Featured Post

شیعہ نوجوانوں کو راہِ حق پرلانےکے لینے 20 سوالات Unanswerable Questions for Shias

وہ اہم سوالات متلاشیان حق نوجوانوں کوراہ حق سے ہم کنارکرنے میں بڑاعظیم کردارہے! 70 UNANSWERED QUESTIONS to Shia,...

شیعہ عقیدہ امامت کی حقیقت Shia Imamte


امامت یا عقیدہ امامت تمام شیعہ مکاتب فکر کی اصل بنیاد اور شیعیت کا اصل الاصول ہے۔ اہل تشیع کے عقیدہ امامت سے مراد ہے کہ جس طرح اللہ نے صفت عدل ااور حکمت و رحمت کے لازمی تقاضے سے نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری فرمایا اور انبیا و رسل کو لوگوں کی ہدایت رہنمائی اور ان کی قیادت و سربراہی کے لیے بھیجا۔ جن کی بعثت سے بندوں پر اللہ کی حجت قائم ہوئی تھی اور وہ اس اتمام حجت کے بعد ہی آخرت میں ثواب یا عذاب کے مستحق ہیں۔ اسی طرح اللہ نے انبیا و رسل کے بعد بندوں کی ہدایت و رہنمائی اور قیادت و سیادت جاری رکھنے کے لیے اور ان پر حجت قائم رہنے کے لیے امامت کا سلسلہ قائم کر کے قیامت تک کے لیے امام نامزد کر دیے۔ تمام شیعہ مکاتب فکر میں ہر شخص کے لیے اپنے زمانے کے امام کی معرفت اطاعت کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ 



بارہ امامی شیعوں کے نزدیک بارہ امام انبیا کرام کے روحانی اور سیاسی وارثین ہیں جنھوں نے انھیں عقل، علم و حکمت سکھائی ہے نیز انکی پیروی میں مصائب برداشت کرنا ان کے پیروکاروں کے نزدیک ایک اہم خوش نصیبی ہے جو خدا کی جانب سے بخشی جاتی ہے۔ اگرچہ اماموں پر خدائی وحی نازل نہی ہوتی لیکن انکا خدا سے ایک خاص رشتہ ہوتا ہے، جس کے ذریعے خدا اما م کی اور امام لوگوں کی ہدایت کرتا ہے۔ نیز اماموں کی ہدایت ایک خاص کتاب الجفر اور الجامیہ کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ امامت پر یقین رکھنا شیعہ اعتقاد میں ایک اہم جز ہے جس کی بنیاد اس نظریے پر ہے کہ خدا ہمیشہ اپنے بندوں کی مسلسل رہنمائی کے لیے کوئی نا کوئی رہنما ضرور رکھتا ہے۔ شیعوں کے نزدیک ہر وقت مسلمانوں میں ایک امام زمانہ موجود ہوتا ہے، جسے تمام عقائد و قانون پر اختیار حاصل ہے۔ حضرت علی پہلے امام تھے ،اور شیعوں کے نزدیک یہی ائمہ پیغمبر اسلام کے حقیقی وارثین و جانشین ہیں نیز انکی نسل حضرت فاطمہ کی نسل کے ذریعے پیغمبرﷺ سے ملنی چاہیے اور انکا مرد ہونا لازمی ہے۔ تمام ائمہ اپنے سے گزشتہ امام کے بیٹے تھے ماسوائے حضرت امام حسین کے جو اپنے سے گزشتہ امام حضرت حسن کے بھائی تھے۔ بارہویں امام کا نام مہدی ہے جو شیعوں کے نزدیک زندہ اور غیبت کبریٰ میں ہیں اور قیامت قریب وہ بحکم خدا ظہور ہوکر دنیا میں انصاف لائیں گے۔ بارہ امامی اورعلوی شیعوں کا ماننا ہے کہ پیغمبر ﷺ کی بارہ جانشیوں والی حدیث میں ان بارہ اماموں کا ذکر موجود ہے۔ تمام ائمہ کو شیعوں کے نزدیک غیر طبعی موت ہوئی سوائے امام مہدی کہ جو ان کے نزدیک غیبت کبریٰ میں زندہ ہیں۔ ان بارہ اماموں کے سلاسل بہت سے صوفی سلسلوں میں بھی موجود نظر آتی ہیں جن میں ان حضرات کو اسلام کے روحانی سربراہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔


 عقیدہ امامت کا مختصر تجزیہ 

شیعہ اثنا عشری کا "عقیدہ امامت "جو ان کی اساسی کتب میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے جیسا کہ:
  1. اماموں کا پہچاننا اور اُن کا ماننا شرطِ ایمان ہے ۔اصول کافی، ص:105،
  2. ائمہ کی اطاعت رسولوں کی ہی طرح فرض ہے ۔اصول کافی، ص:110،
  3. ائمہ کو اختیار ہے جس چیز کو چاہیں حلال یا حرام قرار دیں۔اصول کافی، ص:278، 
  4. ائمہ انبیاء کی طرح معصوم عن الخطائیعنی گناہوں اور عیوب سے پاک اورمبرا ہوتے ہیں۔اصول کافی، ص:121،
  5. ائمہ کو ما کان وما یکون کا علم حاصل ہوتا ہے ۔اصول کافی، ص:160،
  6.  ائمہ منصو ص و مامور من اللہ ہوتے ہیں۔

