن دل سے پہلے کی طرح دشمن اسلام و مسلمین تھا۔ شہادت سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے اسباب اس کے مہیا کئے ہوئے تھے۔
............................
شیعہ حضرات کے عقیدہ کے مطابق امامت کیا ہے اور آئمہ کا مرتبہ و مقام کیاہے۔
خمینی بانی ایرانی انقلاب اپنی مشہور ترین کتاب کے صفحہ نمبر52 پر لکھتے ہیں۔
خمینی بانی ایرانی انقلاب اپنی مشہور ترین کتاب کے صفحہ نمبر52 پر لکھتے ہیں۔
’’فان للامام مقاماً محموداً و درجۃ سامیۃ و خلافۃ وتکونیۃ تحفع لولایتھا جمیع ذرات الکون‘‘
امام کو مقام محمود بلند درجہ اور ایسی تکوینی حکومت حاصل ہوتی ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کا مطیع ہوتا ہے۔
توضیح
حالانکہ قرآن کریم اور احادیث متواترہ و اجماع امت سے یہ بات ثابت ہے کہ مقام محمود فقط آپﷺ کی ذات ہے اور کائنات کے ذرہ، ذرہ پر حکومت صرف اﷲ رب العزت کی ہے لیکن شیعہ حضرات کا عقیدہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ عقیدہ تو امام کو تکوینی حکومت حاصل ہونے کا ہے لیکن اگر ائمہ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ سوائے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کسی کو بھی حکومت کا موقع نہیں مل سکا۔
بانی ایرانی شیعہ انقلاب مزید اسی کتاب کے صفحہ نمبر 52 پر لکھتے ہیں۔
وان من ضروریات مذہنا ان الائمتنا مقاماً لایبلغہ ملک قرب ولانبی مرسل
ہمارے مذہب شیعہ کے ضروری اور بنیادی عقائد میں سے یہ عقیدہ ہے کہ ہمارے آئمہ کو وہ مقام و مرتبہ حاصل ہے جو کسی مقرب فرشتے اور نبی مرسل کو بھی نہیں۔
توضیح
یعنی حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے لے کر امام مہدی تک تمام آئمہ نبی کریمﷺ سے بھی افضل ہیں۔ خمینی صاحب نائب امام تھے۔ شیعہ کے ہاں ان کا مرتبہ بھی بلند ہوگا (العیاذ باﷲ) پھر آگے لکھتے ہیں۔
لانتصور فیہم السوہوا والکفلۃ… ان تعالیم الائمۃ کتعالیم القرآن لاتخص جیلا خاصا وانماہی تعالیم للجمیع فی کل عصر ومصرو الی یوم القیمۃ یجب تنفیذ ماہوا تباعھا الحکومت الاسلامیہ ص 13
ہمارے آئمہ سے کسی غلطی یا غفلت کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہمارے آئمہ کی تعلیمات قرآن کی تعلیمات ہی کی مثل ہیں۔ وہ کسی خاص طبقے اور خاص دور کے لئے مخصوص نہیں، وہ ہر زمانے اور ہر علاقے کی تمام انسانوں کے لئے ہیں تا قیامت ان کا نافذ کرنا اور ان کی اتباع و پیروی واجب ہے۔
مذکورہ عبارت غور طلب ہیں۔ رسول اکرمﷺ کی طرح آئمہ کا مقام و مرتبہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان سے غلطی یا لغزش کا تصور بھی حرام ہے۔ ان کی تعلیمات قرآن سے نہیں بلکہ قرآن جیسی ہے۔
زمین کی تباہی
شیعہ حضرات کی مشہور ترین بلکہ امام غائب کی مصدقہ کتاب ’’اصول کافی‘‘ ص 104 پر ہے۔
عن ابی ہمزۃ قال قالت لابی عبداﷲ تبقی الارض بغیر امام قال لوبقیت الارض بغیر امام لساخت
ابو حمزہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق سے پوچھا کیا زمین بغیر امام کے قائم رہ سکتی ہے۔ انہوں نے فرمایا اگر زمین بغیر امام کے رہے تو دھنس جائے گی۔
ایک اور روایت میں ہے
عن احدہما انہ قال لایکون العبد مومنا حتی یصرف اﷲ ورسولہ ولائمۃ کلہم وامام زمانہ (اصول کافی ص 105)
حضرت امام محمد باقر یا امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اﷲ اور اس کے رسول کی اور تمام ائمہ خاص کر اپنے زمانے کے امام کی معفرت حاصل نہ کرے۔
توضیح
دونوں عبارتوں کا مطلب بالکل واضح ہے کہ زمین کی بقاء کے لئے امام کا ہونا لازمی ہے۔ گویا مومن ہونے کے لئے ضروری ہے کہ امام کی معرفت ہو ورنہ العیاذ باﷲ باقی تمام مسلمان غیر مومن ہیں۔
اسی اصول کافی ص 276 میں ایک روایت درج ہے
عن ابی الحسن العطار قال سمعت ابا عبداﷲ یقول اشرک بین الاوصیاء والرسل فی الطاعۃ
ابوالحسن عطار نے روایت کیا کہ میں نے امام جعفر صادق سے سنا ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ ائمہ اور رسولوں کو اطاعت میں برابر سمجھو
توضیح
یعنی جس طرح انبیاء علیہم السلام کی اطاعت امت پر فرض ہے، بالکل اسی طرح ائمہ کی بھی اطاعت فرض ہے بلکہ شیعہ کی مشہور ترین کتاب حیات القلوب جلد سوم صفحہ اول پر ہے۔
مرتبہ امامت برتر نبوت است
مرتبہ امامت نبوت سے برتر ہے
جب ائمہ کا مرتبہ و مقام نبوت سے اعلیٰ ہے تو ان کی اطاعت بھی ان سے زیادہ اہم ہوگی۔ اصول کافی میں ہے۔ محمد بن سنسان سے ایک روایت کہ میں نے ابو جعفر ثانی محمد بن علی سے سوال کیا کہ شیعوں کے درمیان حلال و حرام میں بے حد اختلاف ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ تو ابو جعفر ثانی نے تفصیل کے ساتھ جواب دیتے ہوئے فرمایا
فہم یحلون ماشیاؤن ویحرمون مایشائون ولن یشائو الا ان یشاء اﷲ
وہ امام جن چیزوں کو چاہتے ہیں حلال کردیتے ہیں اور جن چیزوں کو چاہتے ہیں حرام کردیتے ہیں اور وہ وہی چاہتے ہیں جو اﷲ چاہتا ہے۔
توضیح
اس جملہ میں حلال و حرام کا اختیار رکھنے والے اگرچہ حضورﷺ، حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو کہا گیا ہے لیکن شارح اصول کافی علامہ خلیل قزوینی نے اس حدیث کی تشریح کردی کہ ان تینوں کے علاوہ ان کی نسل سے پیدا ہونے والے تمام آئمہ کو یہ اختیار حاصل ہے۔ الصافی شرح اصول کافی جلد دوم ص 149
امام کی دس خصوصیات
حضرت امام محمد باقر کی طرف منسوب ایک روایت سنئے ۔
1۔ یولد مطہراً مختونا … امام پاک و صاف ختنہ کیا ہوا پیدا ہوتا ہے
2۔ واذا وقع علی الارض وقع علی راحیۃ رافعا صوتہ بالشہادتین … اور جب ماں کے پیٹ سے زمین پر آتا ہے تو دونوں ہتھیلیاں زمین پر رکھے ہوتا اور بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھتا ہے۔
3۔ ولا یجنب… اور اس کو کبھی جنابت نہیں ہوتی (غسل کی ضرورت نہیں)
4۔ وتنام عینا ولاینام قلب… جب سوتا ہے تو (صرف) آنکھ سوتی ہے دل بیدار رہتا ہے۔
5۔ ولایتشائوب… اور کبھی جماہی نہیں آتی
6۔ ولایتمطی … اور اس کو کبھی انگڑائی نہیں آتی
7۔ ویریٰ خلفہ کما یرٰی من امامہ… امام آگے اور پیچھے سے برابر دیکھتا ہے
8۔ ونجوہ کرائمۃ السک… امام کے پاخانہ سے مشک کی سی خوشبو آتی ہے۔
9۔ والارض مامورۃ بسترۃ وابصلاعۃ… اور زمین کو حکم ہے کہ اس کے پاخانہ کو ڈھک لے اور نگل لے
10۔ واذا بس ذرع رسول اﷲ کانت وفقاء واذا بس غیرہ من الناس طویلہم قصیر ہم زادت علیہ شبرا… اور جب وہ رسول اﷲﷺ کی ذرہ پہنتا ہے تو اس کو بالکل ٹھیک آتی ہے جبکہ اس ذرہ کو کوئی دوسرا لمبا یا چھوٹا آدمی پہنتا ہے تو وہ ایک بالشت بڑی رہتی ہے۔
ایک اور روایت پڑھئے
امام خمینی کے پسندیدہ شیعہ مولوی علامہ باقر مجلسی اپنی ایک کتاب ’’حق الیقین‘‘ ص 126پر امام حسن عسکری سے اس روایت کو بیان کیا ہے
حمل مااوصیائے پمفران درشکم نمی باشد در پہلومے باشد واز رحم بیرون نمی آئیم بلکہ ازران مادران فردمے آئیم زیراکہ مانور خدائے تعالیٰ ایم وچرک وکشافت ونجاست رازمادر گردانیدہ است
ہمارے ائمہ کا حمل پیٹ میں نہیں ہوتا بلکہ پہلو میں ہوتا ہے اور ہم رحم سے باہر نہیں آئے بلکہ مائوں کی رانوں سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ہم خداوند تعالیٰ کا نور ہیں، لہذا ہمیں گندگی و نجاست وغیرہ سے پاک رکھا جاتا ہے۔
یہ ہے ان فی ذالک لایت لقوم یعقلون
.....................................
