Featured Post

شیعہ نوجوانوں کو راہِ حق پرلانےکے لینے 20 سوالات Unanswerable Questions for Shias

وہ اہم سوالات متلاشیان حق نوجوانوں کوراہ حق سے ہم کنارکرنے میں بڑاعظیم کردارہے! 70 UNANSWERED QUESTIONS to Shia,...

Showing posts with label Islam. Show all posts
Showing posts with label Islam. Show all posts

Khatm-e-Nabuwat-qadyani ختم نبوت - تحقیقی جائزہ


https://goo.gl/HDpr4t
ختم نبوت اسلام کے اہم عقائد میں سے ایک ہے، ایک صدی قبل ہندوستان میں انگریز کی سرپرستی میں مسلمانوں کی وحدت کی مزید تقسیم کے لیے قادیانی فتنه پیدا کیا گیا - بہت جدو جہد کے بعد 1974 میں پاکستان میں آیینی طور پر قادیانوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تاکہ یہ اسلام کی آڑ میں اپنے گمراہ کن عقائد کا پرچار نہ کر سکیں- ایک طے شدہ معاملہ کو نواز شریف کی حکومت نے دھوکہ سے آیینی ترمیم سے dilute ختم کرنے کی کوشش کا شروعات کی جو پکڑی گئی-اب عوام مطالبہ کر رہے ہیں کہ مجرموں کو بےنقاب کیا جائے.
مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی 100 سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔

ارشادِ خداوندی ہے:

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاo (الاحزاب40)
ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالٰیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو نہ منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا اور نہ ہی منصب رسالت پر۔

قرآن حکیم میں سو سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو اشارۃً یا کنایۃً عقيدہ ختم نبوت کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی متعدد اور متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنی متعین فرمایا ہے۔ لہٰذا اب قیامت تک کسی قوم، ملک یا زمانہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں اور مشیت الٰہی نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلۂ نبوت اور رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے اپنی ختمِ نبوت کا واضح الفاظ میں اعلان فرمایا۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَ. (ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الرويا، 4 : 163، باب : ذهبت النبوة، رقم : 2272)

ترجمہ : اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔

اس حدیث پاک سے ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو کوئی بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ملعون اور ابلیس کے ناپاک عزائم کا ترجمان ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی نہ صرف نشاندہی کر دی بلکہ ان کی تعداد بھی بیان فرما دی تھی۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أنّه سَيَکُوْنُ فِيْ أُمَّتِيْ ثَلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنّه نَبِیٌّ وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِيْنَ لَا نَبِيَ بَعْدِيْ. (ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب : ماجاء لا تقوم الساعة حتی يخرج کذابون، 4 : 499، رقم : 2219)

ترجمہ: میری امت میں تیس (30) اشخاص کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کذاب کو گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

اگر کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے (خواہ کسی معنی میں ہو) وہ کافر، کاذب، مرتد اور خارج از اسلام ہے۔ نیز جو شخص اس کے کفر و ارتداد میں شک کرے یا اسے مومن، مجتہد یا مجدد وغیرہ مانے وہ بھی کافر و مرتد اور جہنمی ہے۔

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم روئے زمین کی ہر قوم اور ہر انسانی طبقے کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور آپ کی لائی ہوئی کتاب قرآن مجید تمام آسمانی کتب کے احکام منسوخ کرنے والی اور آئندہ کے لیے تمام معاملات کے احکام و قوانین میں جامع و مانع ہے۔ قرآن کریم تکمیل دین کااعلان کرتا ہے۔ گویا انسانیت اپنی معراج کو پہنچ چکی ہے اور قرآن کریم انتہائی عروج پر پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ اس کے بعد کسی دوسری کتاب کی ضرورت ہے ، نہ کسی نئے نبی کی حاجت۔ چنانچہ امت محمدیہ کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ آپ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ انسانیت کے سفر حیات میں وہ منزل آ پہنچی ہے کہ جب اس کا ذہن بالغ ہو گیا ہے اور اسے وہ مکمل ترین ضابطۂ حیات دے دیا گیا، جس کے بعد اب اسے نہ کسی قانون کی احتیاج باقی رہی نہ کسی نئے پیغامبر کی تلاش۔

