اہل تشیع یا شیعیت (عربی: شيعة) اسلام کا دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ شیعہ کی آبادی کل مسلم آبادی کا 13-10 % فیصد ہے ـ اہل تشیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد فقط حضرت علی بن ابی طالب کی امامت کے قائل ہیں اور صرف انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین اور پہلا معصوم امام مانتے ہیں۔ شیعہ یا اہل تشیع نظریہ خلافت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ اور خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر علی بن ابی طالب کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ شیعہ کا اعتقاد ہے کہ علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ خلیفہ اول ہیں اوراہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ابوبکررضي. ... نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نمازکی امامت نبی صلی اللہ علیہ وسملم کے حکم سےکروائ ۔ مزید تفصیل ملاحظہ فرمائیں : خلیفہ اول کون اورغدیر خم کیا ہے؟
اسلام کی آفاقیت اور اس کی عالمگیری نیز اس کی شان و شوکت دشمنانِ اسلام کی نظروں میں ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے... اسلام دشمن طاقتیں اول دن سے ہی اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف عمل ہیں، خوارج و نواصب کا فتنہ ہو یا روافض و شیعوں کا، خلقِ قرآن کا فتنہ ہو یا اعتزال کا... مرجئہ، جہمیہ، قدریہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ جیسے فرق ضالہ کے فتنے ہوں یا علماء سوء کا فتنہ، انکارِ حدیث کا فتنہ ہو یا انکارِ ختم نبوت کا... یہ اور اس طرح کے بہت سارے فتنے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سر ابھارتے رہے ہیں لیکن ان تمام فتنوں میں جو فتنہ سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا اسے ہم "روافض، شیعہ، اثنا عشریہ" کے مختلف ناموں سے جانتے ہیں... زیر نظر تحریر میں حافظ خلیل الرحمٰن سنابلی نے شیعیت کا ان کے اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میںمختصر جائزہ پیش کیا ہے-
فہرست مضامین :
اسلام کی آفاقیت اور اس کی عالمگیری نیز اس کی شان و شوکت دشمنانِ اسلام کی نظروں میں ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے... اسلام دشمن طاقتیں اول دن سے ہی اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف عمل ہیں، خوارج و نواصب کا فتنہ ہو یا روافض و شیعوں کا، خلقِ قرآن کا فتنہ ہو یا اعتزال کا... مرجئہ، جہمیہ، قدریہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ جیسے فرق ضالہ کے فتنے ہوں یا علماء سوء کا فتنہ، انکارِ حدیث کا فتنہ ہو یا انکارِ ختم نبوت کا... یہ اور اس طرح کے بہت سارے فتنے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سر ابھارتے رہے ہیں لیکن ان تمام فتنوں میں جو فتنہ سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا اسے ہم "روافض، شیعہ، اثنا عشریہ" کے مختلف ناموں سے جانتے ہیں... زیر نظر تحریر میں حافظ خلیل الرحمٰن سنابلی نے شیعیت کا ان کے اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میںمختصر جائزہ پیش کیا ہے-
فہرست مضامین :
- عبد اللہ بن سبا
- عبد اللہ بن سبا کی کارستانیاں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد
- شیعوں میں مختلف فرقے
- شیعیت (اثنا عشریہ) اور اس کی بنیاد "مسئلہ امامت"
- "ائمہ معصومین" کے متعلق شیعوں کے عقائد و نظریات
- صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد
- شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں بلکہ تحریف شدہ ہے
- قران مجید میں حذف و تحریف کس نے کی؟
- اصلی قرآن کہاں ہے؟
- شیعہ تحریف قرآن کی چند مثالیں
- تحریف قرآن کے باطل عقیدے کی تردید قرآن سے
- عقیدہ: کتمان و تقیہ
- تقیہ کے بارے میں شیعی کتب سے دلائل
- تقیہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب اور ضروری ہے
- نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ جاری ہے
- "رجعت" کا عقیدہ
- ایک بیہودہ عقیدہ: متعہ
- نکاح متعہ کی شرعی حیثیت
- متعہ اور زنا میں مماثلت
- مزید متفرق عقائد و مسائل
- یہودیت اور شیعیت کی مشترکہ باتیں
شیعیت کی جڑیں بڑی مضبوط، گہری اور بہت لمبی ہیں، اس فتنے کا روح رواں "عبد اللہ بن سبا" نامی یہودی ہے، وجود میں آنے کے بعد یہ فتنہ روز بروز ترقی کرتا رہا، زیرِ زمین اور پس پردہ اس کی سرگرمیاں جاری رہیں اور آج تک جاری ہیں... اس فرقہ کو جب بھی موقع ملا تو اس نے مسلمانوں کو اور ان کی اجتماعیت کو نقصان پہنچانے کا کام بخوبی انجام دیا، اس فرقہ کو بعض اوقات اقتدار بھی ملا تو اس نے ان مواقع سے بھی بھر پور فائدہ اٹھایا، کبھی بیت اللہ پر حملہ کیا، کبھی حجر اسود کو اٹھا کر لے گئے، مسلمانوں کا قتل عام کیا، علماء کو سر عام ذلیل و رسوا کر کے انہیں ظلم کی چکّی میں پیستے ہوئے شہید کر دیا...وغیرہ وغیرہ........
اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے "شیعوں" کے رویے کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: "روافض یہود و نصارٰی، تاتاری اور مشرکین وغیرہ جیسے دشمنان اسلام کا ساتھ دیتے ہیں اور اللہ کے اُن مخلص بندوں سے بغض و عداوت رکھتے ہیں جو اعلی درجے کے دیندار اور متقین کے سردار تھے، جو دین کی تبلیغ و اشاعت اور اس کی حفاظت کرنے والے تھے... تاتاریوں کے اسلامی ممالک پر حملہ کرنے اور راہ پانے میں سب سے زیادہ دخل ان روافض اور شیعوں ہی کا تھا... اب علقمی اور طوسی وغیرہ کی دشمن نوازی اور مسلمانوں کے خلاف ان کی سازشیں زبان زد خاص و عام ہو چکی ہیں... شام میں جو روافض تھے انہوں نے بھی کھلم کھلا طور پر کافروں کا ساتھ دیا تھا اور اس وقت عیسائیوں کی انہوں نے پوری مدد کی تھی یہاں تک کہ مسلمانوں کے بچوں اور ان کی مملوکات کو ان لوگوں نے ان عیسائیوں کے ہاتھوں غلاموں کی طرح بیچ دیا تھا بلکہ ان کے کچھ لوگوں نے تو صلیبی جھنڈا بھی بلند کیا تھا اور گزشتہ دور میں عیسائیوں کے بیت المقدس پر قبضہ میں بھی ان کا بڑا حصہ تھا"... (منہاج السنة ج 4 ص 110)
(مستفاد از کتاب "خمینی اور شیعیت کیا ہے؟ مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ ص 4-3)
____________________________
بات شیعوں کے باوا عبد اللہ بن سبا کی
محترم قارئین! جیسا کہ پہلے ہی یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ شیعیت کا بانی" عبد اللہ بن سبا "نامی یہودی ہے، اس شخص نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کیا، لیکن در حقیقت یہ مسلمان نہیں ہوا تھا بلکہ اس نے اسلامی لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہی خلاف لا کھڑا کیا اور بعد میں اس کا جو کردار سامنے آیا اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ اس نے بری نیت سے ہی یہودیت ترک کر کے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کا اصل مقصد مسلمانوں میں شامل ہو کر اور اپنے ناز و ادا اور کرتبوں سے ان میں مقبولیت حاصل کر کے اندر سے اسلام کی تخریب و تحریف اور اہل اسلام کے درمیان اختلاف و شقاق پیدا کر کے فتنہ و فساد برپا کرنا تھا... آغاز مرحلے میں مدینہ منورہ میں اپنے مختصر قیام کے دوران اس نے اپنی ذہانت سے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ یہاں اور پورے حجاز کے علاقے میں دینی شعور کے حامل افراد موجود ہیں اور یہاں دین کے ایسے محافظ بستے ہیں جن کے ہوتے ہوئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا، اس لئے پہلے وہ بصرہ اور پھر شام چلا گیا، یہاں بھی اس کو اپنے منصوبے کے مطابق کام کرنے کا موقع نہیں ملا، اس کے بعد وہ مصر پہنچا جہاں اسے کچھ ایسے افراد مل گئے جن کو وہ اپنا آلہء کار اور اپنی مفسدانہ مہم و سرگرمیوں میں حصہ دار و مددگار بنا سکے... مورخین کا بیان ہے کہ اس نے لوگوں میں سب سے پہلے یہ شوشہ چھوڑا کہ "مجھے اُن مسلمانوں پر تعجب ہے جو عیسی علیہ السلام کے تعلق سے تو اس دنیا میں دوبارہ آنے کا عقیدہ رکھتے ہیں لیکن اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیسی علیہ السلام سمیت تمام انبیاء و رسل سے افضل و بہتر ہیں، آپ یقیناً اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے"....... حقیقت میں یہ بات بالکل اسلامی تعلیمات کے خلاف تھی اور اسلام کے بنیادی عقائد سے اس کا ٹکراؤ تھا لیکن اس کے باوجود بھی کچھ جاہل اور کم تربیت یافتہ افراد اس کے اس کفریہ عقیدے کا شکار ہوگئے اور انہوں نے اس کی بات کو قبول کر لیا..........
