Featured Post

شیعہ نوجوانوں کو راہِ حق پرلانےکے لینے 20 سوالات Unanswerable Questions for Shias

وہ اہم سوالات متلاشیان حق نوجوانوں کوراہ حق سے ہم کنارکرنے میں بڑاعظیم کردارہے! 70 UNANSWERED QUESTIONS to Shia,...

The Four Rightly Guided Caliphs خلفائے راشدین


The Rightly Guided Caliphs or The Righteous Caliphs (الخلفاء الراشدون al-Khulafā’u r-Rāshidūn) is a term used to refer to the first four Caliphs who established the Rashidun Caliphate. It is a reference to the Haidth (tradition); "Hold firmly to my example (sunnah) and that of the Rightly Guided Caliphs" (Ibn MajahAbu Dawood). The Rashidun were either elected by a council (Islamic democracy) or chosen based on the wishes of their predecessor. In the order of succession, the rashidun were:
خلفائے راشدین:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیق اولین اور حضرت علی آخری خلیفہ ہیں۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔ خلافت راشدہ کا دور اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس زمانے میں اسلامی تعلیمات پر عمل کیا گیا اور حکومت کے اصول اسلام کے مطابق رہے۔ یہ زمانہ اسلامی فتوحات کا بھی ہے۔ اوراسلام میں جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے واقعات بھی پیش آئے۔جزیرہ نما عرب کے علاوہ ایران، عراق، مصر، فلسطین اور شام بھی اسلام کے زیر نگیں آ گئے۔

Imam Hasan ibn Ali was appointed as Caliph in 661 following the death of Ali bin Talib and is also regarded as a righteous ruler although he was recognized by only half of the Islamic state and his rule was challenged and eventually ended by the Governor of Syria, Muawiyah ibn Abi Sufyan. In addition to this, there are several views regarding additional rashidunUmar ibn Abdul Aziz (Umar ІІ), who was one of the Ummayyad caliphs, is sometimes regarded as one of the Rashidun and is quoted by Taftazani.
 They were all close companions of  Prophet Muhammad (pbuh), and his relatives: the daughters of Abu Bakr and Umar were married to Prophet Muhammad (pbuh),, and two of Prophet Muhammad's (pbuh), daughters were married to Uthman and Ali. Likewise, their succession was not hereditary, something that would become the custom after them, beginning with the subsequent Umayyad Caliphate. Council decision or caliph's choice determines the successor originally. Shi'a support their claim of hereditary caliphate of Ali  with the  twisted interpretation of  Hadith of the pond of Khum. The Caliphs enjoyed good relations and related with intermarriages. Ali not took the oath of allegiance to all caliphs. Ali also married his daughter Umm Kulthum to Umar, and quite contrary to the biased allegations, perfect cordiality prevailed between Ali and Umar. Ali held the office of the Chief Justice. He acted as the principal Counselor of Umar. He acted as Chief Secretary as well. The services of Ali were highly appreciated by Umar. In these circumstances the views expressed in some quarters that Umar was the worst enemy of Ali is far from truth and cannot be accepted.

For further study click following:
  1. Abu Bakr 
  2. Umar ibn al-Khattab
  3. Uthman ibn Affan 
  4. Ali ibn Abi Talib 
Also see: Status of Sahabah: Companions of Prophet

..........................................................