قرآن و سنت کی روشنی میں ختم نبوت کا انکار محال ہے۔ اور یہ ایسا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ خود عہد رسالت میں مسیلمہ کذاب نے جب نبوت کا دعوی کیا اور حضور کی نبوت کی تصدیق بھی کی تواس کے جھوٹا ہونے میں ذرا بھی تامل نہ کیا گیا۔ اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں صحابہ کرام نے جنگ کر کے اسے کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس کے بعد بھی جب اور جہاں کسی نے نبوت کا دعوی کیا، امت مسلمہ نے متفقہ طور پر اسے جھوٹا قرار دیا اوراس کا قلع قمع کرنے میں ہر ممکن کوشش کی۔ 1973ء کے آئین میں پاکستان میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آخری نبی نہ ماننے والے کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/ختم_نبوت
28 ارکان کے دستخطوں پر پیش کیا۔قائدایوان ذوالفقارعلی بھٹونے سانحہ ربوہ پرغورکرنے اور قادیانی مسئلے پر سفاشات مرتب کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی کوخصوصی کمیٹی قرار دیا۔ سرکاری طور پر بل وزیرقانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے پیش کیا۔قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے قادیانی مسئلہ پرغوروفکرکرنے کے لیے دو ماہ میں 28 اجلاس اور 96 نشستیں کیں۔ 5اگست 1974ء میں ایوان کی پہلی کارروائی ہوئی جس کی صدارت چیئرمین سینٹ صاحبزادہ فاروق علی خان نے کی۔6 سے 10 اور 20 سے 23 اگست کو قادیانیوں پر جرح ہوئی اور 27اگست کولاہوری گروپ پرجرح ہوئی۔لاہوری اور قادیانی گروپ نے اپنے اپنے محضر نامے پیش کیے اور جھوٹے ثابت ہوئ۔یہاں تک کہ پاکستان کے قومی اسمبلی میں یہ بل 7 ستمبر 1974ء کو4بج کر35منٹ پرمنظورہوا اور پوری قوم کے اتحاواتفاق سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیاگیا۔
ذوالفقارعلی بھٹونے قائد ایوان کی حیثیت سے 27منٹ تک وضاحتی تقریرکی اور بتایاکہ قادیانی آپ ﷺ کی ختم نبوت کے بھی انکاری ہیں اور پاکستان کے بھی دشمن۔ یوں 7ستمبرکوایک تاریخی فیصلہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں ہوا۔اس فیصلے پر ملک بھر میں خوشی ومسرت کی لہر دوڑ گئی۔ قادیانیوں نے اس فیصلے کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان باور کرانے کی بارہا کوشش کی، جس پر علماء نے احتجاج کیااور صدر ضیاء الحق سے مطالبہ کیا، جس پر انہوں نے 26 اپریل 1984ء کو امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کرکے قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ مرزا طاہر برطانیہ فرارہوگیا یعنی پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کاخمیرتھا ، مگرختم نبوت کے پروانوں اور دیوانوں نے اِن کا پیچھا کہیں بھی نہیں چھوڑا۔
سوال #1 : قادیانی کلمہ پڑھتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے، پاکستان کے علاوہ دنیا کے کسی اسلامی ملک نے ان کو غیر مسلم نہیں قرار دیا - لہٰذا ان کو غیر مسلم قرار دینے کا کسی کو حق نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کریں۔ کوئی ایسی آیت قرآن بتائیں جس سے ختم نبوت کا انکار کسی کو خارج اسلام کر دے؟ جواب: بظاھر بات معقول لگتی ہے، مگر جب قرآن اور اسلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے- میرے علم کے مطابق دنیا میں کسی مسلم ملک یا مستند علماء میں سے کسی نے حکومت پاکستان کے قادیانی کو غیر مسلم قرار دینے کو غلط نہیں کھا- مختصر جوابات درج ذیل ہیں، تفصیلا جواب نیچے مفصل" تحقیقی جائزہ" پڑھنے سے مل جائیں گے :
1.ختم نبوت کوئی لوکل مسلہ نہیں اس پر چودہ سو سال سے قرآن و سنت کی روشنی میں صحابہ اور علماء کا مکمل اجماع ہے کہ اپ کے بعد کوئی نبی رسول نہیں ہے، جو ایسا دعوی کرے وہ اور اس کو ماننے والے کافراسلام سے خارج ہیں-
2.قادیانی فتنہ بر صغیر ہندو پاک کی پیداوار ہے، لہٰذا اس کا حل بھی ادھر ہی نکالنا ہے- باقی دنیا کو اس فتنہ کی بنیادی وجوہات اوٹ تفصیل کا اتنا علم نہیں ہو سکتا- ان کی کتب ، مٹیریل کثریت اردو میں ہیں جن کا مکمل رکارڈ یھاں موجود ہے جس سے قادیانی انکار نہیں کر سکتے- کسی دور دراز ملک میں قادیانی مبلغین جو پراپگنڈا کریں گے اور قرآن و حدیث کی تحریف شدہ آیات پیش کرکہ ان کو دھوکہ دے سکتے ہیں- اگر مصر، نائجیریا، انڈونیشیا یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں نبوت کے جھوٹے دعوے دار پیدا ہوں تو وہ ممالک ہی ان کا سدباب کریں گے ہم کو شاید اس بات کا علم بھی نہ ہو سکے-
3.قرآن و سنت کا علم تمام دنیا میں پھیلا ہوا ہے مگر چند صدی قبل جو اسلامی تحقیق انڈیا پاکستان میں ہوئی اور جو علماء یھاں پیدا ہوۓ اس کی مثال مشکل ہے- یہ بھی ایک وجہ ہے کہ قادیانیت کے فتنہ کا رد بھی مدلل طریقه سے یہیں ہوا اور ان کو غیر مسلم قرار دیا گیا-
4.اس دور میں دنیا میں اکثریت دہریہ atheists اور مسیحی مذھب والے ہیں، جو اسلام کو نہیں مانتے، ہم کو ان کی پرواہ نہیں، دعوه اسلام کی کوشش کرتے ہیں، الله کا فرمان ہے:
".. جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا(قرآن 17:15)5.مسلمان تمام انبیاء اور تمام الہامی کتب پر ایمان رکھتے ہیں- قرآن کے مطابق قرآن کی آیت کا انکار کرنے والا کفر ، ظلم کرتا ہے اور عذاب کا مستحق ہے۔ الله قرآن میں اپ صلعم کو ختم النبیین ، آخری نبی قرار دیتا ہے، جو اس آیت کا انکار کرتا یا تحریف کر کہ کوئی نیا مطلب نکلتا ہے وہ قرآن کا کفر کرتا ہے اور مسلمان نہیں ہو سکتا-
قرآن کی آیت کا انکارکفر ہے، صرف چند آیات پیش ہیں: مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاo (الاحزاب، 40) ترجمہ: محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ( النساء-136 ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا ( النساء-136 )وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ( التغابن-10) اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی اہل دوزخ ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ اور وہ بری جگہ ہے- وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ (المائدہ-10) اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں۔"پس بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل اور ہدایت اور رحمت آچکی، پھر اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور ان سے کنارا کرے۔ عنقریب ہم ان لوگوں کو جو ہماری آیات سے کنارا کرتے ہیں، برے عذاب کی جزا دیں گے، اس کے بدلے جو وہ کنارا کرتے تھے۔"(قرآن ، سورت الانعام، آیت نمبر 157)
....................................
سوال #2: بہت سے مسلمانوں کے ذہن میں ایک سوال کانٹا بنا ہوا ہے کہ قادیانیوں اوردیگر غیر مسلموں میں کیا فرق ہے؟
ایسی کونسی بات ہے جس کی وجہ سے قادیانیوں کو دوسرے غیر مسلموں سے زیادہ برا قرار دیا جاتا ہے؟
مسلمانوں کو دوسرے غیر مسلموں سے میل ملاپ اور ضروری تعلقات اور کاروبار کی بقدر ضرورت اجازت ہے مگر قادیانیوں کے ساتھ ایسی کوئی اجازت نہیں ہے؟
سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ:
قادیانیوں میں اور دوسرے کافروں ( غیر مسلموں) میں کیا فرق ہے؟
پہلے کفر کو سمجھ لیں ، یوں تو کفر کی بہت سی قسمیں ہیں مگر کفر کی تین اقسام بالکل ظاہر ہیں۔
(1) مطلق کافر:
وہ ہے جو ظاہر و باطن سے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہو یا اعلانیہ کفر کا مرتکب ہو۔ اس قسم کے کافر کو مطلق (کھلا) کافر کہتے ہیں۔ اس میں یہودی، عیسائی ، ہندووغیرہ سب داخل ہیں۔ مشرکین مکہ بھی اسی قسم میں داخل تھے اور مطلق کافر تھے۔
(2) منافق:
دوسری قسم والے کو منافق کہتے ہیں جو زبان سے ''لا الہ الا اللہ'' کہتا ہے مگر دل کے اندر کفر چھپاتا ہے۔
(3) زندیق:
ان منافقوں سے بڑھ کرہے اور اس تیسری قسم والوں کا جرم ہے کہ وہ کافر ہیں مگر اپنے کفر کو اسلام کہتے ہیں۔ خالص کفر لیکن یہ اس کو اسلام کے نام سے پیش کرتے ہیں بلکہ قرآن کریم کی آیات سے، احادیث طیبہ سے، صحابہ کے ارشادات سے اور بزرگانِ دین کے اقوال سے توڑ موڑ کر اپنے کفر کو اسلام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کو شریعت کی اصطلاح میں ''زندیق'' کہا جاتا ہے ۔ قادیانیوں کا تعلق اسی قسم سے ہے ۔
اب اسی بات کو عام زبان میں سمجھتے ہیں-
قادیانی زندیق ہیں، مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام کو ترک کر کے کوئی اور مذہب اختیار کر لے ۔اور زندیق وہ ہوتا ہے جو اپنے کفریہ عقائد کو اسلام کا نام دے ، لہذا یہ لوگ اسلام کے باغی ہیں،اور جس طرح کسی ملک کاباغی کسی رو رعایت کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ جو لوگ ان لوگوں کے ساتھ میل جول رکھیں وہ بھی قابل گرفت ہوتے ہیں، ٹھیک اسی طرح چونکہ قادیانی بھی زندیق ہیں تو اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی رو رعایت اور میل ملاپ کے مستحق نہیں۔ دوسرے کافر اپنے کفر کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو غیر مسلم اور مسلمانوں سے الگ قرار دیتے ہیں، جبکہ قادیانی اپنے کفریہ عقائد پر ملمع سازی کرکے مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں-
مثال سے یہ بات سمجھئے:
سب کومسئلہ معلوم ہے کہ شریعت میں شراب ممنوع ہے۔ شراب کا پینا، اس کا بنانا، اس کا بیچنا تینوں حرام ہیں ۔اب ایک آدمی وہ ہے جو شراب فروخت کرتا ہے یہ بھی مجرم ہے، اور ایک دوسرا آدمی ہے جو شراب فروخت کرتا ہے اور مزید ستم یہ کرتا ہے کہ شراب پر زمزم کا لیبل چپکاتا ہے یعنی شراب بیچتا ہے اس کو زم زم کہہ کر، مجرم دونوں ہیں لیکن ان دونوں کے جرم کی نوعیت میں زمین و آسمان کافرق ہے۔
ایک حرام کو بیچتا ہے۔ اس حرام کے نام سے ، جس کے نام سے بھی مسلمان کو گھن آتی ہے اور دوسرا اسی حرام کو بیچتا ہے۔ حلال کے نام سے، جس سے ہر شخص کو دھوکہ ہوسکتا ہے ۔ٹھیک یہی فرق یہودیوں، عیسائیوں، ہندوئوں ، سکھوں کے درمیان اور قادیانیوں کے درمیان ہے۔ کفر ہر حال میں اسلام کی ضد ہے لیکن دنیا کے تمام کافر اپنے کفرپر اسلام کا لیبل نہیں چپکاتے اور اپنے کفر کو اسلام کے نام سے پیش نہیں کرتے مگر قادیانی اپنے کفر پر اسلام کا لیبل چپکاتے ہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ اسلام ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی ذریت کے کافر ہونے میں بھی کوئی شک نہیں، اور جو ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی مسلمان نہیں ۔مگرقادیانی کافر ہونے کے باوجود اپنے کفر کو اسلام کے نام سے پیش کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جی!
ہم تو ''جماعت احمدیہ'' ہیں۔
ہم تو مسلمان ہیں
لندن میں اپنی بستی کا نام رکھا ہے''اسلام آباد'' اور کہتے ہیں کہ جی ہم تو اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔
جی! ہمارے تو شرائط بیعت میں لکھا ہوا ہے کہ میں صدق دل سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتا ہوں۔
لہٰذا مرزائی زندیق ہیں کیونکہ وہ اپنے کفر پراسلام کو ڈھالتے ہیں :
1. ساری دنیا جانتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور یہ مسلمانوں کا وہ عقیدہ ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔
2.دوسو سے زیادہ احادیث ایسی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف عنوانات سے، مختلف طریقوں سے ختم نبوت کا مسئلہ سمجھایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی
3.لیکن قادیانی مرزائی تحریف کرتے ہیں کہ خاتم النبیین کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ آئندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مُہر سے نبی بناکریں گے۔اس کے بعد مرزا قادیانی کو نبی بناتے ہیں ۔
4.ان کے نزدیک غلام احمد قادیانی خود محمد رسول اللہ ہے اور کلمہ طیبہ میں محمد رسول اللہ سے مرزا مراد لیتے ہیں۔
5. چنانچہ مرزا بشیر احمد(مرزا قادیانی کا بیٹا ) لکھتا ہے۔''مسیح موعود(مرزاقادیانی) خود محمد رسول اللہ ہیں جو اشاعت اسلام کیلئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے، اس لیے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں! اگر محمد رسو ل اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی۔'' (کلمہ الفصل صفحہ158)
6.گویا''لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ'' کے معنی ان کے نزدیک ہیں ''لا الہ الا اللہ مرزارسول اللہ'' (نعوذ باللہ) جو دوبارہ قادیان میں آیا ہے
7.۔پھر اس پر یہ کہ جو مرزا قادیانی کو نبی نہ مانے وہ کافر ہے-
8. چنانچہ مرزا بشیر احمد(مرزا قادیانی کا بیٹا )لکھتا ہے۔''ہرایک ایسا شخص جو موسیٰ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کونہیں مانتا یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا ہے اور یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کومانتا ہے پر مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافربلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ (کلمہ الفصل صفحہ110)
9.یہ ہے زندقہ ،کہ نام اسلام کا لیتے ہیں، لیکن اپنے کفریہ عقائد پر قرآن کریم کی آیات کو ڈھالتے ہیں اور اپنے بہت سے کفریہ عقائد کو اسلام کے نام سے پیش کرتے ہیں
10.ان کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے جو  شراب بیچتے ہیں مگر زمزم کا لیبل چپکا کر
11.اگر یہ لوگ اپنے دین و مذہب کو اسلام کا نام نہ دیتے بلکہ صاف صاف کہہ دیتے کہ ہمارا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تو ہمیں ان کے بارے میں اس قدر متفکر ہونے کی ضرورت نہ ہوتی۔ (ایران میں بہائی مذھب)
12.قادیانیوں کو یہ حق آخر کس نے دیا ہے کہ وہ غلام احمد قادیانی کو نبی اور رسول سمجھیں اور پھر اسلام کا دعویٰ بھی کریں؟
13.محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ کو منسوخ کر کے اس کی جگہ مرزا غلام احمد قادیانی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کریںپھر اس کا کلمہ جاری کرائیں۔
14.مسلمانوں کو کافر کہیں ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی(قرآن کریم) کے بجائے مرزا کی وحی(تذکرہ) کو واجب الاتباع اور مدارنجات قرار دیں اورپھر ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہیں کہ ہم مسلمان ہیں اورغیر احمدی(یعنی مسلمان) کافر ہیں۔
 