(١)اثنا عشری شیعہ اپنے بارہ اماموں کو مُفترضُ الطاعة مانتے ہیں یعنی ان پر ایمان لے آنا ضروری ہے، اگر ان پر کوئی ایمان نہیں لے آیا تو وہ شیعوں کے یہاں مومن نہیں ہے،جب کہ قرآن وحدیث میں اللہ پر،اسکے رسولوں اور نبیوں پر، اسکے فرشتوں پر، اس کی طرف سے آئی ہوئی تمام آسمانی کتابوں پر، تقدیر پر، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا فرض ہے، ان کا یہ عقیدہ اسلام کے بنیادی عقیدہ سے اور قرآن وحدیث سے متصادم ہے۔
(۲) ان کے ائمہ کو اختیار ہے کہ جس کو چاہیں حلال یا حرام کردیں یہ عقیدہ بھی قرآن سے متصادم ہے۔ یہ پاور تو کسی نبی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ گویا ائمہ کا درجہ انھوں نے نبیوں سے بھی آگے بڑھادیا۔
(۳) شیعوں کے یہاں ائمہ معصوم ہوتے ہیں۔ یہ عقیدہ بھی قرآن وحدیث سے متصادم ہے، معصوم صرف نبی ہوتا ہے اور کوئی معصوم نہیں ہوتا۔ 
(۴) وہ شیعوں کے عقیدہ کے مطابق جمیع ما کان ومایکون کا علم رکھتے ہیں۔ یہ قرآن کے ساتھ متصادم ہے کیونکہ یہ صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے دوسروں کو اس میں شریک گردانتا درست نہیں۔ 
(٥) ان عقائد باطلہ کی وجہ سے کچھ علماء ان کو کافر ومرتد کہتے ہیں، صرف عقیدہ امامت ہی کی وجہ سے بھی وہ اسلام سے خارج ہیں، وہ لوگ اپنے ۱۲/ اماموں کے بارے میں یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کی طرف سے نئی شریعت اور نئی کتاب بھی آتی ہے۔ یہ عقیدہ ختم نبوت کے عقیدہ سے متصادم ہے، اور یہ بالکل کھلی ہوئی بات ہے کہ جو لوگ اپنے ۱۲/ اماموں کو غیب دانی میں خدا کے برابر ٹھہرائیں یا انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ٹھہرائیں یا ان سے بھی زیادہ پاور والا اپنے نبی کو مانیں، یا ان کو آخری نبی نہ مانیں وہ بلاشبہ کافر ہیں۔
( بہت علماء ان کو کافر نہیں سمجھتے ہیں) (واللہ اعلم)

.....................................................................
عقیدہ امامت  کی ابتدا
عقیدہ امامت کی ابتدا کچہ یہود کے اس عقیدہ کی بنیاد پر پڑی جس میں وہ حضرت یوشع علیہ السلام کو وصی موسی مانتے ہیں۔ یہیں سے یہ وصایت و امامت کا عقیدہ گھڑا گیا۔ اور آپ اس بات کو بھی مد نظر رکھیں کہ کوفہ کے اکثر شیعہ  لوگ یمن سے تعلق رکہتے تھے اور یمنی قبائل میں یہود کا بہت گھرا اثر تھا۔ چناچہ سب سے پہلے جس جماعت نے وصایت و امامت علی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ بنایا وہ ابن سبا اور اس کے ساتھی تھے۔ یہ یمن کے یہود تھے۔

ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ شیعہ حضرات ابن سبا کے وجود کو مانتے ہی نہیں لیکن اس کے بر عکس یہ تواتر سے کتب میں وارد ہوا ہے کہ اس نے ہی سب سے پہلے امامت کا نظریہ بنایا تھا۔  بلکہ شیعہ مجتہدین بھی اس کے وجود کے قائل ہیں۔ (انشاءاللہ کبھی موقع ملا تو وجود ابن سبا پر بھی کچھ نہ کچھ تحریر کریں گے)۔

علامہ مجلسی لکھتے ہیں

وذكر بعض أهل العلم أن عبد الله بن سبا كان يهوديا فأسلم ووالى عليا عليه السلام وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون وصي موسى بالغلو فقال في إسلامه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وآله في علي عليه السلام مثل ذلك. وكان أول من أشهر بالقول بفرض إمامة علي عليه السلام وأظهر البراءة من أعدائه وكاشف مخالفيه وأكفرهم

بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ  ابن سبا یہودی تھا اسلام لے آیا اور پھر حضرت علی کی ولایت کا قائل ہوا۔ اس پہلے جب یہ یہودی تھا تو حضرت یوشع کے بارے میں غلو کرتا تھا کہ وہ موسی کے وصی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد اس قسم کی بات حضرت علی کے بارے میں کی۔ یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے اور ان کی دشمنوں پر اعلانیہ تبرا کیا۔اور مخالفوں کو کافر کہا (بحارالنوار صفحہ 287 جلد 25)۔

علامہ مجلسی کی اس روایت سے جو باتیں ظاہر ہوتی ہیں وہ یہ ہیں۔

1) علامہ مجلسی کی اہل علم سے مراد اہل سنت کے علماء نہیں بلکہ شیعہ کے علماء ہیں جو یقینا اس کے وجود کے قائل تھے

2) عبد اللہ بن سبا یہودی تھا سب سے پہلے ولایت و امامت علی رضہ کا قائل ہوا

3) اس نے حضرت یوشع کے بارے میں زمانہ یہود میں غلو کیا وہی غلو حضرت علی کے بارے میں زمانہ اسلام میں کیا

حیرت ہے علامہ مجلسی نے یا شیعہ اہل علم نے وصی موسی کو تو غلو سے تعبیر کیا ہے اور خود حضرت علی کے بارے میں یہی غلو آج تک کرتے آرہے ہیں۔

4) ابن سبا ہی امامت کا فرض ہونے کا پہلا قائل ہے اور اسی نے ہی سب سے پہلے خلفاء علانیہ تبرا کیا جو آج تک شیعہ کرتے آرہے ہیں

چناچہ شیعہ نہ صرف امامت و وصایت بلکہ تبرہ بازی میں اس ابن سبا کے پیروکار ہیں اب وہ اپنے اس محسن اعظم کو جھٹلائیں تو ہمارا کیا جاتا ہے۔ ہمیں جو بات پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ ابن سبا شیعوں کا مرشد اعظم ہے اور مذہب شیعہ کی بنیاد اس کے عقائد پر ہی ہوئی۔

