Featured Post

شیعہ نوجوانوں کو راہِ حق پرلانےکے لینے 20 سوالات Unanswerable Questions for Shias

وہ اہم سوالات متلاشیان حق نوجوانوں کوراہ حق سے ہم کنارکرنے میں بڑاعظیم کردارہے! 70 UNANSWERED QUESTIONS to Shia,...

لعنت اور تبرا بازی


تبرّا ، تولی کے ساتھ مل کر، اصولی طور پر مذہب شیعہ میں خاص منزلت اور معنی و مفہوم حاصل ہے اور یہ دونوں اس مذہب کے پیروکاروں کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہیں۔ لعنت کا آغاز351ھ میں ہوا، معزالدولہ(احمد بن بُویہ دیلمی) نے جامع مسجد بغداد کے دروازے پر نعوذ باللہ نقل کفر کفر نہ باشد یہ  عبارت لکھوا دی۔
(لعن اللہ معاویۃ بن ابی سفیان ومن غصب فاطمۃ فدکا ومن منع من دفن الحسن عند جدہ ومن نفی اباذرومن خرج العباس عن الشوری)


 کسی  مومن پر لعنت یا تبرا کرنا قرآن کی اس آیت مبارکہ کی روشنی میں درست نہیں معلوم ہوتا:

وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (قرآن 59:10)

"اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے" (قرآن 59:10)

ا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا
صحیح البخاری، الجنائز، باب ما ینہی من سب الأموات، ح:۱۳۹۳

"مردوں کو گالی مت دو کیونکہ وہ اپنے کیے کو پہنچ گئے۔"

بلکہ جب لوگوں نے ابو جہل جیسے کفار کو گالیاں دینی شروع کیں تو انہیں منع کیا اور فرمایا:

لَا تَسُبُّوا مَوْتَانَا فَتُؤْذُوا أَحْيَاءَنَا
سنن النسائی، القسامۃ، القود من اللطمۃ، ح:۴۷۷۹

"ہمارے مرے ہوؤں کو گالیاں مت دو کیونکہ اس سے ہمارے زندوں کو تکلیف ہوتی ہے۔"

یہ اس لیے کہ قدرتی طور پر ان کے مسلمان رشتہ دار برا مانتے تھے۔

مؤمن گالی گلوچ کرنے والا یا لعن طعن کرنے والا نہیں ہوتا ۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بھی ایسے کاموں سے اجتناب فرماتے تھے :

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَّابًا، وَلاَ فَحَّاشًا، وَلاَ لَعَّانًا، كَانَ يَقُولُ لِأَحَدِنَا عِنْدَ المَعْتِبَةِ: «مَا لَهُ تَرِبَ جَبِينُهُ»
صحیح بخاری کتاب الأدب باب لم یکن النبی صلى اللہ علیہ وسلم فاحشا ولا متفحشا ح 6031

سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فحش گوئی کرنے والے اور لعنت کرنے اور گالی گلوچ کرنے والے نہ تھے اور جب کبھی ناراض ہوتے تو صرف اس قدر فرماتے کہ اس کو کیا ہوگیا ہے، اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔

اور پھر فاسق کو معین کرکے لعنت کرنا سنت نبوی ﷺ میں موجود نہیں البتہ عام لعنت وارد ہے۔ مثلاً نبی ﷺ نے فرمایا:

لَعَنَ اللَّهُ السَّارِقَ يَسْرِقُ الْبَيْضَةَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ

صحیح البخاری، الحدود، باب لعن السارق إذا لم یسم، ح:۶۷۸۳ وصحیح مسلم، الحدود، باب حد السرقۃ ونصابہا، ح:۱۶۸۷

"چور پر اللہ کی لعنت کہ ایک انڈے پر اپنا ہاتھ کٹوا دیتا ہے۔"

فرمایا:

فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ
صحیح البخاری، الجزیۃ والموادعۃ ، باب إثم من عاھد ثم غدر، ح:۳۱۷۹

"جو بدعت نکالے یا بدعتی کو پناہ دے اس پر اللہ کی لعنت۔"

یامثلاً صحیح بخاری میں ہے کہ ایک شخص شراب پیتا تھا اور باربار نبی ﷺ کے پاس پکڑا آتا تھا یہاں تک کہ کئی پھیرے ہوچکے تو ایک شخص نے کہا:

اللَّهُمَّ الْعَنْهُ مَا أَكْثَرَ مَا يُؤْتَى بِهِ
"اس پر اللہ کی لعنت کہ باربار پکڑ کر دربار رسالت میں پیش کیا جاتا ہے۔"
آنحضرت ﷺ نے سنا تو فرمایا:

لَا تَلْعَنُوهُ فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ
صحیح البخاری، الحدود، باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر۔۔۔، ح: ۶۷۸۰

حالانکہ آپ نے عام طور پر شرابیوں پر لعنت بھیجی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ عام طور پر کسی خاص گروہ پر لعنت بھیجنا جائز ہے مگر اللہ اور رسول ﷺ سے محبت رکھنے والے کسی معین شخص پر لعنت کرنا جائز نہیں اور معلوم ہے کہ ہر مومن اللہ اور رسول سے ضرور محبت رکھتا ہے۔


http://forum.mohaddis.com/threads/18859/
http://ur.wikishia.net/view/تبرا