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے ایک گمراہ کن عقیدے میں کچھ لوگوں کو مبتلا کرنے اور کامیابی ملنے کے بعد عبد اللہ بن سبا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں طرح طرح کی غلو کی باتیں کرنا شروع کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قرابت کی بنیاد پر ان کے ساتھ غیر معمولی عقیدت و محبت کا اظہار کیا، ان کی طرف عجیب و غریب خود ساختہ "معجزے" منسوب کر کے ان کو ایک ما فوق البشر ہستی باور کرانے کی کوشش کی اور جاہلوں و سادہ لوحوں کا جو طبقہ اس کے پہلے فریب کا شکار ہوا تھا وہ ان ساری خرافات کو بھی قبول کرتا رہا... یہ اور اس طرح کی بہت ساری ڈھکوسلے بازیاں وہ پھیلاتا رہا اور یہ سب اس نے انتہائی ہوشیاری، رازداری اور یہودی فطرت کے مکر و فریب سے اس طرح کیا جس طرح زمین دوز خفیہ تحریکیں چلائی جاتی ہیں اور مصر کے علاوہ دوسرے بعض شہروں اور علاقوں میں بھی اس نے کچھ اپنے ہم خیال بنا لئے... اور پھر دنیا جانتی ہے کہ اس نے بہت سے سادہ لوحوں کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف جد و جہد پر آمادہ کر لیا اور خفیہ طور سے ایک لشکر لے کر مدینہ پہنچ گیا، قصہ مختصر یہ کہ آگے جو کچھ ہوا وہ تاریخ اسلامی کا ایک نہایت ہی "دردناک باب" ہے وہ یہ کہ داماد رسول، خلیفہ ثالث، ذو النورين حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اس لشکر نے گھیر کر اور انہی کے گھر میں محصور کر کے قتل کر دیا... فلعنۃ اللہ علی الظالمين...
___________________________
عبد اللہ بن سبا کی کارستانیاں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اس خونی فضا میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا چوتھا خلیفہ اور امیر منتخب کیا گیا، وہ بلا شبہ خلیفہ برحق تھے، اس وقت ان سے بہتر زمام حکومت سنبھالنے والا کوئی اور موجود نہ تھا اور ان کی شخصیت اس عظیم منصب کے لئے قابل ترجیح بھی تھی لیکن عبد اللہ بن سبا کی اس خونی سازش کے نتیجے میں اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق امت مسلمہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی اور نوبت جدال و قتال تک پہنچ گئی، جنگ "جمل" و "صفین" جیسے خونی معرکے بھی ہوئے کہ جن میں بہت سارے صحابہ قتل کئے گئے، ان دونوں معرکوں میں عبد اللہ بن سبا اور اس کا پورا گروہ -جس کی اچھی خاصی تعداد ہو چکی تھی- حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، اس زمانہ اور اس فضا میں اس کو پورا موقع ملا کہ لشکر کے بے علم اور کم فہم افراد کو "حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت اور عقیدت" کے عنوان سے "غلو" جیسی عظیم گمراہی میں مبتلا کرے، یہاں تک کہ اس نے کچھ سادہ لوحوں کو وہی سبق پڑھایا جو پولوس نے عیسائیوں کو پڑھایا تھا اور ان کا یہ عقیدہ ہوگیا کہ "حضرت علی رضی اللہ عنہ اس دنیا میں خدا کا روپ ہیں، ان کے قالب میں خداوندی روح ہے اور گویا وہی خدا ہیں".... کچھ احمقوں کے کان میں یہ بات ڈالی کہ اللہ نے نبوت و رسالت کے لئے دراصل حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا تھا، وہی اس کے مستحق اور اہل تھے اور حامل وحی حضرت جبرئیل علیہ السلام کو انہی کے پاس بھیجا گیا تھا لیکن اس کو اشتباہ ہو گیا اور وہ غلطی سے وحی لے کر حضرت محمد بن عبد اللہ کے پاس پہنچ گیا........ استغفر اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ... اللہ پر بھی بہتان، جبریل پر بھی بہتان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا بھی انکار....
مورخین نے یہاں یہ بھی بیان کیا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علم میں یہ بات آئی کہ انہی کے لشکر کے کچھ افراد ان کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھتے ہیں تو انہوں نے ان شیاطین کو قتل کرانے نیز لوگوں کی عبرت کے لئے انہیں آگ میں جلانے کا ارادہ کیا لیکن اپنے مشیر خاص حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ان جیسے کچھ اور لوگوں کے مشورے پر اس وقت کے خاص حالات میں اس کارروائی کو کسی دوسرے مناسب وقت کے لئے ملتوی کر دیا.... (بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کا عقیدہ رکھنے والے، انہیں اللہ تسلیم کرنے والے اور اس کی دعوت دینے والے یہ شیاطین انہی کے حکم سے قتل کئے گئے اور آگ میں ڈالے گئے.... جیسا کہ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب منہاج السنۃ" میں اس کی وضاحت کی ہے....ج 1، ص 7)
بہرحال جنگ جمل اور صفین کی جنگوں کے زمانہ میں عبد اللہ بن سبا اور اس کے چیلوں کو اس وقت کی فضا سے فائدہ اٹھا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ان کے بارے میں غلو کی گمراہی پھیلانے کا پورا پورا موقع ملا، اس کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عراق کے علاقہ "کوفہ" کو اپنا دار الحکومت بنا لیا تو یہ علاقہ اس گروہ کی سرگرمیوں کا خاص مرکز بن گیا، چونکہ اس علاقہ کے لوگوں میں ایسے غلو آمیز اور گمراہ کن افکار و نظریات کے قبول کرنے کی زیادہ صلاحیت تھی اس لئے یہاں اس گروہ کو اپنے مشن میں دوسرے جگہوں کی بہ نسبت زیادہ کامیابی حاصل ہوئی................