امام تمام عیوب سے پاک
آٹھویں امام حضرت موسیٰ رضا کی طرف منسوب ایک روایت آئمہ کے فضائل و خصائص بیان کرتے ہیں:
الامام المطہر من الزنوب والمبئرمن العیوب: یعنی امام ہر طرح کے گناہوں اور عیوب سے مبراء و پاک ہوتا ہے۔ آگے فرماتے ہیں۔
فہو معصوم موید موفق، مسدد، قدامن، من الخطاء والذلل والعشاریخصہ اﷲ بذالک لیکون حجۃ علی عبادہ وشاہد علی خلقہ
(اصول کافی ص 123)
خلاصہ: امام معصوم ہوتا ہے۔ اﷲ کی تائید و توفیق اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کو سیدھا رکھتا ہے۔ وہ غلطی لغزش اور بھول چوک سے محفوظ و مامون ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ معصومیت کی اس نعمت کے ساتھ اس کو مخصوص کرتا ہے تاکہ وہ اس کے بندوںپر اس کی حجت اور اس کی مخلوق پر گواہ ہو۔
کتاب مذکورہ کے صفحہ 113 پر رقم طراز ہیں:
ان اﷲ تبارک و تعالیٰ طہرنا و عصمنا وجعلتا شہداء علی خلقہ و حجۃ فی ارضہ
بے شک اﷲ تعالیٰ نے ہم آئمہ کو پاک بنایا اور معصوم بنایا ہے اور اپنی مخلوق پر گواہ اور اپنی زمین میں حجت قرار دیا ہے
آئمہ کے پاس ملائکہ کی آمد
امام غائب کی مصدقہ کتاب اصول کافی ص 137 پر دیکھئے۔
وان عندنا علم النوراۃ والانجیل والزبور وتبیان مافی الالوح
اسی کتاب کے صفحہ 135 پر
عن الشجرۃ الانبوۃ وبیت الرحمۃ ومفاتیح الحکمۃ ومعدن العلم وموضع الرسالۃ ومختلف الملائکۃ
بے شک ہمارے آئمہ کے پاس تورات، انجیل اور زبور کا علم ہے اور الواح میں جو کچھ تھا اس کا واضح بیان ہے۔ ہم آئمہ نبوۃ کے درخت ہیں اور رحمت کے گھر ہیں اور حکمت کی کنجیاں ہیں اور علم کا خزانہ ہیں اور رسالت کی جگہ ہیں اور ہمارے آئمہ کے پاس ’’ملائکہ کی آمدورفت‘‘ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
توضیح
مذکورہ عبارات سے یقینا آپ اندازہ کرچکے ہوں گے کہ عقیدہ شیعہ کے مطابق آئمہ کا مرتبہ و مقام کسی طرح انبیاء علیہم السلام سے کم نہیں بلکہ بعض خصوصیات میں تو وہ انبیاء سے برتر و بالاہی معلوم ہوتے ہیں۔
مثلا بوقت پیدائش ماں کے پیٹ سے خلاف فطرت مخصوص انداز سے باہر آنا، حمل کا ماں کے رحم کے بجائے پہلو میں قرار پانا، غسل جنابت کی ضرورت نہ ہونا فطری طریقے سے نہیں بلکہ ماں کی ران سے باہر آنا وغیرہ بلکہ ایرانی انقلاب کے بانی خمینی تو لکھتے ہیں:
وان من ضروریات مذہبنا ان الائتمنا معاما لایبلغہ ملک مقرباب ولا نبی مرسل، الحکومیۃ الاسلامیہ (ص 52)
ہمارے مذہب شیعہ کے ضروری اور بنیادی عقائد میں سے یہ عقیدہ بھی ہے کہ ہمارے آئمہ کو وہ مقام و مرتبہ حاصل ہے جو کسی مقرب فرشتے اور نبی مرسل کو بھی نہ ملا۔
بات بالکل صاف ستھری ہے کہ آئمہ انبیاء سے افضل ہیں۔ ہم اس بات کی وضاحت سمجھتے ہیں کہ ہمارا مقصد انتشار کرنا نہیں بلکہ ہم جماعت اہلسنت ایک پرامن اور بھائی چارے کی فضا کے خواہ ہیں۔ ہمارا پیغام ہے امن اور سلامتی۔ ہم کسی کے عقائد پر تنقید کرنا نہیں چاہتے بلکہ صرف منظر عام پر لانا ہے جہاں اہلسنت کو ایسے عقائد سے دور رکھنا ہماری مذہبی ذمہ داری ہے وہاں عوام شیعہ کو بھی آئینہ دکھانا مقصود ہے کیونکہ شیعہ ملنگوں نے اپنی عوام کو کتابی عقیدہ سے دور رکھا ہوا ہے صرف مجلس تک محدود ہیں۔
آئمہ پر کتاب کا نزول
انبیاء علیہم السلام پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے صرف ایک کتاب نازل ہوتی رہی ہے۔ لیکن شیعہ دوستوں کے آئمہ پر ہر سال اﷲ کی طرف سے کتاب نازل ہوتی ہے۔ دیکھئے اصول کافی ص 153 امام باقر فرماتے ہیں۔
ولقد قضی ان یکون فی کل سنۃ لیلۃ یہبط فیہا بتفسیرالا مورالی مثلہا من السنۃ اعقبلۃ
اور یہ بات اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہوچکی ہے کہ ہر سال میں ایک رات ہوگی جس میں اگلے سال کی اسی رات تک کے سارے معاملات کی وضاحت اور تفصیل نازل کی جائے گی۔
اس اجمال و حدیث کی پوری وضاحت شارح اصول کافی علامہ قزوینی ایرانی شرح اصول جلد دوم ص 229 پر لکھتے ہیں۔
برائے ہر سال کتاب علیحدہ است مداد کتاب است کہ دراں تفسیر احکام حوادث کہ محتاج الیہ امام است تاسال دیگر نازل شند بآں کتاب ملائکہ و روح در شب قدر بر امام زمان: خلاصہ
ہر سال کے لئے ایک علیحدہ کتاب ہوتی ہے۔اس سے مراد وہ کتاب ہے جن میں ان احکام و حوادث کی تفسیر ہوتی ہے جن کی ضرورت امام وقت کو آئندہ سال تک ہوگی۔ اس کتاب کو لیکر ملائکہ اور روح ہر شب قدر میں امام زماں پر نازل ہوتے ہیں۔
