Featured Post

شیعہ نوجوانوں کو راہِ حق پرلانےکے لینے 20 سوالات Unanswerable Questions for Shias

وہ اہم سوالات متلاشیان حق نوجوانوں کوراہ حق سے ہم کنارکرنے میں بڑاعظیم کردارہے! 70 UNANSWERED QUESTIONS to Shia,...

Ghadir Khumm- Myth & Reality غدیر خم کی حقیقت

Introduction
It is impossible to discuss the Hadith of Ghadir Khumm without first understanding the specific context in which the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) said what he said. This is a general rule of thumb pertaining to the Islamic canon as a whole: it is important to know the background in which a Quranic verse was revealed or a certain Hadith was said.
For example, the Quranic verse “slay them wherever you find them” is often used by Orientalists to wrongfully make it appear as if Islam advocates the slaying of people wherever you find them all the time. Of course, if we look at when this verse was revealed, we find that it was specifically revealed during a battle between the Muslims and the Quraish Mushriks; this makes us realize that it is not a general ruling to slay people but rather it was a verse revealed in a specific situation. [Keep reading below after Urdu.......]

غدیر خم مکہ اور میدنہ کے مابین ایک جگہ کا نام ہے کہ جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر ایک خطبہ دیا تھا کہ جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان فرمائی۔ بعض جہلاء نے اس خطبے کو بنیاد بنا کر یہ جھوٹ پھیلا دیا کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امام اور خلیفہ مقرر کرنے کا خطبہ تھا حالانکہ اس خطبے کا مقصد لوگوں کے دلوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے منفی جذبات کو ختم کرنا اور ان کی محبت اور مودت پیدا کرنا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے  آخری سفرحج سے مدینہ منورہ واپسی کے موقعہ پر غدیرخُم (جومکہ اورمدینہ کے درمیان ایک مقام ہے)پر خطبہ ارشادفرمایاتھا،اوراس خطبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت ارشادفرمایاتھا''من کنت مولاہ فعلی مولاہ''جس کامیں دوست ہوں علی بھی اس کادوست ہے،اس خطبہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامقصود یہ بتلاناتھاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب اورمقرب بندے ہیں ، ان سے اورمیرے اہل بیت سے تعلق رکھنامقتضائے ایمان ہے،اوران سے بغض وعداوت یانفرت وکدورت ایمان کے منافی ہے،اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غدیرخُم میں''من کنت مولاہ فعلی مولاہ''ارشادفرماناحضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اعلان کے لئے نہیں بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدرومنزلت بیان کرنے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طورپر امت کی ذمہ داری قراردینے کے لئے تھا ،اورالحمدللہ!اہل سنت والجماعت اتباع سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت کواپنے ایمان کاجزء سمجھتے ہیں۔

چونکہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشادفرمایاتھا، اس لیے شیعہ فرقہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے خلافت بلافصل ثابت کرتاہے،اورماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے عید مناتاہے، اوراسے عید غدیرکانام دیاجاتاہے۔اس دن عید کی ابتداء کرنے والاایک حاکم معزالدولۃ گزراہے ،اس شخص نے 18ذوالحجہ 351ہجری کو بغدادمیں عیدمنانے کا حکم دیاتھااوراس کانام ''عید خُم غدیر''رکھا۔
جب کہ دوسری طرف ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کوخلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہے۔جس کاتقاضہ یہ ہے کہ اس دن اس طرح کی خرافات سے مسلمان دوررہیں۔
الغرض !دین اسلام میں صرف دوعیدیں اوردوہی تہوارہیں ، ایک عیدالفطر اوردوسری عیدالاضحیٰ ، ان دوکے علاوہ دیگرتہواروں  اورعیدوں کاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں ، اس لئے نہ مناناجائزہے اورنہ ان میں شرکت درست ہے۔

ڈاکٹر حافظ محمد زبیرنے اس خطبے کے سبب کو بیان کیا ہے جس کے بغیر اس خطبے کو سمجھنا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔ اگر آپ کسی واقعے میں سے اس کے سبب کو نکال دیں تو آپ کبھی بھی اس واقعے کی حقیقت تک نہ پہنچ پائیں گے۔ اور جب آپ واقعے کا اصل سبب نقل نہ کریں گے تو پھر آپ اس واقعے کا سبب گھڑیں گے اور یہاں ہی سے آپ حقیقت کا چہرہ مسخ کرنا شروع کر دیں گے اور یہی ہمارے ہاں جاہل ذاکر اپنی مجلسوں میں کرتے ہیں کہ ان کا دعوی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی زندگی میں خلیفہ بنا گئے تھے جبکہ حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی خلافت غصب کر لی تھی۔

غدیر خم کے خطبے کے سبب کے بارے روایات جو کہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابن اسحاق، ابن ہشام وغیرہ میں نقل ہوئی ہیں، کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن میں مال کو تقسیم کرنے اور اس میں سے خمس وصول کر کے لانے کے لیے صحابہ کی ایک جماعت پر امیر بنا کر بھیجا تھا۔ واپسی میں کچھ واقعات ایسے ہوئے کہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بد دل اور متنفر ہو گئے اور انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شکایات لگائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے رنجش دیکھی تو غدیر خم پر خطبہ دیا۔

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق بعض صحابہ کو یہ اعتراض تھا کہ یمن سے جو مال ملا ہے، اس میں خمس میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے سب سے بہترین لونڈی رکھ لی تھی۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ نے پوچھا: اے بریدۃ رضی اللہ عنہ، کیا آپ علی رضی اللہ عنہ سے رنجش رکھتے ہیں تو انہوں نے کہا: ہاں، تو آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کریں کہ علی رضی اللہ عنہ کے لیے خمس میں اس سے بھی زیادہ حصہ ہے جو انہوں نے رکھ لیا ہے۔

سیرت ابن اسحاق کے مطابق یمن سے واپسی پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو قافلے کا امیر بنایا اور خود مکہ کی طرف جلدی کی تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک ہو سکیں۔ اب جس شخص کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امیر بنایا تھا، اس نے سب کو صدقہ کے مال میں سے قیمتی چادریں پہننے کا حکم دیا تا کہ مکہ میں داخل ہوتے وقت مسلمان ان کا استقبال کریں تو خوش ہوں۔ ادھر حضرت علی رضی اللہ عنہ حج سے فارغ ہوتے ہی قافلے کی طرف نکلے کہ مکہ میں ان کے ساتھ داخل ہوں لیکن جب ان کو چادریں پہنے دیکھا تو ڈانٹا کہ جس سے بہت سے لوگ ناراض ہو گئے۔

دلائل النبوۃ کی روایت کے مطابق یمن سے واپسی پر لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ ہمارے اونٹ تھک گئے ہیں لہذا ہمیں صدقہ کے اونٹوں پر سواری کی اجازت دیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سختی سے انکار کر دیا۔ اس سے لوگوں کو رنجش پیدا ہوئی اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو آپ نے ان کی بات کے درمیان میں کاٹتے ہوئے کہا کہ ٹھہر جائیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سختی اور ڈانٹ ڈپٹ اللہ کی راہ میں تھی۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے ان سے کبھی رنجش محسوس نہ کی۔

پس اس قسم کے واقعات میں جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کے دلوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے رنجش محسوس کی تو واپسی پر غدیر خم پر خطبہ دیا اور اہل بیت سے محبت رکھنے کا حکم دیا کہ جسے بعض جاہلوں نے ان کی امامت اور خلافت کا حکم سمجھ لیا اور شیخین کو غاصب قرار دے کر اپنی عاقبت خراب کرنے لگے۔

اس خطبے میں جو باتیں نقل ہوئیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ جس کا میں مولی ہو، علی اس کا مولی ہے۔ یعنی میں جس کا محبوب ہوں، علی اس کا محبوب ہے۔ جو مجھ سے محبت کا دعوی رکھتا ہے، وہ علی سے بھی محبت رکھے۔ جو مجھے محبوب رکھتا ہے، وہ علی کو بھی محبوب بنا لے۔ اور دوسرا یہ فرمایا کہ دیکھو، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں۔ یعنی ان سے زیادتی نہ کرنا، ان سے دشمنی اور عداوت نہ رکھنا۔ پس اہل بیت سے دشمنی اور عداوت رکھنا اور ان سے ظلم وزیادتی کرنا یہ ایمان کے منافی ہے۔ اللہ سمجھ عطا فرمائے۔
https://shahidbnr.wordpress.com/2016/03/20/واقعہ-غدیرخم-کی-حقیقتڈاکٹر-حافظ-محمد-ز/

حدیث غدیر خم [سنی نقطہ نظر]

 

تعارف

غدیر خم کی حدیث پر بحث کرنا اس مخصوص سیاق و سباق کو سمجھے بغیر ناممکن ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا۔ یہ اسلامی اصول سے متعلق ایک عام اصول ہے: اس پس منظر کو جاننا ضروری ہے جس میں کوئی قرآنی آیت نازل ہوئی یا کوئی خاص حدیث کہی گئی۔

مثال کے طور پر، قرآنی آیت "انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کرو" اکثر مستشرقین اسے غلط طریقے سے ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں گویا اسلام لوگوں کو  ہر وقت جہاں کہیں بھی پاؤ قتل کرنے کی وکالت کرتا ہے ۔ البتہ اگر ہم دیکھیں کہ یہ آیت کب نازل ہوئی تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ خاص طور پر مسلمانوں اور مشرکین قریش کے درمیان لڑائی کے دوران نازل ہوئی تھی۔ اس سے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ لوگوں کو قتل کرنے کا عام حکم نہیں ہے بلکہ یہ ایک مخصوص صورت حال میں نازل ہونے والی آیت ہے۔

اسی طرح غدیر خم کی حدیث کو صرف اسی تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا تھا: سپاہیوں کا ایک گروہ علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ ) کو ایک خاص بات پر سخت تنقید کا نشانہ بنا رہا تھا اور یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی۔ جس نے پھر وہی کہا جو حدیث غدیر خم میں کہا ۔ مستشرقین کی طرح، شیعہ پروپیگنڈہ کرنے والے اس پس منظر کے سیاق و سباق کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں حدیث کہی گئی تھی تاکہ بالکل مختلف (اور گمراہ کن) تصویر پینٹ کی جا سکے۔

غدیر خم کے موقع پر جو کچھ آپ نے فرمایا اس کے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کرنا ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ صرف علی رضی اللہ عنہ کے خلاف کہے جانے والے بہتان سے دفاع کرنا تھا۔ پس منظر کے سیاق و سباق کو ہٹانے سے ہی متن کی شیعہ تفہیم پیش کرنا ممکن ہے۔ اس لیے ہمیں ہمیشہ اپنے شیعہ بھائیوں کو اس پس منظر کے حوالے سے یاد دلانا چاہیے جس میں غدیر خم کی حدیث کہی گئی تھی۔

غدیر خم کی شیعہ کے لیے اہمیت

شیعہ کا دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم نامی جگہ پر علی ( رضی اللہ عنہ ) کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنے شیعہ بھائیوں کے ساتھ واقعہ غدیر خم پر بحث کریں، ہمیں پہلے اس طرح کی بحث کے معیارات کی وضاحت کرنی چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں، ہمیں "داؤ پر لگانا" چاہئے:

(1) اگر شیعہ غدیر خم کے اپنے قول کو ثابت کرسکتے ہیں تو یقیناً علی (رضی اللہ عنہ ) کو پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خدا کی طرف سے مبعوث کیا تھا اور شیعہ مسلک صحیح ہے۔

(2) البتہ اگر اہل سنت اس خیال کو غلط ثابت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے علی رضی اللہ عنہ کو غدیر خم میں مبعوث کیا ہے تو ہمارے شیعہ بھائیوں کو اس پر آمادہ ہونا چاہیے۔ اس حقیقت کو قبول کریں کہ علی رضی اللہ عنہ کو کبھی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مقرر نہیں کیا گیا تھا اور اس لیے پورا شیعہ عقیدہ باطل ہے۔

ہمیں اس بات کو شروع سے ہی واضح کرنے کی ضرورت یہ ہے کہ شیعہ پروپیگنڈہ کرنے والوں کے پاس یہ غیر معمولی صلاحیت ہے کہ جب بھی وہ کسی بحث میں ہار جاتے ہیں تو گول پوسٹوں کو حرکت دیتے ہیں۔ وہ ایک موضوع سے دوسرے موضوع پر جائیں گے۔ اگر وہ غدیر خم کی بحث میں ہار گئے تو دروازے کا واقعہ پیش کریں گے یا سقیفہ یا فدک یا کون جانے اور کیا ہے۔

شیعہ مذہب کی پوری بنیاد واقعہ غدیر خم پر ہے کیونکہ یہیں پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے علی (رضی اللہ عنہ ) کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ . اگر یہ واقعہ شیعوں کے دعوے کے مطابق پیش نہیں آیا تو پیغمبر نے کبھی علی رضی اللہ عنہ کو معین نہیں کیا اور شیعہ کو اپنے تمام دعووں کو ترک کرنا چاہیے، جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خیال ۔ ) نے علی رضی اللہ عنہ کی خدا کی مقرر کردہ خلافت پر قبضہ کر لیا ۔

درحقیقت، غدیر خم کا واقعہ شیعہ تمثیل کے لیے اس قدر مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور شیعہ الہیات کے لیے اس قدر اہم ہے کہ شیعہ عوام ایک سالانہ جشن مناتے ہیں جسے "عید غدیر" کہا جاتا ہے۔

Amaana.org کہتے ہیں ۔

عید غدیر شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بڑی خوشی کے ساتھ منائی جاتی ہے جہاں وہ مومنین کے لیے پیغمبر اسلام کی آخری ہدایات کو یاد کرتے ہیں۔ عید غدیر دنیا بھر کے شیعہ مسلمانوں کے لیے خوشی کے اہم ترین دنوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ وہ دن تھا جب ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری حج سے واپسی پر غدیر خم میں حضرت علی کی نائبی کا اعلان کیا تھا۔

غدیر خم میں جو قیاس کیا گیا اس کی بنیاد پر، شیعہ نے ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) کی خلافت کو رد کیا، مسلمانوں کے مرکزی دھارے سے الگ ہوگئے، اور اعلان کیا کہ علی (رضی اللہ عنہ ) خدا کے مقرر کردہ اماموں میں سے پہلے تھے۔ شیعہ ویب سائٹ، الاسلام ڈاٹ آرگ، غدیر خم کو ایک "اہم واقعہ" اور علی (رضی اللہ عنہ ) کی امامت کی بنیاد قرار دیتی ہے۔

شیعہ کے لیے غدیر خم کی اہمیت پر زور دینے کے لیے ضروری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ دکھائیں گے کہ شیعہ پروپیگنڈے کے ہتھیاروں میں سب سے مضبوط 'ہتھیار' کس طرح بہت کمزور ہے۔ اگر یہی شیعیت کی بنیاد ہے تو درحقیقت شیعہ بہت ہی کمزور نظریہ ہے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو غدیر خم میں مقرر کیا تھا لیکن سادہ منطق اس کا حکم دیتی ہے۔

شیعہ کا دعویٰ کیا ہوا؟

Al Islam.org کا کہنا ہے ۔

آخری حج (حجۃ الوداع) سے فارغ ہونے کے بعد، رسول اللہ (ص) مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہو رہے تھے، جہاں آپ اور لوگوں کے ہجوم کے ساتھ غدیر خم (جو آج کے الجوفہ کے قریب ہے) کے مقام پر پہنچے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں مختلف صوبوں کے لوگ اپنے گھروں کے لیے مختلف راستے اختیار کرنے سے پہلے ایک دوسرے کا استقبال کرتے تھے۔

اس جگہ قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی:

"اے رسول! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اسے پہنچا دو۔ اور اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تم نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اور اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا..." (قرآن 5:67)

مندرجہ بالا آیت کا آخری جملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پیغمبر (ص) اس پیغام کو پہنچانے میں اپنی قوم کے رد عمل کا خیال رکھتے تھے لیکن اللہ نے انہیں مطلع کیا کہ فکر نہ کریں کیونکہ وہ اپنے رسول کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔

پھر اس کلیدی جملے کی پیروی کی جس میں واضح طور پر علی کو امت مسلمہ کے رہنما قرار دیا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:

’’جس کا میں مولا ہوں، علی اس کا مولا ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر ختم ہونے کے فوراً بعد قرآن کی درج ذیل آیت نازل ہوئی:

’’آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور میں مطمئن ہو گیا کہ تمہارا دین اسلام ہے۔ (قرآن 5:3)

مندرجہ بالا آیت واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اسلام پیغمبر کے بعد قیادت کے معاملے کو صاف کئے بغیر مکمل نہیں تھا اور دین کی تکمیل پیغمبر کے فوری جانشین کے اعلان سے ہوئی تھی۔

ماخذ:  http://www.al-islam.org/ghadir/incident.htm

یہ صرف احساس کیوں نہیں کرتا

شیعہ کا دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا آخری حج مکمل کیا، مکہ میں عرفات کوہ پر اپنا الوداعی خطبہ دیا، اور پھر اس کے بعد علی رضی اللہ عنہ کو غدیر خم میں مقرر کیا۔ آئیے اس دعوے کا تجزیہ کرتے ہیں: غدیر خم مکہ اور مدینہ کے درمیان الجوفہ شہر کے قریب واقع ہے، جیسا کہ Al Islam.org ویب سائٹ نے ذکر کیا ہے۔ یہ صحرا کے وسط میں پانی بھرنے والا سوراخ ہے۔ شیعہ کی  دلیل یہ ہے کہ غدیر خم مکہ سے تقریباً 250 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ سادہ سی حقیقت شیعیت کی پوری بنیاد کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے کافی ہے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری حج کے دوران مکہ میں خطبہ الوداع دیا۔ یہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے سامنے تھا جو مختلف شہروں سے حج کے لیے آئے تھے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کرنا چاہتے تھے تو اس بات کی قطعاً کوئی قابلِ ادراک توجیہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ وداع کے دوران ایسا کیوں نہیں کیا؟ مسلمانوں کی. ان کی علیحدگی کے کلمات کو سننے کے لیے پوری امت مسلمہ وہاں جمع تھی، اس لیے یقیناً یہ جانشین مقرر کرنے کا موزوں ترین وقت اور موقع ہوگا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے اپنا حج مکمل کیا جس کے بعد سب اپنے اپنے شہروں کو واپس چلے گئے۔ مدینہ والے مدینہ واپس چلے گئے، طائف کے لوگ طائف واپس چلے گئے، یمن کے لوگ یمن واپس چلے گئے، کوفہ والے کوفہ واپس چلے گئے، اہل شام واپس شام گئے، اور مکہ والے۔ مکہ میں ٹھہرے۔

یہ صرف وہی گروہ تھا جو جزیرہ نما عرب کے شمال میں شہروں میں رہتا تھا  جو غدیر خم سے گزرا تھا۔ اس میں صرف وہ لوگ شامل ہوں گے جو مدینہ کی طرف جارہے تھے اور مسلمانوں کی اقلیت جو شام جیسی جگہوں پر مقیم تھے۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غدیر خم میں رکے اور یہ واقعہ پیش آیا تو مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد  موجود نہیں تھی جن میں مکہ، طائف، یمن وغیرہ میں رہنے والے بھی شامل نہیں تھے۔ حج کے بعد مکہ والوں نے قیام کیا۔ مکہ کے پیچھے، طائف کے لوگ طائف واپس چلے گئے، اہل کوفہ واپس کوفہ گئے، یمن کے لوگ یمن واپس چلے گئے، وغیرہ۔ صرف مدینہ جانے والا گروہ (یا اس کے قریب سے گزرنے والا) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم)غدیر خم تک۔

لہٰذا شیعوں کے دعوے کے برخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو تمام مسلمانوں کے سامنے مبعوث نہیں کیا، بلکہ غدیر خم میں جو کچھ ہوا وہ صرف مٹھی بھر مسلمانوں کے سامنے ہوا۔ وہ مسلمان جو مدینہ واپس جا رہے تھے (یا اس کے قریب سے گزر رہے تھے)۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ایک شیعہ ویب سائٹ کیا دعویٰ کرتی ہے:

ثقلین مسلم ایسوسی ایشن کا کہنا ہے:

18 ذوالحجہ کو حجۃ الوداع سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ اور پورے مسلم کارواں کو، جن کی تعداد 100,000 سے زیادہ تھی، غدیر خم پر روکا گیا، جو کہ ایک ویران ابھی تک تزویراتی طور پر واقع علاقہ ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے (آج کے جحفہ کے قریب)۔ ان دنوں غدیر خم روانگی کے مقام کے طور پر کام کرتا تھا، جہاں پڑوسی ممالک سے حج کے لیے آنے والے مختلف مسلمان منتشر ہو کر اپنے اپنے گھروں کو واپسی کے راستوں پر روانہ ہو جاتے تھے۔

ماخذ:  http://www.utm.thaqalayn.org/files/ghadeer.pdf

شیعہ ویب سائٹ کا دعویٰ ہے کہ "غدیر خم روانگی کے ایک مقام کے طور پر کام کرتا تھا، جہاں مختلف مسلمان جو پڑوسی ممالک سے زیارت کے لیے آئے تھے، منتشر ہو جاتے تھے اور اپنے گھروں کو واپسی کے راستوں پر چلے جاتے تھے۔" کسی بھی نقشے پر ایک سادہ نظر ڈالنے سے یہ ظاہر ہو جائے گا کہ یہ کس قدر مضحکہ خیز ہے۔ مندرجہ ذیل نقشہ Al Islam.org سے آیا ہے:

کیا اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ مکہ، طائف، یمن وغیرہ کے مسلمان غدیر خم کی طرف اپنے آبائی شہروں کو واپسی کے راستے بالکل مخالف سمت میں کیوں جائیں گے؟ ہم امید کرتے ہیں کہ قاری سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ تجویز کس قدر مضحکہ خیز ہے۔

ایک تشبیہ دینے کے لیے، ہم فرض کرتے ہیں کہ ISNA (اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ) کے صدر سان فرانسسکو میں رہتے ہیں اور وہ ISNA کے تمام اراکین کے سامنے اپنے متبادل کو نامزد کرنا چاہتے ہیں۔ ہر سال، ISNA اپنی سب سے بڑی کانفرنس شکاگو میں منعقد کرتا ہے، جس میں امریکہ کے ہر شہر سے ISNA کے ہزاروں اراکین جمع ہوتے ہیں۔ وہ سان فرانسسکو، آسٹن، اٹلانٹا، ملواکی، واشنگٹن ڈی سی وغیرہ سے آتے ہیں۔ شکاگو کے لیے ان کی پرواز اس طرح نظر آئے گی:

اب جب کہ ISNA کے تمام ممبران شکاگو میں ہونے والی سالانہ کانفرنس میں موجود ہیں، تو کیا یہ صاف ظاہر نہیں ہوگا کہ ISNA کے صدر کے لیے اپنے جانشین کو نامزد کرنے کے لیے یہ سب سے موزوں جگہ ہوگی؟ کانفرنس کے بعد، ہر کوئی اپنے اپنے آبائی شہروں کو واپس چلا جاتا ہے، لہذا ISNA کے صدر Cheyenne میں ایک اسٹاپ اوور کے ساتھ واپس سان فرانسسکو کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ کیا یہ کوئی منطقی معنی رکھتا ہے کہ ISNA کے دیگر ممبران اپنے آبائی شہروں کو واپسی کے راستے مخالف سمت میں Cheyenne سے گزرتے ہیں؟ یہ واقعی کوئی معنی نہیں کرے گا. یہ کچھ اس طرح نظر آئے گا:

کوئی عقلی ذہن ایسی بات کو قبول نہیں کر سکتا۔ ISNA کے صدر کے لیے سالانہ کانفرنس کے دوران شکاگو کے برعکس Cheyenne میں اپنے جانشین کو نامزد کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ایک شخص جو واشنگٹن ڈی سی میں رہتا ہے وہ سیانے جانے کے لیے مغرب کا سفر نہیں کرے گا، بلکہ وہ اپنے گھر کی طرف مخالف سمت میں سفر کرے گا۔ شکاگو میں رہنے والا شخص یقینی طور پر کانفرنس کے بعد ISNA کے صدر کے ساتھ Cheyenne نہیں جائے گا، بلکہ وہ شکاگو میں پیچھے رہے گا جہاں وہ رہتا ہے۔ درحقیقت، ISNA کے اراکین کی واپسی کے زیادہ حساس راستے کچھ اس طرح نظر آئیں گے:

مندرجہ بالا اس تشبیہ میں، سان فرانسسکو مدینہ ہے، شکاگو مکہ ہے، اور سیانے غدیر خم ہیں۔ یہ واضح ہے کہ سیانے سے صرف وہی لوگ گزرتے ہیں جو سان فرانسسکو یا مغربی ساحل کی طرف جاتے ہیں۔ لہٰذا، ISNA کے صدر کے لیے اپنی نامزدگی کی تقریر سیانے میں کرنا دانشمندی نہیں ہوگی کیونکہ باقی تمام شہروں کے مسلمان اس میں موجود نہیں ہوں گے۔ اس کے بجائے یہ بہت زیادہ معنی خیز ہوگا کہ وہ شکاگو میں ایسی تقریر کریں، جہاں کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔ اسی طرح، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں اپنا جانشین اپنے خطبہ الوداعی کے دوران مقرر کیا ہوگا، نہ کہ مدینہ واپسی کے راستے کے درمیان میں۔

جب مسلمانوں نے حج کا آغاز کیا تو آئیے فرض کریں کہ یہ وہ راستے تھے جو انہوں نے اختیار کیے:

اب جب کہ تمام شہروں کے مسلمان مکہ میں جمع ہوچکے ہیں تو کیا یہ پیغمبر کے جانشین کا اعلان کرنے کا موزوں ترین وقت نہیں ہوگا؟ شیعہ پروپیگنڈہ کرنے والا ہمیں یقین دلائے گا کہ طائف اور یمن جانے والے مسلمان غدیر خم کے پانی کے سوراخ تک 500 کلومیٹر کا اضافی سفر کریں گے اور پھر مخالف سمت میں واپس جائیں گے۔ جیسا کہ خود شیعوں نے بیان کیا ہے، غدیر خم ایک پانی کا سوراخ اور سفر کرنے والوں کے لیے آرام گاہ تھا… صرف ایک چیز کا ذکر کرنے میں وہ ناکام رہتے ہیں کہ یہ اس سے گزرنے والوں کے لیے آرام گاہ ہے، نہ کہ بالکل مخالف سمت جانے والوں کے لیے! شیعہ ہمیں یہ یقین دلائیں گے کہ مسلمانوں کا واپسی کا سفر اس طرح ہو گا:

یہ بکواس سے کم نہیں۔ حج کے بعد، ہر کوئی اپنے آبائی شہروں کو واپس چلا جاتا ہے اور مکہ کے باشندے مکہ میں رہنے کی وجہ سے ٹھہرے رہیں گے۔ وہ کہیں کے وسط میں پانی کے سوراخ کی طرف کیوں نکلیں گے؟ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ مسلمان صحرا میں پیدل تھے، غدیر خم تک 250 کلومیٹر کے آگے پیچھے اور پیچھے کے اس سفر  میں ٹرانزٹ ٹائم میں چند ہفتوں کا اضافہ ہوتا۔ کیا یہ منطق اور عقلی سوچ کی دھجیاں اڑاتی نہیں؟ درحقیقت، زیادہ حساس تصویر مندرجہ ذیل ہوگی:

لہٰذا ہم جس نتیجے پر پہنچتے ہیں وہ یہ ہے کہ شیعوں کا یہ دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو تمام مسلمانوں کے سامنے معین کیا ہے، اس حقیقت کی وجہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا ہے۔ ) نے اپنے الوداعی خطبہ میں اس نکتے پر بالکل بھی توجہ نہیں دی۔ جہاں تک واقعہ غدیر خم کا تعلق ہے تو ہم نے دیکھا کہ اس بات کا کتنا امکان نہیں ہے کہ یہ وہ جگہ ہوگی کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) علی ( رضی اللہ عنہ ) کو اگلا خلیفہ مقرر کریں گے۔ درحقیقت، غدیر خم کا مرکزی دھارے کا مسلم ورژن زیادہ معنی رکھتا ہے۔

غدیر خم میں واقعی کیا ہوا؟

غدیر خم کے واقعہ سے کوئی انکار نہیں کرتا۔ تاہم جس چیز کا ہم انکار کرتے ہیں وہ اس واقعہ کے حوالے سے شیعہ کی مبالغہ آرائیاں ہیں۔ سب سے پہلے، شیعہ اس بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ غدیر خم میں کتنے لوگ موجود تھے، اکثر یہ تعداد لاکھوں میں بتاتے ہیں۔ جیسا کہ ہم اوپر دکھا چکے ہیں غدیر خم میں صرف مدینہ کی طرف جانے والے مسلمان موجود تھے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مکہ والے موجود نہیں تھے اور نہ ہی طائف، یمن وغیرہ کے لوگ موجود تھے، درحقیقت شیعہ اکثر نقل کرتے ہیں کہ 100,000 لوگ۔ غدیر خم میں موجود تھے لیکن یہ غالباً مبالغہ آرائی ہے، بلکہ یہ تعداد تمام شہروں سے مکہ میں حج کے لیے موجود تھی، نہ صرف وہ لوگ جو مدینہ لوٹ رہے تھے (جو کہ اس کا صرف ایک حصہ تھا۔ نمبر)۔ معاملہ کچھ بھی ہو، کوئی بھی ہو  ۔تعداد شیعہ استعمال کرتے ہیں، یہ صرف مسلمانوں کا ایک حصہ ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں مکہ، طائف، یمن وغیرہ میں رہنے والے مسلمان شامل نہیں ہوں گے۔

غدیر خم کے سیاق و سباق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ غدیر خم میں جو کچھ ہوا وہ یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کو جواب دے رہے تھے جو علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ ) پر تنقید کر رہے تھے۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ چند ماہ قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو 300 آدمیوں کے ساتھ ایک مہم پر یمن روانہ کیا تھا۔ شیعہ ویب سائٹ  www.najaf.org پر اس کا ذکر ہے : "علی کو یمن کی مہم کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔"

(ماخذ:  http://www.najaf.org/english/book/20/4.htm )

علی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں فوج یمن میں بہت کامیاب رہی اور انہوں نے بہت سا مال غنیمت حاصل کیا۔ اسی جنگی غنیمت پر ایک طرف علی رضی اللہ عنہ اور دوسری طرف ان کے سپاہیوں کے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا۔ ابن کثیر کی "البدایہ وان نھایۃ" میں ہے:

ریاست کے پانچویں مال غنیمت میں سے پوری فوج کو کپڑے پہنانے کے لیے کافی کپڑے تھے، لیکن علی نے فیصلہ کیا تھا کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دیا جائے۔

یمن میں فتح کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے اپنے نائب کمانڈر کو یمن میں متعین فوجوں کا انچارج بنا دیا، جب کہ وہ خود مکہ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے حج کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم پڑھتے ہیں:

تاہم، ان کی (علی کی) غیر موجودگی میں، جس آدمی کو اس نے انچارج چھوڑ دیا تھا، ہر ایک کو کتان کے کپڑے کی ایک نئی تبدیلی دینے کے لیے راضی کیا گیا تھا۔ تبدیلی کی بہت ضرورت تھی کیونکہ وہ تقریباً تین ماہ سے گھر سے دور تھے۔

یمن میں تعینات فوجیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی تکمیل کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوئیں :

جب وہ (یمن کی طرف بھیجے گئے سپاہی) شہر (مکہ) میں داخل ہونے سے زیادہ دور نہیں تھے تو علی رضی اللہ عنہ ان سے ملنے کے لیے باہر نکلے اور (ان کے لباس کے حوالے سے) جو تبدیلی آئی ہے اسے دیکھ کر حیران رہ گئے۔