نظریہ امامت و وصایت کے موجد شیعہ کے محسن اعظم عبد اللہ بن سبا لعنہ اللہ کے عقائد

عبداللہ بن سبا سے پہلے کے لوگ تقیہ سے کام لیتے تھے اور ان امور کو (وصایت ، امامت ، افضلیت علی رضہ ) کو اعلانیہ نہیں کہتے تھے لیکن اس نے تقیہ چھوڑ دیا اور ان باتوں کو اعلانیہ ذکر کرنا شروع کر دیا۔ مخالفین امامت کو کافر کہنا بھی پہلے اس نے شروع کیا۔ ( بحار النوار ص 287  جلد 25  حاشیہ)۔

حضرت صادق رح اس کے بارے میں فرماتے ہیں

رجال الكشي: محمد بن قولويه عن سعد عن ابن يزيد ومحمد بن عيسى عن علي بن مهزيار عن فضالة بن أيوب الأزدي عن أبان بن عثمان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: لعن الله عبد الله بن سبا إنه ادعى الربوبية في أمير المؤمنين،

عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو اس نے امیر المومنین کے بارے میں ربوبیت کا دعوی کیا۔ (بحارالانوار جلد 25 ص 287)۔

اس قسم کی بہت روایات شیعہ کتب میں وارد ہیں لیکن ہمارے لئے یہی کافی ہیں

چناچہ شیعوں نے عبداللہ بن سبا کے عقائد کو آپس میں بانٹ لیا۔ تفضلیوں نے اس کی افضلیت کا عقیدہ اپنایا، رافضیوں نے امامت وصایت اور تبرہ بازی کے عقائد کو اپنایا، اور پھر غالی رافضیوں نے الہویت علی کے عقیدہ کو اپنایا۔ چناچہ مجموعی طرح سب شیعہ عقائد کا موجد یہی ہے۔ اب اس یہودی کی قیاس آرئیوں پر بنا ہوا عقیدہ امامت، ہرگز اسلامی عقیدہ نہیں ہوسکتا۔

امامت نائب نبوت یا پھر نبوت سے بھی بالاتر

شیعہ بظاہر ختم نبوت کو مانتے ہیں اور کسی بھی امام کو نبی نہیں کہتے لیکن اپنے تحریروں سے امام کو افضل نبوت بتاتے ہیں۔ ایسی روایات شیعہ کو دیکہ کر ملا مجلسی کا دماغ کام کرنا چھوڑ گیا اور کہا کہ امامت اور نبوت میں فرق کرنا مشکل ہے۔

ان سب احادیث کے مطابق نبی و امام میں فرق کرنا مشکل ہے  بس خاتم الانبیاء کی رعایت کرتے ہوئے انہیں نبی نہیں کہتے ورنہ ہماری عقل شریف تو یہ فرق کرہی نہیں سکتی۔ (بحار الانوار ص 82 جلد 26)۔

علامہ مجلسی لکہتے ہیں

امامت کا درجہ نبوت سے بالاتر ہے (حیات القلوب ص 10 جلد 3)۔

علامہ مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار کے جلد 26 کے باب کا نام کچھ اس طرح رکھا ہے

آئمہ علیہ السلام تمام انبیاء  سے اور تمام مخلوق سے افضل ہیں۔۔۔ آئمہ علیہ السلام کے بارے میں تمام انبیاء سے ملائکہ سے اور ساری مخلوق سے عہد لیا گیا۔۔۔ اولو العزم انبیاء صرف آئمہ کی محبت کی وجہ سے اولو العزم بنے۔ (بحارالانوار ص 267 جلد 26 )۔

یاد رہے علامہ مجلسی نے تمام انبیاء لکہا ہے اور تمام انبیاء میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی آتے ہیں

شیعہ کے اس دور کا امام خمینی لکہتا ہے

یہ عقیدہ ہمارے مذہب کی ضروریات میں داخل ہے کہ ہمارے آئمہ کو وہ مقام و مرتبہ حاصل ہو کہ نہ کوئی مقرب ترین فرشتہ وہاں تک پہنچ سکتا ہے اور نہ کسی نبی مرسل کی وہاں تک رسائی ہو سکتی ہے۔ (حکومت اسلامیہ ص 52)۔

چناچہ خمینی نے اقرار کیا کہ افضلیت ائمہ عن الانبیاء ہمارے مذہب کی ضرورت ہے

امام باقر کا علم حضرت موسی سے زیادہ تھا۔

بصائر الدرجات: محمد بن الحسين عن أحمد بن بشير عن كثير عن أبي عمران قال: قال أبو جعفر (عليه السلام): لقد سأل موسى العالم مسألة لم يكن عنده جوابها ولقد سئل العالم موسى مسألة لم يكن عنده جوابها ولو كنت بينهما لأخبرت كل واحد منهما بجواب مسئلته ولسألتهما عن مسألة لا يكون عندهما جوابها

امام باقر نے فرمایا کہ موسی علیہ السلام نے ایک عالم سے ایک مسئلہ پوچہا جس کا جواب اس سے نہ بن پڑا تو اس عالم نے موسی سے سوال پوچھا جس کا جواب موسی سے نہ بن پڑا۔ اگر میں ان دونوں کے پاس ہوتا تو دونوں کو اپنے اپنے سوالوں کا جواب دیتا اور پھر میں سوال کرتا تو وہ دونوں جواب نہ دے پاتے ( بحارالانوار ص 195 جلد 26)۔

سب نبیوں کو نبوت بھی تب ملی جب تک انہوں ولایت آئمہ کا اقرار نہیں کیا

بصائر الدرجات: أحمد بن محمد بن علي بن الحكم عن ابن عميرة عن الحضرمي عن حذيفة بن أسيد قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم): ما تكاملت النبوة لنبي في الأظلة حتى عرضت عليه ولايتي وولاية أهل بيتي ومثلوا له فأقروا بطاعتهم وولايتهم.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عالم ارواح میں کسی نبی کو اس وقت تک نبوت نہیں ملی جب تک اس کے سامنے میری اور میرے اہل بیت کی ولایت پیش نہیں کی گئی اور یہ ائمہ ان کے سامنے پیش نہیں کئے گئے پس انہوں نے ان کی ولایت و اطاعت کا اقرار کیا تب ان کو نبوت ملی۔ ( بحار الانوار ص 281 جلد 26)۔