توضیح: مذکورہ عبارت سے بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہر شب قدر میں ایک نئی کتاب نازل ہوتی ہے جو امام وقت کے لئے پورے سال کا لائحہ عمل ہوتا ہے جو اہل تشیع کو تعلم دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ صحیفہ صرف امام کے لئے مخصوص ہے بلکہ امام وقت پر بھی نازل ہوتا ہے۔ یقینا خمینی صاحب پر بھی نازل ہوتا ہوگا۔
شاید اسی میں قوانین ایران نافذ ہوتے ہوں گے جس میں جنگ و جدال سنیوں کا قتل عام، دس لاکھ سنی مسلمانوں کو شہید کرنے والے خمینی صاحب ہیں جنہوں نے غداری کا بہانہ بناکر کتے اور بلیوں کی طرح شہید کیا۔ سنی علماء کو اقتدار پر آتے ہی پھانسی دے دیں یا ان کو تاحیات جیل میں بند کردیا۔
اہلسنت کی تبلیغ پرپابندی لگادی۔ کوئی پریس اہلسنت کی کتاب شائع نہیں کرسکتی۔ کوئی سنی مولوی تفسیر نہیں لکھ سکتا۔ کوئی سنی کلیدی عہدہ پر فائز نہیں ہوسکتا۔ کوئی سنی ممبر اسمبلی نہیں بن سکتا۔ تہران میں ایک لاکھ سنی مسلمان ہیں وہاں ان کے لئے ایک مسجد بھی نہیں۔ تہران جوکہ دارالخلافہ ہے وہاں سنی مسلمان جمعہ شریف سفارت خانہ میں جاکر ادا کرتے ہیں۔ اہلسنت کے تمام مداس اور جامع مساجد کو اقتدار پر آتے ہی شہید کردیا گیا۔ فافہم و تدبر
آئمہ کا اختیار
یاد رہے کہ شیعہ دوستوں کی اصول کافی کتاب کوئی معمولی نہیں بلکہ امام زمانہ کے پاس علامہ یعقوب کلینی مولف اصول کافی غار میں لے گئے۔ امام صاحب جو ماکان ومایکون کا علم رکھتا ہے۔ فرمایا ہذا کاف لشیعتنا یہ کتاب ہمارے شیعہ کے لئے کافی ہے۔ اس کتاب میں 16 ہزار سے زائد روایات ہیں۔ پانچ فیصد احادیث باقی آئمہ کے ارشادات ہیں۔
اس کتاب کے صفحہ 259 پر لکھتے ہیں۔
اما علمت ان الدنیا والاخرۃ لامام یضعھا حیث شاء وید فعھا الی مایشاء
امام جعفر صادق کی طرف منسوب روایت: کیا تم کو یہ بات معلوم نہیں کہ دنیا و آخرت سب امام کی ملکیت ہے وہ جس کو چاہیں دے دیں اور عطاء کردیں۔
امام غائب ظاہر ہوکر
خمینی صاحب کے ممدوح قابل تعریف مورخ علامہ باقر مجلسی نے امام کے بارے میں بہت کچھ اپنی مختلف کتب میں لکھا ہے۔ تاہم انتہائی اختصار کے ساتھ قارئین تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔
وقتیکہ قائم علیہ السلام ظاہر می شود پیش از کفار، ابتدا بہ سنیان خواہد کرد باعلما ایشاں و ایشان را خواید کشت، حق الیقین ص 139
جس وقت امام قائم ظاہر ہوں گے تو وہ کافروں سے پہلے سنیوں اور عالموں سے اپنا کام شروع کریں گے اور ان سب کو قتل کر ڈالیں گے۔
توضیح
خمینی صاحب نے امام غائب کی بات کو مان کر خوب عمل کیا اور اب بھی ان کے نائبین عمل کررہے ہیں۔
جگر پر ہاتھ رکھ کر پڑھیئے
امام غائب کا ایک کارنامہ تو آپ پڑھ چکے کہ سنیوں عوام و علماء کو قتل کرے گا۔ دوسرا کارنامہ پڑھیئے۔ باقر مجلسی لکھتا ہے۔
چوں قائم ظاہر شود عائشہ را زندہ کند تا براد حد بزند انتقام فاطمہ از اوبکشد (حق الیقین ص 139، طبع ایران)
جب ہمارے امام ظاہر ہوں گے تو وہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو زندہ کرکے سزا دیں گے اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہاکا انتقام لیں گے (العیاذ باﷲ)
اور سنئے
اسی حق الیقین کے صفحہ 135 پر باقر مجلسی ایرانی لکھتا ہے (صرف ترجمہ)
امام غائب حاضر ہوکر سرکارﷺ کے روضہ انور کے قریب کھڑے ہوں گے اور حاضرین سے حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے مزارات اور ان کے حالات متعلق معلومات کریں گے اور پھر تین دن بعد قبروں کوکھدوا کر دونوں کے مقدس جسموں کو نکالنے کا حکم دیں گے۔ یہ جسم تازہ ہوں گے صوف کا کفن ہوگا جس میں دفن کئے گئے تھے۔ امام غائب کے حکم سے کفن اتروا کر لاشوں کو برہنہ کرایا جائے گا اور ایک سوکھے درخت پر لٹکا دیاجائے گا۔ وہ درخت ان کی برکت سے سرسبزوشاداب ہوکر ان پر سایہ کرے گا۔ یہ خبر پورے مدینہ شہر میں پھیل جائے گی۔ لوگ جمع ہوجائیں گے۔ امام کے حکم سے ایک کالی آندھی آئے گی جس سے ابوبکر و عمر کی عظمت کرنے والی (سنی) تباہ ہوجائیں گے۔ ان دونوں حضرات کو زندہ کرکے سخت ترین سزائیں دی جائیں گی پھر امام کے حکم سے ایک آگ آئے گی جو درخت اور ان حضرات کو جلاکر خاک کردے گی۔ امام ہوا کو حکم دیں گے جو اس راکھ کو تمام دریائوں پر چھڑک دے گی۔
نوٹ: اس پر تبصرے سے قلم اور جگر ساتھ نہیں دے رہے۔ اس لئے قارئین پر چھوڑ رہا ہوں۔ لعنۃ اﷲ علی الکٰذبین
.........................