ڈپٹی کمانڈر نے کہا، ’’میں نے انہیں کپڑے دیے تاکہ جب وہ لوگوں میں داخل ہوں تو ان کی شکل زیادہ اچھی ہو۔‘‘ تمام مردوں کو معلوم تھا کہ مکہ میں اب ہر کوئی عید کے اعزاز میں اپنے بہترین لباس پہنے گا، اور وہ اپنے بہترین نظر آنے کے لیے بے چین تھے۔ لیکن علی نے محسوس کیا کہ وہ اس طرح کی آزادی کو برداشت نہیں کر سکتا اور اس نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے پرانے کپڑے دوبارہ پہن لیں اور نئے کپڑے لوٹا دیں۔ اس کی وجہ سے پوری فوج میں شدید غصہ پایا گیا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: "اے لوگو، علی پر عیب نہ لگاؤ، کیونکہ وہ اللہ کی راہ میں اتنا بدتمیز ہے کہ اسے ملامت نہ کی جائے۔" لیکن یہ الفاظ کافی نہیں تھے، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں صرف چند لوگوں نے سنا ہو، اور ناراضگی جاری رہی۔

مدینہ واپسی کے راستے میں ایک لشکر نے تلخی سے علی کی شکایت رسول اللہ سے کی، جس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ "کیا میں مومنوں سے ان کی جانوں سے زیادہ قریب نہیں ہوں؟" اس نے کہا؛ اور جب اس شخص نے رضامندی ظاہر کی تو اس نے مزید کہا: "میں جس کا محبوب دوست ہوں، علی (بھی) اس کا پیارا دوست ہے۔" آگے چل کر جب وہ غدیر الخم میں رکے تو اس نے تمام لوگوں کو اکٹھا کیا اور علی کا ہاتھ پکڑ کر یہ کلمات دہرائے [یعنی جس کا میں محبوب ہوں یہ علی (بھی) اس کا پیارا دوست ہے۔ ]، جس میں انہوں نے یہ دعا شامل کی: "اے اللہ، اس کا دوست بن جو اس کا دوست ہے، اور اس کا دشمن جو اس کا دشمن ہے"؛ اور علی کے خلاف بڑبڑاہٹ خاموش ہوگئی۔

علی کے زیرِ نگرانی سپاہی نہ صرف کپڑے بدلنے پر پریشان تھے بلکہ جنگ کے مال غنیمت کی تقسیم سے بھی پریشان تھے۔ مسلمانوں نے علی رضی اللہ عنہ کی عظیم قیادت کی بدولت بہت سے اونٹوں کو فتح کر لیا تھا لیکن علی رضی اللہ عنہ نے انہیں ان اونٹوں پر قبضہ کرنے سے منع کر دیا۔ بیہقی نے ابو سعید سے روایت کی ہے کہ علی (رضی اللہ عنہ ) نے انہیں غنیمت کے اونٹوں پر سوار ہونے سے روکا جو انہوں نے حاصل کیا تھا۔ لیکن جب علی (رضی اللہ عنہ ) مکہ روانہ ہوئے تو ان کے نائب کمانڈر نے لوگوں کی التجائیں قبول کرتے ہوئے انہیں ان اونٹوں پر سوار ہونے کی اجازت دے دی۔ جب علی رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا تو غصے میں آگئے اور نائب کمانڈر کو برا بھلا کہا۔ ابو سعید (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ہم مدینہ کی طرف واپس جارہے تھے تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سختی کا ذکر کیا جو ہم نے علی رضی اللہ عنہ سے دیکھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'رک جاؤ، اللہ کی قسم، میں جانتا ہوں کہ اس نے اللہ کے لیے نیکی کی ہے۔'

اسی طرح کا واقعہ ابن اسحاق کی سیرۃ رسول اللہ میں بیان ہوا ہے۔ ہم پڑھتے ہیں:

جب علی رضی اللہ عنہ یمن سے مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے (واپس) آئے تو وہ جلدی سے ان کے پاس گئے اور اپنی فوج کے انچارج اپنے ایک ساتھی کو چھوڑ دیا جس نے جا کر فوج میں شامل ہر آدمی کو علی کے کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ جب لشکر قریب آیا تو آپ (علی) ان سے ملنے کے لیے نکلے اور انہیں کپڑوں میں ملبوس پایا۔ جب اس نے پوچھا کہ زمین پر کیا ہوا ہے تو اس آدمی (اس کے نائب) نے کہا کہ اس نے مردوں کو لباس پہنایا تھا تاکہ جب وہ لوگوں میں گھل مل جائیں تو وہ نظر آنے لگیں۔ آپ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ وہ رسول کے پاس آنے سے پہلے کپڑے اتار دے اور انہوں نے ایسا کیا اور انہیں غنیمت میں واپس کر دیا۔ فوج نے ان کے سلوک پر ناراضگی ظاہر کی… جب مردوں نے علی کی شکایت کی تو رسول ان سے مخاطب ہوئے اور آپ (راوی) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "علی پر الزام نہ لگاؤ، کیونکہ وہ لوگوں کے کاموں میں بہت بے وقوف ہے۔ اللہ،

(ابن اسحاق، سیرۃ رسول اللہ، ص650)

ابن کثیر روایت کرتے ہیں کہ لشکر کے لوگ (یعنی یمن کی طرف بھیجے گئے دستے) نے علی (رضی اللہ عنہ ) پر تنقید شروع کردی کیونکہ انہوں نے انہیں اونٹوں پر سوار ہونے سے روکا اور نئے کپڑے جو انہوں نے حاصل کیے تھے واپس لے لیے۔ یہ وہ لوگ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غدیر خم کے راستے مدینہ منورہ گئے تھے اور غدیر خم کی مشہور حدیث میں انہی کو خطاب کیا جا رہا ہے۔

درحقیقت "تحریخ الاسلام" میں غدیر خم کا واقعہ "علی کی تسلی" کے عنوان سے آتا ہے۔ ہم پڑھتے ہیں:

علی کی تسلی

حج کے دوران، علی کے کچھ پیروکار جو آپ کے ساتھ یمن میں تھے، نے رسول اللہ سے علی کے بارے میں شکایت کی۔ یمن کے لوگوں کی بعض غلط فہمیوں نے بدگمانیوں کو جنم دیا تھا۔ غدیر خم میں صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے اللہ کے رسول نے علی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: "جو میرا دوست ہے وہ علی کا دوست ہے..." خطاب کے بعد عمر نے علی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا: "آج سے آپ کے خاص دوست ہیں۔ میرا" اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اور آپ کے بیٹے ابراہیم کا انتقال ہو گیا۔

(تاریخ الاسلام، جلد 1، صفحہ 241)

حدیث غدیر خم

غدیر خم کی حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ: علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے سپاہی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مال غنیمت میں سے کتان اور اونٹ دینے سے بہت ناراض تھے اور وہ اس بات پر راضی نہیں تھے کہ علی رضی اللہ عنہ خود تھے۔ خمس کا خاص حصہ دیا (یعنی جنگی غنیمت کا پانچواں حصہ)۔ البتہ خمس میں سے اضافی حصہ لینے کے اس استحقاق کے لیے علی (رضی اللہ عنہ ) کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، جو کہ قرآن میں پیغمبر کے خاندان کے لیے ایک حق ہے۔ بہر حال، لوگوں کی آنکھوں میں غصہ تھا، اس لیے انہوں نے خاص طور پر اس وقت برا کیا جب علی رضی اللہ عنہ نے خمس سے اپنے لیے ایک لونڈی لی۔ سپاہیوں نے علی رضی اللہ عنہ پر غلط الزام لگایا) مردوں کو کپڑے اور اونٹ دینے سے انکار کرنے پر منافق ہونا لیکن اپنے لیے لونڈی لینا۔ علی رضی اللہ عنہ پر اس غلط تنقید کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث غدیر خم میں علی رضی اللہ عنہ کا دفاع کیا ۔

شیعہ چیٹ ممبر کہتے ہیں:

آپ بیمار سعودی بدکردار اپنی ذاتی فرصت میں کسی کے بارے میں جو بھی گندگی چاہتے ہیں اس پر یقین کر سکتے ہیں لیکن اس کو یہاں لانے کی ہمت نہیں کریں گے۔

یہ الزام [کہ امام علی ایک لونڈی کے ساتھ سوئے تھے] ہمارے مولا (ع) کو برا دکھانے کے لیے صریحاً اموی پروپیگنڈہ ہے۔

سب سے پہلے تو حدیث غدیر خم جیسا کہ صحیح بخاری میں درج ہے اس کا مقصد علی رضی اللہ عنہ کو بُرا دیکھنا نہیں تھا۔ درحقیقت، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کے اعمال کا دفاع کیا ۔ واضح رہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک لونڈی لی تھی اور یہ بات سنی اور شیعہ دونوں حدیثوں میں مروی ہے۔ غلامی اس وقت ثقافتی معمول تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اپنی لونڈیوں کے ساتھ اپنی بیویوں جیسا سلوک کریں۔ دوسرے موقعوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) غلاموں کو آزاد کرنے اور ان سے شادی کرنے کی ترغیب دے گا۔ بہرحال، بہت سے لمبے لمبے مضامین ہیں جو اس معاملے پر اسلامی موقف کا دفاع کرتے ہیں، اور قاری ان کے لیے انٹرنیٹ پر تلاش کرنے کے لیے آزاد ہے۔

دوسری بات یہ بھی جاننی چاہیے کہ بریدہ رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ پر تنقید نہیں کر رہے تھے کیونکہ ان کے خیال میں لونڈی رکھنا بے حیائی ہے۔ اس کے بجائے، بریدہ ( رضی اللہ عنہ ) صرف علی (رضی اللہ عنہ ) پر خمس کا حصہ لینے پر تنقید کر رہے تھے اور اپنے مردوں کو اس کا انکار کر رہے تھے۔ بریدہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا کہ علی رضی اللہ عنہ نے خمس سے کیا لیا خواہ وہ لونڈی ہو، کتان ہو یا اونٹ۔

تیسرا یہ کہ علی رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی کو لے جانے کی بات  شیعہ حدیث میں بیان کی ہے، تو شیعہ اس قدر پرتشدد ردعمل کا اظہار کیوں کریں جب کہ سنی حدیث میں بھی ایسی ہی روایت موجود ہے؟ کیا یہ منافقت نہیں؟ بلاشبہ جس طرح بریدہ رضی اللہ عنہ اہل سنت میں لونڈی لینے پر علی رضی اللہ عنہ پر ناراض ہوئیں ، اسی طرح فاطمہ رضی اللہ عنہا کو لونڈی لینے پر علی رضی اللہ عنہ پر غصہ آیا۔ شیعہ حدیث میں اس شیعہ حدیث کو شیعہ الہیات کے ایک پیشوا ابن بابویہ القمی نے نقل کیا ہے اور یہ ایک معروف شیعہ ویب سائٹ YaZahra.com پر دستیاب ہے:

YaZahra.org کا کہنا ہے کہ:

مجلسی “بحار الانوار” 43/147
ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: میں اور جعفر بن ابی طالب ملک حبشہ کی طرف ہجرت کر کے آئے تھے (1) اس لیے میں نے جعفر کو دے دیا۔ ایک لونڈی جس کی قیمت چار ہزار درہم ہے۔ فاطمہ۔
چنانچہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک دن داخل ہوئیں اور لونڈی کی گود میں حضرت علی علیہ السلام کے سر کی طرف دیکھا اور کہا: اے ابو الحسن میں نے ایسا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، خدا کی قسم اے محمد کی بیٹی میں نے کچھ نہیں کیا تو تم کیا چاہتی ہو؟ اس نے کہا: مجھے اپنے والد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر جانے کی اجازت دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والوں پر رحمت نازل ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں اجازت دے دی ہے۔
وہ اپنی شان سے ڈھکی ہوئی تھی اور وہ اپنے برقعے سے ڈھکی ہوئی تھی۔

[ترجمہ: القمی اور المجلسی نے ابوذر کی روایت سے روایت کیا ہے: میں نے جعفر بن ابی طالب کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ 4000 درہم کی ایک لونڈی جعفر کو بطور تحفہ دی گئی۔ جب ہم مدینہ آئے تو اس نے علی کو تحفہ میں دیا تاکہ وہ ان کی خدمت کریں۔ علی نے اسے فاطمہ کے گھر میں رکھا۔ ایک دن فاطمہ اندر داخل ہوئیں تو دیکھا کہ اس کا سر لڑکی کی گود میں ہے۔ اس نے کہا: اے ابو الحسن! کیا تم نے کر لیا ہے!؟" اس نے کہا: اے محمد کی بیٹی! میں نے تو کچھ نہیں کیا تو تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ اس نے کہا: کیا تم مجھے اپنے باپ کے گھر جانے کی اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا: میں تمہیں اجازت دوں گا۔ چنانچہ وہ اپنا جلباب پہن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلی گئیں۔

(ماخذ: ابن بابویہ القمی کی "ایلال الشعراء"، صفحہ 163؛

یہ بہار الانوار، صفحہ 43-44، باب "علی کے ساتھ ان کی زندگی کیسی تھی" میں بھی بیان کیا گیا ہے)]

ماخذ:  http://www.yazahra.net/ara/html/4/behar43/a15.html

چہارم- اور اس سے بحث مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے- یہ حقیقت ہے کہ یہ واقعہ شیعہ منابع میں بھی مذکور ہے۔ کلاسیکی شیعہ عالم شیخ مفید لکھتے ہیں:

(پہلے) وفاداروں کے کمانڈر نے قیدیوں میں سے ایک لونڈی کا انتخاب کیا تھا۔ اب خالد نے بریدہ کو رسول اللہ کے پاس بھیجا۔ اس نے کہا: فوج کے جانے سے پہلے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جاؤ۔ اسے بتاؤ کہ علی نے خمس میں سے اپنے لیے ایک لونڈی چن کر کیا کیا ہے اور اس کی بے عزتی کی ہے؟‘‘

بریدہ نبی کے پاس گئے۔ اس کے پاس خالد کا وہ خط تھا جو اسے بھیجا گیا تھا۔ وہ اسے پڑھنے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ بدلنے لگا۔

بریدہ نے کہا: اللہ کے رسول، اگر آپ لوگوں کو ایسا کرنے کی اجازت دیتے تو ان کا مال غنیمت ختم ہو جاتا۔

"افسوس تم پر، بریدہ،" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا. "تم نے منافقت کا کام کیا ہے۔ علی ابن ابی طالب کو ان کے مال غنیمت میں سے جو کچھ حاصل کرنے کی اجازت ہے وہ مجھے حاصل ہے… بریدہ، میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ اگر تم علی سے نفرت کرو گے تو اللہ تم سے نفرت کرے گا۔

بریدہ نے بیان کیا: "میں چاہتا تھا کہ میرے لیے زمین پھٹ جائے تاکہ میں اس میں دھنس جاؤں۔ پھر میں نے کہا: میں اللہ کے غضب اور اللہ کے رسول کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ اللہ کے رسول مجھے معاف کر دیں۔ میں علی سے کبھی نفرت نہیں کروں گا اور صرف ان کے بارے میں اچھا بولوں گا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا۔

(کتاب الارشاد، شیخ مفید، صفحہ 111-112)

صحیح بخاری (جلد 5، کتاب 59 نمبر 637) میں غدیر خم کی حدیث نقل ہوئی ہے:

بریدہ نے بیان کیا:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کو خالد کے پاس خمس لانے کے لیے بھیجا اور میں علی سے نفرت کرتا تھا، اور علی نے (خمس کی لونڈی کے ساتھ جنسی فعل کے بعد) غسل کیا تھا۔ میں نے خالد سے کہا کیا تم یہ (یعنی علی) نہیں دیکھتے؟ جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بریدہ! کیا تم علی سے نفرت کرتے ہو؟ میں نے کہا ہاں." آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس سے نفرت کرتے ہو، کیونکہ وہ خمل سے اس سے زیادہ کا مستحق ہے۔

یہ غدیر خم کا وہ نسخہ ہے جو صحیحین (یعنی بخاری و مسلم) میں بیان ہوا ہے جس میں لفظ "مولا" کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جہاں تک ان کا یہ قول ہے کہ اگر میں کسی کا مولا ہوں تو علی بھی اس کے مولا ہیں، یہ صحیح (بخاری و مسلم) کی کتابوں میں نہیں ہے، لیکن یہ ان روایتوں میں سے ہے جو جسے علماء نے روایت کیا ہے اور جس کی سند میں لوگ اختلاف کرتے ہیں۔

اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ شیعوں نے کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ غدیر خم کی حدیث خلافت کی نامزدگی سے بہت دور ہے۔ شیعہ عالم ایس ایچ ایم جعفری لکھتے ہیں:

اہل سنت اس صورت حال کی وضاحت کرتے ہیں جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت [غدیر خم میں] کی ضرورت پڑی تھی کہ کچھ لوگ جنگ یمن کے مال غنیمت کی تقسیم میں ان کے سخت اور بے رخی کے برتاؤ کی وجہ سے علی کے خلاف بکواس کر رہے تھے۔ علی کی قیادت، اور جہاں سے وہ اپنے ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے اس مہم میں حصہ لیا تھا، سیدھے مکہ آئے تاکہ حج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوں۔ اپنے داماد کے خلاف ان ناپاک جذبات کو دور کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز میں بات کی۔

(شیعہ اسلام کی ابتدا اور ترقی، از ایس ایچ ایم جعفری، صفحہ 21-22)

سیاق و سباق کو ہٹانے کی شیعہ کوشش

اہل سنت کہتے ہیں کہ یمن میں علی (رضی اللہ عنہ ) اور ان کے سپاہیوں کے درمیان جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غدیر خم میں اعلان کرنے پر مجبور ہوئے ۔ شیعہ اس کو دو طریقوں میں سے ایک طریقے سے دیکھتے ہیں۔ پہلا جواب یہ ہے کہ یمن میں ہونے والے واقعہ کی یکسر تردید کی جائے اور یہ دعویٰ کیا جائے کہ یہ محض "اموی پروپیگنڈہ" تھا کہ علی رضی اللہ عنہ) کبھی ایسی لونڈی لے گا البتہ اس جواب کی جلد از جلد تردید اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کی جاتی ہے کہ یہ روایتیں شیعہ منابع میں بھی موجود ہیں، بشمول شیخ مفید کی کتاب کتاب الارشاد۔ اس لیے شیعہ پروپیگنڈہ کرنے والے کو ایک اور وضاحت پر واپس آنا چاہیے، جیسا کہ ذیل میں "طائر القدس" نے پیش کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یمن میں واقعہ رونما ہوا لیکن اس کا غدیر خم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

طائر القدس، شیعہ اوف اہلبیت کے منتظم کا کہنا ہے:

اس واقعہ کا ذکر کرنے والی احادیث میں [علی کے سپاہیوں کے غصے میں آنے کا]… غدیر خم کے واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ پورا واقعہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں حجرہ کے اطراف میں ہوا اور وہیں ختم ہوا اور اس کا غدیر خم کے واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) نے اس معاملے/مسئلہ کو پہلے ہی واضح کر دیا تھا جسے وہابی/نواصب واقعہ غدیر کے سیاق و سباق کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں جو تاریخ کے آخری وقت میں پیش آیا تھا۔

… غدیر کا واقعہ 18 ذی الحج کو پیش آیا جب کہ یمن کا واقعہ مورخین کے مطابق ربیع الآخر (ثانی) یا جمادی العلماء میں پیش آیا۔ ان دونوں واقعات کے اختلاط میں کوئی مطابقت یا امکان نہیں ہے کیونکہ ان میں سے ایک حج کے بعد مکہ سے واپسی پر پیش آیا تھا جبکہ دوسرا یمن میں اس سے پہلے پیش آیا تھا اور اس سے قبل مسجد نبوی، مدینہ منورہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حل ہو گیا تھا۔ یہاں تک کہ حج کے لیے روانہ!

درحقیقت دونوں واقعات (جو کچھ یمن اور غدیر خم میں ہوا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری سال میں پیش آئے۔ کلاسیکی شیعہ عالم شیخ مفید کے مطابق یمن میں غزوہ ذی القعدہ کے آخری پانچ دنوں میں ختم ہو رہا تھا اور غدیر خم کا واقعہ اس کے فوراً بعد ذوالقعدہ میں پیش آیا۔ حجۃ (12واں اسلامی مہینہ)۔ "طائر القدس" نے دھوکہ دہی سے جو کچھ کیا ہے اس کا دعویٰ یہ ہے کہ یمن کی مہم ربیع الثانی (چوتھا اسلامی مہینہ) یا جمادی الاول (پانچواں اسلامی مہینہ) میں ہوا تھا، جب کہ غدیر خم میں ہوا تھا۔ 12واں مہینہ؛ یہ ایک خوفناک آدھا سچ ہے۔ یمن کی مہم کئی مہینے اور گیارہویں مہینے تک جاری رہی! لہٰذا جہاں یمن کی مہم چند ماہ پہلے شروع ہوئی ہو، وہ یقینی طور پر گیارہویں مہینے کے آخری پانچ دنوں سے پہلے ختم نہیں ہوئی،خدا راضی ہو ) اور اس کے سپاہی فوراً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے مکہ میں شامل ہوئے۔

جہاں تک "طائر القدس" کا دعویٰ ہے کہ یمن کا واقعہ مدینہ منورہ میں حل ہو گیا تو یہ اس کی طرف سے ایک ہولناک غلطی ہے۔ یمن میں جو کچھ ہوا (یعنی خمس کا تنازعہ) اس کے بعد علی ( رضی اللہ عنہ ) مدینہ میں نہیں بلکہ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے سوار ہوئے ۔ علی (رضی اللہ عنہ ) اور ان کے آدمیوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ حج کیا اور اسی دوران سپاہی علی (رضی اللہ عنہ ) کے بارے میں بڑبڑا رہے تھے، جس کی وجہ سے غدیر خم میں اعلان ہوا۔

"طائر القدس" سے مراد "وہابی/نواصب" پروپیگنڈہ ہے جس کا دعویٰ ہے کہ علی اور ان کے سپاہیوں کے درمیان جھگڑا غدیر خم سے ٹھیک پہلے ہوا تھا۔ ہم "طائر القدس" سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ شیخ مفید کو "نواصب" میں سے ایک مانتے ہیں؟ شیخ مفید نے اپنی مہاکاوی کتاب "کتاب الارشاد" میں یمن (علی اور ان کے سپاہیوں کے درمیان) کے تنازعہ کا ذکر اسی عنوان سے کیا ہے جس کا عنوان ہے "پیغمبر کی الوداعی زیارت اور غدیر خم میں اعلان"! ہم پڑھتے ہیں:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی الوداعی زیارت اور غدیر خم میں اعلان۔

خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ (علیہ السلام) کو اور آپ کے اہل و عیال کو یمن بھیجا تھا تاکہ ان کے سونے اور چاندی کا پانچواں حصہ ( خمس ) جمع کریں اور سینہ بند اور دیگر چیزیں جمع کریں۔ خدا کے رسول، خدا ان پر اور ان کے خاندان کو برکت دے، حج پر جانے اور ان فرائض کو انجام دینے کا فیصلہ کیا جن کا خدا نے حکم دیا تھا…

وہ، خدا ان پر اور ان کے اہل خانہ کو برکت دے، ذی القعدہ کے مہینے میں پانچ دن باقی رہ کر ان کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اس نے امیر المومنین (علیہ السلام) کو یمن سے حج پر جانے کے بارے میں لکھا تھا۔

اسی دوران امیر المومنین علیہ السلام ان سپاہیوں کے ساتھ یمن کی طرف روانہ ہوئے۔ اس کے پاس وہ دستاریں تھیں جو اس نے اہل نجران سے جمع کی تھیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل و عیال مدینہ سے راستے میں مکہ کے قریب پہنچ رہے تھے تو امیر المومنین علی علیہ السلام یمن سے راستے میں اس کے قریب تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل و عیال سے ملنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر سے آگے بڑھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعداد میں سے ایک کو ان پر چھوڑ دیا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جب وہ مکہ کو نیچے دیکھ رہا تھا۔ آپ (علی) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا اور آپ (علیہ السلام) کو بتایا کہ آپ (علی) نے کیا کیا اور جو کچھ انہوں نے (  خمس میں) جمع کیا تھا۔] اور یہ کہ وہ اس سے ملنے کے لیے فوج سے آگے بڑھے تھے۔ خدا کے رسول، خدا ان پر اور ان کے خاندان کو برکت دے، اس پر خوش ہوئے اور ان سے مل کر بہت خوش ہوئے…

امیر المومنین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الوداع کیا اور اپنے لشکر میں واپس آگئے۔ آپ (علیہ السلام) ان سے قریب ہی ملے اور دیکھا کہ انہوں نے سینہ کی تختیاں پہن رکھی ہیں جو ان کے پاس تھیں۔ اس پر آپ (علی) نے ان کی مذمت کی۔

"شرم کرو!" آپ (علیہ السلام) نے اس شخص سے فرمایا جسے اس نے ان پر اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ "جس چیز نے آپ کو ان کو سینہ کی پٹیاں دیں اس سے پہلے کہ ہم انہیں خدا کے رسول کے حوالے کریں، خدا ان پر اور ان کے اہل خانہ کو برکت دے؟ میں نے تمہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔"

"انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ اپنے آپ کو سجانے اور ان میں تقدیس کی حالت میں داخل ہونے دیں، اور پھر وہ مجھے واپس کر دیں گے،" اس نے جواب دیا۔

امیر المومنین علیہ السلام نے انہیں لوگوں سے اتار کر دوبارہ بوریوں میں ڈال دیا۔ اس کی وجہ سے وہ اس سے ناراض تھے۔ جب وہ مکہ آئے تو امیر المومنین علیہ السلام کے خلاف ان کی شکایات بہت زیادہ ہو گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اذان دینے کا حکم دیا: علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خلاف اپنی زبانیں (بولنا) بند کرو۔ وہ وہ ہے جو خدا کے مفاد میں سخت ہے، غالب اور اعلیٰ، نہ کہ اس کے دین میں دھوکہ دینے والا..."

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے مناسک ادا کیے تو آپ نے جانوروں کی قربانی میں علی رضی اللہ عنہ کو اپنا شریک بنایا۔ پھر مدینہ کی طرف واپسی کا سفر شروع کیا۔ (علی) اور مسلمان ان کے ساتھ گئے۔ وہ غدیر خم کے نام سے مشہور مقام پر پہنچے۔

(کتاب الارشاد، شیخ مفید، صفحہ 119-123)

علی رضی اللہ عنہ سے کون ناراض تھا ؟

اس کے بعد شیعہ پروپیگنڈہ کرنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف خالد رضی اللہ عنہ اور بریدہ رضی اللہ عنہ ہی علی رضی اللہ عنہ سے ناراض تھے ۔

طائر القدس، شیعہ اوف اہلبیت کے منتظم کا کہنا ہے:

کسی بھی حدیث میں خالد بن ولید اور بریدہ (یا ترمذی کے مطابق براء) کے علاوہ کسی تیسرے فرد کا ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ وہ شکایت کرنے والوں یا امام علی علیہ السلام کے خلاف اس بغض (نفرت) کی مہم شروع کرنے والے ہوں جیسا کہ اس واقعہ کے ذریعے نقل کیا گیا ہے۔

یہ "طائر القدس" کا ایک اور صریح جھوٹ ہے۔ درحقیقت، یہ تمام (یا کم از کم) علی کے سپاہی تھے جو اس سے ناراض تھے، صرف ایک یا دو سپاہی نہیں۔ شیخ مفید لکھتے ہیں:

امیر المومنین علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو لوگوں سے اتار کر دوبارہ بوریوں میں ڈال دیا۔ اس کی وجہ سے وہ اس سے ناراض تھے۔ جب وہ مکہ آئے تو امیر المومنین علیہ السلام کے خلاف ان کی شکایات بہت زیادہ ہو گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اذان دینے کا حکم دیا: علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خلاف اپنی زبانیں (بولنا) بند کرو۔ وہ وہ ہے جو خدا کے مفاد میں سخت ہے، غالب اور اعلیٰ، نہ کہ اس کے دین میں دھوکہ دینے والا..."