قال أبو عبد الله (عليه السلام): ما نبئ نبي قط إلا بمعرفة حقنا وبفضلنا على من سوانا

امام صادق نے فرمایا کسی بھی نبی کو اس وقت تک نبوت نہیں ملی جب تک اس نے ہمارے حق کا اقرار نہیں کرلیا اور سب لوگوں پر ہمارے فضلیت تسلیم نہیں کی۔ ( بحار الانوار ص 281 26)۔

عن أبي بصير عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: ما من نبي نبئ ولا من رسول ارسل إلا بولايتنا و تفضيلنا على من سوانا

ابوالبصیر نے ابو عبد اللہ سے روایت کیا ہے کہ اس وقت تک کسی نبی کو نبی نہیں بنایا گیا نہ ہی کسی رسول کو رسول نہیں بنایا گیا جب تک اس نے ہماری ولایت و فضلیت کا اقرار نہیں کیا۔( بحار الانوار ص 281 26)۔

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اقرار لیا گیا۔

عن أبي سعيد الخدري قال: سمعت رسول الله (صلى الله عليه وآله) يقول يا علي ما بعث الله نبيا إلا وقد دعاه إلى ولايتك طائعا أو كارها

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ اے علی اللہ نے ہر نبی کو مبعوث کرنے سے پہلے طوعن و کرہن تیری ولایت کا اس سے اقرار کرایا۔۔( بحار الانوار ص 280 26)۔

اور سب سے بڑہ کر حضور علیہ السلام کو بھی یہ حکم دیا گیا کہ جو علم اللہ آپ کو سکھائیں وہ علی کو بھی سکہادیں۔ ( اصول کافی جلد 1 )۔

یہ سب روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ شیعہ کے نزدیک امامت نبوت سے بالاتر ہے۔ اس لئے خمینی نے کہا یہ عقیدہ ہماری ضرورت دین ہے یعنی دوسرے لفظوں میں بنیاد دین ہے۔

اصل میں بات یہ ہے کہ جب صحابہ نے حضرت ابوبکر کو خلیفہ بلا فصل تسلیم کیا اور علماء امت نے اس بات سے افضلیت ابوبکر عن صحابہ کے قائل ہوئے تو بعد کے دور کے شیعہ مجتہدین نے حضرت علی کی افضلیت ثابت کرنے کے چکر میں ایسا غلو کیا کہ انہیں انبیاء سے بھی بالاتر بنادیا ۔اب حضرت ابوبکر کی کیا مجال کہ علی رضہ سے افضل ہوں کیوں کہ وہ تو انبیاء سے بھی افضل ہیں (نعوذ باللہ)۔

امامت کی آڑ میں انبیاء کی توہین

اوپر کی بحث میں آپ نے دیکہا کہ کس طرح انبیاء سے طوعن و کرہن علی رضہ کی وصایت کا اقرار لیا گیا تب جا کہ انہیں نبوت ملی ۔ ورنہ انہیں نبوت کبھی نہیں ملتی (اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں کیوں کہ ایک تو وہ بھی انبیاء میں سے ہیں اور دوسرا انہیں بھی حکم تھا کہ علی رضہ کی وصایت کا اعلان کریں اور اس کو وہ سب کچھ دیں جو انہیں دیا گیا ہے)۔ شیعہ کی یہ بات بھی انبیاء کی توہین کے حوالے سے کافی ہے لیکن ہم کچھ مزید حوالے بھی دیتے ہیں

شیعہ کے مطابق جن جن انبیاء پر اللہ کی جانب سے مشکل آئی وہ صرف اس لئے کے انہوں نے ولایت علی رضہ کے ماننے میں شک و تردد سے کام لیا اور پھر انہیں سزا دی گئی اور ان سے ولایت کا اقرار لیا گیا۔ اور یہ بات یاد رکھیں کہ شیعہ کے نزدیک ولایت و امامت کا انکار کرنا کفر ہے۔

انبیاء کی مجموعی توہین

اس طرح کی کچھ روایات امامت نیابت نبوت کے مضمون میں میں نے لکھیں کچھ یہاں لکہ دیتا ہوں۔

امام حسن عسکری نے فرمایا

49 – كتاب المحتضر للحسن بن سليمان: روي أنه وجد بخط مولانا أبي محمد العسكري (عليه السلام): أعوذ بالله من قوم حذفوا محكمات الكتاب ونسوا الله رب الأرباب والنبي وساقي الكوثر في مواقف (2) الحساب، ولظى والطامة الكبرى ونعيم دار الثواب فنحن السنام الأعظم، وفينا النبوة والولاية والكرم، ونحن منار الهدى والعروة الوثقى، والأنبياء كانوا يقتبسون من أنوارنا، ويقتفون من آثارنا،

میں پناہ مانگتا ہوں اس قوم سے جس نے قرآن کو مٹا ڈالا جنہوں نے اللہ رب الارباب کو بہلا دیا جنہوں اس کے نبی کو جو یوم کوثر کو ساقی ہوںگے بھلا دیا۔ جو قیامت ، دوزخ اور دار ثواب کی نعمتوں کو بھلا بیٹھے۔ ہم بلند چوٹی کے صاحب عظمت لوگ ہیں ہم میں نبوت ، ولایت و کرامت ہے ہم ہدایت کے مینار ہیں عروہ و ثقی ہیں  تمام انبیاء ہمارے نور سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور ہماری پیروی کرتے ہیں۔ (بحارالانوار 263 جلد26)۔

تمام انبیاء اکرام عرش کے دائیں جانب ہونگے اور علی رضہ کی کرسی عرش کے بائیں جانب ہوگی۔ (بحارالانوار ص 128-129  جلد 27)۔

ان دعاء الأنبياء استجيب بالتوسل والاستشفاع بهم صلوات الله

انبیاء علیہم السلام کی دعائیں اماموں کے وسیلے اور سفارش کی بنا پر ہی قبول ہوئیں۔ (بحارالانوار 319 جلد 26)۔