بسم الله الرحمن الرحيم

اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

خلفاء راشدین کی زندگی کے مختصر احوال

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  رسالت ونبوت کی عظیم ذمہ داری کا حق کما حقہ ادا کرنے کے بعد ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری کو تقریباً ۶۳ سال کی عمر میں انتقال فرماگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد تقریباً ۳۰ سال یعنی ۴۰ ہجری تک حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ ، حضرت عثمان غنی ؓ اور حضرت علی مرتضیٰؓ نے خلافت کی ذمہ داریاں بخوبی انجام دیں۔ ۱۱ہجری سے ۴۰ ہجری تک کا وقت تاریخ میں خلافت راشدہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، اور ان جلیل القدر صحابہ کو خلفاء راشدین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہی خلفاء راشدین کے متعلق ارشاد فرمایا ہے: (تم میری اور میرے بعد آنے والے خلفاء راشدین کی سنت کو بہت مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو )۔ (ترمذی ، ابوداؤد)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات:(میری امت میں خلافت تیس سال تک رہے گی پھر بادشاہت ہوجائے گی) (ترمذی، مسنداحمد)، (تمہارے دین کی ابتدا میں نبوت ورحمت ہے پھر خلافت ورحمت ہوگی، پھر بادشاہت وجبریت ہوجائے گی)(سیوطیؒ ) کی روشنی میں محدثین ومفکرین اور مؤرخین فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ا کے ارشاد (تم میری اور میرے بعد آنے والے خلفاء راشدین کی سنت کو بہت مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو)سے مراد یہی چار خلفاء ہیں، جن کا تعلق قبیلہ قریش سے ہے۔ حضرت امیر معاویہؓ اور ان کے بعد یہ خلافت بادشاہت میں تبدیل ہوتی چلی گئی، اور خلیفہ نے ایک بادشاہ کی حیثیت اختیار کرلی۔ مؤرخین نے حضرت حسن بن علیؓ کی حضرت معاویہؓ سے صلح سے قبل تقریباً سات ماہ کی خلافت کو بھی خلافت راشدہ میں شمار کیا ہے، کیونکہ حضرت حسن ؓ کی تقریباً ۷ماہ کی خلافت کو شمار کرکے ہی تیس سال مکمل ہوتے ہیں۔ بعض مؤرخین نے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو حکماً پانچواں خلیفہ راشد شمار کیا ہے، کیونکہ انہوں نے چاروں خلفاء کے نقش قدم پر چل کر خلافت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نیابت میں دین اور دنیا کے امور میں سرپرستی کرنے اور شرعی احکامات کا نفاذ کرانے کا نام خلافت ہے۔ راشد کی جمع راشدون اور راشدین آتی ہے جس کے معنی سیدھے راستے پر چلنے والے یعنی ہدایت یافتہ کے ہیں۔

حضرت ابو بکر صدیق ؓ (خلافت ۱۱ ہجری سے ۱۳ ہجری تک):

آپؓ کا نام عبداللہ بن ابی قحافہ ، کنیت ابوبکر ، اور واقعہ معراج پر تصدیق کرنے سے لقب صدیق ہوا۔ نبی اکرم ا کی بعثت کے روز ہی حضرت خدیجہؓ کے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ ان کی تبلیغ سے بے شمار صحابہ اسلام لائے جن میں بعض اہم نام یہ ہیں: حضرت عثمان غنی ؓ ، حضرت زبیرؓ بن عوام ، حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف ، حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاص۔ اسلام لانے کے بعد سے موت تک پوری زندگی اعلاء کلمۃ اللہ اور احیاء اسلام میں لگادی۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں آپؓ بڑی سخاوت اور فراوانی سے خرچ کرتے تھے، مثلاًبے شمار غلاموں کو خرید کر آزاد کیا، جن میں رسول اللہ کے مؤذن حضرت بلالؓ بھی ہیں۔ آپؓ کی صاحبزادی حضرت عائشہؓ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد نکاح فرمایا۔ آپؓ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نبی اکرم اکے ہمراہ کی۔ قرآن کریم کی آیت (ثَانِیَ اثْنين اِذْ ہمُا فِی الْغَارِ) (سورہ التوبة۴۰) میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہی کا ذکر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات سے قبل چند نمازیں حضرت ابوبکر ؓ ہی نے امامت کرکے صحابہ کرام کو پڑھائیں ۔ انتقال کے دن حضور اکرم ا نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ مل کر نمازِ فجر کی امامت کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد صحابہ کرام کے مشورہ سے آپ کو خلیفہ متعین کیا گیا۔ آپکی خلافت کے چند اہم کام یہ ہیں:
* حضرت اسامہ بن زید ؓ کے لشکر کو ملک شام روانہ کیا، جو افواج قیصر کو پسپا کرکے فتح یاب ہوا اور صحیح سالم واپس آیا۔
* مرتدین، مانعین زکوٰۃ اور داعیان نبوت سے قتال کرکے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد پیدا ہوئے تمام فتنوں کو ختم کیا۔
* مذکورہ فتنوں کا قلع قمع کرنے میں بے شمار حفاظ کرام شہید ہوئے، چنانچہ آپ ؓ نے قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرایا۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا ۱۳ ہجری میں انتقال ہوا، حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ مبارکہ میں نبی اکرم ا کے پہلو میں دفن ہوئے۔ آپؓ کی عمر تقریبا ۶۳ سال اور خلافت ۱۱ ہجری سے ۱۳ ہجری تک دو سال تین ماہ دس دن رہی۔