مسئلہ خلافت میں اہل سنت و جماعت کا عقیدہ
خلافت راشدہ کا زمانہ حضرت محمدﷺ کی پیش گوئی کے مطابق تیس سال ہے اور اﷲ تعالیٰ نے حسب وعدہ اس عرصہ میں خلفائے راشدین کے مراتب کے اعتبار سے مسند خلافت پر فائز فرمایا۔ نیز آیت ’’استخلاف‘‘ جو رب العزت نے وعدے فرمائے تھے، وہ سب اس مدت میں پورے فرمادیئے۔ امامت، خلافت سے کوئی الگ چیز نہیں ہے اور امامت ’’اصول دین‘‘ میں سے نہیں ہے۔
مسئلہ خلافت میں اہل تشیع کا عقیدہ
نبی کریمﷺ کے رحلت شریفہ کے بعد حضرت علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہ خلیفہ بلا فصل تھے اور ان کی خلافت منصوص من اﷲ تھی۔ خلفائے ثلاثہ نے اسے جبراً چھینے رکھا۔
اس لئے ان تینوں کا زمانہ جو روصفا کا زمانہ تھا، عدل و احسان کا وہی دور تھا جس میں حضرت علی کرم اﷲ تعالی وجہ مسند خلافت پر فائز رہے۔ امامت اور چیز ہے اور خلافت اس سے علیحدہ منصب ہے کیونکہ امام کا معصوم ہونا شرط ہے۔ اور خلافت کے منصب پر متمکن ہونے والے کے لئے عصمت کوئی شرط نہیں۔
(خلفائے راشدین کی خلافت حصہ پر دلائل)
(خلفائے ثلاثہ کی خلافت کو برحق نہ سمجھنے والا حضرت علی کے نزدیک لعنتی ہے)
قال امیر المومنین و من لوقل انی رابع الخلفآء فعلیہ لعنۃ اﷲ
(مناقب علامہ ابن شہر آشوب سوم، 63)
ترجمہ ’’حضرت امیر المومنین رضی اﷲ عنہ نے فرمایا جو مجھے ’’رابع الخلفائ‘‘ نہ کہے اس پر لعنت ہے۔
وضاحت:
حضرت علی کرم اﷲ وجہ نے اپنے اس کلام میں صاف صاف فیصلہ فرمایا کہ میں چوتھے نمبر پر خلیفہ ہوں اور جس کویہ عقیدہ معلوم نہ ہو اس پر اﷲ کی پھٹکار ہو، حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے اس قول سے ہمیں دو باتیں معلوم ہوتی ہیں:
1: آپ کو خلیفہ بلافصل کہنا باطل ہے اور ایسا کہنے والے پر لعنت ہے۔
2: آپ خلفائے اربعہ میں سے چوتھے نمبر پر خلیفہ ہیں اور یہی عقیدہ ضروری بھی ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے اس کلام پر عمل کرنا اور اسے درست تسلیم کرنا اس وقت تک محال ہوگا جب تک خلیفہ ’’بلافصل‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو نہ مانا جائے۔ دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ اور تیسرے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو تسلیم نہ کرلیا جائے۔ ان تینوں کے بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت کو مانا جائے ورنہ اس کے بغیر ’’اﷲ کی لعنت‘‘ سے بقول حضرت علی رضی اﷲ عنہ بچنا محال ہوجائے گا۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے سے
اﷲ تعالیٰ کا انکار
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت بلافصل کا ایک سو بیس مرتبہ حکم آسمان پر اور تین دفعہ ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر اگر بزعم اہل تشیع درست تسلیم کرلیا جائے اور بقول ان کے آخری مرتبہ
فان لم تفعل فما بلغت رسالۃ
کے تو بیخانہ انداز سے حضورﷺ کو اس کے اعلان پرزور دیا گیا ہے تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر یہ سب دعاوی درست ہے تو ’’فرات بن ابراہیم اسکوفی‘‘ نے حضرت امام باقر رضی اﷲ عنہ کے حوالے سے اپنی تفسیر ’’رات اسکوفی‘‘ میں یہ الفاظ کیوں اور کس وجہ سے تحریر کئے جاتے ہیں۔
فرات
حدثنی جعفر بن محمدن الفزاری محنحنا عن جابر قال قرأت عن ابی جعفر علیہ السلام لیس لک من الامر شیٔ قال فقال ابو جعفر بلی واﷲ لقد کان لہ من الامر شی فقتلہ جعلت فداک فما تاویل قولہ لیس لک من الامر شی ء قال ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حرص ان یکون الامر لا امیر المومنین (ع) من بعدہ فابی اﷲ ثم قال کیف لایخون لرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم من الامرشی ء وقد فوض الیہ فما احل کان حلالاً الا الیوم القیامۃ وما حرم کان حراماً الی یوم القیٰمۃ
(تفسیر قرات اسکوفی مطبوعہ صدریہ نجف اشرف ص 19)
جعفر ابن محمد فزاری حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے راوی ہیں اور حضرت جابر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام باقر رضی اﷲ عنہ کے سامنے ’’لیس لک من المامر شیئ‘‘ آیت کا حصہ تلاوت کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں (اے پیغمبر) کسی معاملہ کا قطعاً کوئی اختیار نہیں (چونکہ اس آیت کے حصے میں حضورﷺ کے اختیار کی عام اور مطلق نفی ہے حالانکہ آپ مختار ہیں) تو اس پر جناب امام باقر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا۔ ہاں! خدا کی قسم نبی کریمﷺ کو اختیار تھا۔ امام موصوف کے کہنے کے بعد میں نے عرض کی۔ آپ پر اے امام میرے ماں باپ قربان (اگر آپ کا فرمانا درست ہے) تو اﷲ کے اس ارشاد کا کیا مفہوم ہے ’’لیس لک من الامر شی ئ‘‘ اور اس کی کیا تاویل ہوگی، حضرت امام باقر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ حضورﷺ اس امر کے شدید متمنی ہیں کہ اﷲ تعالیٰ حضرت علی المرتضیٰ کے لئے ’’خلافت بلافصل‘‘ کا حکم عطا فرمائے لیکن اﷲ نے اس خواہش کو پورا کرنے سے انکار فرمادیا۔ پھر امام موصوف نے فرمایا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ رسولﷺ کو کسی قسم کا کوئی اختیار نہ ہو۔ حالانکہ اﷲ نے آپ کو اس کی تفویض فرمادی تو اﷲ کی تفویض کی وجہ سے جس کو آپ نے حلال فرمایا۔ وہ قیامت تک حلال ہوئی اور جس کی حرمت فرمادی وہ تاقیامت حرام ہوئی۔
توضیح
اس روایت میں اہل بیت کے سردار جناب حضرت امام باقر رضی اﷲ عنہ نے فیصلہ ہی کردیا کہ نبیﷺ کے اﷲ رب العزت سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی ’’خلافت بلافصل‘‘ کا سوال تو کیا تھا لیکن اﷲ نے اس کا انکار کردیا۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے سے
نبی پاکﷺ کا انکار
’’شیخ مفید‘‘ اپنی مشہور اور معتبر کتاب ’’ارشاد شیخ‘‘ میں حدیث قرطاس کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں۔
الارشاد
فنہضوا وبقی عندہ العباس والفضل بن عباس و علی بن ابی طالب واہل بیتہ خاصۃ فقال لہ العباس یارسول اﷲ ان یکن ہذہ الامر فنا مستقراً من بعدہ فبشرنا وان کنت تعلم انا نغلب علیہ فاقض بنا فقال انتم المسضعفون من بعدی واصمت فتھض القوم وہم یبکون قد یلئسومن النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ
1۔ الارشاد الشیخ المفید ص 99 باب فی طلب رسول اﷲ بداوۃ وکتف
2۔ اعلام الوریٰ مصنفہ ابی الفضل ابی الحسن الطبرسی ص 142 بالفاظ مختلفہ
3۔ تہذیب المتین فی تاریخ امیر المومنین مطبوعہ یوسی دہلی جلد اول ص 236
ترجمہ:
(قلم دوات لانے کے متعلق جب صحابہ کرام میں اختلاف ہوگیا تو نبی پاکﷺ نے سب کو اٹھ جانے کا حکم دیا) جب سب اٹھ کر چلے گئے وہاں باقی ماندہ اشخاص میں حضرت عباس، فضل بن عباس، علی بن ابی طالب اور صرف اہل بیت تھے۔ تو حضرت عباس نے عرض کی یارسول اﷲ! اگر امر خلافت ہم بنی ہاشم میں ہی مستقل طور پر رہے تو پھر اس کی بشارت دیجئے اور اگر آپ کے علم میں ہے کہ ہم مغلوب ہوجائیں گے تو ہمارے حق میں فیصلہ فرمادیجئے۔ اس پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔ میرے بعد تمہیں بے بس کردیا جائے گا۔ بس اسی قدر الفاظ فرما کر سکوت فرمالیا۔ اورحالت یہ تھی کہ جناب عباس، علی ابن طالب اور دیگر موجود اہل بیت رو رہے تھے اور روتے روتے آپﷺ سے ناامید ہوکر اٹھ گئے۔
مذکورہ حدیث میں اس بات کی بالکل وضاحت ہے کہ حضورﷺ نے زندگی کے آخری وقت تک کسی کو خلافت کے لئے نامزد نہیں فرمایا تھا۔ اگر حضرت علی کی خلافت کا فیصلہ ’’خم غدیر‘‘ کے مقام پر ہوچکا ہوتا اور وہ بھی ہزاروں لوگوں کے سامنے تو قلم دوات لانے پر اختلاف لانے کے موقع پر حضرت عباس کی گزارش مذکورہ الفاظ کی بجائے یوں ہونی چاہئے تھی۔ ’’یارسول اﷲﷺ اگر خلافت علی رضی اﷲ عنہ (جیسا کہ آپ خم غدیر پر فیصلہ فرما چکے ہیں) قائم و دائم رہے گی تو ہمیں خوشخبری سنا دیجئے۔
واذا سری النبی الی بعض ازواجہ حدیثا
جب نبیﷺ نے اپنی کسی بیوی سے ایک روز کی بات کی۔
اس کی تفسیر میں ’’صاحب تفسیر صافی‘‘ اور صاحب تفسیر قمی نے اس کا سبب نزول یوں لکھا ہے کہ:
نبی پاکﷺ جس دن سیدہ حفصہ کی باری تھی، ان کے گھر اس وقت وہاں ’’ماریہ قبطیہ‘‘ بھی موجود تھیں۔ اتفاقاًسیدہ حفصہ کسی کام سے باہر گئیں تو حضور پاکﷺ نے ’’ماریہ قبطیہ‘‘ سے صحبت فرمائی۔ تو جب سیدہ حفصہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ ناراضگی فرماتے ہوئے آپﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ یارسول اﷲﷺ آپ کے میرے گھر میں اور پھر میری باری میں ماریہ قبطیہ سے صحبت کیوں فرمائی۔ اس کے جواب میں حضورﷺ نے سیدہ حفصہ کو راضی کرنے کے لئے یہ فرمایا۔ ایک تو میں نے ماریہ قبطیہ کو اپنے نفس پر حرام کیا اور آئندہ اس سے کبھی صحبت نہیں کروں گا اور دوسرا میں تجھے ایک راز کی بات بتاتا ہوں۔ اگر تو نے اس راز کو ظاہر کرنے کی کوشش کی تو تیرے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ سیدہ حفصہ نے عرض کی ٹھیک ہے۔
فقال انی ابابکر یلی الخلافۃ بعدی ثمہ بعدہ ابوی فقالت من انبای ہذا قال نبانی العلیم الخبیر
ترجمہ: (راز کی بات ارشاد فرماتے ہوئے) آپﷺ نے فرمایا: میرے بعد بے شک ابوبکر خلیفہ ہوں گے۔ پھر ان کے بعد تیرے والد بزرگوار اس منصب پر فائز ہوں گے۔ اس پر سیدہ حفصہ نے عرض کی کہ حضورﷺ یہ خبر آپ کو کس نے دی؟ آپﷺ نے فرمایا مجھے اﷲ علیم وخبیر نے خبر دی (تفسیر صافی ص 714، تفسیر قمی ص 457، سورہ تحریم)
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت بلافصل ثابت کرنے کی دھن میں توہین رسول علیہ السلام
شیعہ حضرات کو تو اپنا مقصد بیان کرنا ہے۔ خواہ اس کے لئے من گھڑت روایات، غلط استدلال اور لچر تاویلات ہی کیوں نہ کرنی پڑیں۔ اس اندھے پن میں اپنا الو سیدھا کرتے ہوئے انہیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ ہمارے اس طرز استدلال سے انبیاء کرام اور خصوصا نبی کی شان اقدس پر کیا کیا اتہام و بتہان اور الزام تراشی کی جارہی ہے۔ اگر اعتبار نہ آئے تو ایک دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔
اﷲ رب العزت کا ارشاد ہے۔
لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکوتن من الخٰسرین
ترجمہ : ’’بفرض محال آپﷺ نے شرک کیا تو یقینا آپ کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے اور آپ لازما خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ اس آیتہ کی تفسیر میں ’’صاحب تفسیر قمی اور صاحب تفسیر صافی‘‘ یوں گویا ہیں۔
تفسیر صافی و تفسیر قمی
عن الباقر علیہ السلام انہ سئل عن ہذہ المایۃ فقال تفسیر ہالمان امرت بولمایۃ احدح ولایۃ علی السلام من بعدی لیحبطن عملک ولتکوتن من الخٰسرین
ترجمہ: ’’حضرت امام باقر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ (لئن اشرکت) کے بارے میں سوال ہوا تو فرمایا کہ اس کی تفسیریہ ہے کہ آپ نے اگر اپنی وفات کے بعد حضرت علی کی خلافت کے ساتھ کسی اور کو اس امر میں شریک کار کیا تو اس جرم کی پاداش میں آپ کے تمام اعمال حسنہ ضائع ہوجائیں گے اور نتیجتاً آپ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
شیعوں کی خبر متواتر، عقل و نقل سے باطل
سید ابن طائوس و ابن شہر آشوب و دیگر ان روایت کردہ اندر کہ عامر بن طفیل و ازید بن قیس بقصد قتل آنحضرت آمدند، چوں داخل مسجد شدید، عامر بزدیک آنحضرت آمدند گفت، یامحمد، اگر من مسلمان شوم، برائے من چہ خوابدبو، حضرت فرمودکہ برائے تو خواہد بود آنچہ برائے ہمہ مسلمانان ہست، گفت میخو اہم بعد از خودمرا خلیفہ گردانی، حضرت فرمود، اختیار ایں امر بدست خدا است و بدعت من تونیست
(حیاۃ القلوب، ج 2، ص 72، 44 باب بستم بیان معجزات کفایت از شردشمنان مطبوعہ نامیع نولکشود)
ترجمہ ’’سید ابن طائوس ابن شہر آشوب اور دیگر حضرات نے روایت کیا کہ عامر بن طفیل اور ازید بن قیس جب حضورﷺ کے قتل کرنے کی نیت سے آئے اور مسجد میں داخل ہوئے تو ’’عامر بن طفیل‘‘ آپ کے نزدیک گیا اور کہا: یامحمد اگر میں مسلمان ہوجائوں تو میرے لئے کیا انعام ہوگا اور مجھے اس سے کیا فائدہ ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا تمہیں بھی وہی ملے گا جو تمام مسلمانوں کو ملتا ہے۔ (یعنی تمہارا فائدہ اور نقصان سب کے ساتھ مشترکہ ہوگا۔ اس نے کہا میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اپنے بعد خلیفہ بنادیں۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا۔ یہ تو اﷲ کے اختیار میں ہے مجھے اور تجھے اس میں کوئی دخل نہیں۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی بیعت کو اپنے پر لازم قرار دیا
الدلیل عندی عزیز حتی اخذ الحق لہ والقوی عندی ضعف حتی اخذا الحق منہ رضینا عن اﷲ فضاء ہ و سلمنا ﷲ امرہ التدا فی اکذب علی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم واﷲ لمانا اول من صدقہ فلا اکون اول من کذب علیہ فنظرت فی ابدی فاذا طباعتی قد سبقت بیعنی واذا لمیثاق فی عنقی لغیری
ترجمہ: ہر ذلیل میرے نزدیک باعزت ہے۔ جب تک اس کا دوسرے سے حق نہ لے لوں اور قوی میرے لئے کمزور ہے۔ یہاں تک کہ میں مستحق کا حق اسے دلادوں۔ ہم اﷲ کی قضا پر راضی ہوئے اور اس کے امر کو اسی کے سپرد کیا تو سمجھتا ہے کہ میں نبیﷺ پر بہتان باندھوں گا۔ خدا کی قسم! میں نے ہی سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سب سے پہلا جھٹلانے والا ہوں۔ میں نے اپنا معاملہ میں غوروفکر کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرا ابوبکر کی اطاعت کرنا اور ان کی بیعت میں داخل ہونا اپنے لئے بیعت لینے سے بہتر ہے اور میری گردن میں غیر کی بیعت کرنے کا عہد بندھا ہوا ہے۔ اس روایات کے کچھ الفاظ کی ’’ابن میثم‘‘ اس طرح شرح کرتا ہے۔