اب پہلے انبیاء کے زمانے میں امام پیدا ہی نہیں ہوئے تھے تو سفارش کیسے کرتے تھے مطلب یہ ہوا کہ نبی آخر زمان صلی اللہ علیہ وسلم کے بابرکت دور میں امام پیدا ہوچکے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی دعائیں قبول ہوئیں وہ سفارش امام کی وجہ سے ہوئیں۔ معاذ اللہ

بالاسناد إلى الصدوق عن النقاش عن ابن عقدة عن علي بن الحسن بن فضال عن أبيه عن الرضا عليه السلام قال: لما أشرف نوح (عليه السلام) على الغرق دعا الله بحقنا فدفع الله عنه الغرق، ولما رمي إبراهيم في النار دعا الله بحقنا فجعل الله النار عليه بردا وسلاما.
وإن موسى (عليه السلام) لما ضرب طريقا في البحر، دعا الله بحقنا فجعله يبسا (2) وإن عيسى (عليه السلام) لما أراد اليهود قتله، دعا الله بحقنا فنجي من القتل فرفعه (3)

امام رضا علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ جب نوح علیہ اسلام ڈوبنے لگے تو اللہ کو ہمارے وسیلہ سے پکارا تو اللہ نے ڈوبنے سے بچا لیا۔ اور جب ابراہیم علیہ اسلام کو آگ میں پھینکا گیا تو انہوں نے بھی ہمارے حق کا واسطہ دیا تو آگ ان پر ٹھنڈی اور سلامتی والی بنائی گئی۔ موسی علیہ اسلام نے جب سمندر سے راستہ لینے کے لئے عصا مارا تو بھی اللہ سے ہمارے واسطہ سے دعا کی لہذا اللہ نے اس کو خشک کردیا۔ جب یہود نے عیسی علیہ اسلام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے بھی ہمارے وسیلہ سے اللہ کو پکارا چناچہ اللہ نے ان کو بچالیا اور اوپر اٹھالیا۔ ( بحارالانوار  325جلد 26)۔

آپ غور کریں کہ حضرت نوح علیہ اسلام کو بچانے کا وعدہ تھا تو وہ کیسے ڈوبنے لگے۔ کیا اگر وہ آئمہ کا وسیلہ نہیں دیتے تو اللہ تعالی معاذاللہ وعدہ خلافی کرتے۔ اور یہ سب واقعات قران کریم میں مذکور ہیں کہیں پر اس قسم کی بات نہیں ہے۔

امام موسی کاظم سے روایت ہے کہ ہماری ہی وجہ سے آدم علیہ السلام کو معافی ملی، ہمارے سبب سے ایوب علیہ السلام مصیبت میں مبتلا ہوئے۔ یعقوب علیہ السلام کو صدمہ برداشت کرنا پڑا اور یوسف علیہ اسلام زندانی ٹھرے اور ہمارے ہی وسیلہ سے ان کے مصائب دور ہوئے سورج ہمارے ہی طفیل روشن ہوتا ہے اور ہمارے نام خدا کے عرش پر لکہے ہیں۔ (بحارالانوار 287 جلد 26)۔

اس روایت کے مطابق ایوب علیہ السلام نے انکار ولایت کیا تو انہیں مصیبت دی گئی، یعقوب علیہ السلام نے انکار ولایت کیا تو انہیں بیٹے کا صدمہ برداشت کرنا پڑا، یوسف علیہ السلام نے انکار ولایت کیا تو انہیں جیل میں جانا پڑا چناچہ جب ان سب نے اقرار ولایت کیا تو ان کے مصائب دور ہوئے

اور یہ بھی یاد رکہیں کہ شیعہ کے نزدیک انکار ولایت و امامت کفر ہے چناچہ اس روایت کے مطابق ان سب انبیاء نے پہلے کفر کیا پھر توبہ کی اور اقرار ولایت کرلیا۔

لا حول ولا قوۃ انبیاء مرسلین علیہم السلام جن پر قرآن میں اللہ تعالی نے سلام کئے ہیں ان کی اس سے بڑھ کر توہین اور کیا ہوسکتی ہے۔ اور یقین کریں توہین انبیاء کی جرآت وہی کرسکتے ہیں جن کی بنیاد یہود کے نظریات پر ہو۔ آپ انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں کہ یہود حضرت لوط ، نوح ، سلیمان ، داود ، زکریا اور دوسرے انبیاء کے بارے میں کیا عقائد رکھتے ہیں۔

ابوالبشر حضرت آدم علیہ اسلام کی توہین

قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفہ کہا گیا ہے ان کی تعریف کی گئی ہے انہیں ایک مقام نوازا گیا ہے۔ لیکن شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ

جو شجر ممنوعہ ہے وہ آئمہ پر حسد نہ کرنے کا حکم تھا چناچہ انہوں نے آئمہ پر حسد کیا اور سیدہ حوا نے سیدہ فاطمہ  پر حسد کیا انہوں نے ان کی ولایت کا انکار کیا تکبر کیا تو اللہ تعالی نے انہیں سزا دے کر زمین میں اتار دیا اور انہیں رسوائی اٹہانی پڑی (حوالہ جات بحارالانوار 273  26 ، ص 165 جلد 11 ، ص 320 -321 جلد 26)۔

نوٹ: اس بات کے حوالے ضرورت پڑنے پر دئے جاسکتے ہیں فلحال میں نے صرف کتاب اور صفحات کی طرف اشارہ کردیا ہے

ابوالبصیر سے روایت ہے کہ ابو عبد اللہ نے فرمایا کہ کفر کی تین بنیادیں ہیں حرص ، تکبر اور حسد۔ حرص تو اس طرح کہ جب آدم علیہ السلام کو شجر ممنوعہ سے کھانے کو منع کیا گیا تھا تو حرص نے ہی انہیں کہانے پر مجبور کیا۔ اور تکبر ہی کی وجہ سے ابلیس نے سجدہ آدم سے انکار کردیا تھا۔ اور حسد کی بنیاد پر آدم کے ایک بیٹے نے دوسرے کو قتل کیا۔ (اصول کافی ص 279 جلد2)۔