(کتاب الارشاد، شیخ مفید، صفحہ 121-122)

علی (رضی اللہ عنہ ) کے خلاف شکایات بہت زیادہ تھیں اور یہ "لوگ" تھے جو ناخوش تھے (ایک یا دو افراد نہیں)، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام لوگوں کو اذان دینے کا حکم دیا ۔ یہ واضح ہے کہ علی کے سپاہیوں کی اکثریت ان سے ناراض تھی کیونکہ اس نے انہیں خمس کی چھاتی پہننے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ لہٰذا، ایک یا دو افراد پر الزام لگانا غلط ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام سپاہیوں کو غصہ دلایا تھا، اور ہم کسی پر الزام لگانے سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، خاص کر چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بریدہ کو معاف کر دیا تھا۔خدا اس سے راضی ہو ) اور دیگر۔ تاہم سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ علی رضی اللہ عنہ پر ناراض تھے اور یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعلان کرنا پڑا۔ غدیر خم، علی (رضی اللہ عنہ) کو بری کرنا - علی (رضی اللہ عنہ ) کو اپنا جانشین نامزد کرنا نہیں۔

من گھڑت اضافے

سنی عوام کو بے وقوف بنانے کا عام شیعہ حربہ یہ ہے کہ پہلے یہ بیان کریں کہ غدیر خم کی حدیث بخاری اور اہل سنت کی سب سے معتبر کتابوں میں ہے (اکثر لمبے حوالوں سے سنیوں کو متاثر کرتی ہے) اور پھر وہ مختلف نسخوں کو مبہم سے نقل کرتے ہیں۔ اور غیر معتبر ذرائع جو غدیر خم کو صحیح کتابوں میں بیان کیے گئے اس سے بالکل مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔ لوگوں کو بے وقوف بنانے کے اس حربے کو "انجمن سے قبولیت" کہا جاتا ہے۔

درحقیقت حدیث میں صرف دو اضافے ہیں جو مستند مانے جاتے ہیں اور وہ بھی صرف بعض اہل علم کے نزدیک۔ تاہم بحث کے مقصد کے لیے ہم انہیں مستند تسلیم کریں گے۔ پھر یہ دونوں اضافے صحیحین میں نہیں ہیں بلکہ دوسری کتب میں متغیر روایات میں ہیں۔ جیسا کہ حدیث کا طالب علم جانتا ہے، حدیث کے مختلف درجات ہیں۔ جہاں تک حدیث غدیر خم کا تعلق ہے تو سب سے زیادہ صحیح وہی ہے جو صحیح بخاری میں ہے جیسا کہ اوپر نقل ہوا ہے۔ تاہم، دیگر مختلف ورژن ہیں جن میں دو اضافے ہیں:

1) پہلا اضافہ یہ ہے: "من کنت مولا فا علی مولا"۔ (جس کا میں مولا ہوں یہ علی بھی اس کا مولا ہے۔)

2) دوسرا اضافہ یہ ہے: "اللّٰہُمَّ وَلَیْنَ وَالْعَدِیْنِ" (اے اللہ جو اس سے دوستی رکھے اس سے دوستی کر اور جو اس سے دشمنی رکھے اس سے دشمنی کر۔)

پہلا اضافہ عام طور پر قبول کیا جاتا ہے اور دوسرا ضعیف ہے لیکن بعض اہل علم اسے مستند سمجھتے ہیں۔ جہاں تک کسی اور اضافے کا تعلق ہے تو یہ مستند کتابوں میں موجود نہیں ہیں اور "موضوع" یا من گھڑت ہیں۔ عام طور پر شیعہ اپنے دلائل کو ان پہلے دو اضافوں پر قائم کرنے پر راضی ہوتے ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی تردید کے بعد، وہ اکثر مبہم ذرائع کا سہارا لیتے ہیں تاکہ مزید اضافہ کریں جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کا قول۔ ( رضی اللہ عنہان کے وصی، خلیفہ، امام وغیرہ ہیں، یہ سب من گھڑت ہیں، اور تاریخی طور پر شیعہ من گھڑت حدیثیں بناتے رہے ہیں۔ شیعہ غدیر خم کے بارے میں مبہم حوالوں کی لمبی فہرستیں تیار کرنے کے قابل ہیں کیونکہ وہ خود غدیر خم کے حوالے سے بہت سی جعل سازیوں کے ذمہ دار ہیں۔

ہم پہلے ہی صحیح بخاری میں غدیر خم کا نسخہ دیکھ چکے ہیں کہ اس میں مولا کا اضافہ کیسے نہیں ہے۔ البتہ "مولا" کا یہ اضافہ حدیث کی اس قسم میں پایا جا سکتا ہے:

بریدہ بیان کرتے ہیں: میں نے علی کے ساتھ یمن پر حملہ کیا اور میں نے ان کے حصے سے سردی دیکھی۔ پس جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور ان پر تنقید کی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ بدل کر دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بریدہ، کیا میں مومنوں سے ان کی اپنی ذات سے زیادہ قریب نہیں ہوں؟ ' میں نے کہا: ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جس کا مولا ہوں، یہ علی بھی اس کا مولا ہے۔

(مسند احمد [v5/p347/#22995] صحیح سند کے ساتھ اور تمام ثقہ راویوں پر جن پر بخاری و مسلم نے اعتبار کیا ہے؛ النسائی سنن الکبری میں [v5/p45/#8145] ]؛ الحاکم ان المستدرک [v3/p119/#4578]؛ ابو نعیم؛ ابن جریر اور دیگر)

قدرے مختلف ورژن میں:

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے علی کے ساتھ یمن بھیجا اور میں نے ان کے حصے سے سردی دیکھی۔ جب میں واپس آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اٹھایا اور فرمایا: اے بریدہ! میں جس کا مولا ہوں یہ علی بھی اس کا مولا ہے۔‘‘

(سنن الکبری، ج5، ص130، #8466؛ اسی طرح کی روایت ابن ابی شیبہ کی مصحف میں موجود ہے [v6، ص374])

دوسری روایتوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہھم ولی من ولا و عدی من عداہ"، جس کا ترجمہ ہے: "اے اللہ، جو اس سے دوستی کرے اس سے دوستی کر اور جو اس سے دشمنی رکھے اس سے دشمنی کر۔ " بعض علماء نے اس قول کی صداقت پر شک کیا ہے، لیکن ہم یہاں اس دوسرے اضافے کو مستند تسلیم کریں گے۔

غدیر خم کی حدیث میں یہ صرف دو اضافے ہیں جو مستند سمجھے جاسکتے ہیں، اس لیے یہ صرف دو ہیں جن پر ہم غور کریں گے۔ شیعہ پروپیگنڈہ کرنے والے اکثر ضعیف اور غیر واضح ذرائع سے مختلف روایات کا اضافہ کرتے ہیں، لیکن یہ بحث کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ اکثر اوقات، ان حوالوں کی تصدیق کرنا ناممکن ہوتا ہے اور کئی بار ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا یا ڈرامائی طور پر سیاق و سباق سے ہٹ جاتا ہے۔ عجیب اور قدرے دل چسپ بات یہ ہے کہ سنی اکثر اوقات شیعہ حدیث کی سب سے مستند کتاب الکافی سے نقل کرتے ہیں، لیکن پھر بھی شیعہ ان حدیثوں کو دلیل کی بنیاد کے طور پر رد کر دیتے ہیں۔ اگر شیعوں کا رویہ اپنی سب سے مستند کتاب حدیث کی طرف ہے تو پھر شیعہ ہم سے یہ توقع کیوں رکھتے ہیں کہ وہ غیر معتبر اور غیر معتبر ذرائع سے روایتیں قبول کریں؟ کسی بھی صورت میں، منصفانہ ہونے کے لیے،

لفظ "مولا" کی تعریف

شیعہ کا دعویٰ ہے کہ یہاں لفظ "مولا" کا مطلب "آقا" ہے۔ اس لفظ کے اس غلط ترجمہ پر مبنی ہے کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ درحقیقت، لفظ "مولا" - بہت سے دوسرے عربی الفاظ کی طرح - کے متعدد ممکنہ تراجم ہیں۔ شیعہ عام آدمی یہ جان کر حیران رہ سکتا ہے کہ واقعی لفظ "مولا" کی سب سے عام تعریف دراصل "خادم" ہے نہ کہ "آقا"۔ ایک سابق غلام جو نوکر بن جاتا ہے اور جس کا کوئی قبائلی تعلق نہیں ہے اسے مولا کہا جاتا تھا، جیسے سلیم جسے سالم مولا ابی حذیفہ کہا جاتا تھا کیونکہ وہ ابو حذیفہ کا خادم تھا۔

لفظ "مولا" کی مختلف تعریفیں دیکھنے کے لیے صرف عربی لغت کھولنے کی ضرورت ہے۔ ابن الثیر کہتے ہیں کہ لفظ "مولا" کا استعمال دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل کے معنی میں کیا جا سکتا ہے: آقا، مالک، خیر خواہ، آزاد کرنے والا، مددگار، عاشق، حلیف، غلام، نوکر، بہنوئی، چچازاد بھائی، دوست، وغیرہ

اب ہم اس حدیث کا دوبارہ جائزہ لیتے ہیں:

میں جس کا مولا ہوں یہ علی بھی اس کا مولا ہے۔ اے اللہ جو اس سے دوستی رکھے اس سے دوستی کر اور جو اس سے دشمنی رکھے اس سے دشمنی کر۔

یہاں لفظ "مولا" سے مراد "آقا" نہیں ہے، بلکہ لفظ "مولا" کا بہترین ترجمہ "محبوب دوست" ہے۔ واضح ہے کہ یہاں مولا سے مراد محبت اور قربت ہے، خلافت و امامت نہیں۔ موالات (محبت) معادت (دشمنی) کے مخالف ہے۔ لفظ "مولا" کی یہ تعریف سیاق و سباق کی وجہ سے زیادہ معنی رکھتی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً فرماتے ہیں: "اے اللہ، جس سے دوستی کرے اس سے دوستی کر اور جس سے دشمنی رکھے اس سے دشمنی کر۔"

شیعہ اس بات کو ماننے سے انکار کر سکتے ہیں کہ یہاں مولا کا مطلب "محبوب دوست" ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا ترجمہ کسی اور طرح نہیں کیا جا سکتا جب ہم اس بات کو مدنظر رکھیں کہ دوسرا اضافہ اس سے دوستی کرنے کے بارے میں ہے، نہ کہ اس کے یا کسی چیز کے حاکم ہونے کے بارے میں۔ اس کی طرح. یہ حقیقت میں ناقابل یقین ہے کہ شیعہ اس کا ترجمہ خلیفہ اور امام سے کر سکتے ہیں جب کہ سیاق و سباق کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

الجزری نے النہایہ میں کہا:

حدیث میں لفظ مولا کثرت سے آیا ہے اور یہ ایک ایسا نام ہے جس کا اطلاق بہت سے لوگوں پر ہوتا ہے۔ یہ رب، مالک، آقا، احسان کرنے والے، غلام کو آزاد کرنے والے، حمایتی، دوسرے سے محبت کرنے والے، پیروکار، پڑوسی، چچا زاد بھائی سے مراد ہو سکتا ہے۔ پھوپھی)، حلیف، سسر، غلام، آزاد کردہ غلام، جس پر احسان کیا ہو۔ ان میں سے زیادہ تر معانی مختلف احادیث میں مذکور ہیں، لہٰذا اسے حدیث کے سیاق و سباق سے اس طرح سمجھنا چاہیے جس میں یہ ذکر کیا گیا ہے۔"

امام شافعی نے غدیر خم کی اس خاص حدیث میں مولا کے بارے میں فرمایا:

’’اس سے مراد اسلام کے بندھن (دوستی، بھائی چارے اور محبت) ہیں۔‘‘

اللہ قرآن میں فرماتا ہے:

پس آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ کافروں سے۔ تیرا ٹھکانہ آگ ہے۔ یہ تمہارا پیارا دوست (مولا) ہے اور بری پناہ گاہ ہے۔ (قرآن، 57:15)

روئے زمین پر کسی مترجم نے - حتیٰ کہ سخت ترین شیعہ نے بھی اس کا ترجمہ "امام" یا "خلیفہ" کے لیے نہیں کیا، کیونکہ اس سے آیت بے معنی ہو جائے گی۔ مذکورہ جہنم کی آگ کو کفار کے نزدیک ان کی انتہائی قربت کی وجہ سے مولا کہا گیا ہے اور مولا کی یہی تعریف حدیث غدیر خم میں بیان کی گئی ہے۔ مومنین)۔ درحقیقت لفظ "مولا" "ولایہ" سے آیا ہے نہ کہ "ولایت" سے۔ ولایت سے مراد محبت اور نصرت (مدد و مدد) ہے، اور ولایت کے ساتھ الجھنا نہیں ہے، جس سے مراد قیادت ہے۔

اللہ قرآن میں فرماتا ہے:

’’یہ اس لیے کہ اللہ مومنوں کا مولا (یعنی دوست، سرپرست وغیرہ) ہے اور اس لیے کہ کافروں کا کوئی مولا نہیں ہوگا۔‘‘ (قرآن، 47:11)

یہ آیت خلافت یا امامت کی طرف اشارہ نہیں کر رہی ہے بلکہ یہ ایک قریبی دوست کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ ورنہ آیت کا کوئی مطلب نہیں ہوگا۔ شیعہ مفسرین اس آیت کے دوسرے حصے کو نظر انداز کرتے نظر آتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’کافروں کا کوئی مولا نہیں ہوگا‘‘۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کا کوئی سردار نہیں ہوگا؟ بلاشبہ کافروں کا ایک لیڈر ہوتا ہے جیسا کہ آج امریکی کافروں کا لیڈر جارج بش ہے۔ یہ حقیقت خود قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے:

’’کفر کے سرداروں سے لڑو‘‘۔ (قرآن، 9:12)

’’اور ہم نے ان کو پیشوا بنایا جو آگ کی طرف بلاتے ہیں۔‘‘ (قرآن، 28:41)

اور اسی لیے جب اللہ کہتا ہے کہ ’’کافروں کے لیے ان کا کوئی مولا نہیں ہوگا‘‘، تو اس سے مراد انتہائی قربت کا محافظ ہے، نہ کہ ان کا کوئی رہنما نہیں۔ یہ آیت مولا کے معنی امام یا خلیفہ کے لیے ہرگز استعمال نہیں کر رہی ہے، بلکہ یہ ایک قریبی دوست کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

حدیث غدیر خم کی تفسیر اسی طرح کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے اور ان کے قریب رہنے کی تلقین کر رہے تھے۔ اور یہ بالکل وہی ہے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا (یعنی وہ علی کے پیارے دوست تھے)۔ درحقیقت عمر رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ کو اتنے پیارے تھے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ان (عمر رضی اللہ عنہ) سے کر دی۔ علی رضی اللہ عنہ نے تینوں خلفاء کے لیے وزیر اور قریبی معتمد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، تینوں خلفاء اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان باہمی محبت اور تعریف ایسی ہی تھی۔)۔ دوسرے لفظوں میں حدیث غدیر خم کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا، بلکہ یہ تھا کہ لوگ علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کرنا چھوڑ دیں۔ اور اس سے محبت کرنا۔

اللہ قرآن میں فرماتا ہے:

’’بے شک تمہارے مولا (پیارے دوست) اللہ اور اس کا رسول اور مومنین ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔ جو لوگ اللہ، اس کے رسول اور مومنین کی طرف (دوستی کے لیے) رجوع کرتے ہیں، وہ جان لیں کہ اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔ (قرآن، 5:55-56)

قرآن کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام مومنین کو مولا کہا ہے۔ پھر شیعہ یہ کیسے دعویٰ کر سکتے ہیں کہ لفظ مولا سے مراد خلافت یا امامت ہے، جب تک کہ تمام مومنین اچانک خلیفہ یا امام نہ ہو جائیں؟ (اس پر شیعہ یہ اشتعال انگیز دعویٰ کریں گے کہ اس آیت میں صرف علی کی طرف اشارہ ہے، باوجود اس کے کہ یہ جمع میں مومنین کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ بلاشبہ اس آیت میں بہت سے صالح مومنین کی طرح علی بھی شامل تھے، لیکن یہ صرف اور صرف اسی کی طرف اشارہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ واضح طور پر جمع میں ہے۔) درحقیقت، یہاں لفظ "مولا" سے مراد محبت، انتہائی قربت اور مدد ہے۔ درحقیقت قرآن مجید میں ایک بھی مثال ایسی نہیں ہے جس میں امامت یا خلافت کے لیے لفظ "مولا" استعمال ہوا ہو۔

قرآن مجید کی ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"قیامت کے دن کوئی بھی مولا اپنے مال کو نفع نہیں دے گا۔"

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ "قیامت کے دن کوئی لیڈر اپنے لیڈر کو فائدہ نہیں دے گا"؟ یقیناً یہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بلکہ ہم قرآن کی اس آیت میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دو آدمیوں سے مراد ہے اور دونوں کو مولا کہتا ہے۔ اگر مولا سے مراد لیڈر ہے تو ان میں سے صرف ایک ہی دوسرے کا رہنما ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر مولا سے مراد پیارا دوست ہے تو یقیناً وہ ایک دوسرے کے مولا ہو سکتے ہیں اور ان دونوں کو مولا کہنا زبانی طور پر درست ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے۔

حدیث میں لفظ "مولا" محبوب دوست کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ آئیے صحیح البخاری کا جائزہ لیں (جلد 4، کتاب 56، نمبر 715)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"قبیلہ قریش، الانصار، جہینہ، مزینہ، اسلم، غفار اور اشجع میرے پیارے مددگار (موالی) ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں ہے۔"

کیا یہاں لفظ "مولا" سے مراد خلافت یا امامت ہے؟ کیا یہ مختلف قبائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ یا امام ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ یہ زیادہ منطقی معنی رکھتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی قربت اور محبت میں ہیں اور اس لیے انہیں موالی (مولا کی جمع) کہا جاتا ہے۔

یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حدیث غدیر خم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "میرے بعد" نہیں کہا۔ انہوں نے کوئی ٹائم فریم دیے بغیر صرف اتنا کہا کہ ’’میں جس کا مولا ہوں، یہ علی بھی اس کا مولا ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حقیقت بے وقت ہے۔ اگر رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا یہ مطلب ہوتا کہ "میں جس کا لیڈر ہوں، یہ علی بھی اس کا لیڈر ہے"، جس کا مطلب ہمارے شیعہ بھائی ہیں، تو امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہوتا۔ ایک ہی سرزمین پر بیک وقت دو خلیفہ نہیں ہو سکتے اور بہت سی حدیثیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) دو خلیفہ ہونے کے خلاف تنبیہ کرتا ہے۔ "میرے بعد" کے الفاظ کے بغیر، یہ ایک بہت ہی مبہم جملہ بن جائے گا جو بہت زیادہ فتنے کا سبب بنے گا۔ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے یہ مراد نہیں لی اور نہ کسی صحابی نے اسے اس طرح سمجھا۔ دوسری طرف ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ مولا (پیارے دوست) کا ہونا بالکل ممکن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ان کے قریب ہو سکتے ہیں اور ساتھ ہی علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت اور قربت رکھ سکتے ہیں۔

اگر رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے علی (رضی اللہ عنہ ) کو نامزد کرنا تھا ، تو آپ اس قسم کے مبہم الفاظ کیوں استعمال کریں گے؟ "میں جس کا مولا ہوں، یہ علی بھی اس کا مولا ہے" جیسی مبہم بات کہنے کے بجائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ واضح کیوں نہیں فرمایا جیسے کہ "میں علی کو اپنے مرنے کے بعد خلیفہ نامزد کرتا ہوں؟ یا "علی میرے جانشین اور میرے بعد مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہیں۔" یقیناً اس سے معاملہ صاف ہو گیا ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام پہنچانے میں واضح رہنے کا حکم دیا گیا تھا اور کسی بھی صحابی نے غدیر خم میں آپ کے بیان کی یہ تشریح نہیں کی کہ علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا گیا تھا۔

اس پر شیعہ پروپیگنڈہ کرنے والا متضاد دعویٰ کرے گا، یوں:

شیعہ چیٹ ممبر کہتے ہیں:

پیغمبر اکرم (ص) نے حقیقت میں واضح طور پر کہا کہ امام علی (ع) ان کے جانشین اور اگلے خلیفہ ہیں اور بہت سی دوسری واضح باتیں لیکن یہ حدیث صحابہ اور اہل سنت نے نقل نہیں کی کیونکہ وہ امام علی کی امامت کا انکار کرنا چاہتے تھے۔ (ع) صحابہ اور اہل سنت نے مولا حدیث کو حذف نہیں کیا کیونکہ امام علی علیہ السلام کی امامت کا انکار کرنے کے لیے اس کی غلط تشریح کی جا سکتی ہے۔

بعض لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جان بوجھ کر مبہم الفاظ استعمال کیے ورنہ لوگ ان کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر رکھ دیتے۔ اگر اس نے زیادہ سیدھی اور واضح اصطلاح استعمال کی ہوتی تو صحابہ کو معلوم ہوتا کہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ امام علی علیہ السلام کی امامت کے بارے میں ہے اور وہ اسے نکال دیتے۔ درحقیقت، دوسری شیعہ حدیثوں میں، پیغمبر (ص) نے حقیقت میں یہ واضح طور پر کہا ہے کہ امام علی (ع) جانشین اور اگلے خلیفہ ہیں لیکن اہل سنت ان کو رد کرتے ہیں۔

یہ دلیل دراصل پوری بحث کو تسلیم کر رہی ہے۔ یہاں شیعہ کہتے ہیں:

1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات کو اہل سنت نے خارج کر دیا۔
2) غدیر خم کی حدیث علی (رضی اللہ عنہ ) کے مولا ہونے کے بارے میں اس لیے حذف نہیں کی گئی کہ یہ امامت یا خلافت کے معاملے میں سیدھی اور واضح نہیں تھی۔

اچھا تو کیا ساری بحث ختم نہیں ہوئی؟ کیا وہ شیعہ نہیں تھے جو اس وقت یہ بحث کر رہے تھے کہ حدیث غدیر خم علی (رضی اللہ عنہ ) کی امامت اور خلافت کی واضح اور قطعی دلیل ہے؟ درحقیقت یہ دلیل اس حقیقت کو تسلیم کر رہی ہے کہ غدیر خم کی حدیث امامت/خلافت کے بارے میں واضح طور پر بات نہیں کرتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ علی رضی اللہ عنہ مؤمنین کے مولا ہیں کسی بھی طرح یہ ثابت نہیں کرتے کہ علی رضی اللہ عنہ کا خلیفہ ہونا تھا۔ درحقیقت اگر یہ واضح ہوتا تو صحابہ نے اسے نقل نہ کیا ہوتا، ٹھیک ہے؟ لہٰذا، ہم اس طرز فکر کی بنیاد پر دیکھتے ہیں کہ حدیث غدیر خم سے امامت علی علیہ السلام کے بارے میں واضح نہیں ہو سکتا تھا۔(رضی اللہ عنہ )، ورنہ انہی صحابہ سے روایت نہ ہوتی جس نے آپ کی خلافت کو غصب کرنے کی کوشش کی۔ درحقیقت غدیر خم کی اس حدیث کی کبھی یہ تشریح نہیں کی گئی کہ علی رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے بلکہ یہ صرف علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کے حوالے سے تھی ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی تعریف کرتے ہیں تو اس سے وہ شخص خود بخود امت کا خلیفہ نہیں بن جاتا۔ جہاں تک اس معاملے میں شیعہ حدیث کا تعلق ہے تو وہ ہمارے لیے غیر متعلقہ ہیں کیونکہ جب حدیث کی بات آتی ہے تو شیعہ جھوٹے اور بڑے پیمانے پر گھڑنے والے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

نتیجہ

شیعہ دعووں کے برعکس غدیر خم کی حدیث کا خلافت یا امامت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے بجائے، پیغمبر صرف علی کے حکم کے تحت لوگوں کے ایک گروہ کی تردید کر رہے تھے جو علی پر سخت الفاظ میں تنقید کر رہے تھے ۔ اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تاکید کی کہ علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تمام مسلمانوں کے مولا (پیارے دوست) تھے۔ ان پر اور ان کے اہل و عیال پر رحمت نازل فرما )۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کے طور پر نامزد کرنا چاہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( اللہ ان پر اور ان کے اہل و عیال کو سلامتی عطا فرمائے)مکہ اور باقی مسلمانوں سے 250 کلومیٹر دور صحرا کے وسط میں مدینہ واپسی کے سفر کے بجائے مکہ میں اپنے الوداعی خطبہ میں ایسا کیا ہوتا۔

قرآن کے ساتھ گیم کھیلنا

Al Islam.org کا کہنا ہے کہ:

اس جگہ (غدیر خم) میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی:

"اے رسول! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اسے پہنچا دو۔ اور اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تم نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اور اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا..." (قرآن 5:67)

مندرجہ بالا آیت کا آخری جملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پیغمبر (ص) اس پیغام کو پہنچانے میں اپنی قوم کے رد عمل کا خیال رکھتے تھے لیکن اللہ نے انہیں مطلع کیا کہ فکر نہ کریں کیونکہ وہ اپنے رسول کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔

یہ شیعہ کا بار بار دہرایا جانے والا دعویٰ ہے، یعنی یہ آیت (5:67) علی کے خلیفہ کی نامزدگی کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔ دوسرے لفظوں میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علی کی امامت اور خلافت کے اعلان پر صحابہ کے ہولناک ردعمل کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔

جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، شیعہ پروپیگنڈا کرنے والوں کو قرآن کے ساتھ لیگو کھیلنے اور قرآن کو اپنے ذاتی جیگس پزل کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں ہے۔ درحقیقت، آیت 5:67 علی کی نامزدگی کے سلسلے میں ممکنہ طور پر نازل نہیں ہو سکتی تھی، یعنی اس لیے کہ اس کا رخ اہل کتاب (یعنی یہود و نصاریٰ) کی طرف تھا۔ شیعہ آیت کو سیاق و سباق سے ہٹ کر، اس سے پہلے آنے والی آیت اور اس کے بالکل بعد آنے والی آیت پر غور کیے بغیر۔ آئیے ایک نظر ڈالیں:

[5:66] اور اگر یہ (یہود و نصاریٰ) تورات اور انجیل اور جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو مان لیتے تو اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے کھاتے۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اعتدال پسند ہیں لیکن ان میں سے بہت سے بد اخلاق ہیں۔

[5:67] اے رسول! اس پیغام کو سنا دو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ نے اس کے پیغام کو پورا نہیں کیا اور نہ سنا۔ اللہ آپ کو ان لوگوں سے محفوظ رکھے گا (جن کا مطلب فساد ہے)۔ کیونکہ اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔

[5:68] کہو: اے اہلِ کتاب (یعنی یہود و نصاریٰ)! جب تک تورات اور انجیل اور جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اس پر عمل نہ کر لیں آپ کسی نیکی کی پیروی نہیں کرتے۔ اور جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں اضافہ کرے گا۔ پس تم کافر لوگوں پر غم نہ کرو۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آیت سے پہلے اور بعد والی آیت اہل کتاب کے بارے میں بات کر رہی ہے، اور اسی تناظر میں آیت 5:67 نازل ہوئی، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین دلایا گیا کہ آپ یہودیوں سے نہ ڈریں۔ یا عیسائیوں کو اور یہ کہ وہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) واضح طور پر اسلام کا پیغام پہنچائیں جو یہودیت اور عیسائیت پر برتر ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو آیت 5:67 میں بتایا گیا ہے کہ اسے ان لوگوں سے نہیں ڈرنا چاہیے جن کا مطلب فساد ہے، اور اگلی ہی آیت (5:68) میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسلام کا پیغام صرف "انہیں بے حیائی اور کفر میں اضافہ کرے گا۔" یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہم لوگوں کے ایک ہی گروہ کے بارے میں بات کر رہے ہیں یعنی اہل کتاب میں سے کفار جن کا مطلب فساد کرنا ہے اور جو بے حیائی اور کفر پر اڑے ہیں۔

درحقیقت، قرآن کا وہ پورا حصہ اہل کتاب کا حوالہ دے رہا ہے، جو آیت 5:59 سے شروع ہو کر 5:86 تک جا رہا ہے۔ آئیے ذیل کی آیات کو دوبارہ پیش کرتے ہیں:

5.59 کہو: اے اہل کتاب (یعنی یہود و نصاریٰ)! کیا تم ہم پر کوئی عیب پاتے ہو سوائے اس کے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو کچھ ہم پر نازل کیا گیا اور جو کچھ پہلے نازل کیا گیا اور تم میں سے اکثر فاسق ہیں؟
[5:60] کہو: کیا میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ کی طرف سے اس سے بھی بدتر عذاب ہے؟ (بدتر ہے وہ) جس پر اللہ نے لعنت کی اور اس پر اپنا غضب نازل کیا، اور جس میں سے بندر اور سور بنائے، اور وہ جس نے شیطان کی خدمت کی۔ یہ اپنی جگہ بدتر اور سیدھے راستے سے زیادہ گمراہ ہیں۔
[5:61] اور جب وہ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ اور بے شک وہ کفر کے ساتھ آتے ہیں اور بے شک اس کے ساتھ نکلتے ہیں۔ اور اللہ خوب جانتا ہے جو انہوں نے چھپا رکھا ہے۔
5.62 اور تم ان میں سے بہتوں کو دیکھو گے کہ گناہ میں جلدی کرتے ہیں اور حد سے گزر جاتے ہیں اور حرام کی کمائی کھاتے ہیں۔ بے شک وہ برا ہے جو وہ کرتے ہیں۔
[5.63] اہلِ علم اور علمائے کرام انہیں گناہ کی بات کہنے اور ناجائز حاصل شدہ چیزوں کو کھانے سے کیوں منع نہیں کرتے؟ یقیناً وہ جو کام کرتے ہیں وہ بری ہے۔
[5:64] اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں بیڑیاں ڈال دی جائیں گی اور ان پر لعنت کی جائے گی جو وہ کہتے ہیں۔ بلکہ اس کے دونوں ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ اور جو کچھ آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ یقیناً ان میں سے بہت سے لوگوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ کرے گا۔ اور ہم نے ان کے درمیان قیامت تک دشمنی اور بغض ڈال دیا ہے۔ جب بھی وہ جنگ کے لیے آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اسے بجھا دیتا ہے اور وہ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
5|65|اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ضرور ان کی برائیوں پر پردہ ڈال دیتے اور انہیں نعمتوں کے باغوں میں داخل کرتے۔
[5:66] اور اگر وہ تورات اور انجیل اور جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس پر عمل کرتے تو اپنے اوپر سے اور اپنے پاؤں کے نیچے سے کھاتے۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اعتدال پسند ہیں لیکن ان میں سے بہت سے بد اخلاق ہیں۔
[5:67] اے رسول! اس پیغام کو سنا دو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے۔ اگر تم ایسا نہ کرتے تو تم نے اس کے پیغام کو پورا نہیں کیا اور نہ سنا۔ اللہ آپ کو ان لوگوں سے محفوظ رکھے گا (جن کا مطلب فساد ہے)۔ کیونکہ اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔
[5:68] کہو اے اہلِ کتاب! جب تک تورات اور انجیل اور جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اس پر عمل نہ کر لیں آپ کسی نیکی کی پیروی نہیں کرتے۔ اور جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں اضافہ کرے گا۔ پس تم کافر لوگوں پر غم نہ کرو۔
5|69|بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی اور صابی اور نصاریٰ ہیں جو بھی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
5.70 یقیناً ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان کی طرف رسول بھیجے۔ جب بھی ان کے پاس کوئی رسول وہ چیز لے کر آیا جس کی خواہش ان کے دلوں میں نہ تھی تو ان میں سے بعض کو جھوٹا کہا اور بعض کو قتل کیا۔
5.71 اور انہوں نے خیال کیا کہ کوئی مصیبت نہ آئے گی تو اندھے اور بہرے ہو گئے۔ پھر اللہ نے ان پر رحم کیا، لیکن ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہو گئے۔ اور اللہ خوب دیکھ رہا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔
5.72 یقیناً وہ لوگ کافر ہیں جنہوں نے کہا کہ بیشک اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے۔ اور مسیح نے کہا: اے بنی اسرائیل! اللہ کی بندگی کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ بیشک جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو اللہ نے اس پر باغ حرام کر دیا اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔ اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔
5.73 یقیناً وہ لوگ کافر ہیں جنہوں نے کہا کہ بیشک اللہ تینوں میں سے تیسرا ہے۔ اور ایک معبود کے سوا کوئی معبود نہیں اور اگر وہ اپنے قول سے باز نہ آئے تو ان میں سے کافروں کو دردناک عذاب پہنچے گا۔
5.74 تو کیا وہ اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے؟ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
5.75 مسیح ابن مریم تو ایک رسول ہے۔ اس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔ اور اس کی ماں سچی عورت تھی۔ وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ دیکھو ہم ان کے لیے کیسے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں، پھر دیکھو وہ کس طرح منہ پھیرے جاتے ہیں۔
5.76 کہو کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہارے لیے نہ نقصان کا اختیار رکھتا ہے اور نہ نفع کا؟ اور اللہ - وہ سننے والا جاننے والا ہے۔
5.77 کہو: اے اہلِ کتاب! اپنے دین میں بے جا حد سے تجاوز نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو پہلے گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور راہ راست سے بھٹک گئے۔
5.78 بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی۔ یہ اس لیے تھا کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔
5.79 وہ ایک دوسرے کو ناپسندیدہ کاموں سے منع نہیں کرتے تھے۔ یقیناً وہ برا تھا جو انہوں نے کیا تھا۔
5.80 تم ان میں سے بہتوں کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں۔ یقیناً برا ہے جو ان کے نفسوں نے ان کے لیے آگے بھیجا ہے کہ اللہ ان سے ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔
5.81 اور اگر وہ اللہ پر اور نبی پر اور جو کچھ اس پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان لاتے تو انہیں دوست نہ بناتے مگر! ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔
5|82|یقینا تم ایمان والوں کے لیے سب سے زیادہ دشمنی میں یہودیوں اور مشرکوں کو پاؤ گے اور یقیناً تم ایمان والوں سے دوستی میں سب سے زیادہ قریب پاؤ گے جو کہتے ہیں : ہم عیسائی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں پادری اور راہب ہیں اور اس لیے کہ وہ تکبر سے کام نہیں لیتے۔
5.83 اور جب وہ سنتے ہیں جو رسول پر نازل کیا گیا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ ان کی آنکھیں اس حقیقت کی وجہ سے آنسوؤں سے بہہ رہی ہیں جس کو وہ پہچان چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے، تو ہمیں گواہوں کے ساتھ لکھ لے۔
5.84 اور ہمارے پاس کیا (وجہ) ہے کہ ہم اللہ پر اور جو حق ہمارے پاس آیا ہے اس پر ایمان نہ لائیں، حالانکہ ہم اس بات کی شدید خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ داخل کرے۔
[5:85] پس اللہ نے ان کے کہنے کے بدلے میں انہیں باغات سے نوازا جن میں نہریں بہتی ہیں جو ان میں ہمیشہ رہیں گی۔ اور یہ ان لوگوں کا بدلہ ہے جنہوں نے (دوسروں کے ساتھ) نیکی کی۔
5.86 اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہی شعلے کے ساتھی ہیں۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ تمام آیات یہود و نصاریٰ کے بارے میں ہیں، اور یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ شیعہ جس طرح چاہیں قرآن کو کاٹ کر پیسٹ کر سکتے ہیں۔ یہ اللہ کے کلام میں ہیرا پھیری ہے اور بہت بڑا گناہ ہے جو کفر کے راستے پر لے جاتا ہے۔ اور پھر بھی آپ دیکھیں گے کہ شیعہ عالمگیر طور پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ آیت غدیر خم کے خطاب اور علی (رضی اللہ عنہ ) کی نامزدگی کے حوالے سے نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ یہی وہ طوالت ہے جس پر شیعہ پروپیگنڈہ کرنے والے قرآن و حدیث کو توڑ مروڑ کر یہ خیالی قصہ تخلیق کریں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا تھا ۔

Al Islam.org کا کہنا ہے کہ:

اس جگہ یہ آیت نازل ہوئی:

"اے رسول! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دو۔ اور
اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تم نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اور
اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا..." (قرآن 5:67)۔

بعض سنی حوالہ جات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ قرآن کی مذکورہ آیت
کا نزول غدیر خم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب سے پہلے ہوا تھا:

(1) تفسیر الکبیر ، بذریعہ فخر الرازی ، آیت 5:67، v12، صفحہ 49-50 کی تفسیر کے تحت،
ابن عباس، براء ابن
عازب اور محمد ابن علی کے حکام پر روایت ہے۔
(2) اصباب النزول، از الواحیدی، ص50، حکام نے
عطیہ اور ابو سعید خدری سے روایت کی ہے۔
(3) نزول القرآن، حافظ ابو نعیم نے
ابو سعید خدری اور ابو رافع سے روایت کی ہے۔
(4) الفصول المحمۃ، از ابن سباغ المالکی المکی، ص 24
(5) دور المنتھر، از الحافظ السیوطی، آیت 5:67 کی تفسیر کے تحت۔
(6) فتح القادر، الشوکانی، آیت 5:67 کی تفسیر کے تحت
(7) فتح البیان، حسن خان، آیت 5:67 کی تفسیر کے تحت
(8) شیخ محی الدین النووی، ذیل میں۔ تفسیر آیت 5:67
(9) السیرۃ الحلبیہ، از نور الدین الحلبی، v3، ص301
(10) عمداۃ القاری فی شرح صحیح البخاری، از العینی
(11) تفسیر الحلبی نسابوری، ج 6، ص 194
(12) اور بہت کچھ جیسے ابن مردویہ وغیرہ۔

شیعہ پروپیگنڈہ کرنے والے دھوکے باز ہیں۔ ان کو بیان کرنے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔ وہ اپنے آدھے اقتباسات کی وجہ سے بدنام ہو چکے ہیں۔ یہاں شیعہ بارہ ماخذ بتاتے ہیں۔ آئیے ایک ایک کرکے ان کو دیکھیں۔ پہلی تفسیر امام رازی کی تصنیف الکبیر ہے۔ شیعہ سنیوں کو یہ ظاہر کر کے بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے امام رازی کا عقیدہ تھا کہ یہ آیت 5:67 غدیر خم میں نازل ہوئی ہے۔ درحقیقت امام رازی نے اپنی کتاب میں اس کے بالکل برعکس کہا ہے!