حضرت عمر فاروق ؓ (خلافت ۱۳ ہجری سے ۲۳ ہجری تک):

آپؓ کا نام عمر بن خطاب، کنیت ابوحفص اور لقب فاروق (حق کو باطل سے الگ کرنے والا) ہے۔ ۶ نبوت میں ۳۳ سال کی عمر میں اسلام لائے۔ آپ سے قبل ۳۹ مرد اسلام قبول کرچکے تھے۔ آپؓ کے قبول اسلام پر مسلمانوں نے تکبیر بلند کی۔ آپؓ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت ملی۔ تمام غزوات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمرکاب رہے۔ قرآن کریم اگرچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد خلافت میں جمع کیا گیا مگر یہ تجویز حضرت عمر فاروق ؓ کی ہی تھی، اور انہیں کے اصرار پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس عمل کے لئے تیار ہوئے تھے۔ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت خفیہ طور پر نہیں کی بلکہ علانیہ طور پر کی ۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنے مرض الوفات میں صحابہ کرام کے مشورہ سے حضرت عمرؓ کو مسلمانوں کا خلیفہ متعین فرمایا۔ بعد میں آپؓ کو امیر المؤمنین کے خطاب سے نوازا گیا۔ آپؓ کے عہد خلافت میں ملک عراق، فارس، شام اور مصر فتح ہوئے، اسلامی کیلنڈر کا افتتاح ہوا، کوفہ اور بصرہ شہر آباد کئے گئے، ماہِ رمضان میں نمازِ تراویح کا جماعت کے ساتھ اہتمام شروع ہوا، زکوٰۃ کی آمدنی کے اندراج کی غرض سے بیت المال قائم کیا گیا۔
۲۶ذی الحجہ ۲۳ ہجری کی صبح آپ ؓ مسجد نبوی میں نمازِ فجر کی امامت کررہے تھے کہ فیروز نامی مجوسی المذہب غلام نے خنجر سے زخمی کیا ، چار دنوں کے بعد یکم محرم الحرام ۲۴ ہجری کو انتقال فرماگئے۔ نبی اکرم ا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت دس سال ،چھ ماہ اور چار دن رہی ۔

حضرت عثمان غنی ؓ (خلافت ۲۴ ہجری سے ۳۵ ہجری تک):

آپؓ کا نام عثمان بن عفان، کنیت ابوعبداللہ اور ابو عمرو ہے۔ نبی اکرم ا کی دوصاحبزادیاں (رقیہؓ اور ام کلثومؓ) یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں، اس لئے ذوالنورین کے لقب سے مشہور ہوئے۔ دو بار حبشہ ہجرت کی، پھر حبشہ سے مدینہ منورہ کو ہجرت فرمائی۔ آپ نے اللہ کے راستہ میں بہت مال خرچ فرمایا، غزوہ تبوک کے لشکر کی تیاری کے لئے بے شمار مال واغراض عطا فرمائے۔ جنگ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمرکاب رہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کی شہادت کے بعد خلیفہ بنے۔ ۳۵ ہجری میں ۸۲ سال کی عمر میں آپ ؓ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔ آپ ؓ کی خلافت گیارہ سال ،گیارہ ماہ اور تیرہ دن رہی۔ آپ کی خلافت میں تونس ملک فتح ہوا۔ فتوحات کی وجہ سے اسلامی مملکت میں بہت زیادہ توسیع ہوئی، جسکی وجہ سے یہ سوچ کر کہ کہیں قرآن کریم کی قراء ت میں اختلاف رونما نہ ہوجائے ، آپؓ نے قرآن کریم کو ایک صحیفہ (مصحف عثمانی) میں جمع کرایا اور اس صحیفہ کے نسخے تمام ریاستوں میں ارسال کئے ، اس طرح قرآن کریم کے ایک نسخہ (مصحف عثمانی) پر امت مسلمہ متحد ہوگئی۔