اب ہمارے ذمہ ہے مرتد اور زندیق کے بارے میں اسلام کا مطالعہ کریں- قانون کو ہاتھ میں نہ لیں،  جو حکومت کا کام ہے اس کو حکومت پر چھوڑیں۔ ہم انفرادی طور پر اس پر قادر نہیں نہ اس کی اجازت ہے۔ ہم کو اپنے ایمان کو بچانا ہے اور مسلمانوں کو تبلیغ کرنا ہے کہ ان کو پہچانیں اور ایمان کی حفاظت کریں-
سوال #3: قادیانی گھر میں پیدا بچے برے ہو کر مرتد تو نہیں کیونکہ وہ تو مسلمان ہی نہیں تھے ؟ جواب :
قادیانی یا تو مرتد ہوں گے ،یا زندیق،  جو اسلام ترک کرکے قادیانی ہوئے وہ مرتدہیں اورجو قادیانیوں کے گھر میں پیدا ہوئے اور اپنے مذھب کو اسلام کہنے پر مصر ہیں اور ساتھ ہی قادیانی عقائد کو بھی گلے سے لگائے ہوئے ہیں ۔وہ زندیق ہیں اور اسلام میں “مرتد و زندیق” کے احکام عام کافروں سے الگ ہیں۔ لہٰذا یہ دلیلیں دینا کہ قادیانیوں کو اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی آزادی دی جائے ، انھیں بھی مسلمانوں کے شعائر استعمال کرنے کی اجازت دی جائے ۔یہ درست نہیں ہے ،کیونکہ دنیا میں جعل سازی کی اجازت کوئی بھی قانون نہیں دیتا ۔ مثال کے طور پر کوکا کولا کمپنی کو پتہ چلے کہ کوئی اس کے نام سے جعلی مشروب بنا رہا ہے اور لیبل تو کوکا کولا ہے لیکن اندر جو چیز ہے، وہ اصلی نہیں تو قانون ایسی جعل ساز فیکٹری کو بند کرنے کا پابندہے ۔اگر دنیا میں کسی کمپنی کے ٹریڈ مارک کی اتنی اہمیت ہے تو کیا دین اس سے بھی گیا گزرا ہے کہ کوئی بھی اپنے کفریہ
عقائد کو “اصلی اسلام” بنا کر پیش کرے اور اسے کھلی اجازت دے دی جائے ؟
سوال #4 اہل کتاب سے تعلقات جائز ہیں ان کا ہلال کھانا اور ان کی نیک عورتوں سے نکاح کی اجازت ہے، تو پھر قادیانوں سے اتنی سختی کیون، جو مسلمانوں کی طرح عبادت کرتے قبلہ کی طرف نماز بھی پڑھتے ہیں؟
جواب : مفصل جواب اوپر ہے ، مختصر جواب :
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
ختم نبوت - تحقیقی جائزہ
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
انڈکس
 
 
فتنہ مرزیت کا خاتمہ : شیر نواب خان قصوری (1935): https://goo.gl/xgVb6c
............................................................................
مزید پڑھیں >>>
Qadiani Fitna قادیانی فتنہ
ختم نبوت - تحقیقی جائزہ Rebuttle to Qadianis [Ahmedeyya] http://www.allaahuakbar.net/qadianism/INDEX.HTM Magaz...
Source: Qadiani Fitna قادیانی فتنہ