اس روایت کو ملاحظہ کریں کہ تین چیزیں کفر کی بنیاد ہیں حرص تکبر اور حسد۔ اس سے پہلے میں نے اوپر جو بات لکھی ہے کہ شیعہ راویوں حضرت آدم کی طرف آئمہ پر حسد اور تکبر کی روایات کو منسوب کردیا اور اس روایت میں حرص بھی ان کی طرف منسوب کردیا تو فیصلہ آپ خود کریں کہ کس طرح شیعوں نے کفر کی تینوں بنیادوں کو ابولبشر آدم علیہ السلام کی طرف منسوب کردیا۔ لاحول ولا قوۃ

موسی علیہ السلام کی توہین

حضرت موسی بھی ان پیغمبروں میں سے ہیں جنہوں نے ابتدا میں ولایت کا انکار کیا تھا لیکن بعد میں اقرار کرلیا تو انہیں نبوت دی گئی۔ امام عسکری فرماتے ہیں

بس کلیم اللہ کو حلۃ اصطفا تب پہنائی گئی جب ہم نے ان سے وفا پائی۔ ( بحار الانوار 265 جلد26)۔

ایوب علیہ اسلام کی توہین

فقال أمير المؤمنين (عليه السلام): أتدري ما قصة أيوب وسبب تغير نعمة الله عليه؟ قال: الله أعلم وأنت يا أمير المؤمنين، قال: لما كان عند الانبعاث للنطق (2) شك أيوب في ملكي (3) فقال: هذا خطب جليل وأمر جسيم، قال الله عز وجل: يا أيوب أتشك في صورة أقمته أنا؟ إني ابتليت آدم بالبلاء فوهبته له وصفحت عنه بالتسليم عليه بإمرة المؤمنين وأنت تقول: خطب جليل وأمر جسيم؟ فوعزتي لأذيقنك من عذابي أو تتوب إلي بالطاعة لأمير المؤمنين.

امیر المومنین علیہ اسلام نے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ قصہ ایوب کس طرح ہے ان سے اللہ کی نعمتیں چھیننے کا سبب کیا ہوا سلمان رضہ نے کہا اے امیرالمومنین اللہ جانتا ہے یا آپ کو معلوم ہے جب اللہ نے ان سے اقرار لیا تو انہیں  میری امامت و ولایت میں شک ہوا کہنے لگے یہ تو بڑی بات ہے بہت بڑا معاملہ ہے اللہ تعلی نے فرمایا اے ایوب تو اس شخصیت میں شک کرتا ہے جس کو میں نے خود مقرر کیا ہے۔اسی بنا پر تو میں نے آدم کو مصیبت میں ڈالا پھر امیرالمومنین کی امارت تسلیم کر لینے کی صلہ میں ان پر عنایات کیں اور انہیں معاف کردیا۔ اور تو کہتا ہے کہ یہ بڑی بات اور بھاری معاملہ ہے مجھے اپنی عزت کی قسم : میں تجھے اپنے عذاب کا مزہ چکھا کر ہی رہوں گا تاکہ تو توبہ تائب ہو کر امیرالمومنین کی اطاعت کا اقرار نہ کرلے۔ پھر میرے طفیل انہیں یہ سعادت نصیب ہوئی انہوں نے توبہ کی اور امیرالمومنین اور ان کی پاکیزہ اولاد کی اطاعت کا اقرار کرلیا۔ (بحارالانوار 293 جلد 26)۔

یونس علیہ اسلام کی توہین

تفسير فرات بن إبراهيم: محمد بن أحمد معنعنا عن جعفر بن محمد عن أبيه عن آبائه (7) قال:
قال رسول الله (صلى الله عليه وآله): إن الله تعالى عرض ولاية علي بن أبي طالب (عليه السلام) على أهل السماوات وأهل الأرض فقبلوها ما خلا يونس بن متى فعاقبه الله وحبسه في بطن الحوت لانكاره ولاية أمير المؤمنين علي بن أبي طالب (عليه السلام) حتى قبلها.

امام جعفر اپنے باپ دادا کی سند سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے علی بن ابی طالب کی ولایت آسمان والوں اور زمین والوں پر پیش کی تو یونس بن متی کے سوا سب نے اسے قبول کیا اس کے نتیجہ میں اللہ نے یونس علیہ السلام کو بطور سزا مچھلی کے پیٹ میں قید کردیا کیوں کہ انہوں نے امیر المومنین علی کی ولایت کا انکار کردیا تھا جب انہوں نے اقرار کیا تب انہیں رہائی ملی۔ (بحاالانوار 333-334 جلد 26)۔

اسی طرح کی روایت جلد 26 کے صفحہ نمبر 282 پر بھی موجود ہے جو حضرت علی سے روایت کی گئی ہے۔

اگر شیعہ منطق امامت کا انکار کرنے والا کافر ہے تو اس روایات کے مطابق نبی اللہ موسی علیہ السلام و  ایوب علیہ السلام و یونس علیہ السلام نے معاذ اللہ کفر کا ارتکاب کیا اور پھر توبہ کی ان پر سارا وبال ولایت علی رضہ نہ ماننے کی وجہ سے ہوا۔ واللہ! اس سے زیادہ توہین اور کیا ہوسکتی ہے انبیاء کی؟ یقین جانئے یہ سب لکھنے والوں کی رگوں میں یہود کا خون ہی دوڑ رہا ہوگا تبھی اتنی ناپاک جسارت کر کے انبیاء تک کو کفر میں مبتلا کردیا۔ لاحول ولا قوۃ الاباللہ

اللہ تعالی کی توبہ مجھے تو بہت دکھ ہو رہا یہ سب پڑھ کر کہ انبیاء تک کو ولایت علی کے چکر میں کفر میں مبتلا کردیا اور ولایت بھی ایسی جس سے کسی ایک بھی انسان کو فائدہ نہیں ہوا ایک رتی برابر بھی