حضرت علی مرتضی ؓ : (خلافت ۳۵ ہجری سے ۴۰ ہجری تک)

آپؓ کا نام علیؓ بن ابی طالب ، کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے۔ آپؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچازاد بھائی اور داماد ہیں۔ آپؓ کی تربیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھر پر ہوئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ سے آپ کی شادی ہوئی۔ آپؓ نے بچپن میں بھی کبھی بت پرستی نہیں کی تھی۔ تیرہ سال سے کم کی عمر میں اسلام لائے، بچوں میں سب سے پہلے آپ ہی اسلام لائے تھے۔ شب ہجرت میں اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر نبی اکرم ا کے بستر پر سوئے۔ وحی لکھنے والے چند صحابہ میں سے ایک آپؓ بھی ہیں۔ جنگ تبوک کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں مدینہ منورہ میں اپنا خلیفہ بناکر چھوڑا۔ سوائے اس جنگ کے باقی تمام غزوات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمرکاب رہے۔ آپؓ کی شجاعت کے کارنامے بہت مشہور ہیں۔ آپؓ کی علمی حیثیت بڑی مسلم تھی حتی کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک موقع پر فرمایا کہ حضرت علیؓ ہم سب سے بڑھ کر قاضی ہیں۔ حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے بعد صحابہ کرام نے مشورہ کے بعد آپؓ کو خلیفہ متعین کیا۔ آپؓ نے چند مصلحتوں کی وجہ سے مسلمانوں کا دار الخلافت مدینہ منورہ سے عراق کے شہر کوفہ منتقل کردیا۔ پولس کا شعبہ بنایا۔ ۳۶ ہجری میں جنگ جمل اور ۳۷ ہجری میں جنگ صفین واقع ہوئی۔ ۱۷ رمضان المبارک ۴۰ ہجری کی صبح کو ابن ملجم کے ہاتھوں شہید ہوگئے اور کوفہ ہی میں دفن کئے گئے۔ اس طرح آپ کی کل عمر تقریباً ۶۳ سال اور آپ ؓ کی خلافت چار سال اور سات ماہ رہی۔

حضرت حسن بن علی ؓ :

آپ کا نام حسن بن علیؓ ہے،آپ کی والدہ حضرت فاطمہؓ ہیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی صاحبزادی ہیں۔ رمضان ۳ہجری میں پیدا ہوئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے نواسے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ سے بہت محبت کیا کرتے تھے۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد عراق میں مسلمانوں کے اصرار پر حضرت حسنؓ نے بیعت خلافت لی۔ دوسری طرف شام میں حضرت معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت کی گئی۔ ممکن تھا کہ مسلمانوں کے درمیان ایک اور جنگ شروع ہوجائے لیکن حضرت حسنؓ انتہائی زاہد ومتقی اور اللہ سے ڈرنے والے تھے، انہوں نے اپنی دوراندیشی سے مسلمانوں کو قتل عام سے بچاکر حضرت معاویہؓ کے ساتھ صلح فرمالی اور خلافت سے دست بردار ہوگئے۔ ۵۰ ہجری میں ۴۷ سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں انتقال ہوا، جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
خلافت راشدہ: ۱۱ ہجری سے ۴۱ ہجری تک (632-662) خلافت بنو امیہ: ۴۱ ہجری سے ۱۳۲ ہجری تک(662-750) خلافت بنو عباسیہ: 132 ہجری سے 656ہجری تک(750-1258)۔ خلافت عثمانیہ : ۶۹۸ ہجری سے ۱۳۴۲ہجری تک(1299-1924)۔ غرضیکہ ۱۹۲۴ میں تقریباً ۱۳۵۰ سال بعد مسلمانوں کی ایک مرکزی خلافت /حکومت ختم ہوگئی۔ 
محمد نجیب قاسمی
http://www.najeebqasmi.com/urdu-articles/157-history/1382-khuafae-rashedeen