امام رازی نے ذکر کیا ہے کہ مختلف لوگوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ آیت مختلف مواقع پر نازل ہوئی ہے۔ وہ دس امکانات کی فہرست دیتا ہے کہ آیت کب نازل ہو سکتی تھی۔ یہ بات مشہور ہے کہ علماء کا انداز یہ تھا کہ اہم ترین قول کو پہلے اور سب سے اہم قول کو آخر میں درج کیا جائے۔ فریب خوردہ شیعہ کو یہ جاننا چاہیے کہ امام رازی نے غدیر خم کا ذکر کیا ہے لیکن مطلق آخری کے طور پر، یعنی ان کی نظر میں یہ سب سے کمزور نظریہ تھا۔

اب ہم امام رازی کی لفظی تفسیر پیش کریں گے:

علمائے تفسیر نے نزول کے کئی اسباب بیان کیے ہیں:

(1) پہلی یہ کہ یہ آیت رجم اور انتقام کے واقعہ میں نازل ہوئی جیسا کہ اس سے پہلے یہودیوں کے قصہ میں آیا ہے۔

(2) دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ یہودیوں کی تنقید اور دین کا مذاق اڑانے کی وجہ سے نازل ہوئی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی تھی، اس طرح یہ آیت نازل ہوئی۔

(3) تیسرا: جب انتخاب والی آیت نازل ہوئی جو کہ "اے نبی! اپنی بیویوں سے کہو:" (یعنی 33:28)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت ان تک اس خوف سے نہیں پہنچائی کہ کہیں وہ اس دنیا کو چن لیں، چنانچہ یہ (5:67) نازل ہوئی۔

(4) چوتھی: یہ زید اور زینب بنت جحش کے بارے میں نازل ہوئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جس نے یہ دعویٰ کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اس پر نازل کیا گیا ہے اس کا کچھ حصہ چھپایا ہے، تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے رسول اللہ! (پیغام) کا اعلان کرو" اور جو کچھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا تھا اس کا کچھ حصہ چھپانے کے لیے تو وہ اپنے اس قول کو چھپاتے: "اور تم اپنے دماغ میں وہ بات چھپاتے ہو جسے اللہ نے ظاہر کرنا تھا" [33:37]

(۵) پنجم: یہ جہاد کے حوالے سے نازل ہوا، کیونکہ منافقین اس سے نفرت کرتے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جہاد کی ترغیب دینے سے باز رہتے تھے۔

(6) چھٹا: جب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: ’’تم ان کو برا نہ کہو جنہیں یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، ورنہ وہ اپنی نادانی میں اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں‘‘۔ [6:108]، رسول نے ان کے معبودوں کو گالی دینے سے روکا، چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی، اور آپ نے فرمایا: "اعلان کرو" یعنی ان کے معبودوں کے بارے میں عیوب/تنقید کا اور اسے نہ چھپاؤ، اللہ ان سے تمہاری حفاظت کرے گا۔

(۷) ساتویں: یہ مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے نازل ہوئی ہے، کیونکہ آخری حج میں آپ نے حج کے احکام و مناسک بیان کرنے کے بعد فرمایا: کیا میں نے (تمہیں) اس کا اعلان نہیں کیا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: اے اللہ میرا گواہ رہنا۔

(۸) آٹھویں: روایت ہے کہ ایک سفر میں آپ نے ایک درخت کے نیچے آرام کیا اور اس پر اپنی تلوار لٹکا دی، جب ایک اعرابی سو رہا تھا تو اس نے تلوار چھین لی اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیری حفاظت کون کرے گا؟ میں؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ"، تو اعرابی کا ہاتھ کانپ گیا، تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی، اور اس نے اپنا سر درخت سے ٹکرا دیا، یہاں تک کہ اس کا دماغ پھٹ گیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور بتایا کہ وہ اسے لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔

(9) نواں: وہ قریش، یہود و نصاریٰ سے ڈرتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے اس کے دل سے یہ خوف نکال دیا۔

(10) دسویں: یہ آیت علی کی فضیلت پر زور دینے کے لیے نازل ہوئی ہے اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: جس کا مجھے مولا ہے اس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ اس کا دوست بن جو اس سے دوستی کرے اور اس کا دشمن ہو جو اس کا دشمن ہو۔ اس کے فوراً بعد عمر رضی اللہ عنہ ان سے ملے اور کہا: اے ابن ابی طالب! میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اب آپ میرے مولا اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہیں۔ یہ قول عبداللہ بن عباس، براء بن عازب اور محمد بن علی سے منقول ہے۔

آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان روایات کے متعدد ہونے کے باوجود اس آیت کی تشریح کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہود و نصاریٰ کی مکارانہ چالوں سے حفاظت کی یقین دہانی کرائی اور حکم دیا کہ وہ ان سے ڈرے بغیر اعلان کر دیں۔ . اس لیے کہ اس آیت سے پہلے اور اس آیت کے بعد کا سیاق یہود و نصاریٰ سے مخاطب ہے۔ (دوسری آیات کے) درمیان میں کسی آیت کو پھینکنا اس سے پہلے اور اس کے بعد والی آیت سے اجنبی بنا دینا ممکن نہیں۔

(ماخذ: تفسیر الکبیر، از فخر الرازی، آیت 5:67 کی تفسیر کے تحت، جلد 12، صفحہ 49-50)

دوسرے لفظوں میں امام رازی نے دس امکانات کا ذکر کیا لیکن انہوں نے کہا کہ واحد قوی قول یہ ہے کہ یہ آیت یہود و نصاریٰ کے بارے میں نازل ہوئی تھی اسی لیے انہوں نے اس امکان کو پہلے ذکر کیا۔

کیا تعجب کی بات ہے کہ فریبی شیعہ انسائیکلو پیڈیا نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ امام رازی نے دس امکانات کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ واحد معقول پہلا ہے؟ اس کے بجائے شیعہ آدھے اقتباسات پر انحصار کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں جو تقیہ اور فریب کو پسند کرتے ہیں۔ ہم سنی عوام کو متنبہ کرتے ہیں کہ ان کے حوالہ جات کی طویل فہرستوں سے متاثر نہ ہوں۔ جب بھی شیعہ حوالہ جات کی فہرست دیتے ہیں لیکن کوئی صحیح حوالہ نہیں دیتے ہیں تو یہ ایک اچھی علامت ہے کہ وہ متن کو اسی طرح مروڑ رہے ہیں جیسے وہ قرآن کو توڑ مروڑتے ہیں اور اس کے ساتھ لیگو کھیلتے ہیں۔

جہاں تک ابن ابی حاتم کی روایت کا تعلق ہے تو اس کا سلسلہ یہ ہے:

ہم سے میرے والد نے بیان کیا : ہم سے عثمان بن خرزاد نے بیان کیا : ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا : ہم سے علی ابن ابیس نے بیان کیا : ہم سے الاعمش نے عطیہ العوفی سے ابو سعید خدری سے ۔

اسناد ضعیف ہے۔ اگر ہم راویوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے:

(1) اسماعیل ابن زکریا الکوفی

ابو یحییٰ نے احمد بن حنبل سے روایت کی ہے کہ وہ ضعیف ہے۔

النسائی نے جرح و تعدیل میں کہا: "وہ مضبوط نہیں ہے۔"

(2) علی ابن ابیس

یحییٰ بن معین نے کہا: وہ کچھ نہیں ہے۔ اور ایسا ابراہیم بن یعقوب الجزقانی، النسائی اور ابو الفتح الازدی نے کہا ہے۔

ابن حبان نے کہا: اس کی غلطیاں اس حد سے زیادہ تھیں کہ وہ چھوڑنے کا مستحق تھا۔

(3) الاماش

وہ مدلس ہے۔

(4) عطیہ العوفی:۔

احمد نے کہا: وہ کمزور ہے۔

نسائی نے کہا: وہ ضعیف ہے۔

ابن حبان کہتے ہیں: اس نے ابو سعید سے حدیثیں سنی اور جب وہ فوت ہوا تو کلبی کے پاس بیٹھا کرتے تھے، چنانچہ اگر کلبی کہتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں فلاں کہا تو وہ اسے حفظ کر لیتے۔ اسے ابو سعید کی کنیت دی اور ان سے روایت کی۔ پس اگر اس سے کہا جائے کہ تم سے یہ کس نے بیان کیا؟ وہ کہے گا: مجھے ابو سعید نے بیان کیا ہے۔ تو وہ (یعنی پوچھنے والے) یہ خیال کریں گے کہ ان کی مراد ابو سعید الخدری ہے، جب کہ حقیقت میں ان کی مراد کلبی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: "اس کی روایتیں لکھنا جائز نہیں سوائے اس کے کہ ان پر تعجب کیا جائے۔"

اور پھر انہوں نے خالد الاحمر سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: مجھے کلبی نے بیان کیا: عطیہ نے مجھ سے کہا: میں نے آپ کو ابو سعید کی کنیت دی ہے تو میں کہتا ہوں: ابو سعید نے ہم سے بیان کیا۔

چنانچہ اس روایت میں ابو سعید الکلبی ہو سکتے ہیں نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی، یعنی ابو سعید الخدری۔

(5) ابو سعید: محمد ابن السائب الکلبی

السیوطی نے اتقان میں ابن عباس کی تفسیر کے حوالے سے کہا ہے: "اور اس کی زنجیروں میں سب سے کمزور الکلبی کا طریقہ ہے جو ابو صالح سے ابن عباس سے ہے۔ اور اگر نوجوان محمد بن مروان السعدی کی روایت کو شامل کیا جائے تو یہ جھوٹ کا سلسلہ ہے اور اکثر الثلابی اور الواحیدی اس سے روایت کرتے ہیں۔

یاقوت الحماوی نے تفسیر الطبری کے معجم الادبہ میں کہا: "اور اس نے (طبری) نے کسی غیر معتبر تفسیر کا حوالہ نہیں دیا، کیونکہ اس نے اپنی کتاب میں محمد ابن الثانی کی کتاب سے کوئی چیز شامل نہیں کی۔ سائب الکلبی، نہ مقاتل بن سلیمان اور نہ ہی محمد بن عمر الواقدی، کیونکہ وہ ان کے خیال میں شک پیدا کرتے ہیں، اور اللہ بہتر جانتا ہے۔"

بخاری نے اپنی تاریخ الکبیر میں ذکر کیا ہے: "محمد ابن السائب ابو النذر الکلبی کو یحییٰ ابن سعید نے ترک کر دیا تھا۔" ہم سے ابن مہدی اور علی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، وہ سفیان سے، مجھے کلبی نے بیان کیا، مجھ سے ابو صالح نے بیان کیا، میں نے جو کچھ تم سے کہا وہ جھوٹ ہے۔

النسائی نے کہا: اس کا اعتبار نہیں ہے اور اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔

احمد بن ہارون کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل سے تفسیر الکلبی کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا: "جھوٹ۔" میں نے کہا: کیا میرے لیے اس کا جائزہ لینا جائز ہے؟ اس نے کہا: ’’نہیں۔‘‘

نتیجہ: اس روایت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

شیعہ کی طرف سے نقل کردہ دیگر کتب میں بھی یہی سلسلہ موجود ہے، جیسے کہ امام واحدی النیسابوری کی اصباب النزول:

ہم سے ابو سعید محمد بن علی الصفار نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے الحسن بن احمد المخلدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے محمد بن حمدون بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے محمد بن ابراہیم الخلوطی نے بیان کیا، انہوں نے کہا: : ہم سے حسن بن حماد سجادہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے علی بن عباس نے الاعمش اور ابو حجاب نے عطیہ کی سند سے، انہوں نے ابی سعید خدری کی سند سے بیان کیا، انہوں نے کہا: یہ آیت ( اے رسول جو کچھ آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دو) غدیر خم کے دن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر نازل ہوا۔

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر دار المنتظر میں ہمیں اسی سلسلہ کا حوالہ ملتا ہے:

#6609 ہم سے ابی عثمان بن ہرزاد نے بیان کیا، وہ اسماعیل بن زکریا سے، انہوں نے علی بن عباس سے، وہ العامش بن حجاب سے، انہوں نے عطیہ العوفی سے، انہوں نے ابی سعید الخدری سے، انہوں نے کہا: یہ آیت تھی۔ نازل ہوئی اے رسولؐ، جو کچھ آپ پر آپ کے رب کی طرف سے علی بن ابی طالب میں نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دو اور

فتح القدیر میں امام شوکانی کا بھی یہی حال ہے۔

بات یہ ہے کہ اصل میں کوئی بھی ذریعہ شیعہ دلیل کو ثابت نہیں کرتا۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو آپ نے شیعہ کو مکمل اقتباسات فراہم کرتے ہوئے دیکھا ہوگا، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے ان کے دلائل کی کمزوری کھل جائے گی۔ اس معاملے کو ختم کرنے کے لیے، کوئی معتبر سنی ذریعہ نہیں کہتا کہ یہ آیت غدیر خم میں نازل ہوئی تھی۔

جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ غدیر خم کا واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب اس وقت پیش آیا جب پورا عرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں مسلمانوں کے زیر تسلط ہو چکا تھا۔ اس میں نجران کے عیسائی اور یمن کے یہودی شامل تھے۔ پیغمبر کو اعلان سے ڈرنے کی کیا بات ہے جب کہ ان کے پیروکار سو گنا بڑھ چکے ہیں؟ اس آیت کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عروج کے وقت نازل ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بلکہ یہ آیت عہد نبوی کے بہت پہلے مرحلے پر نازل ہوئی تھی جب اسلام ابھی تک اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہا تھا اور بہت سے دشمنوں میں گھرا ہوا تھا۔

Al Islam.org کا کہنا ہے ۔

قرآنی آیت 5:3 کا نزول

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر ختم ہونے کے فوراً بعد قرآن کی درج ذیل آیت نازل ہوئی:

’’آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور میں مطمئن ہو گیا کہ تمہارا دین اسلام ہے۔ (قرآن 5:3)

مندرجہ بالا آیت واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اسلام پیغمبر کے بعد قیادت کے معاملے کو صاف کئے بغیر مکمل نہیں تھا اور دین کی تکمیل پیغمبر کے فوری جانشین کے اعلان سے ہوئی تھی۔

ماخذ: http://www.al-islam.org/ghadir/incident.htm

یہ ایک اور شیعہ من گھڑت ہے: قرآنی آیت 5:3 ("آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے...") عرفات کی چوٹی پر خطبہ الوداع کے اختتام پر نازل ہوئی تھی۔ یہ حقیقت صحیح بخاری، صحیح مسلم، السنن وغیرہ میں مروی حدیث میں ہے:

"یہ (یعنی آیت 'آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا...') جمعہ کے دن عرفات کے دن نازل ہوئی تھی۔

آخرکار یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ الوداعی تھا اور اس لیے یہ گمان کرنا فطری ہے کہ دین پر مہر لگانے کے لیے یہی مناسب جگہ تھی۔ درحقیقت اسی وجہ سے ہم اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ غدیر خم ممکنہ طور پر امامت علی (رضی اللہ عنہ ) سے تعلق رکھتا ہے۔ آیت ’’آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا…‘‘ پہلے ہی نازل ہو چکی تھی اور اس کے بعد ایمان میں کوئی اور چیز شامل نہیں ہو سکتی تھی۔ اگر شیعہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ اس کے بعد امامت علی (رضی اللہ عنہ ) جیسی اہم چیز کا اضافہ کیا گیا ہے تو اس چیز کے بارے میں قرآن میں یہ آیات کہاں ہیں؟

علی (رضی اللہ عنہ ) کی نامزدگی کے بارے میں قرآن مکمل طور پر خاموش کیوں ہے ؟ یقیناً اللہ تعالیٰ قرآن میں اس کا تذکرہ کرتا اگر یہ خدائی حکم ہوتا؟ ایسا کیوں ہے کہ اللہ نے آیت 5:67 اور 5:3 تمام علی (رضی اللہ عنہ ) اور ان کی امامت کے بارے میں نازل کی، لیکن اللہ نے ان آیات میں صرف علی کا نام شامل کرنے اور مسلمانوں پر واضح کرنے کا انتخاب نہیں کیا کہ علی (ع) کیا مسلمانوں کے اگلے الہٰی مقرر کردہ رہنما تھے؟ اس معاملے میں مزید الجھن پیدا کرنے کے لیے، ان آیات میں سے کوئی بھی امامت یا خلافت کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ واقعی حیرت انگیز ہے کہ شیعہ ہمیشہ یہ کہتے ہیں اور اس قرآنی آیت سے مراد علی (رضی اللہ عنہ) کی امامت ہے۔) اور پھر بھی اللہ کبھی خود ایسا نہیں کہتا۔

تردید

شیعہ چیٹ ممبر کہتے ہیں:

غدیر خم ایک مرکزی مقام تھا، پانی کا ایک ذریعہ جو آخری جگہ کی نمائندگی کرتا تھا جہاں مختلف مقامات کے لوگ اپنے گھر جانے کے لیے الگ الگ راستوں پر تقسیم ہونے سے پہلے اکٹھے تھے۔ یہ حج کا آخری لمحہ تھا جب واقعی سب موجود تھے۔

غدیر خم صرف ان مسلمانوں کے لیے مرکزی مقام تھا جو شمال کی طرف جاتے تھے، یا تو مدینہ کی طرف جاتے تھے یا جو مدینہ سے ہوتے ہوئے شام جیسے مقامات پر جاتے تھے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بات کی ہے، غدیر خم مکہ اور مدینہ کے درمیان میں واقع ہے۔ غدیر خم مکہ سے 250 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ حقیقت میں شمال کی طرف جانے والے مسلمانوں کے اس حصے کے لیے ایک عام گڑھا ہو سکتا ہے، لیکن یہ دوسری سمتوں، جیسے کہ مکہ کے جنوب سے طائف یا یمن کی طرف جانے والے مسلمانوں کے لیے مرکزی مقام نہیں ہے۔ .

کیا یہ منطقی معنی رکھتا ہے کہ مکہ کے لوگوں کو حج کے بعد مکہ واپسی کے سفر پر غدیر خم سے گزرنے کی کوئی ضرورت محسوس ہوگی؟ کیا وہ پہلے ہی اپنے آبائی شہر مکہ میں نہیں ہیں؟ مکہ کے مسلمان مکہ میں اپنا حج ختم کر چکے ہوں گے، اور مدینہ کے مسلمان غدیر خم کے مقام پر ان مکہ کے مسلمانوں کی صحبت کے بغیر جن کو وہ مکہ میں پیچھے چھوڑ گئے تھے، اپنے آبائی شہر کی طرف روانہ ہو چکے ہوں گے۔ یہی بات اہل یمن، طائف وغیرہ کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے، درحقیقت غدیر خم کی تقریر میں ان تمام بڑے مسلم شہروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، اور یہ بہت عجیب بات ہے: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا؟ علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کرنا چاہتے تھے تو یقیناً وہ یہ کام مکہ، طائف، یمن وغیرہ کے تمام مسلمانوں کے سامنے کرتے۔

درحقیقت شیعہ علمائے کرام اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں اور اسی وجہ سے وہ عوام کے سامنے اصرار کرتے ہیں کہ غدیر خم وہ جگہ ہے جہاں تمام مسلمان گھر جانے سے پہلے گئے تھے اور اسی لیے غدیر خم کا خطاب سب کے لیے تھا۔ مسلمانوں. یہ "حقیقت" صرف ان جاہل عوام کے لیے قابل اعتبار ہے جو نقشہ نکالنے اور یہ معلوم کرنے کی پرواہ نہیں کرتے کہ غدیر خم کہاں ہے۔ ایک بار جب کوئی شخص نقشہ نکالتا ہے، تو یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ شیعہ کے دعوے کتنے غلط ہیں۔ درحقیقت غدیر خم میں مسلمانوں کا صرف ایک حصہ موجود تھا (یعنی مدینہ کی طرف جانے والے)۔

یہ مکہ سے غدیر خم کی دوری کی بنیاد پر ہے کہ ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ بات زیادہ قابل اعتماد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ایک مخصوص گروہ (یعنی مدینہ کے سپاہیوں کو جو یمن کی طرف روانہ کیے گئے تھے) کی اصلاح کر رہے تھے۔ مسلمانوں کے عام عوام سے خطاب کرنے کے بجائے۔ غدیر خم کی تقریر بنیادی طور پر اس گروہ سے تھی جو علی (رضی اللہ عنہ ) پر تنقید کر رہا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے آخری حج کے خطبہ میں شامل نہیں کیا تھا۔ مسلم عوام کے سامنے۔

ثقلین مسلم ایسوسی ایشن کا کہنا ہے:

عام فہم کی اپیل:
اللہ تعالیٰ جو سب کچھ جانتا ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اولاد کے اعلیٰ کردار کو اس طرح بیان کرتا ہے:

’’یقیناً تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے۔ اس کے لیے آپ کا تکلیف میں پڑنا، ضرورت سے زیادہ آپ کا احترام کرنا بہت برا ہے۔ مومنوں پر مہربان ہے..." [9:128]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت رحم دل اور رحم دل تھے۔ اس نے ہمیشہ اپنے پیروکاروں کی بھلائی اور راحت کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، اور وہ کبھی بھی دوسروں پر کوئی اضافی بوجھ یا مشکل ڈالنے کے لیے نہیں جانا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ ایک بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز قصر کرنے کے لیے مشہور تھا۔ اس بات کا اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ پیغمبر، جسے "عالمین کے لیے رحمت" بنا کر بھیجا گیا تھا، نے اپنے پیروکاروں کو صحرائے عرب کی تپتی ہوئی گرمی میں بغیر کسی سایہ کے کئی گھنٹے بیٹھنے کا حکم دیا تھا، صرف یہ اعلان کرنے کے لیے کہ '' علی ابن ابی طالب ان کے "دوست" تھے۔

ماخذ: http://www.utm.thaqalayn.org/files/ghadeer.pdf

شیعہ چیٹ ممبر کہتے ہیں:

آپ کے خیال میں محمد نے 60,000 لوگوں کو صحرا کے وسط میں کیوں روکا تھا اس سے پہلے کہ وہ جانتا تھا کہ وہ مرنے والا ہے؟ یہ کہنا کہ "جانتے ہو، علی میرا دوست ہے؟!"

درحقیقت یہاں کے شیعہ نے ایک ایسا نکتہ اٹھایا ہے جو ان کے خلاف کام کرتا ہے، ان کے لیے نہیں۔ ہم بالکل یہی سوال پوچھنا چاہیں گے کہ آخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بے حسی کے ساتھ مکہ والوں کو 250 کلومیٹر دور غدیر خم کے پانی کے سوراخ تک جانے پر مجبور کیوں کیا جو صحرا کے وسط میں واقع ہے؟ کیوں واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے؟) طائف کے لوگوں کو بالکل مخالف سمت میں سفر کرنے پر مجبور کرنا (شمال بخلاف جنوب)؟ طائف میں رہنے والے شیعہ آج مکہ جاتے ہیں، حج مکمل کرتے ہیں اور پھر طائف واپس آتے ہیں۔ وہ غدیر خم تک 250 کلومیٹر کا سفر کرنے اور پھر مکہ اور پھر جنوب میں طائف تک مزید 250 کلومیٹر کا سفر کرنے کے لیے مڑنا ضروری نہیں سمجھتے ہیں، یہ ایک ایسا چکر ہے جس نے سفر کے اضافی وقت میں چند ہفتوں کا اضافہ کیا ہو گا!

اس کے بجائے، زیادہ امکان یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کی طرف روانہ ہونے والے مسلمان غدیر خم کے پانی کے سوراخ پر رک گئے تاکہ اپنے آپ کو تازہ دم کریں۔ یہ وہیں پر تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دوبارہ علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کرتے ہوئے سنا ، باوجود اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل خانہ کو سلامتی عطا فرمائیں ۔ کے بارے میں انہیں پہلے ہی خبردار کیا تھا۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر ان سب سے خطاب کیا اور انہیں علی رضی اللہ عنہ کو لے جانے کی تاکید کی ۔ایک پیارے دوست کے طور پر۔ واضح رہے کہ مدینہ کی طرف جانے والے مسلمان عموماً غدیر خم کے مقام پر رک جاتے ہیں کیونکہ یہ پانی کا سوراخ تھا۔ مدینہ کے راستے میں یہ ایک گڑھا پڑاؤ تھا جہاں مسلمان کچھ دیر آرام کریں گے اور اسی آرام کے دوران مسلمانوں کے ایک گروہ کی طرف سے علی (رضی اللہ عنہ ) پر تنقید کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خطاب کیا۔ .

ثقلین مسلم ایسوسی ایشن کا کہنا ہے:

مسلمانوں کی طرف سے تعریف

اپنے خطاب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک سے کہا کہ وہ علی علیہ السلام کی بیعت کریں اور مبارکباد دیں۔ علی کو مبارکباد دینے والے سب سے پہلے مسلمانوں میں عمر اور ابوبکر بھی شامل تھے، جنہوں نے کہا: شاباش، اے ابو طالب کے بیٹے! آج آپ تمام مومن مردوں اور عورتوں کے سردار (مولا) بن گئے ہیں۔

[مسند احمد ابن حنبل میں، تفسیر الکبیر از فخر الدین الرازی، کتاب الولایہ از طبری، اور بہت سے دوسرے]

یہ عام اور کلاسیکی شیعہ پروپیگنڈہ ہے۔ وہ ایسی باتیں کہیں گے جیسے "یہ آپ کی اپنی کتابوں میں ہے" اور پھر ہاتھ سے ہماری کتابوں کا حوالہ دیں گے لیکن اس دوران ان میں اپنے معنی داخل کریں گے۔ نصوص میں صرف یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو تمام مسلمانوں کے لیے مولا بننے پر مبارکباد دی، نہ کہ عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کی۔ اللہ تعالیٰ )۔ علی رضی اللہ عنہ کو ان کے آدمیوں کی طرف سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور اسی ماحول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کا دفاع کیا اور مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ علی رضی اللہ عنہ سے نفرت نہ کریں ۔خدا اس سے راضی ہو ) بلکہ اس سے محبت کرو۔

درحقیقت شیعہ دلیل کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اگر عمر (رضی اللہ عنہ ) اور باقی مسلمانوں نے علی (رضی اللہ عنہ ) سے بیعت کی اور کہا کہ "آج آپ سردار بن گئے ہیں ..." تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ یہاں کلیدی الفاظ "آج" اور "آپ بن گئے" ہیں ، یعنی علی (رضی اللہ عنہ ) اس وقت مولا ہیں۔ اگر ہم مولا کی تعریف امام یا خلیفہ کو لیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے قائد علی (رضی اللہ عنہ ) ہیں نہ کہ حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم))۔ یقیناً مسلمانوں کے ایک ہی وقت میں دو حکمران نہیں ہو سکتے اور یہ بات سنی اور شیعہ دونوں حدیثوں میں بیان ہوئی ہے۔ درحقیقت اگر عمر رضی اللہ عنہ واقعی علی رضی اللہ عنہ کو اگلے خلیفہ کے طور پر نامزد ہونے پر مبارکباد دے رہے ہوتے تو وہ کچھ اس طرح کہتے: "شاباش علی ابن ابی طالب! آپ عنقریب تمام مسلمانوں کے خلیفہ بن جائیں گے۔ یا ہو سکتا ہے: " شاباش علی ابن ابی طالب! آپ کو ایک دن تمام مسلمانوں کے خلیفہ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ لیکن اس نے یقینی طور پر یہ نہیں کہا ہوگا: "مبارک ہو… آج آپ لیڈر بن گئے ہیں۔"

عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے دی گئی اس مبارکباد کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ تمام مسلمانوں کے پیارے دوست بننے پر علی رضی اللہ عنہ کو مبارکباد دے رہے تھے۔ ماحول ایسا تھا کہ لوگ علی (رضی اللہ عنہ ) کو تنقید اور تکلیف پہنچا رہے تھے، چنانچہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ انہیں تسلی دینے کے لیے تشریف لے گئے اور ان سے نرم کلامی کی۔ باشعور قارئین نوٹ کریں گے کہ عمر (رضی اللہ عنہ ) علی (رضی اللہ عنہ ) کی تعریف میں بہت مہربان تھے ، اور یہ شیعہ تمثیل کے بالکل خلاف ہے جو عمر (رضی اللہ عنہ ) اور علی (رضی اللہ عنہ) کے درمیان تنازعہ کی تصویر پیش کرتا ہے۔ (اللہ ان سے راضی ہو ، عمر رضی اللہ عنہ کو علی رضی اللہ عنہ کا مظلوم قرار دے کر ۔ کیا ایسا لگتا ہے کہ یہ الفاظ کسی ایسے شخص نے کہے ہیں جو شیعہ کے دعوے کے مطابق علی رضی اللہ عنہ سے نفرت کرتا ہے ؟

اگر ہم یہاں لفظ "مولا" کا ترجمہ "رہنما" کے لیے کرتے ہیں تو عمر رضی اللہ عنہ اتنی محبت سے علی رضی اللہ عنہ کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنی بیعت کیوں کریں گے ؟ شیعوں نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت 5:67 نازل کی تھی تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی طرف سے انتقام کے خوف کے بغیر علی رضی اللہ عنہ کو نامزد کرنے کی ترغیب دی جائے۔

"اے رسول! اس پیغام کو سنا دو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے۔ اگر تم ایسا نہ کرتے تو تم نے اس کے پیغام کو پورا نہیں کیا اور نہ سنا۔ اللہ آپ کو ان لوگوں سے محفوظ رکھے گا (جن کا مطلب فساد ہے)۔ کیونکہ اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔" (قرآن، 5:67)

شیعہ کہتے ہیں کہ "یہ لوگ (جن کا مطلب فساد ہے)" سے مراد صحابہ کرام، خاص طور پر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ اگر یہ آیت صحیح معنوں میں عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور اگر عمر رضی اللہ عنہ واقعتاً علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے تو پھر عمر رضی اللہ عنہ کیوں؟ کیا علی رضی اللہ عنہ کو ان کی نامزدگی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ، ہم ایسے شخص سے یہ توقع کریں گے کہ وہ بیعت کرے گا، اگر نہیں تو۔ لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ کو مبارکباد دیتے ہیں۔) مولا ہونے کے حوالے سے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر لفظ "مولا" سے رہنما مراد ہوتا تو عمر رضی اللہ عنہ اس پر مبارکباد نہ دیتے۔ عمر (رضی اللہ عنہ ) کی یہ تعریف لوگوں تک پھیلی ہوئی تھی، تو عمر (رضی اللہ عنہ ) کیوں علی (رضی اللہ عنہ ) پر یہ احسان کریں اگر وہ واقعی ان کے خلاف تھے یا اگر "مولا" سے مراد واقعی ہے؟ لیڈر"؟ عمر (رضی اللہ عنہ ) نے "مولا" کو "پیارے دوست" سے تعبیر کیا نہ کہ "رہنما" - اور یہی معنی اس وقت کے لوگ سمجھتے تھے۔

ثقلین مسلم ایسوسی ایشن کا کہنا ہے:

مولا کا مفہوم

لفظ "مولا" کی تشریح میں مکاتب فکر کا اختلاف ہے۔ عربی میں دنیا "مولا" کے کئی معنی ہیں۔ اس کا مطلب آقا، دوست، غلام، یا کلائنٹ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر کسی لفظ کے ایک سے زیادہ معنی ہوں تو اس کے حقیقی مفہوم کو جاننے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قرینہ اور سیاق و سباق کو دیکھا جائے۔ اس حدیث میں بے شمار "انجمن" ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ موقع کے مناسبت سے واحد معنی "آقا" ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

ماخذ: http://www.utm.thaqalayn.org/files/ghadeer.pdf

ہم یقینی طور پر اس شیعہ مصنف سے متفق ہیں کہ لفظ "مولا" کے بہت سے مختلف معنی ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ وہ کم از کم اتنا ہی تسلیم کرتے ہیں۔ ہماری امید ہے کہ شیعہ حضرات کم از کم بحث میں اس حقیقت کو تسلیم کریں گے، بجائے اس کے کہ اس خیال کے حوالے سے کہ مولا کا مطلب صرف "آقا" ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ہم نے مذکورہ بالا ایک شیعہ پروپیگنڈہ مضمون سے نقل کیا ہے، لیکن ہم بلاشبہ اس تمہید سے متفق ہیں، یعنی کہ:

1) مولا کے بہت سے مختلف معنی ہیں۔
2) ہمیں اس سیاق و سباق کو دیکھنا چاہیے جس میں لفظ کے معنی معلوم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔

تاہم، ہم اس مضمون سے متفق نہیں ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ یہاں مولا کا ترجمہ "ماسٹر" کے طور پر کیا جانا ہے۔ آئیے اس مضمون کی نکتہ نظر سے تردید کرتے ہیں، انشاء اللہ:

SalamIran.org کا کہنا ہے کہ:

اس کے علاوہ وہ بات بھی ہے جو غدیر خم کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر فرمایا گیا تھا۔ کمیونٹی خطبہ سننے کے لیے جمع تھی (جس میں اس نے پوچھا:

’’کیا میں تم پر تم سے زیادہ حاکم (اولاء) کے لیے موزوں نہیں ہوں؟‘‘

"جی ہاں"،

انہوں نے جواب دیا.

