شیعہ باطل عقائد کے جوابات قرآن و حدیث سے واضح ہیں ، مگر جس کے سمجھنے اور سنننے کی قوت اس کی ہت دھرمی سے سلب کر لی گیئی ہو ان لوگوں پر کوئی دلیل اثر انداز نہیں ہوتی-
ٱتَّخَذُوٓا۟ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَٰنَهُمْ أَرْبَابًۭا
" انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا رب بنا لیا ہے.." (سورۃ التوبہ،آیت 31)
اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳﴾
کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے کیا آپ اس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں؟ [سورة الفرقان (25) آیات (43)]
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنۡدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الۡبُكۡمُ الَّذِيۡنَ لَا يَعۡقِلُوۡنَ
یقین رکھو کہ اللہ کے نزدیک بدترین جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ (لقرآن 8:22)
یھاں ان کے عقائد کے رد میں قرآن و سنت سے دلائل پیش خدمت ہیں :
پہلا عقیدہ: قرآن کے بارے میں
اس بارے میں شیعہ کتابوں میں مختلف باتیں ملتی ہیں اور وہ سب اہل سنت و الجماعت کے نزدیک کفر ہیں، تقریباً دو ہزار روایات کتبِ شیعہ میں ایسی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن بدلا ہوا ہے، اور وہ روایات صحیح ہیں، انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
(اصول کافی:۶۷۱۔ بحوالہ بینات:۵۶، اصول کافی:۲/۴۱۴)
مثلاً: جو قرآن جبرئیل علیہ السلام حضرت محمدﷺ پر لے کر نازل ہوئے تھے اس میں تیرہ ہزار آیتیں تھیں۔
(اصول کافی:۶۷۱)
اصل قرآن سے محبت سابقہ ساقط کردیا گیا ہے۔
(صافی شرح اصول کافی)
قرآن میں ایسی باتیں بھی ہیں جو خدا نے نہیں کہی۔
(احتجاج طبری:۲۷)
موجودہ قرآن کو اولیاء الدین کے دشمنوں نے جمع کیا ہے۔
(احتجاج طبری:۳۰)
موجودہ قرآن کی ترتیب خدا کی مرضی کے خلاف ہے۔
(فصل الخطاب:۳۰)
حضرت علیؓ کا نام قرآن میں کئی مقامات سے نکال دیا گیا ہے۔
(دیباچہ تفسیر صافی:۷۵)
اسی طرح سید نعمت اللہ الموسوی الجزائری نے لکھا ہے:
’’قرآن جس طرح نازل ہوا تھا اس کو رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے مطابق صرف امیر المومنین علیہ السلام نے آپﷺ کی وفات کے بعد چھ مہینے مشغول رہ کر جمع کیا تھا، جمع کرنے کے بعد اسے لیکر ان لوگوں کے پاس آئے جو آپﷺ کے بعد خلیفہ بن گئے تھے، آپ نے فرمایا اللہ کی کتاب جس طرح نازل ہوئی ہے وہ یہ ہے، پس ان میں سے عمر بن خطاب نے کہا: ہم کو تمہاری اور تمہارے اس قرآن کی ضرورت نہیں، تو امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا کہ: آج کے دن کے بعد اس کو نہ تم دیکھ سکوگے اور نہ کوئی اور دیکھ سکے گا، جب تک میرے بیٹے مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوگا، اس قرآن میں بہت سی زیادات ہیں اور یہ تحریف سے خالی ہے، جب مہدی ظاہر ہوں گے تو موجودہ قرآن آسمان کی طرف اٹھالیا جائے گا اور وہ اس قرآن کو نکال کر پیش کریں گے جس کو امیر المؤمنین نے جمع کیا تھا‘‘۔ (انور النعمانیہ:۳/۳۵۷)
جواب:
اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ قرآن کے بارے میں یہ ہے کہ یہ ایسی مقدس کتاب ہے کہ جس طرح نازل ہوئی آج تک اس میں ایک حرف کی بھی زیادتی نہیں ہوئی اور جو اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے وہ بالاتفاق اسلام سے خارج ہے۔
مزید تحقیق کے لئے ان کتابوں کا مطالعہ مفید ہوگا:
اضافہ تحریف قرآن: مولانا عبد الشکور لکھنویؒ۔
شیعہ ،سنی اختلافات اور صراط مستقیم: مولانا یوسف لدھیانویؒ۔
ایمان بالقرآن کامل: مولانا اللہ یار خان۔
تاریخی دستاویز: مولانا ضیاء الرحمن فاروقیؒ۔
شیعہ اور قرآن: نا معلوم مرتب
اقامۃ البرھان علی ان الشیعۃ اعداء القرآن: مولانا عبد الشکور لکھنویؒ۔
نہایۃ الخسران لمن ترک القرآن: مولانا عبد الشکور لکھنویؒ۔
شیعہ کی ترتیب قرآن کی حقیقت: مولانا ابو معاویہ نور حسین عارف صاحب
دوسرا عقیدہ: امامت کا درجہ نبوت سے بڑھ کر ہے
امامت کا درجہ نبوت سے بڑھ کر ہے، اس عقیدہ کے بارے میں بھی کتبِ شیعہ میں مختلف باتی ںلکھی ہیں اور وہ سب اہل سنت و الجماعت کے نزدیک کفر ہیں۔
مثلاً: خمینی نے لکھا ہے:
’’ہمارے مذہب کی ضروریات یعنی بنیادی عقائد میں سے یہ عقیدہ بھی ہے کہ ہمارے اماموں کا وہ مقام ہے کہ اس تک کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی نبئ مرسل بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘۔
(الحکومۃ الاسلامیہ:۵۲)
باقر مجلسی تحریر کرتے ہیں:
’’ان ائمہ کا درجہ نبوت سے بالا ترہے‘‘۔ (حیات القلوب:۳/۲۰۱،باقر مجلسی)
’’امام معصوم ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و توفیق اس کے ساتھ ہوتی ہے، اللہ ان کو سیدھا رکھتا ہے، وہ غلطی، بھول چوک اور لغزش سے محفوظ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ معصومیت کی اس نعمت کے ساتھ اس کو مخصوص رکھتا ہے تاکہ وہ اس کے بندوں پر اس کی حجت ہو اور اس کی مخلوق پر شاہد ہو‘‘۔(اصول الکافی:۱۲۱)
نبی کریم ﷺ کے بعد حضرت علیؓ امام تھے، ان کے بعد حضرت حسنؓ امام تھے، ان کے بعد حضرت حسینؓ امام تھے، ان کے بعد ..... جو اس بات کا انکار کرکے وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی معرفت کا انکار کیا ہے۔(اصول الکافی:۱۰۶)
غلام حسین نجفی نے لکھا ہے:
’’حضرت علیؓ کی افضلیت بعد النبی کا منکر کافی ہے‘‘۔
(تحفۂ حنفیہ:۱۷،ازغلام حسین نجفی۔مزید وضاحت شیعہ سنی اختلافات اور صراط مستقیم۔اور۔ تاریخی دستاویز وغیرہ کتب میں دیکھی جاسکتی ہیں، جس میں تمام اصل کتب کے عکس مع سرِ ورق کتاب کے درج ہیں)
اسی طرح اور بھی بہت سی باتیں امامت کے بارے میں موجود ہیں۔
جواب:
مسئلہ امامت کے بارے میں اہل سنت و الجماعت فرماتے ہیں کہ یہ عقیدہ بھی کفر ہے۔
اس مسئلہ میں استاد محترم مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن صاحب ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ فتویٰ تحریر فرماتے ہیں۔ (اس فتوے پر تمام دنیا کے علماء نے تصدیق و توثیق فرمائی تھی)
دورِ صحابہؓ سے آج تک امت کا اجماع ہے کہ نبی کریم ﷺ آخری نبی ہیں، آپﷺ کے بعد کوی نبی پیدا نہ ہوگا، لہٰذا خصوصیاتِ نبوت، وحی شریعت و عصمت وغیرہ قیامت تک بند ہیں۔