شیعوں میں مختلف فرقے
اب تک آپ کے سامنے جو تفصیل اختصار کے ساتھ پیش کی گئی وہ شیعیت کے آغاز اور اس کے بانی کے تعلق سے تھی، چونکہ یہ دعوت و تحریک خفیہ طور پر اور زمینی انداز میں چلائی جا رہی تھی اس لئے اس سے متاثر ہونے والے سب ایک ہی خیال اور عقیدے کے نہیں تھے، اس کے داعیان جس سے جو بات اور جتنی بات کہنا مناسب سمجھتے وہی کہتے اور اگر وہ قبول کر لیتا تو بس وہی اس کا عقیدہ بن جاتا... اسی وجہ سے ان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت یا ان کے اندر اللہ کی روح کے حلول کے قائل تھے،کچھ ایسے بھی تھے جو ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی افضل و اعلی اور نبوت و رسالت کا اصلی حقدار سمجھتے تھے اور جبرئیل علیہ السلام کی جانب سے غلطی کے قائل تھے... کچھ ایسے بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ کی طرف سے نامزد امام و امیر نیز خلیفہ سمجھتے تھے اور اسی بنا پر وہ خلفاء ثلاثہ (ابو بکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی رضی اللہ عنہم) کو اور ان تمام صحابہ کرام کو جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان حضرات کو خلیفہ مانا اور دل سے ان کا ساتھ دیا... ان سب کو معاذ اللہ یہ لوگ کافر و منافق یا کم از کم غاصب و ظالم اور غدار کہتے تھے... ان سب کے علاوہ بھی اس طرح کے مختلف عقائد و نظریات رکھنے والے گروہ تھے... ان سب میں مشترک بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں "غلو" تھا اور اس غلو کے درجات ہر ایک کے نزدیک مختلف تھے... ابتدائی دور میں یہ ایک دوسرے سے ممتاز الگ الگ فرقے نہیں بنے تھے... بعد میں مختلف اسباب کی وجہ سے ان کے اندر مختلف فرقے بنتے چلے گئے یہاں تک کہ ان کی تعداد ستّر سے بھی زیادہ ہو گئی... جن کی کسی قدر تفصیل آپ "ابو الفتح محمد بن عبد الکریم الشهرستاني" کی کتاب "الملل و النحل" کے مطالعہ سے معلوم کر سکتے ہیں.... ان فرقوں میں سے بہت سے تو وہ ہیں جن کا غالباً اب اس دنیا میں کہیں وجود نہیں، تاریخ کی کتابوں کے اوراق میں ہی ان کا نام و نشان باقی رہ گیا ہے، لیکن ان کے چند فرقے ہمارے اس دور میں بھی مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں، ان میں تعداد کے لحاظ سے اور بعض دوسرے ناحیوں سے بھی "اثنا عشریہ" کو امتیاز اور اہمیت حاصل ہے... آگے ہم ان شاء اللہ اسی فرقے کے عقائد اور "ائمہ معصومین" کے حوالے سے ان کی خود ساختہ باتیں پیش کرنے کی کوشش کریں گے...
____________________________
شیعیت (اثنا عشریہ) اور اس کی بنیاد "مسئلہ امامت"
شیعوں کا ایمان ہے کہ جس طرح اللہ نے نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری کیا اور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اس کی طرف سے انبیاء و رسل علیہم السلام مبعوث کئے گئے جو "معصوم" ہوتے تھے اور ان کی بعثت سے ہی بندوں پر اللہ کی حجت قائم ہوتی تھی اور وہ ثواب یا عذاب کے مستحق ہوتے تھے بالکل اسی طرح اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے بندوں کی ہدایت کے لئے "امامت" کا سلسلہ قائم کر دیا ہے اور قیامت تک کے لئے بارہ امام نامزد کر دیئے ہیں، بارہویں امام پر دنیا کا خاتمہ اور قیامت یقینی ہے... یہ بارہ امام انبیاء علیہم السلام ہی کی طرح معصوم ہیں اور مقام و مرتبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر اور دوسرے تمام انبیاء سے افضل و برتر اور بالاتر ہیں.... فنعوذ باللہ من الشیطان الرجیم..... ان اماموں کی اس امامت کو ماننا اور ان پر ایمان لانا اسی طرح نجات کی شرط ہے جس طرح انبیاء و رسل کی نبوت و رسالت کو ماننا اور ان پر ایمان لانے میں ہی نجات ہے....