شرح ابن میثم: فقولہ فنظرت فاز طاعتی قد سبقت بیعتی ای طاعتی لرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فیما امرنی بہ من ترک القتال قد سبقت بیعتی للقوم فلا سبیل اﷲ الی المامتناع منہا وقولہ واذا المیثاق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم وعہدہ الی بعدم المشاقہ وقیل المیثاق مالزمہ من بیعۃ ابی بکر بعد ابقائھا ای فاذ میثاق القوم قد لذہنی فلم یمکنی المخالفۃ بعدہ
’’پس میں نے غور وفکر کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ میرا اطاعت کرنا بیعت لینے سے سبقت لے گیا یعنی حضورﷺ نے مجھے جو ترک قتال کا حکم لیا تھا وہ اس بات پر سبقت لے گیا ہے کہ میں قوم سے بیعت لوں… فاذا المیثاق فی عنقی لغیری سے مراد سے رسولﷺ کا مجھ سے عہد لینا مجھے اس کا پابند رہنا لازم ہے۔ جب لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی بیعت لے لیں تو میں بھی بیعت کرلوں۔ پس جب قوم کا وعدہ مجھ پر لازم ہوا یعنی ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی بیعت مجھ پر لازم ہوئی تو اس کے بعد میرے لئے ناممکن تھا کہ میں اس کی مخالفت کرتا۔
مذکورہ خطبہ اور اس کی شرح سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے۔
1: حضرت علی کرم اﷲ وجہ کے اپنے فرمان کے مطابق آپ کے نزدیک قوی اور ضعیف برابر تھے۔ کیونکہ آپ ہر قوی سے قوی ہیں اس لئے آپ ہر کمزور کو حق دلا سکتے ہیں۔
2: جب اﷲ نے متقضائے کے مطابق صدیق اکبر کی خلافت کا فیصلہ کردیا تو ہم نے اسے تسلیم کرتے ہوئے اسے اﷲ کے سپرد کیا۔
3: جب ایمان لانے میں مجھے اولیت حاصل ہے تو یہ کیسے ممکن ہے میں (تقیہ کی آڑ لے کر) حضورﷺ پر جھوٹ بولوں۔
4: حضورﷺ کا حکم تھا کہ میرے بعد مسئلہ خلافت میں کسی سے لڑائی نہ کرنا
5: مسئلہ خلافت پر غوروفکر سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ میرے لئے ابوبکر صدیق کی بیعت کرلینا اپنی بیعت لینے سے زیادہ راجح ہے۔
6: میری گردن میں حضورﷺ کا یہ عہد بندھا ہوا ہے کہ جب لوگ ابوبکر صدیق کی بیعت کرلیں تو میں بھی بیعت کرلوں۔
ان تمام امور بالا سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کسی طرح بھی حضرت ابوبکر صدیق سے اعراض نہ کرسکے تھے کیونکہ اﷲ کی رضا اس کے محبوبﷺ کا حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے عہد اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا فیصلہ ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے خلیفہ برحق ہونے کا بین ثبوت ہیں تو اس امر بیعت کو حضرت علی کرم اﷲ وجہ اس قدر اہم سمجھتے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے اتنی جلدی کہ پورا لباس بھی زیب تن نہ کرسکے، صاحب روضۃ الصفاء نے اس کو یوں نقل کیا ہے۔
روضۃ الصفائ: امیر المومنین علی چوں استماع نمود کہ مسلماناں پر بیعت ابوبکر اتفاق نمودند بتعجیل ازفاتہ بیروں آمد چنانچہ ہیچ وربرنداشت بغیر ازپیرہن نہ ازا رونہ راہچناں نزد صدیق رفتہ ہاد بیعت نمود بعد ازاں فرستا ندتدہ جامعہ بمجلس آورند۔ ودربعفی روایات و اردشدہ کہ ابو سفیان پیش از بیعت یاامیر المومنین علی گفت کہ تو راضی مشوی کہ شخصی از نہی تمیم متصد ٹی کاری حکومتشود بخدا سو گند کہ اگر تو خواسی ایں وادی پراز سوارو پیادہ گردانم علی گفت اے ابو عفیان تو ہمیشہ ورہام جاہلیت فتنہ می انگیختی ومالا نیزمی خواہما کہ فتنہ در اسلام ابوبکر راسائستہ امیں کارمیداتم
ترجمہ: حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے جب سنا کہ تمام مسلمانوں نے ابوبکر صدیق کی بیعت پر اتفاق کرلیا ہے تو اس قدر جلدی در دولت سے باہر تشریف لائے کہ چادر اور تہبند بھی نہ اوڑھ سکے صرف پیرہن میں ملبوستھے۔ اس حالت میں ابوبکر صدیق کے ہاں پہنچے اور بیعت کی بیعت سے فراغت کے بعد چند آدمی کپڑے لینے کے لئے بھیجے تاکہ مجلس میں کپڑے لے آئیں بعض روایات میں اس قدر مذکور ہے کہ ابو سفیان نے بیعت سے قبل حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے کہا کہ اے علی! کیا تو بنو تمیم کے ایک آدمی کو حکومت کا والی بنانے پر راضی ہوگیا ہے۔ اﷲ کی قسم! اگر تم چاہو تو میں اس کی وادی کو سنواروں اور پیادوں سے بھردوں۔ یہ سن کر حضرت علی نے کہا اے ابو سفیان! دور جاہلیت میں بھی فتنہ پرداز رہا ہے۔ اور اب بھی چاہتا ہے کہ اسلام میں فتنہ بپا کردے۔ میں ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو اس کاروبار حکومت کے لئے نہایت اچھا آدمی سمجھتا ہوں۔
نوٹ: واذا المیثاق فی عنقی لغیری … جملہ کی تشریح ’’ابن میثم‘‘ اور اس کے بعد ’’روضۃ الصفا‘‘ سے آپ پڑھ چکے ہیں ان دونوں شیعوں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے اس جملہ کی جو شرح کی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ بخوشی اور بسرعت حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے لئے چل پڑے۔ کوئی مجبور نہ تھے اور نہ زبردستی بیعت کرنے پر ان کو آمادہ کیا گیا۔ اگر خوشی و رضا نہ تھی تو ابو سفیان کی خواہش بڑی برمحل تھی۔ اسے نہ ٹھکراتے خود بھی قوی تھے اور ابو سفیان کی طرف سے سواروں اور پیادوں سے میدان بھر دینا ایسے میں مجبوری کب ٹھہر سکتی ہے۔ کتنے بے وقوف وہ لوگ ہیں جو حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی اس بیعت کو ’’بیعت مکرہ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے نزدیک شیخین عادل اور برحق خلیفہ تھے اور ان کے وصال سے اسلام کو سخت نقصان
واقعہ صفین: ثم قال اما بعد فان اﷲ بعث النبی صلی اﷲ علیہ وسلم علیہ وآلہ فانقذ بہ من الضلالۃ والغش بہ من لہلکیۃ وجمع بہ بعد الفرقۃ ثم قبضۃ اﷲ علیہ وقد ادی ماعلیہ ثم استخلف الناس ابا بکر عمرو واحنا التیرۃ وعدلمافی للامۃ وقد وجدنا علیہا ان تولیا الامر دوننا ونحن ال الرسول واحقق بالامر فخفرنا فاذا الک لہما
اس کے بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے لکھا ہے کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے حضورﷺ کو بھیج کر لوگوں کو گمراہی اور ہلاکت سے آپ کی وجہ سے بچایا اور منتشرلوگوں کو آپ کی بدولت جمع کیا۔ پھر آپ اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ آپ نے اپنی ذمہ داری کا صحیح بنا فرمایا۔ پھر لوگوں نے آپ کے بعد ابوبکر خلیفہ بنایا اور انہوں نے لوگوں میں خوب انصاف کیا اور ہمیں افسوس تھا کہ ہم آل رسولﷺ کے ہوئے وہ امر خلافت کے بانی بن گئے حالانکہ اسے ہم زیادہ حقدار تھے سو ہم نے انہیں معاف کردیا کیونکہ عدل وانصاف اور اچھی سیرت کے حامل تھے۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی طرف خط لکھا
انہ بایعنی القوم الذی بایعوا ابابکر وعمر و عثمان علی مابایعوھم علیہ فلم یکن للشاہد ان یختار ولا للقائب ان یردو النماالشوری
للمہاجرین والانصار فان اجتمعوا علی رجل وسموہ اما کا کان ذلک ﷲ رضی فان خرج عن امربہم خارج بطعن اور بدعۃ ردوۃ الی فخرج منہ فان ابی قاتلوہ علی اتباعہ غیرسبیل المومنین ولاہ اﷲ فاتونی