Questions by Shias Refuted- شیعہ کے سوالات کا رد بلیغ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
Image result for shi'ism symbol
سوال نمبر ۱۔ سورۃ المائدہ، آیت نمبر55، پس اللہ ولی ہے تمھارا اور اس کے پیغمبر اور مومن جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور رکوع والے۔
 تفسیر در منثور، جلد نمبر2، صفحہ نمبر293(علامہ جلال الدین سیوطیؒ)1
(1-۔ تفسیر فتح القدیر، جلد نمبر2، صفحہ نمبر53(علامہ شوکانی)
(1-c)تفسیر قادری، حضرت عبدا للہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سورۃ المائدہ کی یہ آیت مولا علی ؓ کی شان میں اس وقت نازل ہوئی 
جب مسجد نبوی  ﷺ میں مولا علی ؓ نے حالت رکوع میں سائل کو انگوٹھی خیرات کی۔
 جواب:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ۔
 سورۃ المائدہ کی آیت نمبر55
اس کے شان نزول میں مفسرین کرام نے ہر گزحضرت مولیٰ علی شیر خدا  کے حق میں نزول پر اتفاق نہیں کیا۔ بلکہ مفسرین نے اس میں اختلاف کیا ہے اور اس کے شان نزول مختلف بیان کیے گئے ہیں۔ 
نمبر1۔  چنانچہ تفسیر ابن جریر جلد چہارم، صفحہ 186 مطبوعہ بیروت، میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ جبکہ بنی خزرج سے حضر ت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا  کہ میں تمھاری دوستی کو چھوڑتا ہوں ، کیوں کہ میں اللہ عز وجل و رسول اللہ  ﷺ اور مومنین کو دوست رکھتا ہوں۔
نمبر 2۔  تفسیر روح المعانی صفحہ176/6 میں اس آیت کے تحت ایک اور روایت بیان کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جب ایمان لائے تو ان کی قوم نے ان سے بائیکاٹ کر دیا تو حضرت عبد اللہ بن سلام بہت پریشان ہوئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی، انما ولیکم اللہ ۔۔۔
نمبر3۔  جب کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے متعلق اس آیت کا نازل ہونا شیعہ کی معتبر  تفسیر مجمع البیان 210/2پر بھی موجود ہے جس کی عبار ت یہ ہے ۔ وقال الکلبی  نزلت فی عبد اللہ بن سلام اصحابہ لما اسلموا فقطعت 
الیھود موالاتھمیعنی کلبی نے کہا کہ یہ  سوره مائده آیه 55 آیت، انما ولیکم اللہ ۔۔۔۔۔۔۔حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی جب وہ مشرف باسلام ہوئے اور اسلام لانے کے بعد یہودیوں نے ان سے دوستی ختم کر دی تھی۔
  اور تفسیر فتح القدیر ، شوکانی، کا حوالہ ہمارے لیئے حجت نہیں کیونکہ شوکانی غیر مقلد ہے۔ سرکارﷺ  نے مردوں پر سونا حرام فرما دیا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی سونے کی انگوٹھی پہننا اس روایت کی غیر معتتبر ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔  تفسیر فتح القدیر صفہ 6   پر لکھا ہے شوکانی شاگرد تھا عبد الحق بنارسی کا اور عبدالحق بنارسی کا سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں وہی عقیدہ تھا جو کہ شیعہ کا ہے ۔ دیکھو۔ کشف الحجاب ، عبد الحق بنارسی
دوسری بات مذھبہ و عقیدہ تفقہ علی مذھب الامام زید  زیدی شیعہ تھا ۔   تفسیر فتح القدیر صفہ 6
مذکورہ بالا سنی اور شیعہ روایات سے ثابت ہوا کہ۔
۱۔  اس آیت کے شان نزول میں اختلاف ہے۔ 
۲۔ ان روایات مذکورہ میں سے پہلی روایت سے ثابت ہے کہ یہ آیت حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
۳۔ دوسری روایت یعنی روح المعانی ، شیعہ تفسیر مجمع البیان کی روایت سے ثابت ہے کہ یہ آیت حضرت عبد اللہ بن سلام  رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
۴۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سوره مائده آیه 55 اس آیت میں ولی بمعنی دوست استعمال ہوا ہے لہٰذا قطعی طور پر اس کا شان نزول سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں قرار دینا درست نہیں ہے۔ جبکہ تفسیر در منثور صفحہ518/2مطبوعہ بیروت، میں اس آیت کا پہلا شان نزول ہی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ 
کے برے میں بیان کیا گیا ہے۔
۵۔ فتح القدیر اہل سنت کی کتاب نہیں۔
 دوسری روایت حضرت علی المرتضیٰ کے بارے میں اور تیسرا شان نزول حضرت امام جعفر صادق  رضی اللہ عنہ کے والد گرامی حضرت امام محمد باقر  رضی اللہ عنہ سے منقول ، اصحاب محمد  ﷺ ہیں۔ اور سائل نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت نبی پاک  ﷺ کے اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان میںسے ہیں۔
واضح ہو گیا کہ شیعہ حضرات کا اس آیت کو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں قطعی طور قرار دینا درست نہیں ہے۔(جب بنیاد ہی 
قائم نہ ہو سکی تو اس سے من گھڑت، خود ساختہ مفہوم کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟) 
کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سائل کو چادر دی؟
پہلی بات:  
بفرض محال ہم تسلیم کر لیں کہ یہ آیت پاک حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے بارے میں نازل ہوئی ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض کتب شیعہ میں اس آیت مبارکہ کے ماتحت لکھا ہو ا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سائل کو چادر دی، بعض نے لکھا ہے کہ انگوٹھی دی، سوال یہ 
پیدا ہوتا ہے کہ سائل بھی بڑا عجیب تھا اس نے انتظار نہ کیا کہ حضرت علیرضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہو جائیں بعد میں سوال کروں ۔
دوسری بات:۔  
چلو ہم مان لیں کہ سائل نے نماز کے اندر سوال کر لیا اور مولا علیرضی اللہ عنہ رکوع کی حالت میں انگوٹھی یا چادر سائل کو دے دی ، بات سمجھنے کی ہے کہ چادر مولا علی رضی اللہ عنہ نے اتار کر سائل کو دی اور یہ فعل کثیر ہے، اور فعل کثیر مفسدات نماز ہے۔ کیا  باب العلم رضی اللہ عنہ کو اس بات کا بھی علم نہ تھا؟
حالانکہ رکوع سے مراد وہ لوگ جو زکوٰۃ دیتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور رکوع کرتے ہیں یہ حضور  ﷺ کی امت میں ہے سابقہ امتوں 
میں نماز تھی  رکوع نہ تھا۔
تیسری بات:۔
اگر مولا علی رضی اللہ عنہ  نے جو سائل کو زکوٰۃ دی ، تو جو ۱۰۰۰  درہم کی چادر دی اور حضرت علی رض کے قول کے مطابق کہ ساری زندگی زکوٰۃ فرض نہیں ہوئی، کیا جواد پر بھی زکوٰۃ ہوتی ہے؟
سوال نمبر 2۔ سورۃ التغابن، آیت نمبر8۔ تو خدا پر اور اس کے رسول پر اور نور پر جو ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لائو اور خدا تمھارے سب اعمال سے خبر دار ہے۔
(2-a)مسند(امام احمد بن حنبلؒ)
(2- مودت القرباء ( میر سید علی حمدانی  )
(2-c)مناقب(ابن مغزالی شعفی )
(2-d)فردوس الاخبار(دیلمی )
میں اور علی، آدم 1400سال پہلے ایک ہی نور سے خلق ہوئے۔ یہ نور سلب عبد المطلب سے ہوتا ہوا حضرت عبدا للہ اور حضرت ابو طالب میں تقسیم ہوا۔اتنے Refrencesکے بعد بھی اس نور کو علماء کرام نے (قرآن ) سے تشبیہ دی ہے۔ اس نور کو اگر قرآن ہی مانا جائے تو قرآن پاک نبی پاک  ﷺکے ظہور کے چالیسویں سال نازل ہوا جبکہ اس حدیث کے مطابق یہ نور علی ہے جو حضرت محمد  ﷺ کے ساتھ ہی نازل ہوا ہے ۔ یہ نور اگر آپ کے 40سال بعد نازل ہوا تو قرآن ہے اور اگر ساتھ نازل ہوا تو علی ہیں اس نور کو سمجھنے کیلئے دوبارہ قرآن مجیدکا مطالعہ کرتے ہیں۔
جواب:۔ اس آیت فاٰمنوا باللہ روسولہ والنور الذی انزلنا واللہ بما تعملون خبیر میں والنور الذی انزلنا سے حضرت علی رضی اللہ عنہرضی اللہ عنہ مراد لینا صریحاً تحریف ہے جو کہ یہود و نصاریٰ کا کام ہے۔ وہ نو ر جو ہم نے نازل کیا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نازل نہیں 