بارہ اماموں کے اسماء:
1. حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ
2. حسن بن علی رضی اللہ عنہ
3. حسین بن علی رضی اللہ عنہ
4. علی بن حسین زین العابدین
5. محمد بن علی باقر
6. جعفر بن محمد صادق
7. موسی بن جعفر کاظم
8. علی بن موسی رضا
9. محمدبن علی تقی
10. علی بن محمد نقی
11. حسن بن علی عسکری
12. محمد بن حسن مہدی موعود منتظر (شیعی عقیدے کے مطابق اب سے تقریباً ساڑھے گیارہ سو سال پہلے 255 یا 256 ھجری میں محمد بن حسن مہدی پیدا ہو کر 4 یا 5 سال کی عمر میں معجزانہ طور پر غائب ہو گئے اور اب تک زندہ ایک غار میں روپوش ہیں..... ان پر امامت کا سلسلہ ختم ہو گیا.... لیکن یاد رہے کہ آخری امام کے تعلق سے یہ شیعوں کا عقیدہ ہے... تاریخی شہادت اور تحقیقی بات یہ ہے کہ حسن بن علی عسکری کا کوئی بیٹا پیدا ہی نہیں ہوا پھر محمد بن حسن مہدی موعود منتظر کا وجود کہاں سے؟..........................
مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات اور ائمہ معصومین کے ارشادات
محترم قارئین! پچھلی قسط میں ہم نے آپ کے سامنے شیعوں کے مختلف فرقے اور ان کے بارہ اماموں کی تفصیل کو اختصار کے ساتھ پیش کیا تھا... آج ہم ان شاء اللہ "اماموں کے متعلق شیعوں کے عقائد و نظریات" کے عنوان سے کچھ باتیں رکھنے کی کوشش کریں گے.... آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ بات بتا دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم اہل سنت والجماعت کے یہاں صحیحین بخاری و مسلم وغیرہ احادیث نبوی کے مجموعے ہیں اسی طرح شیعوں کے ہاں بھی احادیث و روایات کی کتابیں ہیں لیکن ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا حصہ تو بہت ہی حکم بلکہ شاذ و نادر ہی ہے، زیادہ تر ان لوگوں نے اپنے ائمہ معصومین ہی کے ارشادات اور اقوال و افعال اپنی سندوں کے ساتھ روایات کئے ہیں.... ان کتب احادیث میں ان کے نزدیک سب سے زیادہ مستند و معتبر جو کتا ب ہے وہ "ابو جعفر یعقوب کلینی رازی(متوفی 328ھ) کی" الجامع الکافی" ہے... صحت و اسناد کے لحاظ سے اس کتاب کا ان کے نزدیک وہی درجہ و مقام ہے جو ہم اہل سنت کے نزدیک "صحیح بخاری" کا ہے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ.... یہ شیعوں کا سب سے مستند ماخذ ہے، جس کی چار جلدیں ہیں، ڈھائی ہزار کے قریب صفحات ہیں اور سولہ ہزار سے زائد روایات ہیں.... آئیے اب ہم "اماموں کے تعلق سے شیعوں کے عقائد و نظریات" کا جائزہ لیتے ہیں.....