پھر اس نے اپنی تقریر میں بغیر کسی رکاوٹ کے ان سے ترتیب وار بات کی:

’’جس کا میں مولا ہوں، علی بھی اس پر حاکم ہیں۔‘‘

ثقلین مسلم ایسوسی ایشن کا کہنا ہے ۔
پہلا: وہ سوال جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعلان سے پہلے پوچھا تھا: ’’کیا میں تم پر اس سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا جتنا تم پر ہے؟‘‘ جب انہوں نے کہا: "ہاں، ضرور،" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر اعلان فرمایا: "جس کا میں مولا ہوں۔ علی اس کا مولا ہے۔ بلا شبہ، اس اعلان میں لفظ "مولا" کا وہی معنی ہے جو "اولا" (آپ پر زیادہ اختیار رکھنے والا) ہے۔

ماخذ: http://www.utm.thaqalayn.org/files/ghadeer.pdf

بلا شبہ، نہیں۔ اولا اور مولا دو مختلف الفاظ ہیں! اپنے آپ کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

’’کیا میں تم پر اولیٰ کے لیے تم سے زیادہ مناسب نہیں ہوں؟‘‘

اور علی رضی اللہ عنہ کا بیان کرتے ہوئے ، اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اور ان کے اہل خانہ کو سلام کیا:

میں جس کا مولا ہوں یہ علی بھی اس کا مولا ہے۔

اگر کچھ بھی ہے تو الفاظ میں یہ اچانک تبدیلی شیعہ دعووں کی مکمل نفی کرتی ہے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف یہ کہنا چاہیے تھا کہ علی رضی اللہ عنہ لوگوں کے اولا ہیں، لیکن اس کے بجائے آپ مولا کہنے کے بہت زیادہ خواہش مند تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے فرماتے ہیں کہ اللہ کو لوگوں پر اختیار ہے، پھر فرمایا کہ وہ خود لوگوں پر اختیار رکھتا ہے، لیکن پھر اچانک مولا بدل کر علی رضی اللہ عنہ کے لیے لفظ "مولا" استعمال کیا ۔ حالانکہ اس نے اللہ اور اپنے لیے لفظ "اولا" استعمال کیا تھا۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل و عیال ) نے کہا کہ آپ کو مذکورہ مومنین پر اختیار حاصل تھا تاکہ وہ آپ کی بات سنیں اور علی رضی اللہ عنہ سے دوستی کریں جیسا کہ آپ کی خواہش تھی۔ علی رضی اللہ عنہ کے حکم کے تحت مسلمان آپ سے نفرت کرتے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے انہیں علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے لگے۔) اور اسے ایک پیارے دوست کے طور پر لیں۔ اس سے مشابہت یہ ہے کہ اگر کوئی مافیو کسی نانبائی کو نقصان پہنچانے والا تھا، لیکن وہ نانبائی مافیا ڈان کا اچھا دوست نکلا۔ تو مافیا ڈان مافیو سے پوچھتا ہے: "کیا تم میرے ساتھ وفادار ہو اور کیا تم میرے حکم کی تعمیل کرتے ہو؟" مافیوسو نے اثبات میں جواب دیا۔ تو مافیا ڈان کہتا ہے: "اگر تم میرا حکم مانو تو اس نانبائی کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ یہ نانبائی میرا اچھا دوست ہے اور اگر آپ میرے اچھے دوست ہیں تو آپ کو بھی اس نانبائی سے دوستی کرنی چاہیے۔

ایسا لگتا ہے کہ شیعہ تنکے کو پکڑ کر لفظ "مولا" میں امامت یا خلافت کے معنی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنا دعویٰ قائم کرنے کے لیے، وہ قرآنی آیات مستعار لیں گے جو بالکل غیر متعلقہ موضوعات پر ہیں۔ جو کچھ بھی اچھا لگتا ہے وہ شیعہ کے لیے کام کر سکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی سچا ہو۔ یہاں شیعہ چاہتے ہیں کہ ہم صرف یہ مان لیں کہ اولا وہی ہے جو مولا ہے۔ شیعہ یہ دعویٰ کرنے سے صرف ایک قدم دور ہیں کہ علی (رضی اللہ عنہ ) کا ولی ہونا ضروری ہے کیونکہ الفاظ "علی" اور "ولی" بہت ملتے جلتے ہیں۔

ثقلین مسلم ایسوسی ایشن کا کہنا ہے:

دوسری: درج ذیل دعا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعلان کے فوراً بعد کہی: ’’اے اللہ! اس سے محبت کرو جو علی سے محبت کرے اور علی کے دشمن سے دشمن ہو ۔ اس کی مدد کرو جو علی کی مدد کرے اور اس کو چھوڑ دے جو علی کو ترک کرے۔

اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن علی کو ایک ذمہ داری سونپی گئی تھی جو اپنی فطرت سے بعض لوگوں کو اپنا دشمن بنا لے گی۔ اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے اسے مددگاروں اور حامیوں کی ضرورت ہوگی۔ کیا کبھی دوستی کو آگے بڑھانے کے لیے مددگاروں کی ضرورت ہوتی ہے؟

ماخذ: http://www.utm.thaqalayn.org/files/ghadeer.pdf

Al Islam.org کا کہنا ہے کہ:

واقعہ غدیر سے متعلق احادیث کی جھلکیاں

’’جس کا میں مولا رہا ہوں، یہ علی اس کا مولا ہے۔ اے رب! جو اس سے دوستی کرے اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے اس سے دشمن بن جا۔‘‘

مضمون کے شیعہ مصنف نے واضح طور پر کہا ہے کہ "مولا" کا مطلب جاننے کے لیے ہمیں سیاق و سباق کے اشارے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اور وہ ہمیں اگلا جملہ دکھاتا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "اے اللہ! جو اس سے دوستی کرے اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے اس سے دشمن بن جا۔‘‘

یہ شیعوں کے دعووں کے خلاف ایک عظیم حجت (ثبوت) ہے! استعمال شدہ لفظ "دوست" یا "محبت" ہے جس کا مطلب ہے کہ یہاں مولا ایک "محبوب دوست" کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں مولا سے مراد محبت اور قربت ہے، خلافت و امامت نہیں۔ موالات (محبت) معادت (دشمنی) کے مخالف ہے۔ لفظ "مولا" کی یہ تعریف سیاق و سباق کی وجہ سے زیادہ معنی رکھتی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً فرماتے ہیں: "اے اللہ، جس سے دوستی کرے اس سے دوستی کر اور جس سے دشمنی رکھے اس سے دشمنی کر۔"

اس کا ترجمہ کسی اور طریقے سے کیسے کیا جا سکتا ہے جب ہم اس بات کو مدنظر رکھیں کہ دوسرا اضافہ اس سے دوستی کرنے کے بارے میں ہے، نہ کہ اس کے یا اس جیسی کوئی چیز۔ یہ حقیقت میں ناقابل یقین ہے کہ شیعہ اس کا ترجمہ خلافت اور امامت سے کر سکتے ہیں جب کہ سیاق و سباق کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ بات اس سے بھی زیادہ ناقابل یقین ہے کہ شیعہ "ثبوت" پیش کر سکتے ہیں جو درحقیقت ان کے اپنے دلائل کے خلاف ثبوت ہے!

اس حصے کے لیے:

ثقلین مسلم ایسوسی ایشن کا کہنا ہے ۔

اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن علی کو ایک ذمہ داری سونپی گئی تھی جو اپنی فطرت سے بعض لوگوں کو اپنا دشمن بنا لے گی۔ اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے اسے مددگاروں اور حامیوں کی ضرورت ہوگی۔

یہ محض شیعہ قیاس اور قیاس ہے۔ شیعہ تخیل کی کوئی حد نہیں ہے اور وہ (شیعہ) متن میں حیرت انگیز چیزیں پڑھ سکتا ہے۔ یہ تقریباً ایسا ہی ہے جیسے شیعہ کے پاس کوئی خاص طاقت ہے یا شاید سپر چشمیں ہیں جن سے وہ صرف وہی پڑھ سکتا ہے جو ان خطوط کے درمیان ہے جسے عام انسان نہیں پڑھ سکتا، اور یہی چشموں کا وہ جوڑا ہے جو وہ دونوں قرآن مجید پڑھتے وقت استعمال کرتا ہے۔ آیات اور حدیث شاید مریخ کے اجنبی حملہ کرنے والے تھے اور وہ علی رضی اللہ عنہ سے نفرت کریں گے ، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا! اور دیکھو، لفظ "ایلین" میں بھی لفظ "علی" ہے!

اس شیعہ قیاس اور قیاس کی کوئی ضرورت نہیں جب کہ ہم پہلے ہی جان چکے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے بہت سے دشمن کیوں تھے۔ اس بارے میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں کہ کس طرح علی رضی اللہ عنہ نے اپنے سپاہیوں کو ان کا مال غنیمت واپس لے کر ناراض کیا تھا اور یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کر رہے تھے ۔ بدامنی کے اس ماحول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کا دفاع کرنا چاہا اور ان لوگوں کو تاکید کی کہ وہ علی رضی اللہ عنہ سے دوستی کریں کیونکہ علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی جانی چاہیے۔ پوری امت مسلمہ کی طرف سے، جیسا کہ آج تک تمام اہلسنت علی (رضی اللہ عنہ ) سے محبت کرتے ہیں۔

جہاں تک اس مضحکہ خیز خیال کا تعلق ہے کہ دوست مددگار نہیں ہیں، ہم حیران ہیں کہ شیعہ مصنف کے ایسے کون سے دوست ہیں؟ دوستی کا ایک بہت اہم حصہ مدد کرنا، قرض دینا وغیرہ کے گرد گھومتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں فرمایا کہ مسلمانوں کو اپنے بھائیوں، دوستوں، پڑوسیوں وغیرہ کی مدد کرنی چاہیے۔

ثقلین مسلم ایسوسی ایشن کا کہنا ہے:

تیسرا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلان کہ: قریب ہے کہ مجھے (اللہ کی طرف سے) بلایا جائے گا اور میں اس پکار کا جواب دوں گا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی وفات کے بعد مسلمانوں کی قیادت کے انتظامات کر رہے تھے۔

یہ کیسے واضح ہے؟ یہ بالکل واضح نہیں ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں نہیں فرمایا ؟ شیعہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ترجمان کیوں بننا پڑتا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد فلاں فلاں ہے حالانکہ آپ نے فلاں فلاں کہا تھا؟ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ سکتے تھے کہ میں مرنے والا ہوں اس لیے مجھے اس بات کی فکر ہے کہ میرا جانشین کون ہوگا اور اسی لیے میرے بعد علی کو خلیفہ کے لیے نامزد کریں۔ اس کے بجائے ہمیں شیعوں کا اندازہ لگانا اور اس پر بھروسہ کرنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہی ہیں۔) کا مطلب واقعی کہنا تھا، اور ہم سب جانتے ہیں کہ شیعہ تخیل کتنا تخلیقی ہے۔

شیعہ کے اس دعوے کی مکمل نفی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے اوپر اپنے خطبہ الوداع میں کچھ ایسا ہی ارشاد فرمایا اور اپنی تقریر کا آغاز یوں فرمایا:

"اے لوگو، مجھے توجہ دلاؤ، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد میں پھر کبھی تمہارے درمیان رہوں گا یا نہیں۔" (بیہقی)

اور اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تقریر میں مسلمانوں کی قیادت کا بالکل ذکر نہیں کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ہر بات کو اس حقیقت کے ساتھ پیش کر رہے تھے کہ وہ مرنے والے ہیں، اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ قیادت کی بات کر رہے تھے۔ درحقیقت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے بعد اپنے خاندان کے بارے میں فکر مند تھے۔ یہ ایک عام انسانی جذبات اور پریشانی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ فکر ہو گی کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے بچوں، بیوی یا قریبی رشتہ داروں کا کیا بنے گا۔ جب لوگ بستر مرگ پر ہوتے ہیں تو یہ ایک عام پریشانی ہوتی ہے۔ اور یہ پریشانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں) میں اضافہ کیا گیا تھا کیونکہ کچھ مسلمان تھے جو اس کے کزن کو تنقید اور (جذباتی طور پر) تکلیف دے رہے تھے۔

ثقلین مسلم ایسوسی ایشن کا کہنا ہے:

چوتھا: صحابہ کرام کی مبارکباد اور ان کے اظہار مسرت سے اس اعلان کے مفہوم میں شک کی گنجائش نہیں رہتی۔

اس نکتے کو ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں۔ شیعوں نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت 5:67 نازل کی تھی تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی طرف سے انتقام کے خوف کے بغیر علی رضی اللہ عنہ کو نامزد کرنے کی ترغیب دی جائے۔

"اے رسول! اس پیغام کو سنا دو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے۔ اگر تم ایسا نہ کرتے تو تم نے اس کے پیغام کو پورا نہیں کیا اور نہ سنا۔ اللہ آپ کو ان لوگوں سے محفوظ رکھے گا (جن کا مطلب فساد ہے)۔ کیونکہ اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔" (قرآن، 5:67)

اور شیعہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام علی (رضی اللہ عنہ ) کی نامزدگی کے خلاف سب سے آگے تھے ۔ اور ابھی تک، مضمون یہ دعوی کر رہا ہے کہ صحابہ کے پاس "خوشی کے اظہار" تھے۔ کیا یہ تضاد نہیں؟ اگر لوگ اور صحابہ علی رضی اللہ عنہ کی نامزدگی کے اس قدر خلاف تھے کہ اللہ تعالیٰ کو اس بارے میں قرآن مجید میں ایک آیت نازل کرنی پڑی تو وہ علی رضی اللہ عنہ کو مبارکباد دینے اور خوشی کا اظہار کیوں کرتے؟ یہ واقعی ایک بہت بڑا تضاد ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کسی بھی دلیل کو آگے بڑھانے کا ناگزیر نتیجہ ہے، خواہ وہ کتنا ہی من گھڑت کیوں نہ ہو، کسی کی دلیل کو تقویت دینے کے لیے۔ ہوتا یہ ہے کہ شیعہ پروپیگنڈہ کرنے والا ایسا کثرت سے کرتا ہے کہ وہ اپنے پہلے کے دلائل بھول جاتا ہے اور اتفاقاً دو متضاد دعووں کو آگے بڑھا دیتا ہے۔

لوگ علی (رضی اللہ عنہ ) کو مبارکباد دے رہے تھے کیونکہ آپ کو ابھی تمام مسلمانوں کا پیارا دوست قرار دیا گیا تھا۔ اگر کسی بچے کے والدین نے اسے کہا کہ فلاں شخص سے دوستی کرو، تو والدین کے کہنے کے بعد یہ بچہ سب سے پہلے کیا کرے گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچہ جائے گا اور اس شخص سے اپنا تعارف کرائے گا اور اس سے اچھے الفاظ کہے گا۔ یہ واقعہ غدیر خم کا ہے: کچھ لوگ تھے جو علی ( رضی اللہ عنہ ) پر تنقید کر رہے تھے، لیکن پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے پیارے دوست ہیں، اور چنانچہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔) اس کے ساتھ اچھے الفاظ کہے اور اس اعزاز پر مبارکباد پیش کریں۔ ایک بار پھر، اس کا قیادت، امامت، یا خلافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو - کم از کم شیعہ نمونے کے مطابق - کیا صحابہ خوشی اور مسرت کے بجائے اداس اور افسردہ نہ ہوتے؟

یہ عجیب بات ہے کہ شیعہ کس طرح ایک "محبوب دوست" قرار دیے جانے کی عظمت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں: ہم اکثر شیعہ دیکھیں گے جو ایسی باتیں کہتے ہیں جیسے "یقیناً اس کا مطلب 'صرف دوست' نہیں ہو سکتا"۔ ہم نہیں سمجھتے کہ "صرف ایک" دوست سے ان کا کیا مطلب ہے۔ سب سے پہلے، یہ کوئی پرانا دوست نہیں ہے، بلکہ یہ ایک پیارا دوست ہے، جو گہرے پیار اور محبت کی نشاندہی کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو "خلیل اللہ" کہا جاتا تھا جس کا مطلب ہے "اللہ کا دوست" اور یہ لقب اللہ کی طرف سے انہیں عطا کیا گیا ہے۔ یہ ایک زبردست عنوان ہے، اور یہاں کوئی بھی "صرف ایک دوست" نہیں کہے گا۔ اللہ کا دوست قرار پانا کوئی معمولی بات نہیں اور نہ ہی اسے ’’محبوبِ امت‘‘ کہا جانا کوئی معمولی بات ہے۔

ثقلین مسلم ایسوسی ایشن کا کہنا ہے:

صرف ان کے سامنے یہ اعلان کرنا کہ علی ابن ابی طالب ان کے "دوست" تھے۔

اس طرح کا دعویٰ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے جب کوئی اس حقیقت پر غور کرے کہ علی کو پہلے ہی دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں ایک اعلیٰ مقام حاصل تھا۔

جی ہاں، علی رضی اللہ عنہ کو پہلے سے ہی ایک بلند مقام حاصل تھا، لیکن یہ کہنا احمقانہ بکواس ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یا دو بار ہی کسی شخص کی تعریف کر سکتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر عمر رضی اللہ عنہ کے درجات کو بلند کیا ، پھر بھی ہم اہل سنت میں سے کوئی ایسا شخص نہیں پائیں گے جو کسی چیز کی صداقت پر شک کرتا ہو۔ پہلے ہی تعریف کی گئی ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل و عیال پر مسلسل حمد و ثنا کرتے رہے، اور علی رضی اللہ عنہ بھی ایسے ہی ایک فرد تھے۔ اور اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو سرفراز فرمایا تھا ۔)ماضی میں متعدد طریقوں سے یہاں آپ کو امت کا محبوب ہونے کا شرف بخشا۔

مزید برآں، اس واقعہ کو مناسب تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے ایک گروہ کو جواب دے رہے تھے جو علی رضی اللہ عنہ سے نفرت کرتے تھے اور ان کے دشمن بن رہے تھے۔ اس وقت کے مخصوص واقعہ کے جواب میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے کی تلقین کی ۔ لہٰذا غدیر خم میں جو کچھ کہا گیا اسے سیاق و سباق میں لیا جانا چاہیے: اگر کوئی اور صحابی ہوتا جس کی توہین اور نفرت کی جاتی تھی تو ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر اس کے بجائے دوسرے صحابی کے بارے میں ہوتی۔ اس کو امامت یا خلافت کی دلیل کے طور پر بمشکل ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

Al Islam.org کا کہنا ہے کہ:

غدیر خم میں صحابہ کی تعداد

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ لوگوں کو اس عہدہ کی ہجوم آبادی کے وقت مطلع کریں تاکہ سب روایت کے راوی بن جائیں، جب کہ ان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔

زید بن نے روایت کیا ہے۔ ارقم: ابو الطفیل نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، وہاں کوئی نہیں تھا سوائے اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا۔

شیعہ اکثر اس روایت کو اس لیے پیش کرتے ہیں تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ غدیر خم میں تمام مسلمان موجود تھے۔ تاہم، ہم غیرجانبدار قاری سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس عبارت کو دیکھیں جس میں صرف یہ کہا گیا ہے: ’’وہاں (وہاں) کوئی نہیں تھا سوائے اس کے کہ اس نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ غدیر خم میں موجود ہر شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کہتے ہوئے سنا جو آپ نے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا تھا ۔ ہم پہلے ہی اس بات پر متفق ہیں کہ غدیر خم کے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کیا تھا ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس دن غدیر خم سے مسلمانوں کا صرف ایک حصہ گزرا تھا۔

علی کے پوتے الحسن ابن حسن ابن علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا مقام

ابن سعد کی "الطبقات الکبریٰ" میں ہے:

ایک رافضی (ایک شخص جو ابوبکر و عمر کی خلافت کا انکار کرتا ہے) نے ان (الحسن بن حسن) سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے یہ نہیں کہا تھا کہ اگر میں کسی کا مولا ہوں تو علی اس کا مولا ہے؟ "

اس نے (الحسن) نے جواب دیا: "خدا کی قسم، اگر اس کی مراد اس امارت اور حاکمیت سے ہوتی تو وہ تمہارے لیے اس بات کو بیان کرنے میں زیادہ واضح ہوتا، جس طرح وہ تم سے نماز، زکوٰۃ اور بیت اللہ کے حج کے بارے میں واضح کرتا تھا۔ وہ آپ سے کہتا کہ اے لوگو! یہ میرے بعد تمہارا لیڈر ہے۔' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بہترین نصیحت فرمائی (یعنی واضح معنی میں)۔

(ماخوذ: الطبقات الکبریٰ، جلد 5)

اسی طرح کی تعریف دوسرے صحابہ کے لیے

یہ حقیقت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی (رضی اللہ عنہ ) کو "مولا" (پیارے دوست) کے طور پر حوالہ دیا ہے، علی ( رضی اللہ عنہ ) کی بطور خلیفہ نامزدگی کے ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح بہت سے دوسرے صحابہ کی تعریف کی گئی تھی، لیکن کوئی بھی ان نصوص کو یہ نہیں سمجھتا ہے کہ یہ دوسرے صحابہ کرام الہٰی مقرر کردہ معصوم امام ہیں۔ آئیے مثال کے طور پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے متعلق حدیث کی مثال لیتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد حق عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے وہ جہاں کہیں بھی ہیں۔ (حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں)

اور اس کے باوجود کوئی بھی اس حدیث کو یہ کہنے کے لیے استعمال نہیں کرتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ خود عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس کی اس طرح تشریح نہیں کی تھی اور خود ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کے لیے نامزد کیا تھا۔ ایک اور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن الخطاب ہوتا۔ (سنن الترمذی)

اگر یہ حدیث علی (رضی اللہ عنہ ) کے حوالے سے ہوتی تو شیعہ اسے بائیں، دائیں اور بیچ میں نقل کر رہے ہوتے۔ لیکن اہل سنت کی طرف سے ٹھنڈے دماغ کی تفہیم ان تمام احادیث کو مدنظر رکھتی ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد صحابہ کی مختلف طریقوں سے تعریف کی ہے۔ یہ سب صحابہ کی سربلندی کے دلائل ضرور ہیں لیکن ان سے خلافت کے لیے پیغمبری کی نامزدگی نہیں ہوتی اور یہ یقینی طور پر اللہ کی طرف سے تقرری کا کوئی احساس نہیں دلاتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے پہلے جس سے حق مصافحہ کرے گا وہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں" (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں)

اور ایک دوسری حدیث میں ہم پڑھتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے امتوں میں الہام ہوئے اور اگر میری امت میں کوئی ہے تو وہ عمر ہیں۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں)

لہٰذا ان احادیث اور اسی طرح کی بہت سی دوسری احادیث کی بنا پر جو صحابہ نے دوسرے صحابہ سے کہی ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو "مولا" (پیارے دوست) کہنے کا نام نبوت نہیں تھا۔ خلافت کی وجہ سے دوسروں کی بھی اسی طرح تعریف کی گئی۔ شیعہ جو کچھ کرتے ہیں وہ تمام احادیث کو ان کے بارے میں رد کرتے ہیں جن کو وہ ناپسند کرتے ہیں اور پھر صرف علی (رضی اللہ عنہ ) سے متعلق حدیثوں کو قبول کرتے ہیں؛ ذرا مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ شیعہ اسناد کو دیکھنے کی پرواہ نہیں کرتے لیکن شیعہ کے نزدیک حدیث صحیح ہے اگر اس میں علی رضی اللہ عنہ کی تعریف ہو۔) اور اگر یہ دوسرے صحابہ کی تعریف کرے تو یہ جعلی ہے۔ یہ حدیث کی شیعہ "سائنس" ہے۔ درحقیقت یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ مکی ماؤس کی روایت پر شیعہ اگر علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کریں گے تو اسے قبول کریں گے اور خود علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی حدیث کو رد کر دیں گے ۔ اس سے مراد ابوبکر (رضی اللہ عنہ )، عمر (رضی اللہ عنہ ) وغیرہ کی تعریف کرنا ہے۔

اب ہم حدیث میں دوسرا اضافہ دیکھتے ہیں، یعنی درج ذیل:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اس سے دوستی رکھے اس سے دوستی کرو اور جو اس سے دشمنی رکھے اس سے دشمنی کرو۔

شیعہ پھر اس حدیث کو ان صحابہ پر تنقید کرنے کے لیے استعمال کریں گے جنہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے بحث کی تھی ، اور کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے صحابہ کے بارے میں بھی ایسی ہی باتیں کہی ہیں؟ مثال کے طور پر ہم درج ذیل حدیث پڑھتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عمر سے ناراض ہے وہ مجھ سے ناراض ہے۔ جو عمر سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ (طبرانی)

درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات صرف علی رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہی نہیں بلکہ اپنے تمام صحابہ کے بارے میں کہی ہے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ، اللہ! میرے صحابہ کے بارے میں اس سے ڈرو! میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا! جو ان سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے اپنی محبت کے ساتھ ان سے محبت کرتا ہے۔ اور جو ان سے نفرت کرتا ہے اس نے مجھ سے بغض رکھتے ہوئے ان سے نفرت کی۔ جو ان کے لیے دشمنی رکھتا ہے، وہ میرے لیے دشمنی رکھتا ہے۔ اور جس نے میری دشمنی کی اس نے اللہ کے لیے دشمنی کی۔ جو اللہ کے لیے دشمنی کرے گا وہ ہلاک ہونے والا ہے۔‘‘ (ترمذی نے عبداللہ بن مغفل سے روایت کی ہے، احمد نے اپنی مسند میں تین اچھی سندوں کے ساتھ، البخاری نے اپنی تاریخ میں، بیہقی نے شعب الایمان میں، اور دیگر۔ سیوطی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ جامع الصغیر #1442)۔

جدائی کے الفاظ

شیعہ نے غدیر خم کے واقعہ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا ہے۔ غدیر خم کی حدیث کا امامت یا خلافت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح طور پر یہ بیان کرنے سے کوئی چیز نہیں روکتی تھی کہ بجائے اس کے کہ لفظ "مولا" استعمال کیا جائے جسے ہر کوئی جانتا ہے۔ مطلب "پیارے دوست"۔ مزید برآں، اور اس نکتے پر کافی زور نہیں دیا جا سکتا، غدیر خم مکہ سے 250 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو نامزد کرنے کا ارادہ کیا ہوتا تو آپ بڑے اجتماع میں ایسا کرتے۔ عرفات کی چوٹی پر اپنے الوداعی خطبہ کے دوران ہر شہر کے تمام مسلمانوں کے سامنے۔

پورا شیعہ نمونہ اس ناقص اور آسانی سے قابل تردید خیال پر مبنی ہے کہ غدیر خم ایک مرکزی مقام تھا جہاں تمام مسلمان علیحدگی اور اپنے اپنے گھروں کو جانے سے پہلے اکٹھے ہوتے تھے۔ درحقیقت مدینہ کی طرف جانے والے مسلمان ہی غدیر خم سے گزریں گے، نہ کہ مکہ، طائف، یمن وغیرہ میں رہنے والے مسلمان۔ چند سو سال پہلے شیعہ عوام کو آسانی سے گمراہ کیا جا سکتا تھا کیونکہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا جا سکتا تھا۔ غدیر خم کہاں ہے یہ معلوم کرنے کے لیے نقشے کی دستیابی اور انھوں نے محض اس تصور کو قبول کیا ہوگا کہ یہ مسلمانوں کے الگ ہونے سے پہلے ان کے لیے ملاقات کی جگہ تھی۔ لیکن آج انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے دور میں درست نقشے ہماری انگلیوں پر ہیں اور کسی بھی معقول شخص کو شیعہ خرافات سے بیوقوف نہیں ہونا چاہیے۔

ہم نے دکھایا ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے علی (رضی اللہ عنہ ) کو غدیر خم میں شیعہ دعویٰ کے طور پر نامزد نہیں کیا تھا (اور نہ ہو سکتا تھا )۔ یہی شیعوں کی بنیاد ہے جس کے بغیر ان کے عقیدے کی کوئی بنیاد نہیں ہے: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کے لیے نامزد نہ کیا تو پھر شیعہ مزید دعویٰ نہیں کر سکتے۔ کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) یا سنیوں نے علی (رضی اللہ عنہ) کے خدائی طور پر طے شدہ عہدہ کو غصب کیا ۔ اور اس کے ساتھ ہی پوری شیعیت اپنے آپ پر ٹوٹ پڑتی ہے، یہ سب کچھ غدیر خم کو مکہ سے الگ کرنے اور شیعیت کو حقیقت سے الگ کرنے کے لیے ایک بے حساب 250 کلومیٹر کی وجہ سے ہے۔