مگر یہ شیعہ لوگ اگرچہ برمالا عقیدۂ نبوت کے انکار کی جرأت نہیں کرتے مگر درپردہ یہ لوگ اجرائے نبوت کے قائل ہیں، کیونکہ ان کا عقیدۂ امامت انکارِ ختم نبوت کو مستلزم ہے، لہٰذا یہ لوگ در حقیقت تقیہ کی وجہ سے اپنے اماموں کے لئے لفظِ نبی کے استعمال کرنے سے تو گریز کرتے ہیں مگر در حقیقت یہ لوگ اپنے ائمہ کے لئے خصوصیاتِ نبوت ثابت کرتے ہیں، یعنی اپنے ائمہ کو منصوص اور حدا مفہوم اور ان کے پاس وحی و شریعت آنے کے قائل ہیں، نیز ان کو احکامِ شریعت کو منسوخ کرنے کا اختیار بھی دیتے ہیں، بلکہ روح اللہ خمینی کی تحریر کے مطابق ان کے ائمہ درجۂ الوہیت تک پہنچے ہوئے ہیں، یہ تو سراسر کفر و شرک ہے، روح اللہ خمینی نے اپنی کتاب ’’الحکومۃ الاسلامیۃ‘‘ میں خامہ فرسائی کی ہے کہ:
’’فان الامام مقام محمود اور درجۃ سیاسیۃ و خلافۃ تکوینیۃ یخضع لولایتھا و سیطرتھا جمیع وارث ھذا الکون و ان من ضروریاتِ مذھبنا ان لائمتنا مقاما لا یبلغہٗ مَلَکٌ مقرّبٌ ولا نبیٌّ مرسلٌ الی ان قال و روی عنھم ، ان لنا مع اللہ حالاتٍ لا یسعھا ملَکٌ مقرّبٌ و لا نبیٌّ مرسلٌ و مثل ھذہ المنزلۃ موجودۃ لفاطمۃ الزھراء علیھا السلام‘‘۔
(الحکومۃ الاسلامیۃ:۵۲)
ترجمہ: بے شک مقام محمود بلند درجہ اور خلافتِ تکوینی پر اماموں کی ولایت کا خاصہ ہے اور تمام کائنات کے وارث ہیں اور ہمارے مذہب کی ضروریات میں سے یہ ہے کہ ہمارے امام کا وہ مقام ہے جو نہ کسی مقرب فرشتہ کا ہے اور نہ نبی مرسل کا، ان سے منقول ہے کہ ہم اللہ کے ساتھ ایسے حالات میں ہیں کہ وہ مقرب فرشتے اور نبی مرسل کو حاصل نہیں اور یہ مقام فاطمۃ الزہراءؓ کو حاصل ہے۔
ان کے کفر کے ثبوت کے لئے یہ حوالہ کافی ہے۔
(اس مسئلہ میں بھی بھی مستقل متعدد کتابیں ہیں چند نام یہ ہیں:۱۔شیعہ سنی اختلاف اور صراط مستقیم: مولانا یوسف لدھیانویؒ۔ ۲۔شرح مسائل امامت اوّل،دوم:مولانا عبدالشکور لکھنویؒ۔ ۳۔شیعہ کے نزدیک حقیقت امامت: مولانا ابو معاویہ نور حسین عارف صاحب)
تیسرا عقیدہ: نبی کریم ﷺ کے وصال بعد سوائے چار کے تمام صحابہ مرتد ہوگئے
نبی کریم ﷺ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد چار صحابہؓ کے سواء (معاذ اللہ) سب مرتد ہوگئے تھے، اس دعوے کے بارے میں بھی کتبِ شیعہ میں مختلف باتیں ملتی ہیں، وہ بھی اہلسنت و الجماعت کے نزدیک کفر ہیں۔
مثلاً: باقری مجلسی نے لکھا:
’’آپ ﷺ کے دنیا سے رحلت فرماجانے کے بعد سوائے چار افراد: (۱)علی بن ابی طالبؓ (۲)مقدادؓ (۳)سلمان فارسیؓ (۴)ابوذر غفاریؓ کے سب مرتد ہوگئے‘‘۔
(حیات القلوب:۲۶، باقر مجلسی)
غلام حسین نجفی نے لکھا ہے کہ:
’’جو تم نے جان کے صحابہ صحابہ کی رٹ لگائی ہوئی ہے، ان میں بقول تمہارے افضل تو تمہارے تین خلفاء ہیں اور کئی سو سال گذر چکے ہیں، آج تک تمہارا بڑے سے بڑا عالم بھی ان چاروں کے ایمان تک ثابت نہیں کرسکتا‘‘۔
(تحفہ حنفیہ:۵۵)
علامہ خمینی کہتے ہیں:
’’ابوبکر و عمر اور ان کے رفقاء دل سے ایمان نہیں لائے تھے، انہوں نے خود کو حکمرانی کی لالچ میں پیغمبرﷺ کے دین کے ساتھ چپکا رکھا تھا‘‘۔
(کشف الاسرار:۱۱۲)
اسی طرح جامع کافی میں ہے کہ:
’’ابوبکر و عمر یہ دونوں قطعی کافر ہیں، ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔
(الجامع الکافی،کتاب الوضہ:۶۲)
’’جہنم میں ایک صندوق ہے جس میں بارہ آدمی بند ہیں، چھ پچھلی امتوں کے اِس امت کے ..... اِس امت کے چھ آدمی یہ ہیں: دجال۔ابوبکر۔ عمر۔ ابوعبیدہ ابن الجراح۔ سالم مولیٰ حذیفہ۔ سعد بن ابی وقاص‘‘۔
(جلاء العیون:۱۶)
غلام حسین نجفی نے لکھا ہے:
’’جو کردار نوحؑ اور لوطؑ کی بیویوں نے ان نبیوں کے خلاف ادا کیاتھا وہی کردار عائشہ بنت ابی بکرؓ اور حفصہ بنت عمرؓ نے اپنے شہور پیغمبرﷺ کے خلاف ادا کیا‘‘۔
(سھم سھوم:۲۸)
اسی طرح غلام حسین نجفی نے لکھا:
’’کسی قائل کے لئے اس بات کی گنجائش نہیں کہ وہ عمر کے کافر ہونے میں شک کرے، پس خدا رسول کی لعنت ہو عمر پر اور اس شخص پر جو اس کو مسلمان سمجھے اور اس شخص پر جو کہ عمر پر لعنت کرنے کے معاملہ میں توقف کرے‘‘۔
(تحفہ حنفیہ:۴۱)
اس قسم کے اور بھی بہت سی باتیں کتب شیعہ میں موجود ہیں۔
جواب:
صحابہ کرامؓ کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء کے بعد یہ تمام انسانوں سے افضل ہیں اور تمام صحابہؓ سے اللہ تعالیٰ راضی ہوگئے، یہ بات قرآن مجید میں متعدد آیات اور احادیث کے ایک بڑے ذخیرہ سے معلوم ہوتی ہے، مثلاً:
صحابہؓ کا ایمان قرآن مجید کی گواہی:
۱۔ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللہ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ o
(توبہ:۱۰۰)
ترجمہ: اور وہ لوگ قدیم ہیں، سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو ان کے پیرو ہوئے اچھائی کے ساتھ اللہ راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور تیار رکھے ہیں ان کے واسطے باغ، کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں، رہاں کریں انہی میں ہمیشہ، یہی بری کامیابی ہے۔
اسی طرح قرآن میں دوسری آیت میں آیا ہے:
۲۔ لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللہ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللہ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ o وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ o
(حشر:۸۔۹)
ترجمہ: ان مفلسین وطن چھوڑنے والوں کے واسطے جو نکالے ہوئے ہیں اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے ڈھونڈتے آئے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی اور مدد کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی، وہی لوگ سچے ہیں اور جو لوگ جگہ پکڑ رہے ہیں اس گھر میں اور ایمان میں ان سے پہلے سے وہ محبت کرتے ہیں ان سے جو وطن چھوڑ کر آئے ہیں ان کے پاس اور نہیں پاتے اپنے دل میں تنگی اس چیز سے جو مہاجرین کو دی جائے اور خیر مقدم رکھتے ہیں ان کو اپنی جان سے اگرچہ اپنے اوپر فاقہ ہی ہو اور جو بچایا گیا اپنے جی کے لئے لالچ سے تو وہی لوگ ہیں مراد کو پانے والے۔
اسی طرح قرآن میں ارشادِ خداوندی ہے:
۳۔ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ o
(بقرہ:۱۳)
ترجمہ: اور جب کہا جاتا ہے ان کو ایمان لاؤ جس طرح ایمان لائے سب لوگ! تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جس طرح ایمان لائے بیوقوف؟ جان لو وہی بیوقوف ہیں لیکن جانتے نہیں!