ہوئے بلکہ ان کی /پیدائش مبارکہ ہوئی ہے۔
اور ظاہر ہے کہ اس میں اللہ و رسول ، قرآن شریف پر ایمان لانے کا حکم ہے، جس کو نور کہا ہے۔ مستند اور معتبر روایات سے ثابت ہے کہ  
اس نور سے مراد  قرآن مجید ہے، جیسا کہ:
تفسیر ابن کثیر صفحہ375/4پر ہے ، یعنی قرآن۔ یعنی اس نور سے مراد  قرآن مجید ہے۔
 تفسیر ابن عباس ؓ  صفحہ 599پر ہے ۔ الکتاب یعنی اس سے مراد کتاب ہے یعنی قرآن مجید۔ 
تفسیر معالم التنزیل صفحہ353/4پر ہے ھوالقرآن، یعنی اس نور سے مراد قرآن مجید ہے۔ 
تفسیر روح المعانی، صفحہ 123/14الجز ء الثامن والعشرون میں ہے ، وھو القرآن، یعنی وہ نور جو ہم نے نازل کیا ہے وہ قرآن مجید ہے۔
 تفسیر مدارک التنزیل صفحہ1818/3مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی میں ہے۔ یعنی قرآن ، یعنی اس نازل شدہ نور سے مراد قرآن مجید ہے۔ 
 تفسیر خزائن العرفان صفحہ896حاشیہ14پر ہے نور سے مراد قرآن شریف ہے کیوں کہ اس کی بدولت گمراہی کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں اور ہر شے کی حقیقت، واضح ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا معتبر تفاسیر سے واضح ہے کہ سورۃ التغابن کی آیت نمبر8میں جس نور کا ذکر ہے اس سے مراد قرآن مجید ہے۔
باقی سوال مذکور میںجن کتب کے حوالے دیئے گئے ہیں ایک تو نامکمل ہیں اور دوسرے کتب شیعہ کے ہیں جو کہ اہل سنت وجماعت کے نزدیک معتبر نہیں ہیں ۔
اس سوال میں جن کتب کے حوالے دیئے ہیں ان میں اکثر کتب شیعہ اورہیں جو ہمارے لئے حجت نہیں ۔
پہلی کتاب مودت القربیء ، میر سید علی حمدانی
پہلی مودت القربیِء ،  میر سید علی حمدانی، یہ کتاب اصل تو عربی میں ہے لیکن اس کا ترجمہ ایک شیعہ نے کیا ہے کیوں کہ عقائد شیعہ سے یہ کتاب بھری ہوئی ہے سو اسی سے کتاب کا ترجمہ لکھ کر باہر ٹائٹل پر لکھ دیا ہے  زاد العقبیٰ ،ترجمہ مودۃ القربیٰ، مولف 
مولوی سید علی ہمدانی شافعی سنی المذہب تاکہ پڑھنے والا سمجھے یہ کتاب سنیوں کی ہے ، ترجمہ کرنے والے کا نام مولوی سید شریف شیعی ہے پھر اس کتاب کو چھاپنے کا کام امامیہ کتب خانہ لاہور نے کیا ، صاحب مودۃ القربیٰ کے شیعہ ہونے پر شیعہ علما کی نصوص قطعیہ:۔
پہلی دلیل:
الذریعہ المودۃ القربیٰ لسید علی الھمدانی المتوفی سنہ ست وثمانین وسبعماتہ۷۸۶ طبعت مع 
ینابیع المودۃ وایضاً مستقلاً فی سنۃ۱۳۰۱، وافرد القاضی نور اللہ المرعشی رسالۃ فی اثبات لتشیعہ کما فی مرفی9=11و ترجمہ فی المجالس الذریعہ الی تصانیف الشیعہ جلد۲۳، صفحہ۱۵۸، مطبوعہ بیروت
ترجمہ : سید علی ہمدانی متوفی۷۸۶ء کی کتاب مودۃ القربیٰ صفحہ۱۳۱۰  میں ینابیع المودۃ کے ساتھ ایک جلد میں چھپی  اور قاضی نور اللہ مرعشی نے اس سے شیعہ ہونے پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے مجالس االمومنین میں علی ہمدانی کا تذکرہ موجود ہے۔
دوسری دلیل:
رسالۃ فی اثبات تشیع السید علی بن شھاب الدین محمد الھمدانی للقاضی نور اللہ اتستری ذکرھا بعض الموثقین ۔
ترجمہ:۔  سید علی بن شہاب الدین ہمدانی کا مذہب شیعہ ثابت کرنے کیلئے نور اللہ تستری نے ایک رسالہ لکھا ہے 
بعض موثقین نے اس کا ذکر کیا ہے۔حوالہ:  الذریعہ جلد نمبر11صفحہ نمبر7۔
مزید سید علی ہمدانی کے شیعہ ہونے کیلئے دیکھیں ۔
الذریعہ جلد نمبر1صفحہ ۲۳۳، جلد نمبر ۹/۲صفحہ ۵۶، مجالس المومنین، صفحہ۲ /۱۳۸،۱۳۹
فردوس الخبار ، دیلمی 
دیلمی، جہاں تک دیلمی کا ذکر ہے یہ عالی شیعہ ہے، حوالہ الذریعہ جلد 1، ۳۱۹
اور پھر حدیث مذکورہ کی کوئی سند نہیں بیان کی گئی ہے ۔بغیر سند معتبر کے روایت قبول نہیں ہوتی۔پھر سند صحیح ثقہ کے ساتھ حدیث نور ہم سے سنئے۔
 مصنف عبد الرزاق الجزء المفقود صفحہ51تا 55پر حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی حدیث نور مروی ہے، صفحہ53پر الفاظ ہیں کہ  اللہ تعالیٰ نے نور محمد ﷺ کے اپنے سامنے دیکھنے کا حکم فرمایا نور محمد  ﷺاپنے سامنے اورپیچھے، اور دائیں او ر بائیں ایک ایک نور دیکھا، اور وہ نور، ابو بکر (صدیق)، عمر(فاروق) عثمان (غنی) اور علی (المرتضیٰ ) رضی اللہ عنھم اجمعین کا نور تھا۔
اس کی سند یہ ہے کہ  عبد الرزاق عن معمر، عن الزھری، عن السائب بن یزیدقال۔۔۔۔۔۔۔۔
(الجز ء المفقود من المصنف عبد الرزاق ، مطبوعہ لبنان)
تو کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اس نازل شدہ نور سے مراد ، حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ کا نور ہے یا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نور ہے یا حضرت عثمان غنی  کا نور ہے یا کٹھا حضرات خلفاء راشدین ، خلفاء اربعہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا نور مراد ہے۔جو کہ شیعہ کو کسی طرح بھی قبول نہیں ہے اور نہ ہی یہ درست ہے یعنی اگر نور کی روایت بفرض تقدیر ثابت بھی ہوتی (جو کہ ثابت بھی نہیں ہے) تو پھر بھی اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ معاذ اللہ اس سے مرادحضرت علی رضی اللہ عنہ  کا نور ہے۔
اس تمام گفتگو سے واقع ہو گیا کہ سورہ تغابن کی آیت نمبر8 میں نازل شدہ نور سے مراد حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہرضی اللہ عنہ ہر گز مراد نہیں ہیں نہ ہی کوئی آدمی بلکہ اس سے مراد فقط قرآن مجید فرقان حمید ہے۔
سوال نمبر3۔ سورہ الاعراف، آیت نمبر 157، تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی اور جو نوران کے ساتھ نازل ہوا ہے 
اس کی پیروی کی وہی مراد پانے والے ہیں۔
پس قرآن پاک کی یہ آیت واضح کرتی ہے کہ یہ نور نبی  ﷺ کے ساتھ نازل ہوا پس وہ نور علی ہے۔
(3-a)صحیح بخاری، جلد نمبر2، باب فضائل اصحاب ؓ، النبی  ﷺ، حدیث3 & 9
(3- صحیح مسلم ، باب من فضائل علی ، طبعہ مصر
(3-c)جامع ترمذی، صفحہ نمبر218، مطبوعہ نول کشور
(3-d)مشکوٰۃ شریف، جلد نمبر3، حدیث نمبر5826
(3-e)مسند احمد بن حنبل ؒ، جلد اوّل، صفحہ نمبر179
اے علی تیری منزلت مجھ سے وہی ہے جو ہارون کی موسیٰ سے تھی۔
یعنی علی ، حضرت محمد  ﷺ کے وصی برحق ہیں اور ایمان بزریہ ء کلمات لانا ضروری ہے جیسے کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
جواب ۔
 سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 157کہ یہ کہنا کہ اس آیت میں بھی جو نور حضور  ﷺ کے ساتھ نازل ہوا ہے وہ نور علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہے خالص جھوٹ اور تحریف معنوی ہے۔ بلکہ اس نور سے مراد بھی قرآن مجید فرقان حمید ہے ، ملاحظہ فرمائیں۔
حوالاجات:
تفسیر خزائن العرفان صفحہ 279حاشیہ302اس نور سے مراد قرآن شریف ہے جس سے مومن کا دل روشن ہوتا ہے اور شک و جہالت کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں، اورعلم یقین کی ضیاء پھیلتی ہے۔
اور تفسیر ابن عباس صفحہ181پر ہے ، واتبعوا النور۔ (القرآن)یعنی اس آیت میں بھی نور سے مراد قرآن مجید ہے۔
اور تفسیر مظہری صفحہ نمبر418/3پر ہے یعنی القرآن، یعنی اس نور سے مراد قرآن مجید ہے۔
تفسیر معالم التنزیل صفحہ206/2 پر ہے کہ  یعنی القرآن،  یعنی اس نور سے مراد قرآن مجید ہے۔
تفسیر ابن کثیر صفحہ نمبر260/2پر ہے یعنی القرآن، کہ اس نور سے مراد قرآن مجید ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ  ﷺ کو وحی فرمایا ہے۔
تفسیر مدارک التنزیل صفحہ555پر ہے ، ای القرآن،  یعنی اس نور سے مراد قرآن مجید ہے۔