Likewise, the Hadith of Ghadir Khumm can only be understood in the context in which it was said: A group of soldiers were severely criticizing Ali ibn Abi Talib (رضّى الله عنه) over a certain matter, and this news reached the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم), who then said what he said in the Hadith of Ghadir Khumm. Like the Orientalists, the Shia propagandists attempt to remove this background context in which the Hadith was said in order to paint a totally different (and misleading) picture.
The Prophet’s intention behind saying what he said at Ghadir Khumm was not at all to nominate Ali (رضّى الله عنه) as Caliph but rather it was only to defend Ali (رضّى الله عنه) against the slander being said against him. It is only by removing the background context that it is possible to render a Shia understanding of the text; it is for this reason that we should always remind our Shia brothers of the background context in which the Hadith of Ghadir Khumm was said.
The Importance of Ghadir Khumm to the Shia
The Shia claim that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) divinely appointed Ali (رضّى الله عنه) to be his successor at a place called Ghadir Khumm. Before we discuss the event of Ghadir Khumm with our Shia brothers, we should first define the parameters of such a debate. In other words, we should “set the stakes”:
(1) If the Shia can prove their version of Ghadir Khumm, then definitely Ali (رضّى الله عنه) was divinely appointed by the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) and the Shia creed is correct.
(2) If, however, the Sunnis disprove the idea that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) appointed Ali (رضّى الله عنه) at Ghadir Khumm, then our Shia brothers should be willing to accept the fact that Ali (رضّى الله عنه) was never appointed at all by the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) and therefore the entire Shia creed is invalid.
The reason we need to make this very clear from the outset is that the Shia propagandists have this uncanny ability to move the goalposts whenever they lose a debate. They will jump from one topic to another; if they lose the debate over Ghadir Khumm, then they will bring up the Incident of the Door, or Saqifah, or Fadak, or who knows what else.
The entire foundation of Shi’ism rests on the event of Ghadir Khumm, because it is here that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) supposedly nominated Ali (رضّى الله عنه) to be his successor. If this event did not take place as the Shia claim, then the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) never appointed Ali (رضّى الله عنه) and the Shia must abandon all of their claims, such as the idea that Abu Bakr (رضّى الله عنه) usurped the God-appointed Caliphate of Ali (رضّى الله عنه).
Indeed, the event of Ghadir Khumm is so central to the Shia paradigm–and so important to the Shia theology–that the Shia masses have a yearly celebration known as “Eid-e-Ghadir”.
Amaana.org says
Eid-e Gadhir is celebrated with great rejoicing by Shia Muslims where they remember Prophet Muhammad’s last instructions to the believers. Eid-e-Ghadir is one of the most important days of rejoicing for Shia Muslims around the world as that was the day our beloved Prophet Muhammad (s.a.s.) declared Hazrat Ali’s vicegerency at Ghadir e Khumm on his return from his last pilgrimage…
Based on what supposedly happened at Ghadir Khumm, the Shia reject the Caliphate of Abu Bakr (رضّى الله عنه), split away from the mainstream Muslims, and declare that Ali (رضّى الله عنه) was the first of the divinely appointed Imams. The Shia website, Al-Islam.org, refers to Ghadir Khumm as a “momentous event” and the basis for the Imamah of Ali (رضّى الله عنه).
The reason it is neccessary to strongly emphasize the importance of Ghadir Khumm to the Shia is that we will show how the supposedly strongest ‘weapon’ in the arsenal of the Shia propaganda is actually very weak. If this is the very basis of Shi’ism, then indeed Shi’ism is a very weak doctrine. The Shia say that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) appointed Ali (رضّى الله عنه) at Ghadir Khumm but simple logic dictates otherwise.
What the Shia Claim Happened
Al-Islam.org says
After completing his last pilgrimage (Hajjatul-Wada’), Prophet [s] was leaving Makkah toward Madinah, where he and the crowd of people reached a place called Ghadir Khumm (which is close to today’s al-Juhfah). It was a place where people from different provinces used to greet each other before taking different routes for their homes.
In this place, the following verse of the Qur’an was revealed:
“O Apostle! Deliver what has been sent down to you from your Lord; and if you don’t do it, you have not delivered His message (at all); and Allah will protect you from the people …” (Qur’an 5:67)
The last sentence in the above verse indicates that the Prophet [s] was mindful of the reaction of his people in delivering that message but Allah informs him not to worry, for He will protect His Messenger from people.
Then followed the key sentence denoting the clear designation of ‘Ali as the leader of the Muslim ummah. The Prophet [s] held up the hand of ‘Ali and said:
“For whoever I am his Leader (mawla), ‘Ali is his Leader (mawla).”
Immediately after the Prophet [s] finished his speech, the following verse of the Qur’an was revealed:
“Today I have perfected your religion and completed my favour upon you, and I was satisfied that Islam be your religion.” (Qur’an 5:3)
The above verse clearly indicates that Islam without clearing up matter of leadership after Prophet [s] was not complete, and completion of religion was due to announcement of the Prophet’s immediate successor.
Why It Just Doesn’t Make Sense
The Shia claim that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) completed his last Hajj, said his Farewell Sermon atop Mount Arafat in Mecca, and then afterwards appointed Ali (رضّى الله عنه) at Ghadir Khumm. Let us analyze this claim: Ghadir Khumm is located between Mecca and Medinah, near the city of Al-Juhfah, as mentioned by the Al-Islam.org website. It is a watering hole in the middle of the desert. The coup de grâceto the Shia argument is the fact that Ghadir Khumm is located approximately 250 km away from Mecca. This simple fact is enough to shatter the entire premise of Shi’ism.
As we all know, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) delivered his Farewell Sermon in Mecca during his last Hajj. This was in front of the great majority of the Muslims, who had come from all of the various cities to do Hajj. If the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) wanted to appoint Ali (رضّى الله عنه) as his successor, then there is absolutely no cognizable explanation why the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) did not do this during his Farewell Sermon to all of the Muslims. The entire Muslim Ummah was gathered there to hear his parting words, so surely this would be the most appropriate time and opportunity to appoint a successor.
The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) and the Muslims completed their Hajj after which everyone went back to their respective home cities. The people of Medinah went back to Medinah, the people of Taif went back to Taif, the people of Yemen went back to Yemen, the people of Kufa went back to Kufa, the people of Syria went back to Syria, and the people of Mecca stayed put in Mecca.
It was only the group that lived in cities in the North of the Arabian Peninsula that passed by Ghadir Khumm. This would consist of only those who were heading towards Medinah and the minority of Muslims that lived in places such as Syria. Therefore, when the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) stopped at Ghadir Khumm and the supposed incident happened, a great number of the Muslims were not present including those living in Mecca, Taif, Yemen, etc. After the Hajj, the Meccans stayed behind in Mecca, the people of Taif went back to Taif, the people of Kufa went back to Kufa, the people of Yemen went back to Yemen, etc. Only the group going to Medinah (or passing through/near it) accompanied the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) to Ghadir Khumm.
Therefore, contrary to the claims of the Shia, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) did not appoint Ali (رضّى الله عنه) in front of all the Muslims, but rather what happened at Ghadir Khumm happened in front of just the handful of Muslims who were heading back to Medinah (or passing through/near it). Let us look at what one Shia website claims:
The Thaqalayn Muslim Association says:
On the 18th of Dhul-Hajjah, after completing his “farewell pilgrimage” (Hajjatul- Wida’a), the Messenger of Allah (peace be upon him and his progeny) had departed Makkah en route to Madinah. He and the entire Muslim caravan, numbering over 100,000, were stopped at Ghadeer Khumm, a deserted-yet-strategically situated area that lies between Makkah and Madinah (near today’s Juhfah). In those days, Ghadeer Khumm served as a point of departure, where the various Muslims who had come to perform the pilgrimage from neighbouring lands would disperse and embark upon their own routes back home.
The Shia website claims that “Ghadeer Khumm served as a point of departure, where the various Muslims who had come to perform the pilgramage from neighboring lands would disperse and embark upon their own routes back home.” A simple look at any map would show how utterly absurd this is. The following map comes from Al-Islam.org:
Is there any rationale as to why the Muslims from Mecca, Taif, Yemen, etc. would travel towards Ghadir Khumm on the way back to their home cities in the completely opposite direction? We hope that the reader can understand how truly absurd this proposition is.
To give an analogy, let us assume that the President of ISNA (Islamic Society of North America) lives in San Francisco and that he wishes to nominate his replacement in front of all the ISNA members. Each year, ISNA holds its largest conference in Chicago, in which thousands of ISNA members from ever city in America congregate. They come from San Francisco, Austin, Atlanta, Milwaukee, Washington D.C., etc. Their flight to Chicago would look like this:
Now that all the ISNA members are present at the yearly conference in Chicago, would it not seem fairly self-evident that this would be the most fitting place for the ISNA president to nominate his successor? After the conference, everyone heads back to their respective home cities, so the ISNA president heads back towards San Francisco with a stop-over in Cheyenne. Would it make any logical sense that the other ISNA members pass through Cheyenne on the way back to their home cities in the opposite direction? This truly would make no sense. It would look something like this:
No rational mind could accept such a thing. It would make little sense for the ISNA president to nominate his successor in Cheyenne as opposed to Chicago during the yearly conference. A person who lives in Washington D.C. would not travel West to go to Cheyenne, but rather he would travel in the opposite direction towards his home. A person who lives in Chicago certainly wouldn’t accompany the ISNA president to Cheyenne after the conference, but rather he would stay behind in Chicago where he lives. Indeed, the more sensical return paths of the ISNA members would look something like this:
In this analogy above, San Francisco is Medinah, Chicago is Mecca, and Cheyenne is Ghadir Khumm. It is clear that the only people passing through Cheyenne are those that are headed towards San Francisco or the West Coast. Therefore, it would not be wise for the ISNA president to deliver his nomination speech in Cheyenne because the Muslims from all the other cities would not be present. It would instead make much more sense that he deliver such a speech in Chicago, where the conference is held. Likewise, Prophet Muhammad (صلّى الله عليه وآله وسلّم) would have appointed his successor in Mecca during his Farewell Sermon, not in the middle of nowhere on the way back to Medinah.
When the Muslims embarked on the Hajj, let us assume that these were the routes they took:
Now that the Muslims from all the cities have assembled in Mecca, would this not be the most appropriate time to declare the Prophet’s successor? The Shia propagandist would have us believe that the Muslims going to Taif and Yemen would travel an extra 500 km (round trip) to the watering hole of Ghadir Khumm and then head back in the opposite direction. As stated by the Shia themselves, Ghadir Khumm was a watering hole and a resting point for those travelling…the only thing they fail to mention is that it is a resting point for those passing through it, not those heading in the opposite direction altogether! The Shia would have us believe that the return trip of the Muslims would look like this:
This is nothing short of nonsense. After the Hajj, everyone heads back to their home cities and the Meccans would stay put since they lived in Mecca. Why would they have head out towards a watering hole in the middle of nowhere? Considering the fact that the Muslims were on foot in the desert, this journey back and forth of 250 km to Ghadir Khumm and back would have added a few extra weeks in transit time. Does this not flout logic and rational thinking? Indeed, the more sensical image would be the following:
Therefore, the conclusion we reach is that the Shia claim that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) appointed Ali (رضّى الله عنه) in front of all the Muslims is highly unlikely due to the fact that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) did not address this point in his Farewell Sermon at all. As for the incident of Ghadir Khumm, we have seen how unlikely it is that this would be the place that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) would appoint Ali (رضّى الله عنه) as the next Caliph; indeed, the mainstream Muslim version of Ghadir Khumm just makes more sense.
What Really Happened at Ghadir Khumm
Nobody denies the incident of Ghadir Khumm; however, what we deny are the exaggerations of the Shia with regards to said event. First off, the Shia exaggerate as to how many people were present at Ghadir Khumm, often giving numbers in the hundreds of thousands. As we have shown above, only the Muslims heading towards Medinah were present at Ghadir Khumm, which means that the Meccans were not present, nor were any of the people of Taif, Yemen, etc. In fact, the Shia often quote that 100,000 people were present at Ghadir Khumm but this is likely an over-exaggeration, and rather this is the number of people present in Mecca for the Hajj from all of the cities, not only those who were returning to Medinah (which was only a fraction of that number). Whatever the case, no matter what number the Shia use, this can only be a fraction of the Muslims because it would not include the Muslims living in Mecca, Taif, Yemen, etc.
The context of Ghadir Khumm must be taken into consideration. What happened at Ghadir Khumm was that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) was responding to certain individuals who were criticizing Ali ibn Abi Talib (رضّى الله عنه). The background behind this was that a few months earlier, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) had dispatched Ali (رضّى الله عنه) alongside 300 men to Yemen on an expedition. This is mentioned on the Shia website, www.najaf.org: “Ali was appointed the leader of the expedition to Yemen.”
The army led by Ali (رضّى الله عنه) was very successful in Yemen and they captured a lot of war booty. It was over this war booty that a dispute began between Ali (رضّى الله عنه) on the one hand and his soldiers on the other. It is narrated in Ibn Kathir’s “al-Bidayah wan-Nihayah”:
Amongst the state’s fifth of the spoils there was enough linen to clothe the whole army, but Ali had decided that it must be handed over to the Prophet untouched.
After the victory in Yemen, Ali (رضّى الله عنه) placed his deputy commander in charge of the troops stationed in Yemen, while he himself head out towards Mecca to meet the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) for the Hajj. We read:
In his (Ali’s) absence, however, the man he left in charge was persuaded to lend each man a new change of clothes out of the linen. The change was much needed for they had been away from home for nearly three months.
The troops stationed in Yemen then set out to Mecca to complete the Hajj with the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم):
When they (the soldiers sent to Yemen) were not far from entering the city (of Mecca), Ali rode out to meet them and was amazed to see the transformation that had taken place (in regards to their clothing).
“I gave them the garments,” said the deputy commander, “that their appearance might be more seemly when they entered in among the people.” The men all knew that everyone in Mecca would now be wearing their finest clothes in honor of the Feast, and they were anxious to look their best. But Ali felt he could not countenance such a liberty and he ordered them to put on their old clothes again and return the new ones to the spoils. Great resentment was felt throughout the army on this account, and when the Prophet heard of it, he (the Prophet) said: “O people, blame not Ali, for he is too scrupulous in the path of Allah to be blamed.” But these words were not sufficient, or it may be that they were only heard by a few, and the resentment continued.
On the way back to Medina one of the troops bitterly complained of Ali to the Prophet, whose face changed color. “Am I not nearer to the believers than their own selves?” he said; and when the man assented, he added: “Whomsoever’s beloved friend I am, Ali is (also) his beloved friend.” Later on in the journey, when they had halted at Ghadir al-Khumm, he gathered all the people together, and taking Ali by the hand he repeated these words [i.e. whomsoever’s beloved I am, this Ali is (also) his beloved friend”], to which he added the prayer: “O Allah, be the friend of him who is his friend, and the foe of him who is his foe”; and the murmurings against Ali were silenced.
The soldiers under Ali’s charge were not only perturbed over the change of clothes but also over the distribution of the spoils of war in general. The Muslims, thanks to the great leadership of Ali (رضّى الله عنه), had conquered many camels, but Ali (رضّى الله عنه) forbade them from taking possession of these camels. Al-Bayhaqi narrates from Abu Saeed that Ali (رضّى الله عنه) prevented them from riding the camels of the war spoils that they had acquired. But when Ali (رضّى الله عنه) had left for Mecca, his deputy commander had succumbed to the pleas of the people and allowed them to ride these camels. When Ali (رضّى الله عنه) saw that, he became angry and he blamed the deputy commander. Abu Saeed (رضّى الله عنه) said: “When we were on the way back to Medinah, we mentioned to the Prophet the harshness that we have seen from Ali; the Prophet said: ‘Stop…By Allah, I have known that he (Ali) has done good for the sake of Allah.’”
A similar incident is described in Ibn Ishaq’s Seerah Rasool-Allah; we read:
When Ali came (back) from the Yemen to meet the Apostle in Mecca, he hurried to him and left in charge of his army one of his companions who went and covered every man in the force with clothes from the linen Ali had. When the army approached, he (Ali) went out to meet them and found them dressed in the clothes. When he asked what on earth had happened, the man (his deputee) said that he had dressed the men so that they might appear seemly when they mingle with the people. He (Ali) told him to take off the clothes before they came to the Apostle and they did so and put them back among the spoil(s). The army showed resentment at their treatment…when the men complained of Ali, the Apostle arose to address them and he (the narrator) heard him (the Prophet) say: “Do not blame Ali, for he is too scrupulous in the things of Allah, or in the way of Allah, to be blamed.”
(Ibn Ishaq, Seerah Rasool-Allah, p.650)
Ibn Katheer narrates that the people in the army (i.e. the contingent sent to Yemen) started to criticize Ali (رضّى الله عنه) because he prevented them from riding the camels and took back the new clothes that they had acquired. It was these men that accompanied the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) to Medinah via Ghadir Khumm, and it is they who were being addressed in the famous Hadith of Ghadir Khumm.
In fact, in “Tareekh al-Islam”, the event of Ghadir Khumm falls under the heading “The Consolation of Ali”. We read:
The Consolation of Ali
During the Hajj, some of the followers of Ali who had been with him to Yemen complained to the Prophet about Ali. Some of the misunderstandings of the people of Yemen had given rise to misgivings. Addressing the Companions at Ghadir Khumm, the Prophet of Allah said admiring Ali: “The one who is my friend is the friend of Ali…” Following the address, Umar congratulated Ali saying: “From this day on you are a very special friend of mine.” The Prophet then came back to Al-Medinah and his son Ibrahim passed away.
(Tareekh al-Islam, Vol.1, p.241)
The Hadith of Ghadir Khumm
To summarize the Hadith of Ghadir Khumm: The soldiers in Ali’s army were very upset with Ali (رضّى الله عنه) for denying them linen and camels from the spoils, and they were not pleased with the fact that Ali (رضّى الله عنه) himself was accorded a special share of the Khums (i.e. the fifth of war booty). Of course, Ali (رضّى الله عنه) cannot be blamed for this privilege of taking an extra share of the Khums, which is a right accorded to the Prophet’s family in the Quran. Nonetheless, the people had anger in their eyes, so they took special offense when Ali (رضّى الله عنه) took a slave girl for himself from the Khums; the soldiers wrongfully accused Ali (رضّى الله عنه) of being a hypocrite for denying the clothes and camels to the men but for himself taking a slave girl. It was for this wrongful criticism of Ali (رضّى الله عنه) that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) defended Ali (رضّى الله عنه) in the Hadith of Ghadir Khumm.
ShiaChat Member says:
You sick Saudi perverts can believe whatever filth you want about anyone at your own personal leisure but don’t dare bring this up here…
That accusation [that Imam Ali slept with a slave girl] is blatantly ummayyad propaganda to make our Mawla (A.S.) look bad…
First of all, the Hadith of Ghadir Khumm as recorded in Sahih Bukhari was not intended to make Ali (رضّى الله عنه) look evil at all. In fact, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّمdefended Ali’s actions. It should be noted that even the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) himself took a slave girl and this has been narrated in both Sunni and Shia Hadith. Slavery was the cultural norm back then and the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) urged the Muslims to treat their slave girls as their wives. On other occassions, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) would encourage emancipating slaves and marrying them. In any case, there are many lengthy articles that defend the Islamic position on this matter, and the reader is free to search the internet for them.
Secondly, it should also be noted that Buraida (رضّى الله عنه) was not criticizing Ali (رضّى الله عنه) because he thought having a slave girl was immoral. Instead, Buraida (رضّى الله عنه) was only criticizing Ali (رضّى الله عنه) for taking part of the Khums while denying it to his men; to Buraida (رضّى الله عنه), it would have been immaterial what Ali (رضّى الله عنه) took from the Khums whether it be a slave girl, linen, or camels.
Thirdly, the fact that Ali (رضّى الله عنه) took a slave girl is narrated in the Shia Hadith, so why should the Shia react so violently when a similar narration is in the Sunni Hadith? Is this not hypocrisy? Indeed, just as Buraida (رضّى الله عنه) was angry at Ali (رضّى الله عنه) for taking a slave girl in the Sunni Hadith, similarly was Fatima (رضّى الله عنها) angry at Ali (رضّى الله عنه) for taking a slave girl in the Shia Hadith. This Shia Hadith was narrated by one of the fore-fathers of Shia theology, namely Ibn Babaveh Al-Qummi, and it is available on YaZahra.com, a reputable Shia website:
YaZahra.org says:
Majlisi “Biharul anwar” 43/147
عن أبي ذر رحمة الله عليه قال : كنت أنا وجعفر بن أبي طالب مهاجرين إلى بلاد الحبشة ( 1 ) فاهديت لجعفر جارية قيمتها أربعة آلاف درهم ، فلما قدمنا المدينة أهداها لعلي عليه السلام تخدمه ، فجعلها علي في منزل فاطمة .
فدخلت فاطمة عليها السلام يوما فنظرت إلى رأس علي عليه السلام في حجر الجارية فقالت : يا أبا الحسن فعلتها ، فقال : لا والله يا بنت محمد ما فعلت شيئا فما الذي تريدين ؟ قالت تأذن لي في المصير إلى منزل أبي رسول الله صلى الله عليه واله فقال لها : قد أذنت لك .
فتجللت بجلالها ، وتبرقعت ببرقعها
[Translation: Al-Qummi and Al-Majlisi narrated on the authority of Abu Thar: I migrated with Jafar ibn Abi Talib to Abyssynia. A slave girl worth 4,000 dirhams was given to Jafar as a gift. When we came to Medinah he gave it to Ali as a gift that she may serve him. Ali kept her in Fatima’s house. One day Fatima entered and saw that his head was in the girl’s lap. She said: “O Abu Al-Hasan! Have you done it!?” He said: “O daughter of Muhammad! I have done nothing, so what is it that you want?” She said: “Do you allow me to go to my father’s house?” He said: “I will allow you.” So she wore her Jilbab and went to the Prophet.
(source: Ibn Babaveh Al-Qummi’s “Elal Al-Sharae’”, p.163;
it is also narrated in Bihar Al-Anwar, pp.43-44, Chapter on “How her life with Ali was”)]
Fourthly–and this ends the debate altogether–is the fact that this incident is mentioned in Shia sources as well. Shaykh Mufid, the classical Shia scholar, writes:
(Earlier) the Commander of the Faithful had chosen a slave-girl from among the prisoners. Now Khalid sent Buraida to the Prophet. He said: “Get to (the Prophet) before the army does. Tell him what Ali has done in choosing a slave-girl for himself from the Khums and bring him dishonor…”
Buraida went to the Prophet. He (Buraida) had with him the letter from Khalid with which he had been sent. He began to read it. The face of the Prophet began to change.
“Apostle of Allah,” said Buraida, “if you permitted the people (to act) like this, their booty would disappear.”
“Woe upon you, Buraida,” the Prophet told him. “You have committed an act of hypocrisy. Ali ibn Abi Talib is allowed to have what is allowed to me from their booty…Buraida, I warn you that if you hate Ali, Allah will hate you.”
Buraida reported: “I wanted the earth to split open for me so that I could be swallowed into it. Then I said: “I seek refuge in Allah from the anger of Allah and the anger of the Apostle of Allah. Apostle of Allah, forgive me. I will never hate Ali and I will only speak good of him.”
The Prophet forgave him.
(Kitab al-Irshad, by Shaykh Mufid, pp.111-112)
The Hadith of Ghadir Khumm is narrated in Sahih Bukhari (volume 5, Book 59 Number 637):
Narrated Buraida:
The Prophet sent Ali to Khalid to bring the Khumus (of the booty) and I hated Ali, and Ali had taken a bath (after a sexual act with a slave-girl from the Khumus). I said to Khalid, “Don’t you see this (i.e. Ali)?” When we reached the Prophet, I mentioned that to him. He (the Prophet) said, “O Buraida! Do you hate Ali?” I said, “Yes.” He said, “Do you hate him, for he deserves more than that from the Khumlus.”
This is the version of Ghadir Khumm narrated in the Sahihayn (i.e. Bukhari and Muslim), with no mention at all of the word “Mawla.” Shaikh al-Islam Ibn Taymiyyah said: “As for his saying ‘If I am someone’s mawla then Ali is his mawla too’, this is not in the books of Sahih (Bukhari and Muslim), but it is one of the reports which were narrated by the scholars and concerning whose authenticity the people disputed.”
Therefore, we see that the Shia have created much ado about nothing. The Hadith of Ghadir Khumm is a far cry from a nomination to Caliphate. The Shia scholar, SHM Jafri, writes:
The Sunnis explain the circumstance which necessitated the Prophet’s exhortation [at Ghadir Khumm] in that some people were murmuring against Ali due to his harsh and indifferent treatment in the distribution of the spoils of the expedition of Al-Yaman, which had just taken place under Ali’s leadership, and from where he, along with his those who participated in the expedition, directly came to Mecca to join the Prophet at the Hajj. To dispel these ill-feelings against his son-in-law, the Prophet spoke in this manner.
(The Origins and Early Development of Shi’a Islam, by SHM Jafri, p.21-22)
The Shia Attempt to Remove the Context
The Sunnis say that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) was forced to make his declaration at Ghadir Khumm due to what happened between Ali (رضّى الله عنه) and his soldiers in Yemen. The Shia approach this in one of two ways. The first response is to deny the event in Yemen altogether, claiming that it was merely “Umayyad propaganda” that Ali (رضّى الله عنه) would ever take a slave girl like that. Of course, this response is quickly refuted by pointing out that these narrations are available in Shia sources as well, including Shaykh Mufid’s book Kitab Al-Irshad. Therefore, the Shia propagandist must fall back on another explanation, as offered by “Taair-al-Quds” below, which is to admit that the event in Yemen did take place but that it has nothing to do with Ghadir Khumm.
Taair-al-Quds, Admin of ShiaOfAhlAlBayt says:
The Hadiths mentioning this incident [of Ali’s soldiers getting angry at him]…have nothing to do with the incident of Ghadeer Khumm.
The entire episode [of Ali’s soldiers getting angry at him] took place in Madinah in the Mosque around the Hujrah of the Prophet (s) and finished there and thus has nothing to do with the incident of Ghadir Khumm! The prophet (s) had already clarified this matter/issue which the Wahabi / Nawaasib aim to present as the context in the incident of Ghadir, which took place at a latter time in history.
…The incident of Ghadeer took place on 18th DhilHajj while the incident of Yemen took place in Rabbi ul Aakhir (Thaani) or Jamaadi ul Ulaa according to historians. There is no compatibility or possibility of mixing both these incidents as one of them took place on return from Meccah after Hajj while the other took place in Yemen earlier on and got resolved earlier as well in Masjid e Nabavi, Medinah, before the Prophet (s) even left for Hajj!
In fact, both events (what happened in Yemen and Ghadir Khumm) occurred in the final year of the Prophet’s life. According to the classical Shia scholar, Shaykh Mufid, the expedition in Yemen was coming to an end in the last five days of Dhu al-Qa’dah (the 11th Islamic month) and the event of Ghadir Khumm occurred right thereafter in Dhu al-Hijjah (the 12th Islamic month). What “Taair-al-Quds” has deceptively done is claim that the expedition of Yemen took place in Rabi’ al-Thani (the 4th Islamic month) or Jumada al-Awwal (the 5th Islamic month), whereas Ghadir Khumm took place in the 12th month; this is a horrible half-truth. The Yemen campaign lasted many months and into the 11th month! So whereas the Yemen expedition may have started a few months back, it definitely did not end before the last five days of the 11th month, after which Ali (رضّى الله عنه) and his soldiers immediately joined the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) in Mecca to do Hajj.
As for “Taair-al-Quds” claims that the incident of Yemen was resolved in Medinah, then this is a horrible blunder on his part. After what happened in Yemen (i.e. the dispute over Khums), Ali (رضّى الله عنه) rode out to meet the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) in Mecca, not Medinah. Ali (رضّى الله عنه) and his men performed Hajj with the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) and it was during this time that the soldiers were grumbling about Ali (رضّى الله عنه), which led to the pronouncement at Ghadir Khumm.
“Taair-al-Quds” refers to it as “Wahabi / Nawaasib” propaganda to claim that the dispute between Ali and his soldiers happened right before Ghadir Khumm. We would like to ask “Taair-al-Quds” if he considers Shaykh Mufid to be one of the “Nawaasib”? Shaykh Mufid, in his epic book “Kitab al-Irshad” mentions the dispute in Yemen (between Ali and his soldiers) in the same heading as the section entitled “The Prophet’s Farewell Pilgramage and the Declaration at Ghadir Khumm”! We read:
The Prophet’s Farewell Pilgrimage and the Declaration at Ghadir Khumm.
…The Apostle of God, may God bless him and his family, had sent him (Ali), peace be upon him, to Yemen to collect the fifth share (khums) of their gold and silder and collect the breastplates and other things…Then the Apostle of God, may God bless him and his family, decided to go on the pilgrimage and to carry out the duties which God, the Exalted, had decreed…
He, may God bless him and his family, set out with them with five days remaining in (the month of) Dhu al-Qa’da. He had written to the Commander of the Faithful (Ali), peace be upon him, about going on the pilgrimage from Yemen…
Meanwhile, the Commander of the Faithful, peace be upon him, set out with the soldiers who had accompanied him to Yemen. He had with him the breastplates which he had collected from the people of Najran. When the Apostle of God, may God bless him and his family, was nearing Mecca on the road from Medina, the Commander of the Faithful (Ali), peace be upon him, was nearing it on the road from Yemen. He (Ali) went ahead of the army to meet the Prophet, may God bless him and his family, and he left one of their number in charge of them. He came up to the Prophet as the latter was looking down over Mecca. He (Ali) greeted him (the Prophet) and informed him (the Prophet) of what he (Ali) had done and what he (Ali) had collected [in Khums] and that he had hurried ahead of the army to meet him. The Apostle of God, may God bless him and his family, was pleased at that and delighted to meet him…
The Commander of the Faithful, peace be upon him, said farewell to him (the Prophet) and returned to his army. He (Ali) met them nearby and found that they had put on the breastplates which they had had with them. He (Ali) denounced them for that.
“Shame on you!” he (Ali) said to the man whom he had appointed as his deputy over them. “Whatever made you give them breastplates before we hand them over to the Apostle of God, may God bless him and his family? I did not give you permission to do that.”
“They asked me to let them deck themselves out and enter into the state of consecration in them, and then they would give them back to me,” he replied.
The Commander of the Faithful, peace be upon him, took them off the people and put them back in the sacks. They were discontented with him because of that. When they came to Mecca, their complaints against the Commander of the Faithful, peace be upon him, became numerous. The Apostle of God ordered the call to be given among the people: “Stop your tongues (speaking) against Ali ibn Abi Talib, peace be upon him. He is one who is harsh in the interests of God, the Mighty and High, not one who deceives in His religion…”
When the Apostle of God carried out his rituals of the pilgrimage, he made Ali his partner in the sacrifice of animals. Then he began his journey back to Medina. (Ali) and the Muslims went with him. He came to a place known as Ghadir Khumm…
(Kitab al-Irshad, by Shaykh Mufid, pp.119-123)
Who Was Angry With Ali (رضّى الله عنه)?
The Shia propagandists then claim that it was only Khalid (رضّى الله عنه) and Buraida (رضّى الله عنه) who were upset with Ali (رضّى الله عنه).
Taair-al-Quds, Admin of ShiaOfAhlAlBayt says:
None of the hadiths mention any third individual besides Khalid bin Walid and Burayda (or Bara as in Tirmidhi) to be the complainers or the ones who initiated this BUGHZ (hatred) campaign towards Imam Ali (a.s) as reported through this incident.
This is another blatant lie by “Taair-al-Quds”. In fact, it was all (or at least most) of Ali’s soldiers who were upset with him, not just one or two soldiers. Shaykh Mufid writes:
The Commander of the Faithful, peace be upon him, took them (the breastplates) off the people and put them back in the sacks. They were discontented with him because of that. When they came to Mecca, their complaints against the Commander of the Faithful, peace be upon him, became numerous. The Apostle of God ordered the call to be given among the people: “Stop your tongues (speaking) against Ali ibn Abi Talib, peace be upon him. He is one who is harsh in the interests of God, the Mighty and High, not one who deceives in His religion…”
(Kitab al-Irshad, by Shaykh Mufid, pp.121-122)
The complaints against Ali (رضّى الله عنه) were “numerous” and it was the “people” who were discontented (not one or two individuals), and the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) ordered the call to the people in general. It is clear that the vast majority of Ali’s soldiers were discontented with him because he refused to allow them to wear the breastplates from the Khums. Therefore, it is improper to pinpoint the blame on one or two individuals; instead, the truth of the matter is that Ali (رضّى الله عنه) had angered all of his soldiers, and we seek Allah’s refuge from laying the blame on anybody, especially since the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) himself forgave Buraida (رضّى الله عنه) and the others. The bottom line point, however, is that many people were angry at Ali (رضّى الله عنه) and this is was the reason why the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) had to make the declaration at Ghadir Khumm, to exonerate Ali (رضّى الله عنه)–not to nominate Ali (رضّى الله عنه) as his successor.
Fabricated Additions
The common Shia tactic to fool the Sunni layperson is to first state that the Hadith of Ghadir Khumm is in Bukhari and the most trusted books of the Sunnis (oftentimes impressing Sunnis with long references), and then they go about quoting the variant versions from obscure and unreliable sources that depict Ghadir Khumm in a very different manner than is actually stated in the authentic books. This tactic of fooling people is called “acceptance by association.”