اسی طرح قرآن میں متعدد آیات ہیں جن میں صحابہؓ کے ایماندار ہونے کی بشارت دی گئی ہے، تین پر اکتفاء کیا گیا ہے طوالت کے خوف سے، ماننے والوں کے لئے تین ہی کافی ہیں، اسی طرح احادیث میں بھی ایک بڑا ذخیرہ صحابہؓ کی استقامت علی الحق پر گواہ ہے۔
صحابہؓ کے ایمان کی احادیث میں گواہی
۱۔ عن ابی بردۃ رضی اللہ عنہ عن ابیہ قال رفع یعنی النبی صلی اللہ علیہ وسلم رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ وَكَانَ كَثِيرًا مِمَّا يَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتْ النُّجُومُ أَتَى السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ۔
(مسلم و کذا مشکوٰۃ:۵۵۳)
ترجمہ: حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا جیسا کہ آپ کی اکثر عادت (وحی کے انتظار میں) ہوتی تھی، پھر ارشاد فرمایا کہ ستارے آسمان کے لئے وہ چیز آجائے گی جس کا وعدہ کیا گیا ہے اور میں اپنے صحابہؓ کے لئے امن و سلامتی ہوں جب میں چلا جاؤں گا تو صحابہؓ اس چیز میں مبتلا ہوجائیں گے جس کا وعدہ کیا ہے، میرے صحابہؓ امت کے لئے امن و سلامتی کا باعث ہیں، جب یہ دنیا سے اٹھ جائیں گے تو میری امت پر چیز آجائے گی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ارشاد نبوی ﷺ ہے:
۲۔ و عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خیر الناس قرنی، ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم، قال عمران: فلا ادری اذکر بعد قرنہ مرتین اور ثلث؟ ثم ان بعدھم قوما یشھدون لا یستشھدون ویخونون و لا یؤتمنون و ینذرون ولا یوفون و یظھر فیھم السمن۔
(بخاری:۱/۵۱۵۔ مسلم:۲/۳۰۵۔ یہ حدیث متواتر ہے، اس حدیث کا انکار نہیں کیا جاسکتا)
ترجمہ: حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے بہتر لوگ میرے دور کے ہیں، پھر جو ان سے متصل ہوں گے، پھر وہ جو ان سے متصل ہوں گے، ....حضرت عمرانؓ کہتے ہیں کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ آپﷺ نے اپنے دور کے بعد دور ادوار کا ذکر فرمایا یا تین کا،.... پھر اس کے بعد ایسے لوگ ہوں گےکہ وہ قسمیں کھائیں گے حالانکہ ان سے قسم طلب نہ کی جائے گی، خیانت کریں گے، امانت دار نہ ہوں گے، نذر مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے، ان پر موٹاپا چڑھا ہوگا‘‘۔
۳۔ عن على قال : قلت يا رسول الله ﷺ إن ینزل بنا أمر ليس فيه بيان أمر ولا نهى فما تأمرنی قال شاوروا فیہ الفقهاء والعابدين ولا تمضوا فيه رأیا خاصة۔
(مجمع الزوائد:۱/۱۷۸)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! ہمیں کوئی ایسا مسئلہ درپیش آجائے کہ اس میں امر نہی کا کوئی فرمان پہلے سے موجود نہ ہو تو آپﷺ کا ہمارے لئے اس میں کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اس وقت فقہاء عابدین سے مشورہ کرو اور کسی ایک خاص کی رائے پر عمل پیرا مت ہونا۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کا اجماع حجت ہے، اسی وجہ سے محدثین اس کو باب الاجماع کے ضمن میں ذکر کرتے ہیں۔
اس قسم کی بہت سی احادیث موجود ہیں، طوالت کے خوف سے ذکر نہیں کی گئیں، ماننے والوں کے لئے یہی تین کافی ہیں۔
صحابہؓ کے ایمان پر کتبِ عقیدہ کی گواہی
اسی وجہ سے اہل سنت و الجماعت کے عقائد یہ ہیں جس کو امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح ذکر فرمایا ہے:
افضل الناس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ثم عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ثم عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ثم علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اجمعین غابرین علی الحق و مع الحق ولا تذکر الصحابۃ الا بخیر۔