___________________________
"ائمہ معصومین" کے متعلق شیعوں کے عقائد و نظریات
1. مخلوق پر اللہ کی حجت امام کے بغیر قائم نہیں ہوتی (لیکن اللہ نے تو حجت قائم کر دی ہے اماموں کے بغیر... اب کیا ہوگا)
2. امام کے بغیر یہ دنیا قائم نہیں رہ سکتی... (لیکن دنیا تو آج بھی قائم ہے)
3. اماموں کو ماننا اور پہچاننا شرط ایمان ہے (نہ مانا جائے تو؟)
4. اماموں اور امامت پر ایمان لانے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حکم سب پیغمبروں اور آسمانی کتب کے ذریعے آیا ہے (کون کون سی آسمانی کتاب میں یہ خوش خبری ملی آپ لوگوں کو؟)
5. ائمہ کی اطاعت رسولوں ہی کی طرح فرض ہے (پھر کرتے کیوں نہیں؟)
6. ائمہ کو اختیار ہے جس چیز کو چاہیں حلال یا حرام قرار دیں (اسی لئے تو ہم کہتے ہیں نا کہ شیعہ یہودیوں کے دودھ شریک بھائی ہیں، جس کام پر اللہ نے یہودی احبار و رہبان پر لعنت بھیجی ہے وہی کام اگر آپ اپنے ائمہ کے تعلق سے روا رکھیں گے تو آپ اللہ کی لعنت کے مستحق ہیں)
7. انبیاء کی طرح ائمہ بھی معصوم ہوتے ہیں (ھاتوا برھانکم)
8. اماموں کا حمل ماؤں کے رحم میں نہیں بلکہ پہلو میں قائم ہوتا ہے (کس نے چیک کر کے دیکھا بھائی؟)
9. ائمہ معصومین کو ماننے والے (شیعہ) اگر ظالم اور فاسق و فاجر بھی ہیں تو بھی جنتی ہیں اور ان کے علاوہ مسلمان اگر متقی و پرہیزگار ہیں تو بھی جہنمی ہیں (ارے بزرگو! آپ لوگوں کو نظر ثانی کی ضرورت ہے)
10. ائمہ کا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر اور دوسرے تمام انبیاء سے برتر و بالاتر ہے (اللہ کی سنت اور اس کے قانون سے کھلواڑ کرنا کوئی آپ سے سیکھے)
11. ائمہ کو "ما کان وما یکون" کا علم ہے (پھر اللہ اور ائمہ میں فرق کیا رہ گیا ہے؟)
12. ائمہ پر بھی بندوں کے دن رات کے اعمال پیش ہوتے ہیں (یہ تحقیق کس نے کی؟)
13. ائمہ کے پاس فرشتوں کی آمد و رفت ہوتی رہتی ہے (ہاں تمہارا کوئی اپنا بنایا ہوا فرشتہ ہوگا... نعوذ باللہ من ذلك)
14. ہر جمعہ کی رات ائمہ کو معراج ہوتی ہے، وہ عرش تک پہنچائے جاتے ہیں اور وہاں ان کو بےشمار نئے علوم عطا کئے جاتے ہیں (یہ لو، میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری زندگی صرف ایک بار معراج ہوئی اور یہاں یہ ہر ہفتے ایک بار چکر لگا رہے ہیں)
15. ائمہ وہ سب علوم جانتے ہیں جو اللہ کی طرف سے فرشتوں، نبیوں اور رسولوں کو عطا ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ بہت سے ایسے علوم بھی جو نبیوں اور فرشتوں کو بھی عطا نہیں ہوئے (نبیوں اور فرشتوں کو تمہارے فرسودہ علوم کی ضرورت ہی نہیں)
16. ائمہ پر ہر سال کی شب قدر میں اللہ کی طرف سے ایک کتاب نازل ہوتی ہے جس کو فرشتے اور الروح لے کر اترتے ہیں (اب تک کتنی کتابیں جمع ہو گئی ہیں؟)
17. ائمہ اپنی موت کا وقت بھی جانتے ہیں اور ان کی موت ان کے اپنے اختیار میں ہوتی ہے (وما تدري نفس بأي أرض تموت؟؟)
18. ائمہ دنیا و آخرت کے مالک ہیں جس کو چاہیں دے دیں اور بخش دیں (پھر کس کس کو دیا انہوں نے اب تک اور کس کس کو بخشا ہے؟؟)
19. اللہ نے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر جو امانت پیش کی تھی اور جس کا بوجھ اٹھانے سے ان سب نے انکار کر دیا تھا وہ "امامت کا مسئلہ" تھا (جو بات کی، خدا کی قسم لا جواب کی... پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی)
20. قرآن میں پنجتن پاک اور تمام ائمہ معصومین کے نام تھے وہ نکال دیئے گئے اور تحریف کی گئی.... (پوری امت مسلمہ پر بہتان تراشی)
محترم قارئین! یہ تھے شیعوں کے وہ عقائد و نظریات جو وہ اپنے ائمہ معصومین کے تعلق سے رکھتے ہیں، آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ کس قدر کفریہ عقائد و نظریات کے حامل ہیں یہ لوگ کہ ائمہ کو انہوں نے نبیوں، رسولوں سے بہتر بتایا بلکہ انہیں اللہ کی مختلف خصوصیات میں بھی شریک و ساجھی بنا دیا... آپ ابھی حیران نہ ہوں، یہ تو ابھی آغاز ہے... ایسے ہی بے شمار غلط عقائد ہیں ان کے کہ جن کو پڑھنے اور سننے کے بعد ان کے تعلق سے کسی قسم کی نجات کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا... ہاں توبہ کا دروازہ ابھی بھی کھلا ہے جو چاہے اس دروازے کا استعمال کر سکتا ہے....
ہم ان شاء اللہ "صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد" کو بیان کریں گے جنہیں پڑھ کر آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ کس قدر اللہ و رسول کے دشمن ہیں اور صحابہ کرام سے ان کے بغض و کینہ کا معیار بھی آپ کو معلوم ہوگا... آئیے اب ہم "صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے چند بنیادی عقائد" کا ذکر کرتے ہیں...
صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد
1. حضرت علی کی ولایت و امامت نہ ماننے کی وجہ سے خلفاء ثلاثہ اور عام صحابہ قطعی طور سے کافر و مرتد
.......استغفر اللہ ربی من کل ذنب.......