In fact, there are only two additions to the Hadith which are considered authentic and that too only by some scholars. For the purpose of debate, however, we shall accept them as authentic. Again, these two additions are not in the Sahihayn but rather they are in the variant narrations in other books. As the student of Hadith knows, Hadith have various gradings; as for the Hadith of Ghadir Khumm, what is most authentic is that which is in Sahih Bukhari as reproduced above. However, there are other variant versions which have two additions:
1) The first addition is: “Man Kuntu Mawla fa `Ali Mawla.” (Whomsoever’s Mawla I am, this Ali is also his Mawla.)
2) The second addition is: “Allahummu wali man walaah wa `adi man `adaah.” (O Allah, befriend whosoever befriends him and be the enemy of whosoever is hostile to him.)
The first addition is generally accepted, and the second one is weaker but some scholars do consider it authentic. As far as any other additions are concerned, these are not contained in the authentic books and are “mawdoo” or fabricated. Generally, the Shia are content in basing their arguments upon these first two additions, but no doubt after they are refuted, they will oftentimes then resort to using obscure sources to produce further additions such as the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) saying Ali (رضّى الله عنه) is his Wasi, Caliph, Imam, etc. These are all fabrications, and historically the Shia have been manufacturers of fabricated Hadith. The Shia are able to produce lengthy lists of obscure references about Ghadir Khumm because they themselves have been responsible for the multitude of forgeries in regards to Ghadir Khumm.
We have already seen the version of Ghadir Khumm in Sahih Bukhari and how it does not contain the addition of “Mawla”. However, this addition of “Mawla” can be found in this variant of the Hadith:
Buraida narrated: “I invaded Yemen with Ali and I saw coldness from his part; so when I came (back) to the Messenger of Allah and mentioned Ali and criticized him, I saw the face of the Messenger of Allah change and he said: ‘O Buraida, am I not closer to the believers than they are to themselves?’ I said: ‘Yes, O Messenger of Allah.’ He (then) said: ‘Whomsoever’s Mawla I am, this Ali is also his Mawla.’”
(Musnad Ahmad [v5 / p347 / #22995] with a Sahih chain of transmission and all trustworthy [thiqa] narrators relied upon by al-Bukhari and Muslim; al-Nisa’i in Sunan al-Kubra [v5 / p45 / #8145]; al-Hakim in al-Mustadrak [v3 / p119 / #4578]; Abu Nu`aym; Ibn Jarir and others)
In a slightly different version:
Buraida narrated: “The Prophet sent me to Yemen with Ali and I saw coldness from his part; when I returned and complained about him to the Messenger of Allah, he (the Messenger of Allah) raised his head towards (him) and said: ‘O Buraida! Whomsoever’s Mawla I am, this Ali is also his Mawla.’”
(Sunan al-Kubra, v5, p130, #8466; a similar report can be found in Musannaf of Ibn Abi Shayba [v6, p.374])
In other narrations, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) said: “allahummu wali man walaah wa `adi man `adaah”, which translates to: “O Allah, befriend whosoever befriends him and be the enemy of whosoever is hostile to him.” Some scholars have doubted the authenticity of this statement, but we shall hereby accept this second addition as authentic.
These are the only two additions to the Hadith of Ghadir Khumm that can be considered authentic, and therefore these are the only two we will deal with. The Shia propagandists will often add various narrations from weak and obscure sources, but this is not a valid methodology of debating. Oftentimes, these references are impossible to verify and many times they do not exist at all or are dramatically taken out of context. What is odd and a bit amusing is that the Sunnis oftentimes quote from Al-Kafi, the most authentic book of Shia Hadith, and yet the Shia will outright reject these Hadith as a basis for argumentation. If this is the attitude of the Shia towards their most authentic book of Hadith, then why do the Shia expect us to accept narrations from obscure and unreliable sources? In any case, in order to be fair, the only two additions we will discuss will be: (1) …This Ali is also his Mawla…, and (2) …befriend whosoever befriends him…
The Definition of the Word “Mawla”
The Shia claim that the word “Mawla” here means “master.” It is based on this erroneous translation of the word that they claim that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) nominated Ali (رضّى الله عنه) as his successor. In fact, the word “Mawla”–like many other Arabic words–has multiple possible translations. The Shia lay-person may be shocked to know that indeed the most common definition of the word “mawla” is actually “servant” and not “master.” A former slave who becomes a servant and who has no tribal connections was referred to as a Mawla, such as Salim who was called Salim Mawla Abi Hudhayfah because he was the servant of Abu Hudhayfah.
One only needs to open up an Arabic dictionary to see the various definitions of the word “Mawla.” Ibn Al-Atheer says that the word “Mawla” can be used to mean, amongst other things, the following: lord, owner, benefactor, liberator, helper, lover, ally, slave, servant, brother-in-law, cousin, friend, etc.
Now let us examine the Hadith again:
“Whomsoever’s Mawla I am, this Ali is also his Mawla. O Allah, befriend whosoever befriends him and be the enemy of whosoever is hostile to him.”
The word “Mawla” here cannot refer to “master”, but rather the best translation of the word “Mawla” is “a beloved friend”. It is clear that “Mawla” here refers to love and close relation, not Caliphate and Imamah. Muwalat (love) is the opposite of Mu`adat (enmity). This definition of the word “Mawla” makes most sense due to the context, because the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) immediately says “O Allah, befriend whosoever befriends him and be the enemy of whosever is hostile to him.”
The Shia may refuse to believe that Mawla here means “beloved friend” but the reality is that it cannot be translated in any other way when we take into account that the very second addition is about befriending him, not about being ruled by him or anything like that. It is in fact unbelievable that the Shia can translate it to mean Caliph and Imam when the context has nothing to do with that.
Al-Jazari said in al-Nihaayah:
“The word Mawla is frequently mentioned in the Hadith, and this is a name that is applied to many. It may refer to a lord, to an owner, to a master, to a benefactor, to one who frees a slave, to a supporter, to one who loves another, to a follower, to a neighbor, to a cousin (son of paternal uncle), to an ally, to an in-law, to a slave, to a freed slave, to one to whom one has done a favor. Most of these meanings are referred to in various Hadith, so it is to be understood in the manner implied by the context of the Hadith in which it is mentioned.”
Imam Shafi’i said with regards to Mawla in this particular Hadith of Ghadir Khumm:
“What is meant by that is the bonds (of friendship, brotherhood, and love) of Islam.”
Allah says in the Quran:
So today no ransom shall be accepted from you nor from those who disbelieved; your abode is the fire; it is your beloved friend (Mawla) and an evil refuge it is.”(Quran, 57:15)
No translator on earth–not even the staunchest Shia–has ever translated this to mean “Imam” or “Caliph”, as that would make the verse meaningless. The Hell-fire above is referred to as Mawla to the disbelievers because of their extreme closeness to it, and it is this definition of Mawla that is being referred to in the Hadith of Ghadir Khumm (i.e. extreme closeness to the Prophet, Ali, and the believers). Indeed, the word “Mawla” comes from “Wilayah” and not “Walayah”. Wilayah refers to love and Nusrah (help and aid), and is not to be confused with Walayah, which refers to the leadership.
Allah says in the Quran:
“That is because Allah is the Mawla (i.e. protecting friend, patron, etc) of those who believe, and because the disbelievers shall have no Mawla for them.” (Quran, 47:11)
This verse is not referring to Caliphate or Imamah, but rather it is referring to a close protecting friend. Otherwise, the verse would make no sense. The Shia commentators seem to ignore the second part of this verse in which Allah says: “the disbelievers shall have no Mawla for them”. Does this mean that the disbelievers will have no leader? Of course the disbelievers have a leader, such as today the American disbelievers have George Bush as their leader. This fact is mentioned in the Quran itself:
“Fight the leaders (imams) of kufr.” (Quran, 9:12)
“And We made them leaders (imams) who call towards the Fire.” (Quran, 28:41)
And so when Allah says “the disbelievers shall have no Mawla for them”, this refers to a protector of extreme closeness, not that they don’t have a leader. This verse is not using Mawla to mean Imam or Caliph at all, but rather it is referring to a close protecting friend.
The Hadith of Ghadir Khumm is meant to be interpreted in the same manner. The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) was advising the people to love Ali (رضّى الله عنه) and be close to him. And this is exactly what Abu Bakr (رضّى الله عنه), Umar (رضّى الله عنه), and Uthman (رضّى الله عنه) did (i.e. they were beloved friends of Ali). In fact, Umar (رضّى الله عنه) was so beloved to Ali (رضّى الله عنه) that he (Ali) wed his daughter to him (Umar). Ali (رضّى الله عنه) served as a vizier and close confidante for all Three Caliphs, such was the mutual love and admiration between the Three Caliphs and Ali (رضّى الله عنه). In other words, the Hadith of Ghadir Khumm has nothing to do with the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) nominating Ali (رضّى الله عنه) to be his successor, but rather it was for the people to stop criticizing Ali (رضّى الله عنه) and to love him.
Allah says in the Quran:
“Certainly your Mawla (beloved friends) are Allah and His Messenger and the believers–those who establish regular prayers and regular charity, and they bow down humbly. As to those who turn (for friendship) to Allah, His Messenger, and the believers, (let them know that) it is the party of Allah that will be triumphant.”(Quran, 5:55-56)
In this verse of the Quran, Allah refers to all of the believers as being Mawla. How then can the Shia claim that the word Mawla refers to Caliphate or Imamah, unless all of the believers are suddenly Caliphs or Imams? (To this, the Shia will make the outrageous claim that this verse refers to Ali alone, despite the fact that it refers to believers in the plural. No doubt, Ali–like many other righteous believers–was included in this verse, but it cannot refer only and exclusively to him since it is clearly in the plural.) Indeed, the word “Mawla” here refers to love, extreme closeness, and help. In fact, there is not a single instance in the Quran in which the word “Mawla” is used to refer to Imamah or Caliphate.
In another verse of the Quran, Allah says:
“No Mawla will benefit his Malwa on the Day of Judgment.”
Does this mean that “no leader will benefit his leader on the Day of Judgment”? Surely this makes no sense. Rather, we see in this verse of the Quran that Allah refers to two people and calls both to be Mawla; if Mawla were to mean leader, then only one of them could be the leader of the other. But if Mawla means beloved friend, then indeed they could be Mawla of each other and it would be linguistically correct to refer to both of them as Mawla as Allah does in the Quran.
The word “Mawla” is used in the Hadith to mean beloved friend; let us examine Sahih al-Bukhari (Volume 4, Book 56, Number 715). The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) says:
“The tribes of Quraish, Al-Ansar, Juhaina, Muzaina, Aslam, Ghifar and Ashja’ are my beloved helpers (Mawali), and they have no protector except Allah and His Apostle.”
Does the word “Mawla” here refer to Caliphate or Imamah? Are these various tribes the Caliph or Imam over the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم)? Of course not. It makes more logical sense that they are in extreme closeness and love to the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) and are thus referred to as Mawali (plural of Mawla).
It is also important to point out that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) did not say “after me” in the Hadith of Ghadir Khumm. He only said “whomsoever’s Mawla I am, this Ali is also his Mawla” without giving any time frame. This means that this fact is timeless. If the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) had meant “whomsoever’s leader I am, this Ali is also his leader”, which is the meaning that our Shia brothers imply, then there would be a very big problem for the Muslim Ummah. There can never be two Caliphs in the same land at the same time, and there are many Hadith in which the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) warns against having two Caliphs. Without the words “after me”, it would become a very confusing sentence that would cause a great deal of Fitnah. Of course, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) did not mean it that way and none of the Sahabah understood it that way. On the other hand, it is perfectly possible to have more than one Mawla (beloved friend) at the same time. One can love the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) and be close to him, and at the same time love and be close to Ali (رضّى الله عنه).
If the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) meant to nominate Ali (رضّى الله عنه), then why would he use such ambiguous phrasing? Instead of saying something vague such as “whomsoever’s Mawla I am, this Ali is also his Mawla”, why didn’t the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) say something clearer such as “I nominate Ali to be the Caliph after I die” or “Ali is my successor and the first Caliph of the Muslims after me.” Surely, this would have cleared up the matter. The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) was commanded to be clear in delivering the Message, and none of the Sahabah interpreted his statement at Ghadir Khumm to mean that Ali (رضّى الله عنه) was nominated as Caliph.
To this, the Shia propagandist will make the contradictory assertion, as follows:
ShiaChat Member says:
The prophet (SAW) did in fact say clearly that IMAM ALI (A.S.) was his successor and the next Caliph and many other clearer things but these hadeeth were not transmitted by the sahaba and the sunnis because they wished to deny the imamate of IMAM ALI (A.S.). The sahaba and sunnis didnt remove the mawla hadeeth because it could be misinterpreted to deny the imamate of IMAM ALI (A.S.).
Some even say that the prophet (SAW) used intentionally vague wording otherwise people would have tampered his words. Had he used a more direct and clear term, then the sahaba would know that the people would think that it is about the IMAMATE of IMAM ALI (A.S.) and they would then take it out. In fact, in other SHIA hadeeths, the prophet (SAW) did in fact say it clearly that IMAM ALI (A.S.) is the successor and the next Caliph but the Sunnis reject those.
This argument is actually conceding the entire debate. Here, the Shia is saying:
1) The clear sayings of the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) were removed by the Sunnis.
2) The Hadith of Ghadir Khumm about Ali (رضّى الله عنه) being Mawla was not removed because it was not as direct and clear about the matter of Imamah or Caliphate.
Well then, isn’t the entire debate over? Was it not the Shia who was arguing this entire time that the Hadith of Ghadir Khumm is a clear and definite proof for the Imamah and Caliphate of Ali (رضّى الله عنه)? Indeed, this argument is admitting the fact that the Hadith about Ghadir Khumm does not talk clearly about Imamah/Caliphate; the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) saying that Ali (رضّى الله عنه) is Mawla of the believers does not in any way prove that Ali (رضّى الله عنه) was to be Caliph. In fact, had it been clear, then the Sahabah would not have transmitted it, correct? Therefore, we see–based on this line of thinking–that the Hadith of Ghadir Khumm could not have been clear about the Imamah of Ali (رضّى الله عنه), otherwise it wouldn’t have been narrated by the same Sahabah who sought to usurp his Caliphate. Indeed, this Hadith of Ghadir Khumm was never interpreted to mean that Ali (رضّى الله عنه) was Caliph and instead it was simply in reference to the virtues of Ali (رضّى الله عنه). If the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) praises somebody, this does not automatically make this person the Caliph of the Ummah. As for the Shia Hadith on the matter, those are irrelevant to us because the Shia are known to be liars and mass fabricators when it comes to Hadith.
Conclusion
Contrary to the Shia claims, the Hadith of Ghadir Khumm has nothing to do with Caliphate or Imamah. Instead, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) was merely refuting a group of people under the command of Ali (رضّى الله عنه) who were criticizing Ali (رضّى الله عنه) with very harsh words. Based on this, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) urged people that Ali (رضّى الله عنه) was the Mawla (beloved friend) of all the Muslims, just like the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) was. Had the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) wanted to nominate Ali (رضّى الله عنه) as the Caliph, then he (صلّى الله عليه وآله وسلّم) would have done so in his Farewell Sermon in Mecca instead of on his journey back to Medinah in the middle of the desert 250 km away from Mecca and the rest of the Muslims.
Playing Games with the Quran
Al-Islam.org says:
In this place (of Ghadir Khumm), the following verse of the Qur’an was revealed:
“O Apostle! Deliver what has been sent down to you from your Lord; and if you don’t do it, you have not delivered His message (at all); and Allah will protect you from the people …” (Qur’an 5:67)
The last sentence in the above verse indicates that the Prophet [s] was mindful of the reaction of his people in delivering that message but Allah informs him not to worry, for He will protect His Messenger from people.
This is an oft-repeated claim of the Shia, namely that this verse (5:67) was revealed in regards to Ali’s nomination to Caliph; in other words, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) should not worry about the awful reaction of the Sahabah to the declaration of Ali’s Imamah and Caliphate.
As is usually the case, the Shia propagandists have no qualms with playing legoes with the Quran and using the Quran as their own personal jigsaw puzzle. In fact, verse 5:67 could not possibly have been revealed in regards to Ali’s nomination, namely because it was directed towards the People of the Book (i.e. Jews and Christians). The Shia take the verse out of context, without considering the verse that comes right before it and the verse that comes right after it. Let us take a look:
[5:66] And if they (the Jews and the Christians) had observed the Torah and the Gospel and that which was revealed to them from their Lord, they would certainly have eaten from above them and from beneath their feet. Among them there are people who are moderate, but many of them are of evil conduct.
[5:67] O Messenger! Proclaim the Message which has been sent down to you from your Lord. If you do not, then you would not have fulfilled and proclaimed His Message. Allah will protect you from these men (who mean mischief). For Allah guides not those who reject Faith.
[5:68] Say: O People of the Book (i.e. the Jews and Christians)! You follow no good till you observe the Torah and the Gospel and that which is revealed to you from your Lord; and surely that which has been revealed to you from your Lord shall make many of them increase in inordinacy and disbelief; grieve not therefore for the disbelieving people.
So we see that the verse before and after is talking about the People of the Book, and it is in this context that the verse 5:67 was revealed, reassuring the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) that he should not fear the Jews or the Christians and that he (صلّى الله عليه وآله وسلّم) should clearly deliver the Message of Islam which will be made supreme over Judaism and Christianity. The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) is told in verse 5:67 that he should not fear these men who mean mischief, and in the very next verse (5:68) Allah says that the Message of Islam will only “increase them in inordinacy and disbelief.” It is exceedingly clear that we are talking about the same group of people, namely the disbelievers from amongst the People of the Book who mean to make mischief and who become obstinate in inordinacy and disbelief.
In fact, that entire section of the Quran is referring to the People of the Book, starting from verse 5:59 and going all the way to 5:86. Let us reproduce the verses below:
[5.59] Say: O People of the Book (i.e. Jews and Christians)! do you find fault with us (for aught) except that we believe in Allah and in what has been revealed to us and what was revealed before, and that most of you are transgressors?
[5.60] Say: Shall I inform you of (him who is) worse than this in retribution from Allah? (Worse is he) whom Allah has cursed and brought His wrath upon, and of whom He made apes and swine, and he who served the Shaitan; these are worse in place and more erring from the straight path.
[5.61] And when they come to you, they say: We believe; and indeed they come in with unbelief and indeed they go forth with it; and Allah knows best what they concealed.
[5.62] And you will see many of them striving with one another to hasten in sin and exceeding the limits, and their eating of what is unlawfully acquired; certainly evil is that which they do.
[5.63] Why do not the learned men and the doctors of law prohibit them from their speaking of what is sinful and their eating of what is unlawfully acquired? Certainly evil is that which they work.
[5.64] And the Jews say: The hand of Allah is tied up! Their hands shall be shackled and they shall be cursed for what they say. Nay, both His hands are spread out, He expends as He pleases; and what has been revealed to you from your Lord will certainly make many of them increase in inordinacy and unbelief; and We have put enmity and hatred among them till the day of resurrection; whenever they kindle a fire for war Allah puts it out, and they strive to make mischief in the land; and Allah does not love the mischief-makers.
[5.65] And if the followers of the Book had believed and guarded (against evil) We would certainly have covered their evil deeds and We would certainly have made them enter gardens of bliss
[5:66] And if they had observed the Torah and the Gospel and that which was revealed to them from their Lord, they would certainly have eaten from above them and from beneath their feet. Among them there are people who are moderate, but many of them are of evil conduct.
[5:67] O Messenger! Proclaim the Message which has been sent down to you from your Lord. If you do not, then you would not have fulfilled and proclaimed His Message. Allah will protect you from these men (who mean mischief). For Allah guides not those who reject Faith.
[5:68] Say: O People of the Book! You follow no good till you observe the Torah and the Gospel and that which is revealed to you from your Lord; and surely that which has been revealed to you from your Lord shall make many of them increase in inordinacy and disbelief; grieve not therefore for the disbelieving people.
[5.69] Surely those who believe and those who are Jews and the Sabians and the Christians whoever believes in Allah and the last day and does good– they shall have no fear nor shall they grieve.
[5.70] Certainly We made a covenant with the children of Israel and We sent to them apostles; whenever there came to them an apostle with what that their souls did not desire, some (of them) did they call liars and some they slew.
[5.71] And they thought that there would be no affliction, so they became blind and deaf; then Allah turned to them mercifully, but many of them became blind and deaf; and Allah is well seeing what they do.
[5.72] Certainly they disbelieve who say: Surely Allah, He is the Messiah, son of Marium; and the Messiah said: O Children of Israel! serve Allah, my Lord and your Lord. Surely whoever associates (others) with Allah, then Allah has forbidden to him the garden, and his abode is the fire; and there shall be no helpers for the unjust.
[5.73] Certainly they disbelieve who say: Surely Allah is the third (person) of the three; and there is no god but the one God, and if they desist not from what they say, a painful chastisement shall befall those among them who disbelieve.
[5.74] Will they not then turn to Allah and ask His forgiveness? And Allah is Forgiving, Merciful.
[5.75] The Messiah, son of Marium is but an apostle; apostles before him have indeed passed away; and his mother was a truthful woman; they both used to eat food. See how We make the communications clear to them, then behold, how they are turned away.
[5.76] Say: Do you serve besides Allah that which does not control for you any harm, or any profit? And Allah– He is the Hearing, the Knowing.
[5.77] Say: O followers of the Book! be not unduly immoderate in your religion, and do not follow the low desires of people who went astray before and led many astray and went astray from the right path.
[5.78] Those who disbelieved from among the children of Israel were cursed by the tongue of Dawood and Isa, son of Marium; this was because they disobeyed and used to exceed the limit.
[5.79] They used not to forbid each other the hateful things (which) they did; certainly evil was that which they did.
[5.80] You will see many of them befriending those who disbelieve; certainly evil is that which their souls have sent before for them, that Allah became displeased with them and in chastisement shall they abide.
[5.81] And had they believed in Allah and the prophet and what was revealed to him, they would not have taken them for friends but! most of them are transgressors.
[5.82] Certainly you will find the most violent of people in enmity for those who believe (to be) the Jews and those who are polytheists, and you will certainly find the nearest in friendship to those who believe (to be) those who say: We are Christians; this is because there are priests and monks among them and because they do not behave proudly.
[5.83] And when they hear what has been revealed to the apostle you will see their eyes overflowing with tears on account of the truth that they recognize; they say: Our Lord! we believe, so write us down with the witnesses (of truth).
[5.84] And what (reason) have we that we should not believe in Allah and in the truth that has come to us, while we earnestly desire that our Lord should cause us to enter with the good people?
[5.85] Therefore Allah rewarded them on account of what they said, with gardens in which rivers flow to abide in them; and this is the reward of those who do good (to others).
[5.86] And (as for) those who disbelieve and reject Our communications, these are the companions of the flame.
It is very clear that all of these verses are about the Jews and the Christians, and it is absurd that the Shia could just cut and paste the Quran as they wish. This is manipulating the Word of Allah and a very big sin that leads to the path of the Kufr. And yet, you will find that the Shia universally make the claim that this verse was revealed with regards to the Ghadir Khumm address and the nomination of Ali (رضّى الله عنه). So this is the length that the Shia propagandist will go to in order to twist Quran and Hadith in order to create the imaginary tale that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) nominated Ali (رضّى الله عنه) to be Caliph.
Al-Islam.org says:
In this place, the following verse was revealed:
“O Apostle! Deliver what has been sent down to you from your Lord; and
if you don’t do it, you have not delivered His message (at all); and
Allah will protect you from the people …” (Quran 5:67).
Some of Sunni references confirming that the revelation of the above verse
of Quran was right before the speech of Prophet in Ghadir Khum:
(1) Tafsir al-Kabir, by Fakhr al-Razi, under commentary of verse 5:67,
v12, pp 49-50, narrated on the authorities of Ibn Abbas, al-Bara Ibn
Azib, and Muhammad Ibn Ali.
(2) Asbab al-Nuzool, by al-Wahidi, p50, narrated on the authorities of
Atiyyah and Abu Sa’id al Khudri.
(3) Nuzul al-Quran, by al-Hafiz Abu Nu’aym narrated on the authorities
Abu Sa’id Khudri and Abu Rafi.
(4) al-Fusool al Muhimmah, by Ibn Sabbagh al-Maliki al-Makki, p24
(5) Durr al-Manthur, by al-Hafiz al-Suyuti, under commentary of verse 5:67
(6) Fathul Qadir, by al-Shawkani, under commentary of verse 5:67
(7) Fathul Bayan, by Hasan Khan, under commentary of verse 5:67
(8) Shaykh Muhi al-Din al-Nawawi, under commentary of verse 5:67
(9) al-Sirah al-Halabiyah, by Noor al-Din al-Halabi, v3, p301
(10) Umdatul Qari fi Sharh Sahih al-Bukhari, by al-Ayni
(11) Tafsir al-Nisaboori, v6, p194
(12) and many more such as Ibn Mardawayh, etc…
The Shia propagandists are deceitful; there is no other way to describe them. They have become notorious for their half-quotes. Here the Shia give twelve sources; let us look at them one by one. The first one is at-Tafseer al-Kabeer by Imam Razi. The Shia are trying to fool the Sunnis by making it appear as if Imam Razi believed that this verse 5:67 was revealed at Ghadir Khumm. In fact, Imam Razi said the exact opposite in his book!
Imam Razi mentions that various people have claimed that the verse was revealed on different occassions. He lists ten possibilities of when the verse could have been revealed. It is wellknown that the style of the scholars was to list the most important view first and the least important view last. It should interest the deceitful Shia to know that Imam Razi did mention Ghadir Khumm but as the absolute last one, meaning in his eyes it was the weakest possible view.
We will now provide the commentary of Imam Razi word for word:
Scholars of Tafseer have mentioned many causes of revelation:
(1) The first is that this verse was revealed in the instance of stoning and retaliation as was previously mentioned in the story of the Jews.
(2) The second cause is that it has been revealed because of the Jews’ criticism and making fun of the religion, and the Prophet had remained silent about them, thus this verse was revealed.
(3) Third: When the verse of choice was revealed, which is “O Prophet! say to thy wives:” (i.e 33:28), the Prophet did not deliver this verse to them out of fear that they may choose this world, and thus it (i.e 5:67) was revealed.
(4) Fourth: It was revealed with regards to Zayd and Zaynab Bint Jahsh. Aisha said: Whoever claims that the Messenger of Allah concealed part of what was revealed to him, then he has committed a great lie against Allah, for Allah has said: “O Apostle (Muhammad)! Proclaim (the Message)” and was the Messenger of Allah to conceal part of what was revealed to him he would have concealed His saying: “And you hide in your mind that which Allah was to bring to light” [33:37]
(5) Fifth: It was revealed with regards to Jihad, for the hypocrites hated it, so he used to withhold from urging them for Jihad.
(6) Sixth: When the saying of Allah has been revealed: “Revile not ye those whom they call upon besides Allah, lest they out of spite revile Allah in their ignorance.” [6:108], the Messenger withheld from reviling their gods, so this verse was revealed, and He said: “Proclaim” i.e the faults/criticism about their gods and do not hide it, and Allah will protect you against them.
(7) Seventh: It was revealed with regards to the rights of Muslims, because in the Last Pilgrimage after he had declared the rulings and rituals of Hajj, he said: Have I not declared (it to you)? They said: Yes. He said: O Allah be my witness.
(8) Eighth: It has been narrated that he rested under a tree in one of his journeys and hung his sword on it, when a Bedouin came while he was sleeping and snatched the sword saying: “O Muhammad, who will protect you against me?” He said: “Allah”, so the hand of the Bedouin trembled, the sword fell from his hand, and he banged his head against the tree until his brains burst, so Allah revealed this verse and explained that He will protect him against people.
(9) Ninth: He used to fear Quraysh, the Jews and the Christians, so Allah removed this fear from his heart with this verse.
(10) Tenth: This verse has been revealed to stress Ali’s excellence, and when the verse was revealed, the Prophet caught hold of Ali’s hand and said: “One who has me as his mawla has Ali as his mawla. O Allah, Be his friend who befriends him, and be his enemy who is his enemy.” (Soon) after this, Umar met him (Ali) and said: “O Ibn Abi Talib! I congratulate you, now you are my mawla and the mawla of every male and female believer.” This is the saying narrated from Abdullah ibn Abbas, Baraa ibn Aazib and Muhammad bin Ali.
You should know that even with these narrations being numerous, it is more fit to explain the verse as Allah assuring him (the Prophet) of protection against the cunning schemes of the Jews and Christans and ordered him to announce the proclamation without having fear of them. This is because the context before this verse and after this verse is addressing the Jews and Christians; it would not be possible to throw a verse in the middle (of other verses) making it foreign to what is before it and after it.
(source: Tafseer al-Kabir, by Fakhr al-Razi, under the commentary of the verse 5:67, volume 12, pp.49-50)
In other words, Imam Razi did mention ten possibilities but he stated that the only strong opinion was that the verse was revealed about the Jews and Christians and this is why he mentioned this possibility first.
Is it any wonder that the deceitful Shia Encyclopedia did not mention that Imam Razi mentioned ten possibilities and stated that the only reasonable one was the first? Instead the Shia rely on half-quotes; indeed, they are a people who love Taqiyyah and deception. We warn the Sunni laypersons not to be impressed by their lengthy lists of references; whenever the Shia give a list of references but no exact quote, it is a good sign that they are twisting the text just like they twist the Quran and play legoes with it.
As for the narration reported by Ibn Abi Hatim, its chain is as follows:
My father told us: Uthman Ibn Khurzad told us: Ismail Ibn Zakariya told us: Ali Ibn Abis told us: from Al-Amash from Atiya Al-Awfi from Abu Saeed Al-Khudri.
The Isnad is weak. If we analyze the narrators, we find:
(1) Ismail Ibn Zakariya Al-Kufi
Abu Yahya narrated from Ahmad Ibn Hanbal: “He is weak.”
Al-Nasai said in Jarh wa Tadeel: “He is not strong.”
(2) Ali Ibn Abis
Yahya Ibn Maeen said: “He is nothing.” And such said Ibrahim Ibn Yaqub Al-Jozqani, Al-Nasai, and Abu Al-Fath Al-Azdi.
Ibn Hibban said: “His mistakes were excessive such that he deserved to be deserted.”
(3) Al-Amash
He is Mudalis.
(4) Atiya Al-Awfi:
Ahmad said: “He is weak.”
Al-Nasai said: “He is weak.”
Ibn Hiban said:”He heard from Abu Saeed hadiths and when he died he used to sit with Al-Kalbi, so if Al-Kalbi said: “The Messenger of Allah said such-and-such,” he would memorize it and he gave him the kunya of Abu Saeed and narrated from him. So if it is said to him: “Who narrated this to you?” He would say: “Abu Saeed narrated this to me.” So they (i.e those who inquired) would think that he meant Abu Saeed Al-Khudri, when in reality he meant Al-Kalbi.
He further stated: “It is not permissible to write his narrations except for being amazed about them.”
And then he related from Khalid Al-Ahmar that he said: “Al-Kalbi told me: Atiya told me: I have given you the kunya of Abu Saeed so I say: Abu Saeed narrated to us.”
Accordingly, Abu Saeed in this narration could be Al-Kalbi and not the companion of the Prophet, i.e. Abu Saeed Al-Khudri.
(5) Abu Saeed: Muhammad Ibn Al_Sae’b Al-Kalbi
Al-Suyuti said in Al-Itqan regarding the Tafseer of Ibn Abbas: “And the weakest of its chains is the way of Al-Kalbi from Abu Saleh from Ibn Abbas. And if the narration of Muhammad Ibn Marwan Al-Sadi, the young, is added then this is the chain of lies, and quite often Al-Thalabi and Al-Wahidi narrate through it.”
Yaqut Al-Hamawi said in Mu’jam Al-Udaba of Tafseer at-Tabari: “And he (Tabari) did not make reference to any untrusted Tafseer, for he did not include in his book anything from the book of Muhammad Ibn Al-Sa’eb Al-Kalbi nor Muqatil ibn Sulayman nor Muhammad ibn Umar Al-Waqidi for they create suspicion (athina’) in his view, and Allah knows best.”
Al-Bukhari mentioned in his Tareekh Al-Kabeer: “Muhammad Ibn Al Sae’b Abu Al- Nadhir Al-Kalbi was abandoned by Yahya Ibn Saeed.” Ibn Mahdi and Ali told told us: “Yahya Ibn Saeed told us: from Sufyan: Al-Kalbi told me: Abu Salih told me: everything I have told you is lies.”
Al-Nasai said: “He is not trusted and his hadith should not be written.”
Ahmad Ibn Haroon said: “I asked Ahmad Ibn Hanbal about Tafseer Al-Kalbi.” He said: “Lies.” I said: “Is it permissible for me to look into it?” He said: “No.”
CONCLUSION: This narration has no credibility at all.
The other books cited by the Shia contain this same chain, such as Asbab Al Nuzul by Imam Wahidi al Naysaburi:
أخبرنا أبو سعيد محمد بن علي الصفار قال: أخبرنا الحسن بن أحمد المخلدي قال: أخبرنا محمد بن حمدون بن خالد قال: حدثنا محمد بن إبراهيم الخلوتي قال: حدثنا الحسن بن حماد سجادة قال: حدثنا علي بن عابس عن الأعمش وأبي حجاب عن عطية عن أبي سعيد الخدري قال: نزلت هذه الآية (يا أَيُّها الرَسولُ بَلِّغ ما أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَّبِّكَ) يوم غدير خم في علي بن أبي طالب رضي الله عنه