 ان تمام حوالہ جات سے واضح ہے کہ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر157میں جس نور کا ذکر ہے وہ قرآن مجید ہے۔ 
یہ ہے کہ بلا شبہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن اس حدیث سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا آپ  ﷺ کا وصی بالخلافت ہونا قطعاًباطل ہے۔
پہلے مکمل حدیث ملاحظہ فرمائیں۔ البدایہ والنھایہ ، صفحہ نمبر7/5پر مسند ابو داوٗد طیالسی کے حوالے سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضور  ﷺ نے جب حضرت علی المرتضیٰ کو غزوہ تبوک کے وقت گھر پر ہی ٹھہرنے کو کہا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم  نے عرض کی یا رسول اللہ  ﷺ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑیں گے( جو بوجہ بچے اور عورتیں ہونے کے جہاد سے مستثنیٰ ہیں)
یہ سن کر حضور  ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تو یہ پسند نہیں کرتا کہ تیری حیثیت میرے نزدیک ویسی ہی ہو جائے جیسے ہارون ؑ کی موسیٰ  ؑ کے 
ساتھ تھی(یعنی طور پر جاتے ہوئے انہیں اپنا نائب بنا گئے تھے) لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
یہ ہے مکمل حدیث کوئی بھی ذی ہوش اس حدیث کو پڑھنے کے بعد اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وصی با الخلافت بعد الوفات رسول  ﷺ ہونا نہ ثابت کر سکتا ہے اور نہ ہی ثابت ہونا ممکن ہے۔ فقط اتنی بات میں تشبیہ ہے کہ جس طرح موسیٰ  ؑ نے طور پر جاتے ہوئے حضرت ہارون ؑ کو قوم کا نگہبان مقرر کیا اسی طرح آپ  ﷺ نے غزوہ تبوک پر جاتے ہوئے حضرت علی المرتضیٰ کو مدینہ منورہ میں بچوں اور عورتوں کا نگہبان مقرر فرمایا۔
سوال نمبر4۔ سورۃالاعراف آیت نمبر121 to 122
اور کہنے لگے کہ ہم جہاں کے پرور دگار پر ایما ن لائے یعنی موسیٰ اور ہارون کے پرورد گارپر
پس قرآن مجید کی یہ آیت بھی واضح کرتی ہے کہ پہلے نبیوں کی پیروی اور ان پر ایمان لانے کے لیے نبی اور وصی دونوں پر ایمان لانا ضروری
 و واجب تھا تو نبیوں کے سردار پر ایمان وصی ء رسول  ﷺ پر ایمان لائے بغیر کیسے ممکن ہے۔؟
جواب:
 حضرت موسیٰ  ؑکے بعد حضرت ہارون ہر گز آپ ؑ کے وصی اور خلیفہ نہیں تھے کیونکہ حضرت ہارون  ؑ کا انتقال ہی حضرت موسیٰ  ؑ کی زندگی میں ہو گیا تھا( نہ رہے بانس نہ بجے بانسری) حضرت موسیٰ  ؑ کے بعد آپ ؑ کے وصی حضرت یوشع بن نون تھے۔
شیعہ حضرات کے معتبر تفسیر  فرات الکوفی صفحہ65مطبوعہ حیدریہ نجف اشرف۔ (سورہ ھود)
جناب سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد گرامی، حضرت عمر فارو ق  رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے جب کہ ان کے پاس کعب الاخبار بھی موجود تھے، جو تورات اور کتب انبیاء کرام علیھم السلام کے عالم تھے ان سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے کعب بنی اسرائیل میںحضرت موسیٰ  ؑ کے بعدسب سے بڑا عالم کون تھا، تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ  علیہ سلام کے بعد بنی اسرائیل میںسب سے بڑے عالم جناب یوشع بن نون تھے اور یہی موسیٰ  ؑ کے بعد ان کے وصی تھے۔
اصل عربی عبارت یہ ہے، کان اعلم بنی اسرائیل بعد موسیٰ، یوشی بن نون وکان وصی موسیٰ من بعدہ، تفسیر فرات الکوفی، مطبوعہ ، نجف اشرف صفحہ 65، صاحب تفسیر فرات الکوفی شیعہ نے ، اس مقام مذکورہ سے تھوڑاسا آگے 
پھر یہ لکھا ہے کہ ، 
فان موسیٰ لما توفیٰ اوصی الیٰ یوشیٰ بن نو ن علیہ السلام
    یعنی جب موسیٰ  ؑ کے وصال کا وقت ہوا تو آپ نے جناب یوشی بن نون ؑ کو اپنا وصی مقرر فرمایا۔
شیعہ تفسیر سے واضح ہو گیا کہ حضرت موسیٰ   ؑ کے وصی حضرت یوشع بن نون ؑ تھے نہ کہ حضرت ہارون ؑ ۔ کیونکہ ہارون علیہ السلام تو حضرت موسیٰ 
سے پہلے وفات پا گئے تھے پھر وہ موسیٰ  ؑ کے بعد خلیفہ کیسے ہوئے۔ 
واضح ہو گیا کہ اس حدیث کا خلافت بلا فصل یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وصی ہونے کے وصی ہونے کے متعلق اس حدیث کا دور سے بھی تعلق نہیں ہے۔تو جب آپ کا وصی خلیفہ بلا فصل ہونا ہی ثابت نہیں توپھر سورۃ الاعراف کی آیت نمبر121-122سے استدلال کا کیامعنی؟ 
(فاعتبروا یا اولی الابصار)
سوال نمبر5۔ اے رسول  ﷺ پوچھو ا ن سے کہ نبی کیسے رسول بنے،القرآن تفسیر غرید القرآن، جلد نمبر6، صفحہ نمبر39
نبی کریم  ﷺ جب معراج شریف پر تشریف لے گئے تو تمام انبیاء کرام کو اکٹھے کیا اور پوچھا کہ تم نبی کیسے بنے تو سب نے یک مشت 
ہو کر کہا کہ ہم نے جب تک اللہ کہ وحدانیت آپ کی رسالت اور علی کی ولایت کا اقرار نہ کیا ہم نبی نہیں بنائے گئے، جب تک تین شہادتوں کا 
اقرار نہ کریں اس وقت تک نبی نہیں بنتے تو ایک گنہگار انسان مومن بن سکتا ہے؟
اگر ہم دوبارہ کلمہ کے متعلق قرآن مجید سے پوچھیں کہ کلمہ کتنی گواہیوں پر مشتمل ہے تو قرآن مجید میں ہمیں ،شھادتین ،کا لفظ نہیں ملتا جس کا 
مطلب دو گواہیاں ہیں اور پورے قرآن پاک میں لفظ ، شھاد، ملتا ہے جس کا عربی میں تین یا تین سے زیادہ شہادتیں مطلب بنتا ہے۔
جواب:۔
شیعہ صاحب کا یہ کہنا اے رسول پوچھو ان سے کہ نبی کیسے بنے رسول کیسے بنے۔ 
جہاں تک میری معلومات ہیں قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت موجود نہیں ہے۔ البتہ شیعہ صاحب کے امام غائب کے پاس جو سترہ ہزار اآیات والا قرآن ہے شاید اس میں یہ من گھڑت آیت موجود ہو۔ یہ بے حیائی اور بے دینی کی آخری حد ہے کہ اپنا موقف ثابت کرنے کیلئے معاذ اللہ غیر آیت کے آیت قرآن بنا کر پیش کر دیا جائے۔ تو جب یہ آیت ہی قرآن مجید کی نہیں ہے تو پھر اس کے بعد شیعہ صاحب نے جو ایک من گھڑت قصہ بیان کیا ہے وہ خود بخو د ہی باطل ثابت ہو جاتا ہے۔ البتہ یہ آیت قرآن مجید میں موجود ہے۔
واسئل من ارسلنا من قبلک من ارسلنا اجعلنا من دون الرحمٰن الھۃ یعبدون
ترجمہ: اے محبوب پوچھ لو ان رسولوں سے جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے کہ رحمٰن کے بغیرکسی اور کی عبادت کا بھی حکم دیا ہے۔
تو شب معراج جب جبرائیل ؑ نے آپ  ﷺ سے یہ کہا تو حضور پر نور علی نور محمد رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا میں نہیں پوچھتا کیونکہ مجھے کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے، 
تو اس آیت میں توحید الٰہی کا بیان ہے ، شیعہ صاحب کا باطل موقف اس آیت سے بھی کسی طرح ثابت نہیںہے۔ 
سوال نمبر6۔ سورۃ المعراج، آیت نمبر33تا 35
اور جو لوگ شہادات(تین یا زائد) پر قائم رہنے والے ہیں اور جو لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ایسے ہی لوگ جنتوں میں حفاظت پانے والے ہوں گے۔
جواب:۔
شیعہ صاحب نے لکھا ہے کہ سورۃ المعراج( جب کہ یہ غلط ہے اصل نام سورۃ المعارج ہے) کی آیت33تا 35میں لکھا ہے کہ اس میں شھادات کا لفظ ہے جو کہ تین گواہیوں پر دلالت کرتاہے  اور باطل استدلال کیا ہے کہ جب تک نبیوں نے تیسری گواہی یعنی ولایت علی رضی اللہ عنہ کی گواہی نہ دی وہ نبی نہ بنے۔(معاذ اللہ)
شیعہ صاحب کا یہ استدلال گزشتہ سطور میں باطل ثابت کر دیااور اس کی بنیاد بھی وہی پہلا باطل استدلال ہے جب اصل دلیل ہی 
ثابت نہ ہو سکی توپھر اس پر مزید عمارت کیسے استوار ہو سکتی ہے۔ شیعہ صاحب جب تک معنوی تحریف نہ کریں ان کا باطل موقف ثابت ہی نہیں ہو سکتا اس لیے بار بار بے چارے معنوی تحریف کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سچ کہا کسی نے :