(شرح فقہ اکبر:۷۴)
ترجمہ: رسول اللہﷺ کے بعد تمام انسانوں میں افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، پھر حضرت علی بن ابی طال رضی اللہ عنہ، یہ سب حضرات ہمیشہ حق پر رہے اور حق کے ساتھ رہے اور صحابہ کرامؓ کا ذکر خیر کے علاونہ نہیں کرتے۔
عقیدۃ الطحاویہ میں علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
و نحب اصحاب رسول اللہ ﷺ و لانشرط فی حب احدھم و لا نتبرأ من احد منھم و نبغض من یبغضھم بغیر حق و یذکرھم بسوء ولا نذکرھم الا بخیر وحبھم دین و ایمان و احسان و بغضھم کفر و نفاق و طغیان۔
(عقیدۃ طحاویۃ:۱۲)
ترجمہ: اور ہم رسول اللہﷺ کے صحابہ کرامؓ سے محبت رکھتے ہیں، ان میں سے کسی کی محبت میں افراط و تفریط نہیں کرتے اور کسی صحابیؓ سے برأت نہیں کرتے اور ہم ایسے شخص سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ کرامؓ سے بغض رکھتا ہے اور ان کو برائی سے یاد کرے اور ہم خیر کے سوا ان کا ذکر نہیں اور ان سے محبت رکھنا دین و ایمان و احسان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر اور نفاق اور سرکشی ہے۔
اسی طرح علامہ طحاویؒ طحاویہ میں فرماتے ہیں:
و ان العشرۃ الذین سماھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نشھد لھم بالجنۃ علی ما شھد لھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و قولہ الحق و ھم ابو بکر و عمر و عثمان و علی و طلحۃ والزبیر و سعد و سعید و عبد الرحمن بن عوف و اب عبیدۃ بن ابی الجراح و ھو امین ھذہ الامۃ رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین و من احسن القول فی رسول اللہ ﷺ و ازواجہ و ذریاتہ فقد برأی من النفاق۔
(عقیدۃ طحاویۃ:۱۲۔۱۳)
ترجمہ: اور جن دس حضرات کا نام لے کر رسول اللہ ﷺ نے ان کو جنت کی بشارت دی ہم ان کے لئے آپﷺ کی شہادت پر جنت کی شہادت دیتے ہیں اور آپﷺ کا ارشاد برحق ہے ان عشرہ مبشرہ کے اسمائے گرامی یہ ہیں: ۱۔حضرت ابوبکر۔ ۲۔حضرت عمر۔ ۳۔حضرت عثمان۔ ۴۔حضرت علی۔ ۵۔حضرت طلحہ۔ ۶۔حضرت زبیر۔ ۷۔حضرت سعد۔ ۸۔حضرت سعید۔ ۹۔حضرت عبد الرحمن بن عوف۔ ۱۰۔حضرت ابو عبیدہ بن الجراح جو اس امت کے امین ہی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور جو شخص آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور آپﷺ کی اولاد سے حسن عقیدت رکھے وہ نفاق سے دور ہے۔
اور ارتدادِ صحابہؓ پر بھی علماء اہل سنت نے متعدد کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، اس سلسلہ میں ان کتابوں کا مطالعہ مفید ہوگا:
(۱)اصحاب ثلاثہ: مولانا اکرام الدین دبیر
(۲)دفاعِ صحابہؓ: مولانا قاضی مظہر حسین پکھوال
(۳)عدالت حضرات صحابہ کرامؓ: مولانا حافظ مہر محمد میاں والی
(۴)معیارِ صحابیت: علامہ خالد محمود صاحب
(۵)اسلام میں صحابہ کرامؓ کی آئینی حیثیت: علامہ ضیاء الرحمن فاروقیؒ
(۶)گستاخ صحابہؓ کی شرعی سزا: علامہ ضیاء الرحمن فاروقیؒ
(۷)فضائل اصحابِ ثلاثہ: مفتی بشیر احمد پسروری صاحب
(۸)صحابہ کرامؓ شیعہ اعتراضات اور ان کے جوابات: سید مشتاق علی شاہ صاحب
(۹)عظمتِ صحابہؓ: مولانا دوست محمد قریشی
چوتھا عقیدہ:کلمہ طیبہ میں تحریف
’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے بجائے لا الہ الا اللہ علی ولی اللہ وصی رسول اللہ و خلیفتہ بلا فصل ہے‘‘۔
(ادیانِ عالم اور فرقہائے اسلام:سید علی حیدر نقوی، وسیلۂ انبیاء:تائب حسین کریانوی:۱۷۹)