کوئی امام منصوص من اللہ نہیں

حیرت کی بات یہ ہے کہ امامت و ولایت اتنی اہم تھی کہ انبیاء سے زبردستی اس کا اقرار لیا گیا اور انہیں نبی بنانے کے لئے امامت و ولایت علی کا اقرار و ان کی اطاعت کو لازم کردیا گیا۔ جس نے اقرار و اطاعت کی نبی بنا ، جس نے انکار کیا انہیں سخت سزا دی گئی انہیں مصیبت میں مبتلا کیا گیا۔ حضرت ایوب کو کہا گیا کہ آپ اس شخص کو ماننے سے انکار کرتے ہیں جسے ہم نے خود مقرر کیا ہے۔ ان سب باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے امامت و ولایت کو نبوت سے بھی زیادہ ضروری قرار دیا۔ لیکن جب ہم اللہ تعالی کی طرف انسانوں کی رہنمائی کے لئے بھجی گئی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو صرف نبوت ہی کی تعریف ملتی ہے امامت و ولایت علی کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟ کیا معاذاللہ اللہ تعالی نے اپنا ارادہ بدل دیا اور خواہ مخواہ انبیاء کو تکلیف دی؟

چناچہ انسان ذات کے لئے سب سے آخری کتاب جو قیامت تک انہیں رہنمائی دے گی قرآن کریم ہے اس کے بعد قیامت تک کوئی کتاب نہیں آنے والی۔ اس میں اللہ تعالی نے دوسرے انبیاء کو نبی کہنے کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر بھی نص فرمائی چناچہ کہا گیا: محمد رسول اللہ والذین معہ (سورۃ الفتح)۔

اور یہ اللہ کے رسول بھی ہیں اور آخری ہیں اس کے بعد نبوت بھی ختم ،اس کی نص قرآن کریم نے فرما دی

اور کہا گیا کہ: مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (سورۃ احزاب)۔

ظاہر ہے یہ سب ضروری باتیں تھیں تو اللہ تعالی نے نص فرمادی۔ اب امامت اتنا بڑا عہدہ ہے کہ نبیوں کی نبوت بھی ان سے مشروط کی گئی۔ اور اب پھر اللہ تعالی کی طرف سے کوئی کتاب یا نص آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تو پھر اللہ تعالی نے اتنے بڑی بات کو قرآن میں کیوں جگہ نہ دی؟ کم سے کم پہلے امام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اس کی نص تو فرما دیتے کہ علی ولی رسول اللہ ہیں۔ جب حضرت ایوب علیہ السلام سے کہا گیا کہ میں نے خود انہیں مقرر کیا ہے تو کیوں نام لے کر نص نہیں کی گئی؟

جو لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضہ اور دوسرے اماموں کے بارے میں نص فرمائی ہے۔ آپ انصاف کے ساتھ تاریخ شیعہ پڑھ کر دیکہ لیں اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نص فرمائی تھی تو شروع سے لے کر امام کو غائب کرنے تک شیعہ میں اور خود اولاد امام میں جو شدید قسم کا اختلاف ہوا وہ کیوں ہوا؟ اگر نص ہوتی تو شیعوں سے پہلے امام علی زین العابدین کے صاحبزادوں کو پتہ ہوتا۔ اگر نص ہوتی تو شیعوں سے پہلے امام جعفر رح کے صاحبزادوں کو پتا ہوتا۔ وہ نص والے امام کے سامنے کبھی بھی خود کو امام نہیں کہتے۔ شیعہ مذہب میں امام کی امامت کا انکار کفر ہے تو امام زید بن علی اور اسماعیل بن جعفر ، عبداللہ بن جعفر کے بارے میں شیعہ کیا کہیں گے؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی نص نہیں تھی بلکہ شیعہ کے افراد اپنی مرضی کسی نہ کسی کا نام امامت کے لئے چن لیتے تھے۔

حضرت علی رضہ کی امامت

شیعہ روایات میں تو انبیاء سے یہ اقرار لیا گیا کہ علی وصی ہیں لیکن شیعہ حضرات قرآن کی کوئی آیت نص علی میں پیش نہیں کر سکتے۔ کچھ آیات کی من مانی تشریح کر کے اسے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اتنے ضروری عقیدہ و عہدہ کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کوئی جگہ نہ دی اور نہ ہی ان کی نص فرمائی۔

شیعہ من کنت مولی و علی مولی کی حدیث کو بہت اچھالتے ہیں اور اس سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت علی کی امامت و خلافت کی نص یہی ہے اور اس دن عید غدیر مناتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر ضروری ہدایات کیں، وہیں صاف صاف یہ کیوں نہ بتلا دیا کہ علی کی ولایت بہت ضروری ہے کیونکہ اس کی وجہ سے انبیاء کو بھی سزائیں دی گئیں چنانچہ آپ لوگ میرے بعد اس کی پیروی کرنا اور اس کی امامت کو ماننا تم پر لازم ہے؟ شیعہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اعلان غدیر کی کھلی خلاف ورزی کر کے صحابہ نے کفر کیا اور حضرت ابو بکر نے بیعت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی کی۔

ہم کہتے ہیں کہ کیا حضور علیہ السلام نے بھی اپنے اسی قول کی خلاف ورزی کی تھی کہ نائب نبی اور افضل عن انبیاء حضرت علی کے ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگوں کو نماز کی امامت ابوبکر کرائیں؟ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر میں حضرت علی رضہ پر نص قائم کی تھی تو اسلام کے اہم رکن کی ادائیگی لے لئے ان کے بجائے حضرت ابوبکر کو نماز کی امامت کیلئے کیوں چنا؟

اس بات کی تائید شیعہ کتب میں موجود ہے۔ چناچہ ابراہیم بن حسین الدرۃ النجفیہ ص: 235 میں لکھتے ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ انہوں نے کتنی نمازیں پڑھائیں، اس پر اختلاف ہے۔ شیعہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ایک نماز پڑھائی تھی لیکن یہ گمان صحیح نہیں ہے، انہوں نے اس دن کے علاوہ دو دن اور بھی نماز پڑھائی۔