In the Tafseer Dar al-Manthur of Imam Suyuti, we find that the same chain is cited:
#6609حدثنا ابى ثنا عثمان بن حرزاد، ثنا اسماعيل بن زكريا، ثنا علي بن عابس عن الاعمش ابني الحجاب، عن عطية العوفي عن ابى سعيد الخدري قال: نزلت هذه الاية يا ايها الرسول بلغ ما انزل اليك من ربك في علي بن ابى طالب
And the same is the case with Imam al-Shawkani in Fath Al Qadir.
The point is that none of the sources actually prove the Shia argument. If they did, then you would have seen the Shia providing complete quotes, but they cannot do that because that would expose the weakness in their arguments! To conclude the matter, no reliable Sunni source says that the verse was revealed at Ghadir Khumm.
As is well known, the incident of Ghadir Khumm occurred near the Prophet’s death when all of Arabia had already been subdued by the Muslims under the guidance of the Prophet; this included the Christians in Najran and the Jews in Yemen. What is there for the Prophet to fear from proclamation when his followers have increased a hundred-fold? It would not make sense for this verse to have been revealed at the time of the Prophet’s peak of power. Rather, this verse was revealed at a much earlier stage of the Prophetic era when Islam was still struggling for its survival, surrounded by many enemies.
Al-Islam.org says
Revelation of Qur’anic Verse 5:3
Immediately after the Prophet [s] finished his speech, the following verse of the Qur’an was revealed:
“Today I have perfected your religion and completed my favour upon you, and I was satisfied that Islam be your religion.” (Qur’an 5:3)
The above verse clearly indicates that Islam without clearing up matter of leadership after Prophet [s] was not complete, and completion of religion was due to announcement of the Prophet’s immediate successor.
This is another Shia fabrication: the Quranic verse 5:3 (“this day I have perfected your religion…”) was revealed at the end of the Farewell Sermon on top of Mount Arafat. This fact is reported in Hadith narrated in Sahih Bukhari, Sahih Muslim, al-Sunan, and others:
“It (i.e. the verse ‘This day I have perfected your religion…’) was revealed on a Friday, the Day of Arafat…”
It was, after all, the Farewell Sermon of the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) and it is therefore natural to assume that this was the appropriate place for the religion to be sealed. In fact, it is for this very reason that we deny that Ghadir Khumm could possibly be in relation to the Imamah of Ali (رضّى الله عنه). The verse “This day I have pefected your religion…” had already been revealed and nothing else could be added to the faith after this. If the Shia insist that something as major as the Imamah of Ali (رضّى الله عنه) was added after this, then where are these verses in the Quran about such a thing?
Why is the Quran completely silent in regards to the nomination of Ali (رضّى الله عنه)? Surely, Allah would have mentioned this in the Quran if it was a divinely ordained matter? Why is it that Allah supposedly revealed verse 5:67 and 5:3 all about Ali (رضّى الله عنه) and his Imamah, but Allah did not choose to simply include Ali’s name in those verses and make it clear to the Muslims that Ali (رضّى الله عنه) was the next divinely appointed leader of the Muslims? To add more confusion to the matter, neither of these verses talks about Imamah or Caliphate at all. It is truly amazing how the Shia always say this and this Quranic verse refers to the Imamah of Ali (رضّى الله عنه) and yet Allah never just says so Himself.
Rebuttals
ShiaChat Member says:
Ghadir Khumm was a central location, a source of water that represented the last place where the people from different locations were together before splitting up on their separate ways to go home. It was the last moment during the hajj when indeed EVERYONE was present.
Ghadir Khumm was a central location only for those Muslims heading north, either to Medinah or those passing through Medinah to places such as Syria. As we have discussed earlier, Ghadir Khumm is located midway between Mecca and Medinah; Ghadir Khumm is located 250 km away from Mecca. It may indeed be a common pit-stop for that fraction of the Muslims heading to the North, but it is not, however, a central location for the Muslims heading in the other directions, such as those heading South of Mecca to Taif or Yemen.
Does it make logical sense that the people of Mecca would find any need to pass through Ghadir Khumm on their “return trip” to Mecca after Hajj? Are they not already in Mecca, their home city? The Meccan Muslims would have ended their Hajj in Mecca, and the Muslims of Medinah would have left for their home city, stopping at Ghadir Khumm without the company of the Meccan Muslims whom they had left behind in Mecca. The same can be said of the People of Yemen, of Taif, etc. Indeed, all of these major Muslim cities were not included in the speech at Ghadir Khumm, and this is very odd: had the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) wanted to nominate Ali (رضّى الله عنه) as Caliph, then surely he would have done this in front of all the Muslims from Mecca, Taif, Yemen, etc.
In fact, the Shia polemicists have been accutely aware of this fact and it is for this reason that they insist to the masses that Ghadir Khumm was the place where all the Muslims went before parting for home and that therefore the Ghadir Khumm address was to all the Muslims. This “fact” is only believable to the ignorant masses who do not care to take out a map and really find out where Ghadir Khumm is. Once a person takes out a map, it becomes quite clear how bugus the Shia claims are; in fact, only a fraction of the Muslims were present at Ghadir Khumm (i.e. those heading towards Medinah).
It is based on the distance from Mecca to Ghadir Khumm that we ascertain that it is much more believable that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) was correcting a specific group of Muslims (i.e. the soldiers from Medinah who had been dispatched to Yemen) rather than addressing the general masses of the Muslims. The speech of Ghadir Khumm was addressed primarily to the group that had been criticizing Ali (رضّى الله عنه), and it was for this reason that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) did not include this in his Farewell Sermon of the Last Hajj in front of the Muslim masses.
The Thaqalayn Muslim Association says:
An Appeal to Common Sense:
Allah, the All-Knowing, describes the sublime character of the Prophet Muhammad (peace be upon him and his progeny) as follows:
“Certainly a Messenger has come to you from among yourselves; grievous to him is your falling into distress, excessively solicitous respecting you; to the believers (he is) compassionate… ” [9:128]
The Prophet (peace be upon him and his progeny) was an extremely kind-hearted and compassionate. He always took every effort to ensure the well-being and comfort of his followers, and was never known to impose any extra burden or hardship upon others. He was even known to shorten his prayers upon hearing the voice of a baby crying. It is impossible to infer that the Prophet, who was sent as “a mercy unto the worlds” had ordered his followers to sit in the burning heat of the Arabian desert, without any shade, for several hours, only to announce to them that ‘Ali ibn Abi Talib was his “friend.”
ShiaChat Member says:
why do you think Muhammad stopped 60 000 people in the middle of the desert months before he knew he was going to die? To say, “ya know, Ali is my buddy?!”
In fact, the Shia here have brought up a point which works against them, not for them. We would like to ask the exact same question: why indeed would Prophet Muhammad (صلّى الله عليه وآله وسلّم) senselessly force the Meccans to march out 250 km to the watering hole of Ghadir Khumm which is located in the middle of the desert? Why indeed would the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) force the People of Taif to travel in the exact opposite direction (North as opposed to South)? The Shia living in Taif today travel to Mecca, complete Hajj, and then they return to Taif. They do not find it necessary to travel 250 km to Ghadir Khumm and then turn around to travel another 250 km back to Mecca and then to Taif in the South, a detour that would have added a few weeks in extra travel time!
Instead, what is more probable is that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) and the Muslims heading towards Medinah stopped at the watering hole of Ghadir Khumm in order to refresh themselves. It was over there that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) heard people again criticizing Ali (رضّى الله عنه) despite what the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) had earlier warned them about. Therefore, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) addressed them all at Ghadir Khumm, urging them to take Ali (رضّى الله عنه) as a beloved friend. It should be noted that the Muslims heading towards Medinah would generally stop at Ghadir Khumm as it was a watering hole; it was a pit-stop on the way to Medinah, where the Muslims would rest for awhile and it was during that rest that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) addressed them after a group of Muslims had criticized Ali (رضّى الله عنه).
The Thaqalayn Muslim Association says:
Laudation from the Muslims
After his speech, the Messenger of Allah asked every body to give the oath of allegiance to ‘Ali (عليه السلام) and congratulate him. Among the first Muslims to congratulate ‘Ali were ‘Umar and Abu Bakr, who said: “Well done, O son of Abu Talib! Today you have become the leader (Mawla) of all believing men and women.”
[Found in Musnad Ahmad Ibn Hanbal, Tafsir al-Kabir by Fakhrudeen al-Razi, Kitabul Wilayah by at-Tabari, and many others]
This is typical and classical Shia propaganda; they will say things like “it’s in your own books” and then off-handedly quote our books but meanwhile injecting their own meanings into them. What is found in the texts is only that Umar (رضّى الله عنه) congratulated Ali (رضّى الله عنه) on becoming Mawla (a beloved friend) to all the Muslims, not that Umar (رضّى الله عنه) pledged his allegiance to Ali (رضّى الله عنه). Ali (رضّى الله عنه) was being severely criticized by his men and it was in this atmosphere that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) defended Ali (رضّى الله عنه) and informed the Muslims that they shouldn’t hate Ali (رضّى الله عنه) but rather love him.
In fact, the Shia argument makes no sense. If Umar (رضّى الله عنه) and the rest of the Muslims pledged Baya’ah to Ali (رضّى الله عنه) and said “today you have become the leader…”, then what about the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم)? The key words here are “today” and “you havebecome”, meaning that Ali (رضّى الله عنه) is currently Mawla. If we take the definition of Mawla to be Imam or Caliph, then this means that Ali (رضّى الله عنه) is the leader of the Muslims now and not Prophet Muhammad (صلّى الله عليه وآله وسلّم). Surely, the Muslims cannot have two rulers at the same time, and this is stated in both Sunni and Shia Hadith. Indeed, if Umar (رضّى الله عنه) were really congratulating Ali (رضّى الله عنه) for his nomination as the next Caliph, then he would have said something like this: “Well done, Ali ibn Abi Talib! You will soon become the Caliph of all the Muslims.” Or maybe: “Well done, Ali ibn Abi Talib! You were nominated to one day become (future tense) the Caliph of all the Muslims.” But he certainly would not have said: “Congratulations…today you have become the leader.”
The proper understanding of this congratulations given by Umar (رضّى الله عنه) is that Umar (رضّى الله عنه) was congratulating Ali (رضّى الله عنه) on becoming the beloved friend of all the Muslims. The atmosphere was such that the people had been criticizing and hurting Ali (رضّى الله عنه), so the noble Umar ibn al-Khattab (رضّى الله عنه) went to comfort him and say kind words to him. The perceptive reader would note that Umar (رضّى الله عنه) was very kind in his praise of Ali (رضّى الله عنه), and this is diametrically opposed to the Shia paradigm which paints a portrait of conflict between Umar (رضّى الله عنه) and Ali (رضّى الله عنه), casting Umar (رضّى الله عنه) as an oppressor of Ali (رضّى الله عنه). Do these kind words seem to be said by someone who hates Ali (رضّى الله عنه) as the Shia claim?
If we translate the word “Mawla” here to mean “leader”, then why would Umar (رضّى الله عنه) pledge his Baya’ah so lovingly by congratulating Ali (رضّى الله عنه)? The Shia had earlier claimed that Allah had revealed verse 5:67 to encourage the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) to nominate Ali (رضّى الله عنه) without fear of the reprisal from the people:
“O Messenger! Proclaim the Message which has been sent down to you from your Lord. If you do not, then you would not have fulfilled and proclaimed His Message. Allah will protect you from these men (who mean mischief). For Allah guides not those who reject Faith.” (Quran, 5:67)
The Shia say that “these men (who mean mischief)” refer to the Sahabah especially Abu Bakr (رضّى الله عنه) and Umar (رضّى الله عنه). If this verse was truly revealed about Umar (رضّى الله عنه)–and if Umar (رضّى الله عنه) was truly seeking to usurp the Caliphate of Ali (رضّى الله عنه)–then why does Umar (رضّى الله عنهcongratulate Ali (رضّى الله عنه) on his nomination? At most, we would expect such a person to grudgingly give the Baya’ah, if at all. But here, we see that Umar (رضّى الله عنه) is the first to congratulate Ali (رضّى الله عنه) with regards to being Mawla. The bottom line point is that if the word “Mawla” meant leader, then Umar (رضّى الله عنه) would not have congratulated him on it. This praise said by Umar (رضّى الله عنه) was transmitted widely to the people, so why should Umar (رضّى الله عنه) do that favor to Ali (رضّى الله عنه) if he was truly against him or if “Mawla” really meant “leader”? Umar (رضّى الله عنه) interpreted “Mawla” to be “beloved friend” and not “leader”–and this is the meaning understood by the people back then.
The Thaqalayn Muslim Association says:
The Meaning of Mawla
The schools of thought differ on the interpretation of the word “Mawla.” In Arabic, the world “Mawla” has many meanings. It can mean master, friend, slave, or even client. If a word has more than one meaning, the best way to ascertain its true connotation is to look at the association (qarinah) and the context. There are scores of “associations” in this hadith which clearly show that the only meaning fitting the occasion can be “master”. Some of them are as follows.
We definitely agree with this Shia author that there are many different meanings for the word “Mawla” and we are glad that they at least admit this much. It is our hope that the Shia lay-persons at least acknowledge this fact in debate, instead of being obstinate and pig-headed with regards to the idea that Mawla can only mean “master.” Although we quoted the above from a Shia propaganda article, we no doubt agree with this introduction, namely that:
1) Mawla has many different meanings.
2) We must look at the context in which the word was said to ascertain the meaning.
However, we disagree with this article which states that Mawla here is to be translated as “master.” Let us refute this article point by point, Insha-Allah:
SalamIran.org says:
In addition, there is also what (the Prophet), peace be on him and his family, said on the day of Ghadir Khumm. The community had gathered to listen to the sermon (in which he asked):
“Am I not more appropriate for authority (awla) over you than yourselves?”
“Yes”,
they answered.
Then he spoke to them in an ordered manner without any interruption in his speech:
“Whomsoever I am the authority over (mawla), Ali is also the authority over.”
The Thaqalayn Muslim Association says
First: The question which the Holy Prophet asked just before this declaration: “Do I not have more authority (awla) upon you than you have yourselves?” When they said: “Yes, surely,” then the Prophet proceeded to declare that: “Whoever whose mawla I am. ‘Ali is his mawla.” Without doubt, the word “mawla” in this declaration has the same meaning as “awla” (having more authority upon you).
Without a doubt, no. Awla and Mawla are two different words! Describing himself, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) says:
“Am I not more appropriate for an Awla (authority) over you than yourselves?”
And describing Ali (رضّى الله عنه), suddenly the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) switches to:
“Whomsoever’s Mawla I am, this Ali is also his Mawla.”
If anything, this sudden switch in wording completely negates the Shia claims! The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) should simply have said that Ali (رضّى الله عنه) was Awla over the people, but instead he was very keen to say Mawla instead. The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) first states that Allah has authority over the people, then he says that he himself has authority over the people, but then suddenly he switches and uses the word “Mawla” for Ali (رضّى الله عنه), even though he had used the word “Awla” for Allah and himself.
The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) mentioned that he had authority over the believers so that they would listen to him and befriend Ali (رضّى الله عنه) as was his wish. The Muslims under Ali’s command hated him, so the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) was using his influence to cause them to love Ali (رضّى الله عنه) and take him as a beloved friend. An analogy to this is if a mafioso was about to hurt a baker, but that baker turned out to be a good friend of the mafia don. So the mafia don asks the mafioso: “Are you loyal to me and do you obey my commands?” The mafioso replies in the affirmative. So the mafia don says: “If you obey my command, then be nice to this baker. This baker is my good friend, and if you are my good friend, then you should also be friends with this baker.”
It seems that the Shia are grasping at straws trying to inject the meaning of Imamah or Caliphate into the word “Mawla”. In order to build their claim, they will borrow Quranic verses that are on totally unrelated topics; whatever sounds good can work for the Shia, no matter how true it is. Here, the Shia want us to just believe that Awla is the same as Mawla. The Shia are just one step away from claiming that Ali (رضّى الله عنه) must be Wali since the words “Ali” and “Wali” are so similar.
The Thaqalayn Muslim Association says:
Second: The following prayer which the Holy Prophet uttered just after this declaration: “O Allah! Love him who loves ‘Ali, and be the enemy of the enemy of ‘Ali; help him who helps ‘Ali, and forsake him who forsakes ‘Ali.”
This prayer shows that ‘Ali, on that day, was entrusted with a responsibility which, by its very nature, would make some people his enemy; and in carrying out that responsibility he would need helpers and supporters. Are helpers ever needed to carry on a friendship?
Al-Islam.org says:
Glitters of Ahadith Relevant to the Ghadir Incident
“To whomsoever I have been a master, this `Ali is [henceforth] his master; O Lord! Befriend whoever befriends him, and be the enemy to whoever antagonizes him.”
The Shia author of the article has clearly stated that in order to find out what “Mawla” means, we need to use context clues. And he shows us the very next sentence in which the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) says: “O Allah! Befriend whoever befriends him, and be the enemy to whoever antagonizes him.”
This is a great Hujjah (proof) against the Shia claims! The word used is “befriend” or “love” which means that Mawla here is being used to refer to a “beloved friend”. It is clear from this that “Mawla” here refers to love and close relation, not Caliphate and Imamah. Muwalat (love) is the opposite of Mu`adat (enmity). This definition of the word “Mawla” makes most sense due to the context, because the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) immediately says “O Allah, befriend whosoever befriends him and be the enemy of whosever is hostile to him.”
How can it be translated in any other way when we take into account that the very second addition is about befriending him, not about being ruled by him or anything like that? It is in fact unbelievable that the Shia can translate it to mean Caliphate and Imamah when the context has nothing to do with that. And it is even more unbelievable that the Shia can bring forth “proof” that is in fact the proof against their own arguments!
As for this part:
The Thaqalayn Muslim Association says
This prayer shows that ‘Ali, on that day, was entrusted with a responsibility which, by its very nature, would make some people his enemy; and in carrying out that responsibility he would need helpers and supporters.
This is merely Shia guesswork and conjecture; the Shia imagination knows no bounds and he (the Shia) can read into the text amazing things. It is almost as if the Shia has some sort of special power or perhaps super goggles with which only he can read what is in between the lines that normal human beings cannot read, and it is this pair of goggles he uses when reading into both Quranic verses and Hadith. Perhaps aliens from Mars were about to attack and they would hate Ali (رضّى الله عنه), so this is why the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) said this! And look, the word “aliens” even has the word “Ali” in it!
There is no need for this Shia guesswork and conjecture when we already know why Ali (رضّى الله عنه) had many enemies. There have been multiple narrations about how Ali (رضّى الله عنه) had angered his soldiers by taking back their spoils of war and these people were complaining about Ali (رضّى الله عنه). It was in this atmosphere of unrest that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) wanted to defend Ali (رضّى الله عنه) and urged these men to be friends with Ali (رضّى الله عنه) because Ali (رضّى الله عنه) should be loved by the entire Muslim Ummah, as indeed all of the Ahlus Sunnah loves Ali (رضّى الله عنه) to this day.
As far as the absurd idea that friends are not helpers, we wonder what kind of friends that Shia author has? A very key part of friendship revolves around helping, lending support, etc. The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) said in numerous Hadith that Muslims should help out their brothers, friends, neighbors, etc.
The Thaqalayn Muslim Association says:
Third: The declaration of the Holy Prophet that: “It seems imminent that I will be called away (by Allah) and I will answer that call.” This clearly shows that he was making arrangements for the leadership of the Muslims after his death.
How is it clear? It is not clear at all. If the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) meant that, then why didn’t he (صلّى الله عليه وآله وسلّم) just say that? Why does the Shia have to become the spokesperson for the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) always telling us that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) meant such-and-such even though he just said such-and-such? Surely, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) could have said “I am about to die and therefore I am worried about who will be my successor and this is why nominate Ali to be the Caliph after me.” Instead, we have to guess and trust the Shia that this is what the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) really meant to say, and we all know how creative the Shia imagination is.
The complete negation of this Shia claim is the fact that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) said something similar in his Farewell Sermon atop Mount Arafat, starting his speech by saying:
“O People, lend me an attentive ear, for I know not whether after this year, I shall ever be amongst you again.” (Bayhaqi)
And yet, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) did not mention the leadership of the Muslims at all in this speech. So we see that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) was prefacing everything he said with the fact that he was about to die, and this does not mean that he was talking about leadership. In fact, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) was worried about his family after his death; this is a normal human emotion and worry. Each and everyone of us would be worried about what would happen to our children, wife, or near relatives after we die. This is a common worry when people are on their deathbed. And this worry in the case of the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) was increased because there were certain Muslims who were criticizing and (emotionally) hurting his cousin.
The Thaqalayn Muslim Association says:
Fourth: The congratulations of the Companions and their expressions of joy do not leave room for doubt concerning the meaning of this declaration.
We have already addressed this point earlier. The Shia had earlier claimed that Allah had revealed verse 5:67 to encourage the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) to nominate Ali (رضّى الله عنه) without fear of the reprisal from the people:
“O Messenger! Proclaim the Message which has been sent down to you from your Lord. If you do not, then you would not have fulfilled and proclaimed His Message. Allah will protect you from these men (who mean mischief). For Allah guides not those who reject Faith.” (Quran, 5:67)
And the Shia say that the Sahabah were the ones foremost against the nomination of Ali (رضّى الله عنه). And yet now, the article is claiming that the Sahabah had “expressions of joy”. Is this not a contradiction? If the people and the Sahabah were against Ali’s nomination so much so that Allah had to reveal a verse in the Quran about this, then why would they congratulate Ali (رضّى الله عنه) and have “expressions of joy”? This is indeed a very big contradiction, but no doubt it is the inevitable result of furthering any argument–no matter how spurious–in order to bolster one’s argument. What happens is that the Shia propagandist does this so frequently that he forgets his earlier arguments and accidentally furthers two contradictory claims.
The people were congratulating Ali (رضّى الله عنه) because he had just been declared the beloved friend of all the Muslims. If some child’s parents told him to be friends with so-and-so person, what is the first thing this child would do after his parents said that? No doubt the child would go and introduce himself to that person and say kind words to him. This is the case at Ghadir Khumm: there had been people who were criticizing Ali (رضّى الله عنه), but then the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) declared that Ali (رضّى الله عنه) was the beloved friend of the Muslims, and so the people went to Ali (رضّى الله عنه) to say kind words to him and congratulate him on this honor. Again, it has nothing to do with leadership, Imamah, or Caliphate. If that were the case, then–at least according to the Shia paradigm–wouldn’t the Sahabah have been sullen and depressed, instead of joyful and elated?
It is strange how the Shia try to downplay the greatness of being declared a “beloved friend”: we will often see Shia who say things like “surely it couldn’t mean ‘just a friend’”. We do not understand what they mean by “just a” friend. First of all, it is not any old friend, but rather it is a beloved friend, indicating deep affection and love. Prophet Ibrahim (عليه السلام) was referred to as “Khaleel-Allah” which means “friend of Allah” and this title is bestowed to him by Allah. This is a great title, and nobody would say “just a friend” here. To be declared the friend of Allah is no small thing, and neither is it any small matter being referred to as the “beloved of the Ummah”.
The Thaqalayn Muslim Association says:
…only to announce to them that ‘Ali ibn Abi Talib was his “friend.”
Such a claim is yet more absurd when one considers the fact that ‘Ali already had an exalted status in comparison with the other Muslims.
Yes, Ali (رضّى الله عنه) already had an exalted status, but this is silly nonsense to say that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) can only praise a person once or twice. The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) exalted the status of Umar (رضّى الله عنه) on numerous occasions, yet we will never find any of the Sunnis who doubt the authenticity of something only because he has already been praised before. The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) continually heaped praise upon those worthy of praise, and Ali (رضّى الله عنه) was one such individual. And although the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) had exalted Ali (رضّى الله عنه) in numerous ways in the past, it was here that he gave him the honor of being the beloved of the Ummah.
Furthermore, this event must be viewed in the appropriate context. The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) was responding to a certain group of people who hated Ali (رضّى الله عنه) and who were becoming his enemies. In response to this time specific event, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) urged the Muslims to love Ali (رضّى الله عنه). Therefore, what was said at Ghadir Khumm must be taken into context: had it been another Sahabi who was being insulted and hated upon, then it is likely that the Prophet’s speech would have been in regards to that other Sahabi instead. This can hardly be construed as a proof for Imamah or Caliphate.
Al-Islam.org says:
Number of Companions in Ghadir Khumm
Allah ordered His Prophet [s] to inform the people of this designation at a time of crowded populous so that all could become the narrators of the tradition, while they exceeded a hundred thousand.
Narrated by Zayd b. Arqam: Abu al-Tufayl said: “I heard it from the Messenger of Allah [s], and there was no one (there) except that he saw him with his eyes and heard him with his ears.”
The Shia often bring up this narration in order to prove somehow that all the Muslims were present at Ghadir Khumm. However, we urge the unbiased reader to look at the text which only says: “there was no one (there) except that he saw him with his eyes and heard him with his ears.” This simply says that everyone present at Ghadir Khumm heard the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) say what he said about Ali (رضّى الله عنه). We are already agreed that those at Ghadir Khumm were addressed by the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم), but the issue is that only a fraction of the Muslims passed through Ghadir Khumm on that day.
The Position of Ali’s Grandson, Al Hasan ibn Hasan ibn Ali ibn Abi Talib (رضّى الله عنه)
It is narrated in Ibn Saad’s “Al-Tabaqat Al-Kubra”:
A Rafidhi (a person who rejects the Caliphate of Abu Bakr and Umar) said to him (Al Hasan ibn Hasan), “Did not the Messenger of Allah say to Ali: ‘If i am Mawla of someone, Ali is his Mawla?’”
He (Al Hasan) replied, “By Allah, if he meant by that Amirate and rulership, he would have been more explicit to you in expressing that, just as he was explicit to you about the Salah, Zakat and Hajj to the House. He would have said to you, ‘Oh people! This is your leader after me.’ The Messenger of Allah gave the best good counsel to the people (i.e. clear in meaning).”
(Source: Al-Tabaqat Al-Kubra, Volume 5)
Similar Praise for Other Sahabah
The fact that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) referred to Ali (رضّى الله عنه) as “Mawla” (beloved friend) cannot be used as a proof for any Prophetic nomination of Ali (رضّى الله عنه) as Caliph. Many other Sahabah were praised in a similar fashion, and yet nobody understands these texts to mean that these other Sahabah are divinely appointed Infallible Imams. Let us for, example, take the example of the Hadith in relation to Umar ibn al-Khattab (رضّى الله عنه).
The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) said: “The truth, after me, is with Umar wherever he is.”(Narrated ibn Abbas)
And yet, nobody uses this Hadith to say that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) was nominating Umar (رضّى الله عنه) as his successor; not even Umar (رضّى الله عنه) himself interpreted it in this way, and it was he himself who nominated Abu Bakr (رضّى الله عنه) to be Caliph instead. In yet another Hadith, we read:
The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) said: “If a prophet were to succeed me, it would have been Umar ibn al-Khattab.” (Sunan al-Tirmidhi)
Had this been a Hadith in regards to Ali (رضّى الله عنه), then the Shia would have been quoting it left, right, and center; but a cool-headed understanding by the Ahlus Sunnah takes into account all of the various Hadith in which the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) praised many Sahabah in various ways. These are all proofs for the exaltation of Sahabah definitely but they do not entail Prophetic nomination to Caliphate and they definitely do not convey any sense of divine appointment by Allah. In another Hadith, we read:
The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) said: “The first one whom the Truth will shake hands with is Umar…” (narrated Ubay ibn Kaab)
And in yet another Hadith, we read:
The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) said: “There were in the nations before you people who were inspired, and if there is one in my Ummah it is Umar.” (narrated Abu Hurrairah)
Therefore, based on these Hadith and many other similar Hadith said to other Sahabah, we see that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) calling Ali (رضّى الله عنه) to be “Mawla” (beloved friend) was not a Prophetic nomination for Caliphate because others were praised in a similar fashion. What the Shia do is reject all the Hadith in regards to those they dislike and then accept only those in relation to Ali (رضّى الله عنه); what is a bit amusing is that the Shia does not care to look at Isnad, but to the Shia a Hadith is authentic if it praises Ali (رضّى الله عنه) and it is forged if it praises other Sahabah. This is the Shia “science” of Hadith; indeed, it would not be an exaggeration to say that the Shia would accept a narration on the authority of Mickey Mouse if it praised Ali (رضّى الله عنه), and they would reject a Hadith narrated through Ali (رضّى الله عنه) himself if it meant praising Abu Bakr (رضّى الله عنه), Umar (رضّى الله عنه), etc.
Now let us look at the second addition to the Hadith, namely the following:
The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) said: “Befriend whoever befriends him (i.e. Ali), and be the enemy to whoever antagonizes him.”
The Shia will then use this Hadith to criticize those Sahabah who argued with Ali (رضّى الله عنه), and yet do they not know that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) also said similar things of other Sahabah? For example, we read the following Hadith:
The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) said: “Whoever is angry with Umar is angry with me. Whoever loves Umar loves me.” (At-Tabarani)
In fact, the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) said this not only about Ali (رضّى الله عنه) and Umar (رضّى الله عنه), but about all of his Sahabah:
The Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) said: “Allah, Allah! Fear Him with regard to my Sahabah! Do not make them targets after me! Whoever loves them loves them with his love for me; and whoever hates them hates them with his hatred for me. Whoever bears enmity for them, bears enmity for me; and whoever bears enmity for me, bears enmity for Allah. Whoever bears enmity for Allah is about to perish!”(Narrated from Abdallah ibn Mughaffal by Al-Tirmidhi, by Ahmad with three good chains in his Musnad, al-Bukhari in his Tarikh, al-Bayhaqi in Shu`ab al-Iman, and others. Al-Suyuti declared it hasan in his Jami` al-Saghir #1442).
Parting Words
The Shia have taken the event of Ghadir Khumm way out of context. The Hadith of Ghadir Khumm has absolutely nothing to do with Imamah or Caliphate, and if it did, then nothing prevented the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) from clearly stating that instead of using the word “Mawla” which is known by everyone to mean “beloved friend.” Furthermore, and this point cannot be stressed enough, Ghadir Khumm is located 250 km away from Mecca: if the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) had intended on nominating Ali (رضّى الله عنه) then he would have done that at the larger gathering atop Mount Arafat during his Farewell Sermon in front of all the Muslims from every city.
The entire Shia paradigm is based on the flimsy and easily refutable idea that Ghadir Khumm was a central location in which all the Muslims would gather together in before parting ways and going to their respective homes. Indeed, only those Muslims heading towards Medinah would pass through Ghadir Khumm, not the Muslims living in Mecca, Taif, Yemen, etc. A couple hundred years ago, the Shia masses could easily have been misled because many of them would not have had the availability of a map to check where Ghadir Khumm is and they would merely have accepted the commonly held myth that it was a meeting place for Muslims before they parted ways. But today, in the age of information and technology, accurate maps are at our finger-tips and no reasonable person should be fooled by the Shia myths.
We have shown that the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) did not (and could not have) nominated Ali (رضّى الله عنه) at Ghadir Khumm as the Shia claim. This is the very foundation block of Shi’ism, without which their faith has no basis whatsoever: if the Prophet (صلّى الله عليه وآله وسلّم) did not nominate Ali (رضّى الله عنه) to be Caliph, then the Shia can no longer claim that Abu Bakr (رضّى الله عنه) or the Sunnis usurped the divinely determined designation of Ali (رضّى الله عنه). And with that, the whole of Shi’ism collapses in on itself, all because of an unaccountable 250 km separating Ghadir Khumm from Mecca and separating Shi’ism from the truth.