پانچواں عقیدہ: متعہ کرنا جائز ہے
متعہ کرنا جائز ہی نہیں بلکہ باعث اجر و ثواب ہے، جس نے ایک مرتبہ بھی متعہ (زنا) کرلیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
(تحفۃ العوام: لمفتی سید احمد علی صاحب قبلہ دام علیہ)
نیز متعہ کا اجر و ثواب اتنا ہے کہ جتنا نماز، روزہ ، زکوٰۃ، حج و خیرات میں بھی نہیں ہے۔
(عمالۃ حسنۃ، ترجمہ رسالہ متعہ:۱۵، باقر مجلسی)
نیز متعہ کرنے والوں کے لئے فرشتوں کی دعاء اور متعہ نہ کرنے والوں کے لئے قیامت تک فرشتوں کی لعنت ہوتی رہتی ہے۔
(برھان المتعہ:۵۱۔الحاج ابو القاسم)
نیز یہ کہ ایمان کامل نہیں جب تک متعہ نہ کرے۔
(برھان المتعہ:۴۵)
جو چار مرتبہ متعہ (زنا) کرے وہ (معاذ اللہ) آپﷺ کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے۔(مطالبِ متعہ:۵۲)
جواب:
متعہ حرام ہے۔
متعہ کہتے ہیں کہ عورت سے مدتِ مخصوصہ کے لئے نکاح کرنا۔
(تحریر الوسیلہ:۲/۲۹۰)
اہل سنت و الجماعت کے نزدیک متعہ ناجائز اور حرام ہے۔
(ہدایہ:۲/۲۹۲)
جبکہ شیعہ کے نزدیک متعہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ باعث اجر و ثواب ہے، اہل سنت و الجماعت قرآن و حدیث، اجماع اور قیاس سب سے اس کے ناجائز ہونے کو بیان کرتے ہیں، مثلاً
متعہ کی حرمت قرآن میں
قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ o إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَo
(سورۂ مؤمنون:۵۔۶)
ترجمہ: اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، مگر اپنی بیوی یا جو ہاتھ کی ملکیت ہے تو ان پر کوئی ملامت نہیں۔
قرآن میں شہوت کو پورا کرنے کے لئے دو جگہ متعین ہے:
إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ۔
ترجمہ: بیوی اور باندی
متعہ کی حرمت احادیث میں
اس سلسلہ میں احادیث متواترہ ہیں جس کی وجہ سے ان کا انکار کرنا جائز نہیں ہے، مثلاً
۱۔ عن علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن متعۃ النساء و عن لحوم حمر الاھلیۃ زمن خیبر۔
(ترمذی)
ترجمہ: حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا عورتوں سے متعہ کرنے سے اور شہری گدھے کا گوشت کھانے سے خیبر کے موقع پر۔
۲۔ و عن سلمۃ بن الاکوع رضی اللہ عنہ قال رخّص النبی صلی اللہ علیہ وسلم عام اوطاس فی متعۃ ثلاثا ثم نھیٰ عنہا۔
(مسلم)
ترجمہ: حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے غزوۂ اوطاس میں تین دن متعہ کی اجازت فرمائی اور پھر حرام کردیا گیا۔
۳۔ عن ربیع بن سبرۃ عن ابیہ رضی اللہ عنہ انہ کان مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا ایھا الناس انی قد کنت اٰذنت حکم فی الاستمتاع من النساء و ان اللہ قد حرم الی یوم القیامۃ۔
(مسلم)
ترجمہ: حضرت ربیعؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی مگر اب اللہ نے اس کو قیامت تک کے لئے حرام فرمادیا ہے۔
متعہ کی حرمت میں اجماعِ امت کی نظر میں
اجماع بھی اس کی حرمت پر ہے،صحابہؓ سے لے کر آج تک سوائے روافض کے سب ہی نے اس کو حرام کہا ہے۔
متعہ کی حقیقت قیاس میں
قیاس: قیاس کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ یہ حرام ہو، کیونکہ اس سے نسب خلط ملط ہوگا اور نسب کے بارے میں شریعت محمدؐیہ میں بہت اہتمام کیا گیا ہے۔
سوال: متعہ کب حرام ہوا؟ اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں، بعض سے معلوم ہوتا ہے خیبر کے موقع پر متعہ حرام ہوا اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعلان فتح مکہ کے موقع پر ہوا ہے، دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ اوطاس کے موقع پر حرام ہوا ہے، نیز بعض روایات میں غزوۂ تبوک بھی آیا ہے۔