مزید آگے لکھتے ہیں کہ "قرآن مجید کی سورہ نساء کی آیت نمبر 137 فلاں اور فلاں اور فلاں (ابو بکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ تینوں شروع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور جب ان کے سامنے حضرت علی کی ولایت و امامت کا مسئلہ پیش کیا گیا تو یہ تینوں اس سے منکر ہو گئے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے انہوں نے بیعت کر لی اور اس طرح پھر ایمان لے آئے، پھر جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو پھر یہ امیر المومنین (علی رضی اللہ عنہ) کی بیعت کا انکار کر کے کافر ہو گئے، پھر یہ کفر میں اور آگے بڑھ گئے، پھر جب ان لوگوں نے اُن لوگوں سے بھی بیعت لے لی جو امیر المومنین سے بیعت کر چکے تھے تو اب یہ ایسے ہو گئے کہ ان میں ذرا سا بھی ایمان باقی نہیں رہا"
..........نعوذ باللہ من الشیطان الرجیم...........
آپ دیکھیں کہ کس طرح دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے ان لوگوں نے کافروں و منافقوں سے متعلق ایک آیت کو خلفاء ثلاثہ پر چسپاں کر دیا اور انہیں کافر و مرتد قرار دے دیا...
2. "ایمان" کا معنی امیر المومنین علی، "کفر" کا مطلب ابو بکر، "فسق" سے مراد عمر اور "عصیان" سے مراد عثمان (معاذ اللہ)
سورہ الحجرات کی آیت نمبر 7 میں اللہ نے ایمان والوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ "اللہ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی، تمہارے دلوں ایمان سے مزین کر دیا، اور کفر و فسق نیز معصیت کی نفرت تمہارے اندر پیدا کر دی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں"
.......... اب دیکھیں شیعوں کے خبیث ذہن کی کارکردگی.........
یہ لوگ کہتے ہیں کہ "حَبَّبَ اِلَیکُمُ الاِیمَانَ" میں ایمان کا مطلب امیر المومنین علیہ السلام کی ذات، اور آگے "کَرَّہَ اِلَیکُمُ الکُفرَ وَالفُسُوقَ وَالعِصیَانَ" میں کفر کا مطلب ہے ابو بکر، فسق کا مطلب ہے عمر اور عصیان کا مطلب ہے عثمان.... (لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم)
3. عام صحابہ کرام خصوصاً خلفاء ثلاثہ کافر و مرتد، اللہ و رسول کے غدار، جہنمی و لعنتی
4. شیخین (حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما) پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام بنی آدم کی لعنت
5. أبو بکر کی بیعت سب سے پہلے ابلیس نے کی تھی
6. عمر بن الخطاب کا یوم شہادت سب سے بڑی عید کا دن
7. امام غائب جب ظاہر ہوں گے تو شیخین کو قبروں سے نکالیں گے اور زندہ کر کے ہزاروں بار سولی پر چڑھائیں گے
8. عائشہ و حفصہ منافقہ تھیں، انہوں نے حضور کو زہر دے کر مار دیا....
محترم قارئین! ان کے علاوہ حضرت خالد بن ولید، عبد اللہ بن عمر، طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہم اجمعین جیسے اجلہ و بزرگ صحابہ کو بھی یہ لوگ گالیاں دیتے ہیں اور طعن و تشنیع سے کام لیتے ہیں اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ اپنے مطلب کی بات کے لئے یہ خود ساختہ دلیلیں بھی پیش کرتے ہیں جبکہ اہل و سنت و الجماعت کا صحابہ کے تعلق سے یہ مسلک ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں، اور ان کی عظمت و مقام کو بتانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک حدیث مبارکہ کافی و شافی ہے جو بخاری (3397) و مسلم (4611) میں ہے، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:*«لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي؛ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ».... "میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تب بھی وہ کسی ایک صحابی کی جانب سے خرچ کئے گئے ایک مد یا آدھا مُد کے ثواب کو بھی نہیں پہنچ سکتا".... واضح رہے کہ ایک مد تقریباً چھ سو گرام کا ہوتا ہے... ایک طرف صحابہ کی عظمت کے تعلق سے زبان رسالت سے یہ فرمان نکلتا ہے تو دوسری طرف یہ شیعہ حضرات انہی صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں، برا بھلا کہتے ہیں، انہیں کافر و مرتد قرار دیتے ہیں اور انہیں قرآن میں تحریف کرنے والا سمجھتے ہیں، انہیں غاصب و خائن جیسے القاب سے پکارتے ہیں، ان کے بارے میں طرح طرح کی خرافاتی روایات اپنے ائمہ کی طرف منسوب کر کے بیان کرتے ہیں...... خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ یہ قوم یہودیوں کے نقش قدم پر مکمل طور سے چل رہی ہے بلکہ ان سے بھی دو چار قدم آگے ہے....