اختلاف اس پر نہیں کہ ابوبکر رضہ نے نماز پڑھائی یا علی رضہ نے، بلکہ اس پر ہے کہ ابوبکر رضہ نے کتنی نمازیں پڑھائیں؟ اور شیعہ کے اختلاف کو انہوں نے گمان کہا ہے۔

علی بن ابراہیم قمی تفسیر قمی ص 295 میں لکہتے ہیں کہ

خلافت صدیق میں علی نے ان کے پیچھے نمازیں پڑہیں

اس بات یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا من کنت مولی کی حدیث سے مراد حضرت علی کو دوست رکھنا تھی، نہ کہ ان کی امامت۔ اور میں کہتا ہوں کہ یہ حضور علیہ السلام جانتے تھے کی میرے بعد ابوبکر خلیفہ ہونے والے ہیں اسی لئے آپ نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ الفاظ کہہ کر گویا انہیں وصیت کی کہ میرے بعد ان کا خیال رکھنا اور انہیں دوست رکھنا۔ حضرت علی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نامزد نہیں کیا تھا بلکہ انہیں وصیت کی تھی کہ اگر مہاجرین و انصار اجماع سے تھماری بیعت کریں تو لینا، نہیں تو نہیں لینا۔

چناچہ مناقب ابن شہر آشوب صفحہ 262 جلد 1 پر ہے

شیخ مفید سے عباسی خلیفہ نے پوچھا کہ حضور علیہ السلام کے بعد امام کون تھا؟ شیخ مفید نے جواب دیا کہ وہی جس کو حضرت عباس نے پکار کر کہا کہ آؤ اے بھتیجے میں تھمارے ہاتھ پر بیعت کروں۔ خلیفہ نے شیخ سے پوچھا کہ پھر علی رضہ نے کیا جواب دیا؟ شیخ مفید کہتے  ہیں کہ حضرت علی رضہ نے انکار بیعت کیا اور کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ لیا تھا کہ جب تک مہاجرین و انصار متفق ہوکر چل کرتمہارے پاس نہ آئیں بیعت نہیں لینا اور تلوار بھی نہیں اٹھانا۔ میری مثال کعبہ کی طرح ہے جس کی طرف لوگ چل کر آتے ہیں وہ چل کر نہیں جاتا۔ خلیفہ عباسی نے کہا: اے مفید کیا عباس نے خطا کی؟ شیخ نے کہا: عباس کا کہنا بھی غلط نہیں تھا، ان کا عمل ظاہر پر تھا، علی کا موقف باطنی حقیقت پر تھا۔ دونوں حق پر تھے۔

آپ دیکھیں کہ شہادت عثمان رضہ کے بعد مہاجرین و انصار چل کر آپ کے پاس گئے تو آپ نے بیعت لے لی۔ اس سب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی کسی بھی طرح منصوص من اللہ امام نہیں تھے بلکہ وصیت حضور کے مطابق چوتھے امام تھے۔

امام حسن بن علی

امام حسن نے حضرت معاویہ سے صلح کر کہ گویا عقیدہ امامت پر ضرب لگائی کیوں کہ امام منصوص من اللہ ہوتے تو کبھی دستبردار نہیں ہوتے۔ اس لئے امامیہ نے ناراض ہوکر آپ کی اولاد کو نااہل امامت کردیا اور آپ کو طرح طرح کے القاب دیئے۔ میں کہتا ہوں کہ شیعہ مجبور ہیں کہ امام حسن رضہ سیدہ فاطمہ کے بڑے فرزند ہیں اس لئے ان کی امامت کو تقیہ کر کے مانتے ہیں۔

امام حسین

آپ جب میدان کربلا میں موجود تھے، لوگوں سے خطاب کرتے وقت کہیں بھی انہوں نے اپنے منصوص من اللہ امام ہونے کا دعوی تک نہیں کیا۔ بلکہ وہ اپنی فضلیت کے لئے اپنے نانا کو حجت کے طور پر پیش کر رہے تھے۔

یہ تین امام ہی ہیں جس پر سب شیعہ متفق ہیں اور ان کے بعد شیعوں میں اختلاف امامت پر اختلاف رہا اور ایک دوسرے کے خلاف روایات بنا کر ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور بعد والے امام تقیہ کی چادر میں چھپے رہے اور ایسا شدید تقیہ کہ اپنے شیعوں سے بھی تقیہ کر جاتے تھے۔ ان سے نہ تو شیعہ کوفائدہ ہوا نہ ہی کسی اور کو۔

اس کے بعد امامت پر ایسا اختلاف رونما ہوا کہ ہر امام کے مرنے کے بعد شیعہ کا ایک بڑا حصہ اس کو مہدی مان کر واپسی کا انتظار کرنے لگ جاتا۔ بلآخر شیعہ، امام حسن عسکری کے مرنے کے بعد  کچھ ان کے مہدی ہونے کے قائل ہوئے اور اثنا عشریہ نے ان کی طرف ایک بیٹا منسوب  کر کے اسے غائب کردیا اور قیامت تک اپنی جان چھڑا لی۔

اگرآپ شیعہ کے شدید اختلاف کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کسی طرح سے بھی امامت منصوص من اللہ یا منصوص من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں۔

نوٹ: اس موضوع میں انبیاء ، حضرت علی ان کی اولاد اور شیخین کریمین یا صحابہ کے خلاف کسی قسم کی بے ادبی میرا مقصد نہیں ہے اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہاں جو بھی باتیں ہوںگی شیعہ روایات کے مطابق ہیں۔ میرا مقصد آپ تک اصل بات پہنچانا ہے۔ کوئی بھی ادب کے خلاف روایت ہو تو میں اس کو صرف شاہد کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ اس کا وبال ان پر ہے جنہوں اس روایت کو تحریر کیا ہے۔ میرا اپنا ایسا عقیدہ نہیں ہے۔
اس موضوع کی ترتیب میں شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ کی تصنیفات سے استفادہ کیا گیا ہے۔