جواب:(۱): متعہ کی حرمت کا اعلان بار بار آیا ہے، جس نے جس غزوہ کے موقع پر سنا اس نے اسی غزوہ کی طرف اس کو منسوب کردیا۔
(شرح مسلم للنووی:۱/۴۵۰)
جواب:(۲): ابتدائے خیبر کے موقع پر متعہ حرام کیا گیا تھا، پھر فتح کے موقع پر محدود وقت کے لئے اجازت دیدی گئی اور پھر قیامت تک کے لئے حرام کردیا گیا۔
(حاشیہ ترمذی۔ متعہ کی مزید تحقیق کے لئے دیکھئے:فتح الملہم:۳/۴۴۴۔ تعلیق الصبیح:۴/۲۲۔ عمدۃ القاری:۴۰۴۔ بذل المجہود:۳/۱۶۔ رسالۃ تحقیق متعہ: مولانا مفتی احمد پسروری۔ حرمت متعہ: قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ)
چھٹواں عقیدہ: رجعت کا عقیدہ
اس عقیدہ کا مطلب یہ ہے جو اہل روافض کی کتابوں میں مذکور ہے:
’’ایمان لانا رجعت پر واجب ہے، حتی کہ جب امام ظہور و خروج فرمائیں گے اس وقت مؤمن خاص اورکافر اورمنافق مخصوص زندہ ہوں گے اور ہر ایک اپنی داد اور انصاف کو پہنچے گا اور ظالم سزا اور تعزیر پائے گا’’۔
(تحفۃ العوام، و حق الیقین:۱۴۰۔۱۴۵)
ایمان لانا رجعت پر بھی واجب ہے
فیجب الایمان بالاصل الرجعۃ اجمالا۔ اخبار متواترہ اور بہت سے علماء شیعہ متقدّمین کے کلام سے تمہیں معلوم ہوچکا کہ اصل رجعت برحق ہے...... اور اس کا منکر زمرۂ ایمان سے خارج ہے۔
(احسن الفوائدفی شرح العقائد:۳۲۲)
حتی کہ جب امام ظہور اور خروج فرمائیں گے اس وقت مومن خاص اور کافر اور منافق مخصوص زندہ ہوں گے اور ہر ایک اور ہر ایک اپنا داد اور انصاف کو پہنچے گا اور ظالم سزا اور تعزیر پائے گا۔
مطلب یہ ہے کہ وہ امام مہدی غائب جب غار سے بر آمد ہوں گے تو اس وقت نبی کریم ﷺ اور ام المؤمنین سیدہ فاطمۃ الزہراء اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم اور تمام ائمہ اور ان کے علاوہ تمام خواص مومنین زندہ ہوں گے، سب امام مہدی کے ہاتھ پر بیعت کریں گے، پھر امام زندہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو زندہ کرے گا اور ابتداءِ جہاں سے لے کر اس وقت تک جتنے گناہ ہوئے ہوں گے اس کی سزا انہیں دے گا۔
(بصائر الدرجات:۸۰۔ بحار الانوار:۱۳/۶۲۵۔ حق الیقین:۳۶۲۔ نعمانیہ:۲/۸۶۔ فصل الخطاب:۸۵)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو زندہ کرے گا اور ان پر حد جاری کرے گا۔
(حق الیقین:۳۴۷۔ حیوٰۃ القلوب:۲/۶۱۱۔ بحار الانوار:۱۳/۵۷۶)
قرآن میں آتا ہے: وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجًا مِمَّنْ يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا۔
(سورۂ نمل:۸۳)
یہ واقعہ رجعت کے متعلق ہے۔
(صافی:۲/۲۳۷۔ ترجمہ مقبول:۷۶۴۔ قمی:۱/۱۳۱۔ حق الیقین:۲۳۶)
’’ظہور امام کے عہد میں قیامت سے پہلے زندہ ہونے کو رجعت کہتے ہیں، یہ عقیدہ ضروریاتِ مذہبِ امامیہ میں سے ہے‘‘۔
(چودہ ستارے:۶۰)
امام جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہماری رجعت پر ایمان نہ لائے۔
(من لا یحضرہ الفقیہ: ۳/۲۹۱۔ حق الیقین:۲۳۶)
جواب:
مگر اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ جو قرآن و ارشادات نبیﷺ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد خواہ مومن ہو یا کافر ہو دنیا میں کوئی زندہ نہیں کیا جائے گا، قیام تکے دن ہی اللہ زندہ فرماکر سزا و جزا دیں گے۔
عقیدۂ رجعت کے کفر ہونے پر حوالہ جات:
’’یجب اکفار الروافض ..... فی قولھم یرجع الاموات الی الدنیا و یقولھم فی خروج امام باطن ھؤلاء‘‘۔
(فتاویٰ تاتار خانیہ:۵/۵۳۸۔ المکانۃ فی سرمۃ الخزانۃ:۶۰۵۔ الطریقۃ المحمدیہ، فتاویٰ بزازیہ)