(نہج البلاغہ خط نمبر 6 ص 366)
خلاصہ کلام: حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی طرف خط لکھا اور فرمایا:
بات یہ ہے کہ میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان کی کی تھی اور مقصد بیعت بھی وہی تھا جو ان سے تھا لہذا موجودہ حضرات میں سے کسی کو علیحدگی کا اختیار نہیں اور نہ غائب لوگوں کو اس کی تردید کی اجازت ہے۔ مشورہ مہاجرین اور انصار کو ہی شایان شان ہے تو اگر یہ سب کسی شخص کے خلیفہ بنانے پر متفق ہوجائیں تو یہ اﷲ کی رضا ہوگی اور اگر ان کے حکم سے کسی نے بوجہ طعن یا بدعت کے خروج کیا تو اسے واپس لوٹا دو اور اگر واپسی سے انکار کردے تو اس سے قتال کرو کیونکہ اس صورت میں وہ مسلمانوں کے اجتماعی فیصلہ کو ٹھکرانے والا ہے اور اﷲ نے اسے متوجہ کردیا جدھر وہ خود جاتا ہے۔
توضیح درج ذیل ثابت ہوئے۔
1۔ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان کی بیعت کی تھی۔ ان ہی لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کی۔
2۔ ان تمام کا کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلینا اتنا اہم ہے کہ اس کے بعد حاضرین یا نائبین لوگوں میں سے کسی کو اس کے خلاف اختیار نہیں رہ جاتا۔
3۔ شوریٰ کا استحقاق صرف مہاجرین و انصار کو ہے۔
4۔ مہاجرین و انصار کا باہمی مشورہ سے کسی کو امام یا خلیفہ پسند کرلینا دراصل خوشنودی خدا ہوتا ہے۔
5۔ ان کے متفقہ طور پر کسی کو منتخب کرلینے کے بعد اگر کوئی بوجہ طعن بیعت نہ کرنے کی کوشش کرے تو اسے زبردستی واپس لایا جائے اور اگر انکار کردے تو اسے قتل کیا جائے۔ کیونکہ وہ اس طرح جمیع مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر علیحدگی اختیار کرتا ہے۔
اگر مرض باقی ہے تو ایک خوراک اور
شارح ابن میثم شیعہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے خطبے کی علم منطق کے ذریعے خلافت حقہ کے لئے جو ترتیب دی ہے اس کا خلاصہ:
صغریٰ: میری بیعت ان لوگوں نے کی جنہوں نے خلفائے ثلاثہ کی بیعت کی تھی۔
کبریٰ: جس آدمی کی بیعت وہی لوگ بیعت کرلیں تو اس کے بعد کسی غائب یا حاضر کو بیعت نہ کرنے یا اس کے رد کا اختیار نہیں۔
نتیجہ: چونکہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی بیعت بھی انہی لوگوں نے کرلی ہے لہذا کسی کو اس کے رد کا اختیار نہیں۔
شرح ابن میثم جلد نمبر 4 ص 353:
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے اس خط میں انما الشوریٰ کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے۔
وحصر للشوری والاجماع فی المہاجرین والانصار یدنھم اہل الحل والعقد من امۃ محمدﷺ الفقت کلمتھم علی حکم الاحکام کاجماعتھم علی بیعتہ وتسمیتہ اماماً کان ذلک اجماعاً حقاً ہو رضی اﷲ عی مرضی لہ و سبیل المومنین الذی یجب اتباعہ
ترجمہ: حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے شوری کو صرف مہاجرین اور انصار کے لئے مخصوص فرمایا کیونکہ حضورﷺ کی امت کے اہل حل و عقد و ارباب بست و کشادہ وہی ہیں اور جب وہ کسی معاملہ پر متفق ہوجائیں جس طرح حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی امامت و بصیرت پر متفق ہوئے تو ان کا یہ اجماع و اتفاق حق ہوگا اور وہ اجماع اﷲ کا پسندیدہ ہوگا اور مومنین کا ایسا راستہ ہوگا جس کی اتباع واجب ہے۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے حب داروں کو دعوت فکر
اجماع حقہ وہی ہے جو مہاجرین و انصار کا ہو، یہ دونوں غزوہ بدر اور بیت رضوان میں شامل تھے، ان کے متعلق آپﷺ نے جنتی ہونے کی خوشخبری فرمائی۔
ان کا اجماع اﷲ کا پسندیدہ ہے تو معلوم ہوا کہ یہ اجماع جنتیوں کا اجماع ہے۔ معلوم ہوا کہ خلفائے ثلاثہ کی خلافت حق تھی۔
شیعہ حضرات کو چاہئے کہ باطل اور جہل مرکب عقیدے سے تائب ہوکر مسلک حق اہلسنت والجماعت میں شامل ہوجائیں۔
خلفائے راشدین کی خلافت حقہ پر دلیل نہم
کتب شیعہ میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی بیعت بغیر جبر و اکراہ کے بطریق رضا کی ہے جیسا کہ شیعوں کے امام الاکبر محمد الحسینی آل کاشف الفطا نے اپنی مشہور کتاب اصل الشیعہ واصولہا میں اس طرح تصدیق اور توثیق کی ہے۔
اصل الشیعہ و اصولہا
وحین دایٰ ان المتخلفین اعنی الخلیفۃ الاول والثانی بذلا اقصیٰ الجہد فی نشہ کلمۃ التوحید وتجہیز الجنود وتوضیح الفتوح ولم یستاتدوا ولم یستبدوا ابیع وسالم و اغضی عمایداہ حقاً لہ محامحافظۃ علی الاسلام ان تصدع وحدتہ وتتفدق کلمتہ ویعود الناس الی جاہلیتھم الاولیٰ وبقی شیعتہ منفسدین تحت جناحہ ومستنیدین بمصابحہ ولم یکن للشیعۃ والتشیع یومئذ مجال للظہور لان الاسلام سحان یجدی علی منہ ہجرہ القویمۃ حتی اذ تمیذا الحق من الباطل وتبین الرشد من الغنی وامتنع معاویۃ عن الییعۃ لکلی وحادبہ فی (صیفین) انفم بقیۃ الصحابۃ الی علی حتی الحثدھم تحت رایتہ وکان معہ من عظماء اصحٰب النبی ثمانون بعلا کلہم بدری عقبی لحصمار بن یاسدوخذیمۃ ذی الشہادتین وابی ایوب الانصاری ونظر ائھم ثم نما قتل علی علیہ السلام وائتقبا الامہ لمکاویۃ وانقضی دور الخلفآء الدشدین ساد مکاویۃ بسیدۃ الجبا برۃ فی المسلمین
(اصل الشیعہ واصولہا صفحہ 115 تذکرہ صرف القوم الخلافتہ عن علی مطبوعہ قاہرہ طبع جدید)
ترجمہ: جب دیکھا حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اور عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے کلمہ توحید کی نشرواشاعت میں اور لشکروں کی تیاری میں پوری پوری کوشش کی اور انہوں نے اپنی ذات کو کسی معاملے میں ترجیح نہ دی اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ان سے مصالحت کرتے ہوئے ان کی بیعت کرلی اور اپنے حق سے چشم پوشی کی۔ کیونکہ اس میں اسلام کے متفرق ہونے سے حفاظت تھی تاکہ لوگ پہلی جہالت کی طرف نہ لوٹ جائیں اور باقی شیعہ کمزوری کی وجہ سے آپ کے زیر دست رہے۔ آپ کے چراغ سے روشنی حاصل کرتے رہے اور شیعہ اور ان کے مذہب کے لئے ان ایام میں ظہور کی مجال نہیں تھی۔ کیونکہ اسلام مضبوط طریقے پر چل رہا تھا۔ یہاں تک حق باطل سے اور ہدایت گمراہی سے جدا ہوچکی تھی اور معاویہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی بیعت سے انکار کیا اور صفینمیں ان سے جنگ کی تو اس وقت جتنے صحابہ کرام موجود تھے انہوں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا ساتھ دیا حتی کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے جھنڈے کے نیچے اکثر صحابہ کرام شہید ہوئے اور آپ کے ساتھ جلیل القدر صحابہ کرام میں سے 80 وہی صحابہ تھے جو کل کے کل بدری تھے۔ مثلاً عمار یاسر اور حضرت خزیمہ جن کی شہادت دو شہادتوں کے برابر تھی اور ایوب انصاری اور اسی مدینے کے اور صحابہ اور پھر جب حضرت علی شہید ہوئے اور امرِ خلافت امیر معاویہ کی طرف لوٹا تو اس کے ساتھ خلفاء راشدین کا دور ختم ہوا اور امیر معاویہ نے مسلمانوں میں جبارین دین کی سیرت کو اپنایا۔