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا،   بھان پتی نے کنبہ جوڑا
یہ لفط مفرد ہو یا جمع کا شہادات ہو، تو اس سے ولایت علی ؓ کا نبیوں کیلئے اقرار کیسے ثابت ہو گیا۔ من مافی تفسیر یعنی تفسیر بالرائے کرنا کفر ہے جو کہ شیعہ صاحب کا ہی نصیب ہے۔اب ان آیات کا صحیح معنی واضح کیا جاتا ہے۔
تفسیر خزائن العرفان، حاشیہ نمبر29یعنی صدق و انصاف کے ساتھ نہ اس میں رشتہ داری کا پاس کرتے ہیں نہ زبردست کو کمزور پر ترجیح دیتے ہیں ، نہ کسی صاحب حق کا تلف حق گوارا کرتے ہیں۔
تفسیر ابن عباس میں ہے کہ ، عند الحکام اذا دعوا ولا یکتمونھا،صفحہ 615
یعنی جب گوہوں کی گواہی کی ضرورت ہو اور انہیں بلایا جائے تو وہ اس گواہی کو چھپاتے نہیں، بلکہ حکام کے سامنے گواہی دیتے ہیں۔
یعنی مضمون۔
 تفسیر مظہری صفحہ68/10
تفسیر ابن کیثیر422/4، 
تفسیر روح المعانی صفحہ109/15، 
تفسیر ابن وھب، صفحہ438 
وغیرہ میں بالفاظ مقاربہ موجود ہے۔مذکورہ بالا حوالہ جات سے واضح ہے کہ شیعہ کے باطل موقف کو اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ بلکہ ان آیات میں شرعی احکام کا بیان ہے۔
سوال نمبر7۔ کتاب ار جح المطالب، مولوی عبد اللہ بسمل۔
نبی پاک  ﷺ جب معراج سے واپس تشریف لائے تو اصحاب ؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے عرش پر جو کلمہ جنت سے دروازوں پر لکھا ہو پایا کیا آپ جاننا چاہو گے؟ 
سب نے عرض کی ضرور یا رسول اللہ  ﷺ! آپ   ﷺ نے فرمایا،
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد حبیب خدا ہیں، علی اللہ کے ولی ہیں، فاطمہ کنیز خدا ہیں،حسنین صفواۃ اللہ ہیں ان کے دشمنان پر اللہ کی لعنت۔
کیا جنت کے طب گار جنت میں کلمہ شھادا پر دل و زبان سے ایمان لائے بنا جا سکتے ہیں؟
جواب:۔
کتاب ارجح المطالب مصنف، عبید اللہ امرتسری:
پہلی دلیل:
ارجع المطالب کے مصنف مولوی عبید اللہ امرتسری کا اپنی زبان سے اپنے شیعہ ہونے کا اقرار،ہمارے نزدیک سب شیخین نہایت امرتشیع ہے ہم اپنے امامیہ مذہب کے ساتھ ہر گز اس میں اتفاق نہیں کر سکتے ۔  اس عبارت سے واضح ہو ا کہ مولوی عبید اللہ امرتسری پکا امامیہ شیعہ ہے۔
دوسری دلیل:
ساری کتاب اس نے شیعہ کتب کے حوالوں سے لکھی ہے مثلاًفوائد السمطین ، تذ کرۃ الخواص الامہ، ینابیع المودۃ، المناقب للخوارزی، مروج الذہب، کفایۃ المطالب ابن حدید وغیرہ۔
ارجح المطالب کتاب کے کچھ حوالے:۔ 
پہلا حوالہ :۔  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجتہد تھے مگر معصوم نہیں تھے، بوجہ المجتہد ان سے فدک کے معاملے میں خطا فی الاجتہاد  واقع ہو ئی ہے۔  سیر ت شیخین،ارجح المطالب، صفحہ نمبر۷۹۵
دوسرا حوالہ:۔  عن حذیفۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ  ﷺ علی خیر البشر من ابی فتد کفر اخرجہ ابن مرء دیہ۔
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺفرماتے تھے کہ علی رضی اللہ عنہ خیر البشر ہیں، جس نے انکار کیا وہ کافر ہوا۔ 
حوالہ: ارجح المطالب صفحہ۸۶۰
وضاحت:   ابن مردویہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان تین چار صدیوں کا طویل زمانہ ہے ، کیونکہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ 
صحابی رسول  ﷺہیں اور ابن مردویہ نے۴۱۰ھ میں انتقال کیا۔ صاف واضح ہے کہ ان کی ملاقات نہ ہوئی لہٰذا کئی واسطوں سے یہ روایت ابن مردویہ تک پہنچی ہو گی وہ واسطے کیا ہیں اورکتنے اور کیسے ہیں کوئی علم نہیں،عبارت کی دیکھیں کفر تک پہنچا دیا ہے ۔ 
یہ کتاب شیعہ حضرات کی ہے  جو کہ ہمارے لیے حجت نہیں، پھر اس روایت کی سند نہیں بیان کی تا کہ سند کا حال واضح ہو جاتا اور 
بلا سند کوئی روایت کیسے قبول کی جاسکتی ہے۔ پھر اگر بفرض محال والتقدیر اگر اس روایت کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس کو خلافت بلا فصل، یا وصی رسول ہونے کے متعلق کیا واسطہ ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نہ صرف ولی اللہ ہیں بلکہ ہم اہلسنت وجماعت کے نزدیک تو آپ سید الاولیاء ہیں کہ سارے جہان بھر کے اولیاء ان کے غلام ہیں مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ آپ وصی رسول اور خلیفۃ بلا فصل ہیں (معاذ اللہ)
مختلف کتب حدیث میں کئی احادیث ہیں جن میں فرمایا گیا  ہے آسمانوں پر جنت کی اشیاء وغیرہ پرحضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ کا نام آپ  ﷺ کے نام اقدس کے ساتھ لکھا ہوا تھا۔ اور کئی روایات میں حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی  رضی اللہ عنہ کے نام کا ذکر بھی ملتا ہے۔ جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی ؒ نے خصائص الکبریٰ صفحہ  13/1پر کئی روایات بیان کی ہیں ، پہلی روایت : ابن عساکر کے حوالے سے جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے ، نبی پاک  ﷺ نے فرمایا ، معراج کی رات میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا ، 
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ابو بکر صدیق عمر فاروق عثمان ذوالنورین۔
دوسری روایت۔ مسند ابو یعلیٰ موصلی اور طبرانی کی اوسط، اور ابن عساکر اور حسن بن عرفہ، کے جزء کے حوالے سے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں جس آسمان سے بھی گزرا اس پر یہ لکھا ہوا پایا، محمد الرسول اللہ وابو بکر الصدیق خلفی 
 تیسری روایت : دارقطنی کی افراد، اور خطیب اور ابن عساکر کے حوالے سے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ 
نبی پاک  ﷺ نے فرمایا ، معراج کی رات عرش پر میں نے سفید نور لکھا ہوا دیکھا لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ابو بکرالصدیق عمرالفاروق،
مواھب الدنیہ اور شرح زرقانی وغیر ہ میں اور بھی روایات ہیں جن میں نبی پاک  ﷺ کے نام اقدس کے ساتھ خلفاء راشدین ، خلفاء اربعہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے نام بھی ہیں۔
بھلا ان روایات کو وصی رسول ہونے اور خلیفہ بلافصل ہونے سے کیا واسطہ ہے ۔ ہاں البتہ یہ ایک قسم کی فضیلت ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ  
کے ساتھ خلفاء ثلاثہ  رضی اللہ عنہ کو بھی حاصل ہے۔ فقط
مذکورہ بالا سطور سے واضح ہے کہ شیعہ صاحب کا اس سے استدلال بھی باطل  اور سو فیصد ناکافی۔
سوال نمبر8۔ جواھر خمسہ، صفحہ نمبر473، شیخ غوث، (چور پکڑنے کا طریقہ)
امام اہل سنت شیخ غوث ؒ نے چور پکڑنے کا عمل لکھا اور رات کو پڑھنے سے صبح چور کا پتہ چل جاتا ہے عمل مندرجہ ذیل ہے۔
اللھم بحق لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ وعلی ولی اللہ،
نبی پاک  ﷺ نے جو قبر کے تین سوال بتائے تو فرمایا کہ وہ پہلا سوال ہو گا کہ تمھارا رب کون ہے؟ دوسرا سوال ہو گا کہ تمھارا نبی کون ہے؟اور تیسرا سوال ہو گا کہ تمھارا امام کون ہے؟  جو زبان دنیا میں لا الہ الا اللہ پڑھتی رہی ہوگی وہ یہی بولے گی، جو زبان محمد الرسول اللہ  پڑھتی رہی ہو گی وہ یہی کہے گی اور جو زبان دنیا میں علی ولی اللہ ،پڑھتی رہی ہو گی وہ بھی یہی جواب دے گی اور ایمان کامل کے صدقے عذاب قبر سے قیامت تک محفوظ رہے گی(بے شک) اور شیخ علی معزوقی  ؒکی مندرجہ ذیل کتا ب کا مطالعہ کرنے سے تمام شکوک شبھات ختم ہو جاتے ہیں،
جواب:
شیعہ صاحب نے لکھا ہے چور پکڑنے کا طریقہ ، پھر عملیات کی ایک کتاب جوہر خمسہ کے حوالے سے لکھا ہے۔ اس عمل میں یہ عبارت مذکور ہے،اللھم بحق لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ وعلی ولی اللہ،
جواہر خمسہ عملیات کی کتاب ہے اس سے کلمہ شریف کے ساتھ علی ولی اللہ کے الفاظ نقل کرنا کیا یہ اس کی دلیل ہے کہ کلمہ شریف میںعلی ولی اللہ کے الفاظ بھی شامل ہیں۔ہر گز نہیں، پہلی بات یہ ہے کہ شیعہ صاحب جب اپنا کلمہ قرآن مجید سے احادیث نبویہ سے آثار صحابہ سے ثابت نہ کر سکے تو عملیات و وظائف کی دنیا میں کو د پڑے۔ اور ایک عمل ذکر کر دیا جب کہ عاملین پر یہ بات واضح ہے کہ عملیات کی کئی کتب میں ہر قسم کے عملیات ہوتے ہیں۔ وہ فقط عملیات کی حد تک ہی ہوتے ہیں نہ کہ شرعی حجت۔
یہ مذہب بھی کیسا یتیم مذہب ہے کہ نہ قرآن سے ثابت نہ حدیث سے ثابت اب دلیل کے طور پر عملیات کی  کتاب جواہر خمسہ پیش کر دی ہے۔
یہ ہے اس مذہب کی حقیقت۔ گزشتہ سطور میں بھی یہ ذکر ہو چکا ہے کہ ہم اہلسنت وجماعت کے نزدیک حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہنہ صرف کہ اللہ تعالیٰ کے ولی ہیں بلکہ آپ سید الاولیاء ہیں، مگر اس سے یہ کب ثابت  ہو ا کہ یہ الفاط کلمہ شریف کا حصہ ہیں۔ (معاذ اللہ)
سوال نمبر 9: کتاب الازمنہ والامکینہ، الشیخ ابی علی احمد بن محمد الحسن المرزرقی
جب مولا علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیھا نے وفات پائی تو نبی پاک  ﷺ نے انہیں قبر مبارک میں اتارنے کے بعد تلقین پڑھی تھوڑی دیر بیٹھے اور کہنے لگے کہ وہ تیرا بیٹا ہے، وہ تیرا بیٹا ہے، اصحاب ؓ نے جب وجہ دریافت کی تو آپ  ﷺ نے فرمایا کہ میںنے دیکھاکہ فاطمہ بنت اسد کو حوریں آئیں اور اپنے ساتھ لے گئیں اتنی دیر میںمبشر و بشیر آئے اور سوال جواب کرنے لگے پہلے رب پوچھا، پھر نبی پوچھا جب ولی پوچھا آپ سوچ میں پڑ گئیں کہ کونسا نام لوں تو میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ وہ تیر ا بیٹا ہے وہ تیرا بیٹا ہے تب
 آپ  ﷺ نے جواب دیا کہ ، ابن علی ولی اللہ،کیا جب مولا علی  رضی اللہ عنہ کی اپنی ماں قبر علی ولی اللہ کا جواب دئیے بغیر جنت میں نہیں جا سکتیں تو کیا انسان نبی پاک  ﷺ کاامتی ہو کر جنت میں جا سکتا ہے جسکے ہر دروازے پر شہادت کا کلمہ لکھا ہے؟
جواب:۔
کتاب الازمنہ والامکینہ، کی عبارت نقل کی گئی کہ  
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ کا وصال قبر میں سرکار  ﷺ نے تلقین پڑھی، ان النبی  ﷺ تولی دفن فاطمہ بنت اسد وکان اشعر :
ھا قمیصالۃ فسمع وھویقول ابنک فسل علیہ سید فقال امھا سئلت عن ربھا فاجابت وعن بنھیا فاجابت وعن امامھا فلجلجت ، مقلت ابنک ابنک۔کتاب الازمنہ والامکینہ صفحہ ۴۷۳
اسی عبارت کے نیچے صفے پر لکھا ہو ا ہے،  الظاہران ھٰذہ الروایۃ من کتب الشیعۃ الامامیہ ۔
حوالہ کتاب الازمنہ والامکینہ، صفحہ۴۷۳
ثابت ہوا کہ یہ عبارت شیعہ مسلک کی ہے اہلسنت کی نہیں۔ 
 شیعہ صاحب نے کتاب الأزمنة والأمكنةکے حوالے سے بیان کیا ہے کہ قبر میں تین سوال ہونگے، تیرا رب کون ہے ، تیرا نبی کون ہے اور تیرا امام کون ہے۔ اور شیعہ صاحب نے امام سے مراد حضرت علی  رضی اللہ عنہ کی ذات مراد  لیا ہے۔
 حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں قبر میں سوال ہونا خالص جھوٹ ہے  جو کہ ایجاد شیعہ ہے۔ پھر فقط امام سے خود ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات مراد لینا خالص کذ ب بیانی ہے۔ 
اس چیز کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ بندہ نا چیز پہلے گزارش کر چکا ہے کہ جب تک شیعہ صاحب تحریف معنوی نہ کریں گے ہر گز ان کا موقف ثابت نہیں ہو سکتا۔
صحیح بات یہ ہے کہ قبر میں تین سوال ہوتے ہیں، تیرا رب کون ہے، تیرا دین کونسا ہے، اور آقا محمد رسول اللہ  ﷺ کی ذات اقدس کے متعلق کہ تو ان کے بارے میں کیا کہتا تھا۔
تفصیل کیلئے دیکھیے۔
 جامع ترمذی، بہیقی، مشکوٰۃبروایۃ ترمذی، مسند امام احمد عن البراء بن عازب، ابو داوٗد، مشکوٰۃباب عذاب القبر صفحہ25۔ 
ان تمام کتب حدیث میں روایات صحیحہ سے تین سوال ثابت ہیں۔ تیر ارب کون ہے، تیرا دین کونسا ہے، اور آقا محمد رسول اللہ  ﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔کسی بھی ایک صحیح روایت میں یہ موجود نہیں ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی قبر میں پوچھا جاتا ہے۔ یہ خالص شیطان کی مکاری ہے جو اس نے شیعہ صاحب کو عطاکی ہے۔ (العیاذ با للہ تعالیٰ)
یہ ہے کہ خالص جھوٹ ہے اس کی کوئی اصل نہیں کسی بھی صحیح روایت میں ثابت نہیں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میںقبر میں فرشتے سوال کرتے ہیں۔ یہ کہانی خالصتاً ایجاد شیعہ ہے۔ جس کا کتاب و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ حضور  ﷺکی ذات اقدس پر جھوٹ بولا گیا ہے اور آپ  ﷺ پر عمداً جھوٹ بولنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جیسا کہ متواتر حدیث میں ہے۔ 
تمام کتب حدیث میں سوالات کے بارے میں تین سوال مذکور ہیں۔رب تعالیٰ کے متعلق، دین کے متعلق، اور آقا محمد الرسول اللہ  ﷺ کی ذات اقدس سے متعلق۔
پھر تمام کتب حدیث میں بھی سوالات کی حدیث مفصل مذکور ہے اس میں یہی مذکور ہے کہ جب تم میت کو دفن کر کے لوٹتے ہو تو قبر میں فرشتے آتے ہیں اور سوالات کرتے ہیں۔ جب کہ شیعہ صاحب کی من گھڑت روایت میں ذکر ہے کہ ابھی قبر میں اتارا ہی تھا ، حضور  ﷺ ابھی قبر کے اندر ہی تشریف فرما تھے اور فرشتوں نے سوالات شروع کر دیئے۔جبکہ احا دیث صحیحہ اس کے مخالف ہیں ان میں ہے کہ جب تم دفن کر کے واپس ہوتے ہو ۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ سوالات قبر میں دفن کے بعد واقع ہوتے ہیں، یہ بات بھی اس کے بطلان پر گواہ ہے۔ اور صحیح روایت جو کہ امام طبرانی نے طبرانی کیبر صفحہ351/24پر روایت فرمائی ہے اس میں یہ الفاظ جو کہ ایجاد شیعہ ہیں، نہیں ہیں۔بلکہ آپ  ﷺ کا قبر میں لیٹنا اور ان کی مغفرت کی دعا مانگنا ثابت ہے۔ فقط دعا کے الفاظ یہ ہیں۔
 اغفر لامی فاطمۃ بنت اسد وسع علیھا مدخلھابحق نبیک والانبیاء الذین من قبلی فانک ارحم الراحمین۔
ترجمہ:  اے اللہ میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما اور ان کی قبر کو وسیع فرما بطفیل اپنے نبی اکرم  ﷺ اور مجھ سے پہلے انبیاء کرام ؑ کے کیونکہ تو ہی ارحم الراحمین ہے۔
یہ ہے وہ روایت معتبر،جس میں من گھڑت خود ساختہ الفاظ کا ذکر نہیں ہے کیونکہ وہ خالص ایجاد شیعہ ہے جس کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان تمام سوالات اور جوابات سے یہ بات واضح ہے کہ شیعہ مذہب باطل ہے اور خود ساختہ مذہب ہے۔ اور اہلسنت وجماعت کے عقائد بالکل قرآن سنت کے عین مطابق ہیں۔ یہی مذہب ہے صحابہ کرام ، اہل بیت کرام ، تابعین، تبع تابعین، اولیاء کرام اور تمام اہل 
ایمان کا اور ان تمام کا نام اہل سنت وجماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ہے اور وہی ذات اقدس شیطان کے شر سے پناہ دینے والی ہے۔ 
اللہ تعالیٰ ہمارا خاتمہ بالخیر کرے اور گمراہوں کے ہدایت عطا کرے آمین۔   بجاہ سید المرسلین  ﷺ
یہ چند سطور ہیں جو کہ شیعہ کے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے خالص اپنے لیے بنائے اور فقیر راقم الحروف کیلئے اور اسکے اساتذہ و مشائخ کیلئے باعث مغفرت و باعث درجات بلندی فرمائے، آمین۔


* * * * * * * * * * * * * * * * * * *
Humanity, Religion, Culture, Ethics, Science, Spirituality & Peace
Peace Forum Network
Millions of Visits