مذکورہ عبارت سے مندرجہ ذیل امور صراحتاً ثابت ہوئے
1: حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا مقصود خلافت حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ کلمہ توحید کی نشرواشاعت اور لشکروں کی تیاری کے ساتھ فتوحات میں توسیع دینا تھا۔ اسی لئے جب انہوں نے دیکھا کہ جو اسلام کے مقاصد تھے وہ سب کے سب شیخین نے پور کردیئے تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے رضامندی کے ساتھ یکے بعد دیگرے ان کی بیعت کرلی۔
2: شیخین کے زمانہ میں شیعہ اور ان کے مذہب کا اس لئے ظہور نہیں ہوا کہ اسلام اپنے صحیح اور مضبوط طریقے پر چل رہا تھا۔ یہاں تک کہ حق باطل سے اور ہدایت گمراہی سے جدا ہوچکی تھی۔
3: جنگ صفین کے زمانہ تک بدری صحابی موجود تھے جو 80 کی تعداد میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے لشکر میں شامل ہوئے۔
4: خلفاء ثلاثہ خلفاء راشدین تھے نہ کہ ظالم فاسق اور فاجر
5: نبی پاکﷺ کے وصال پر صحابہ کرام کے ارتداد کا مسئلہ (معاذ اﷲ) شیعہ حضرات کا خود ساختہ ہے کیونکہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے زمانہ تک بدری صحابہ موجود ہے جوکہ قطعی جنتی تھی اور جوکہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے لشکر میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
خلفائے راشدین کی خلافت حصہ پر دلیل دہم
فرمان علی رضی اﷲ عنہ: اﷲ تعالیٰ نے نبی پاکﷺ کے بعد لوگوں کے لئے بہترین شخص کا انتخاب فرمایا۔
ان فی الخبر المدوی عن امیرالمومنین علیہ السلام لماقیل لہ الا توصی فقال مااوصیٰ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فاوصی ولٰکن ان اراد اﷲ بالناس خید استجمعھم علی خیرہم کما جمعہم بعد نبیہم علی خیرہم قتضمن لما یکاد یعلم بطلانہ مندورۃ لان فیہ التصدیح القوی بفضل ابی بکر علیہ وانہ خیر منہ والظاہر من احوال امیر المومنین علیہ السلام والمشہود من اقوالہ واحوالہ جملۃ وتفصیلاً یقتصی انہ کان یصدم نفسہ علی ابی بکروغیرہ
(تلخیص الشافی تالیف شیخ الطائفہ ابی جعفر طوسی جلد دوم ص 237، دلیل آخر علی امامتہ علیہ السلام مطبوعہ قم طبع جدید)
ترجمہ: امیر المومنین حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ سے کہاگیا کہ آپ وصیت کیوں نہیں کرتے تو آپ نے فرمایا کیا حضورﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ میں وصیت کروں لیکن اگر اﷲ تعالیٰ نے لوگوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمایا تو ان کو ان میں سے ناشرین شخص پر جمع کردے گا جیسا کہ اس نے نبی پاکﷺ کے بعد انہیں بہترین شخص پر جمع کیا۔ یہ اس چیز کو متضمن ہے کہ قریب ہے کہ اس کا بطلان ہدایۃ معلوم ہوجائے کیونکہ اس میں ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی فضیلت حضرت علی رضی اﷲ عنہ پر تقریح قوی ہے اور یہ کہ ابوبکر رضی اﷲ عنہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے بہتر ہیں۔ لیکن امیرالمومنین کے احوال اور ان کے اقوال و احوال سے اجمالاً اور تفصیلاً جو ظاہرا اور مشہور ہے اس کا متقضی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کو ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ وغیرہ پر مقدم جانتے ہیں۔
الحاصل
مذکورہ عبارت سے دو اہم مسائل ثابت ہوئے:
نبی پاکﷺ نے اپنے بعد کسی کو وصی نہیں بنایا۔
نبی پاکﷺ کے بعد اﷲ تعالیٰ نے امت کے سب سے بہترین شخص کو خلافت کے لئے منتخب فرمایا جیسا کہ اس نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بعد امت کے بہترین شخص حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ کو امت کے لئے منتخب فرمایا۔
خلفائے راشدین کی خلافت حصہ پر دلیل یادہم
نبی پاکﷺ نے ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے متعلق اپنے بعد خلیفہ اور جنتی ہونے کی پیش گوئی فرمائی۔
تلخیص الشافی
روی عن انس ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم امرہ عند اقبال ابی بکر ان یسبشرہ بالجنۃ وبالخلافۃ بعدہ وان یستبشرہ عم بالجنۃ وبالخلافہ بعد النبی بکر و روی عن جبیربن مطعم ان امراۃ اتت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ فکلمتہ فی شیٔ فامر بہا ان ترجع الیہ فقالت یارسول اﷲ ارایت ان رجعت فلم اجدک (یعنی الموت) قال ان لم تجدنبی فات ابابکر
(تلخیص الشافی جلد سوم ص 39، فصل فی ابطال قول من حالت فی امامۃ امیر المومنین بعد النبی علیہما السلام بلا فصل مطبوعہ قم، طبع جدید)
ترجمہ: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے انہیں ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے مجلس میں آنے کے وقت ارشاد فرمایا کہ انہیں (ابوبکر صدیق) کو جنت اور میرے بعد خلافت کی خوشخبری سنادو اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کو جنت اور ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے بعد خلافت کی بشارت دو اور حضرت جبیربن مطعم رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں ایک عورت آئی اور کسی معاملہ میں آپ سے بات چیت کی۔ حضور ﷺنے اسے حکم دیا کہ پھر میرے پاس آنا، عورت نے عرض کی کہ اگر میں دوبارہ آئوں اور آپ کو نہ پائوں تو؟ (یعنی اس وقت تک اگر آپ وصال کرجائیں تو پھر کیا کروں؟) آپﷺ نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے پاس چلی جانا (اور ان سے اپنا مسئلہ حل کروالینا)
الحاصل
مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ نبی پاکﷺ کے بعد ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ خلیفہ برحق ہیں اور ان کے بعد عمر فاروق رضی اﷲ عنہ اور دوسرا یہ جنتی بھی ہیں اور یہ بات ثابت ہوئی کہ نبی پاکﷺ نے مذکورہ عورت کو اسی لئے اپنے بعد ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی وصیت فرمائی کیونکہ آپ من جانب اﷲ جانتے تھے کہ میرے بعد ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ خلیفہ ہوں گے۔
..................................
بشکریہ :
مذہب شیعہ کا تفصیلی تعارف (پہلی قسط tahaffuz.com/874/
مذہب شیعہ کا تفصیلی تعارف (د وسری قسط | tahaffuz.com/511/
مذہب شیعہ کا تفصیلی تعارف (تیسری قسط) | tahaffuz.com/668/
مذہب شیعہ کا تفصیلی تعارف (چوتھی قسط) | tahaffuz.com/983/
..................................
- Also See:
- Shia History شیعہ: تاریخی جقائق
- https://rejectionists.blogspot.com/2011/12/shia-history.html
- شیعہ مذھب کی مختصر تاریخ عقائد
- https://www.islamimehfil.com/topic/7508-shia-mazhab-ki-mukhtasar-tareekh-o-aqaid/
- شیعی رسومات کی تاریخ: ایجاد و آغاز
- http://rejectionists.blogspot.com/2017/09/shia-practices-history.html
- - شیعیت عقائد و نظریات
History of Evolution of Shia