آگے پڑھیں "شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں ہے بلکہ تحریف شدہ ہے"
شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں بلکہ تحریف شدہ ہے
محترم قارئین! اب تک ہم نے بہت ساری باتیں شیعوں کے عقائد و نظریات کے تعلق سے بیان کی ہیں، آج کی اس قسط میں ہم ان شاء اللہ ان کے عقائد میں سے ایک اور مذموم عقیدہ "موجودہ قرآن مکمل نہیں ہے" کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے.......... لیکن ان کے عقیدے کو بیان کرنے سے پہلے ہمارے لئے اس بات کا جاننا نہایت ہی ضروری ہے کہ "اہل سنت والجماعت کے نزدیک قرآن مجید ایک مکمل کتاب ہے، اس میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، نہ اس میں کسی آیت یا لفظ کا اضافہ ہوا اور نہ ہی کمی، شروع زمانے سے لے کر اب تک یہ کتاب اپنی حقیقی شکل و صورت اور عبارت کے ساتھ باقی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ قیامت تک قرآن مجید کے کسی ایک حرف کو بھی تبدیل نہیں کیا جا سکے گا".... ان شاء اللہ...... یہ تو اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے.... جہاں تک شیعہ قوم کا تعلق ہے تو ان کے نزدیک قرآن مجید اپنی اصلی شکل و صورت میں محفوظ نہیں ہے، بلکہ ان کے عقیدے کے مطابق قرآن کی بہت سی آیات میں تبدیلی کر دی گئی ہے اور قرآن مجید کا ایک بہت بڑا حصہ حذف کر دیا گیا ہے،ان کے نزدیک موجودہ قرآن اصلی قرآن نہیں ہے..... اب آیئے ہم اپنی اس بات کے لئے شیعوں ہی کی کتاب سے چند نصوص اور بنیادی باتوں کا تذکرہ کرتے ہیں:
نص نمبر 1. شیعوں کا ایک معتبر عالم کلینی اپنی کتاب "الکافی فی الاصول" میں حضرت جعفر صادق کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ انہوں نے کہا: "وہ قرآن جو حضرت جبرئیل علیہ السلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے تھے اس کی 17 ہزار آیات تھیں" (الکافی فی الاصول للکلینی ج 2 ص 634)......جبکہ موجودہ قرآن کی کل آیات کی تعداد چھ ہزار سے کچھ اوپر ہے جس طرح کہ خود شیعہ مفسر ابو علی الطبرسی نے اپنی تفسیر میں اس بات کا یوں اقرار کیا ہے کہ "قرآن کی آیات کی تعداد 6236 ہے" (تفسیر مجمع البیان للطبرسی ج 10 ص 407)........ (مستفاد از "الشیعہ والسنۃ" علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ ص 87)
نص نمبر 2. شیعہ محدث صفار (کلینی کا استاد) کی کتاب میں حضرت باقر سے روایت ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ"اے لوگو! میں تمہارے پاس تین چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں... قرآن مجید.... اہل بیت...... کعبہ...... یہ اللہ کی طرف سے مقدس شعائر ہیں لہذا تم ان کی حفاظت کرنا"..... حضرت باقر اس روایت کے آگے فرماتے ہیں کہ "مگر افسوس! انہوں نے قرآن میں تبدیلی کر دی، کعبہ کو منہدم کر دیا اور اہل بیت کو قتل کر ڈالا" (بصائر الدرجات للصفار جزء 8 باب 17)
____________________________
قران مجید میں حذف و تحریف کس نے کی؟
شیعوں کے قرآن مجید کے تعلق سے اس مذموم عقیدے کی وضاحت کے بعد اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر قرآن مجید میں تبدیلی اور حذف کا کام کس نے کیا؟ تو اس کا جواب دیتے ہوئے خود شیعی مورخین و مصنفین لکھتے ہیں کہ "قرآن مجید میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے معاذ اللہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے اور اپنی حکومت کو دوام بخشنے کی نیت سے دیگر صحابہ کرام کے ساتھ سازش کر کے اصلی قرآن کو غائب کر دیا اور اس کی جگہ اپنی مرضی کا ایک قرآن مرتب کرایا جس میں سے وہ تمام آیتیں نکال دی گئیں جن میں ان کے عیوب و نقائص اور اہل بیت کے فضائل و مناقب کا ذکر تھا".....
کمال الدین البحرانی نہج البلاغہ کی شرح میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر الزامات و اتہامات عائد کرتے ہوئے ذکر کرتا ہے کہ "عثمان کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ اس نے لوگوں کو زید بن ثابت کی قرات پر جمع کیا اور بقیہ نسخوں کو جلا دیا، اسی طرح عثمان بن عفان نے قرآن مجید میں سے بہت سی ایسی آیات ختم کر دیں جو بلا شک و شبہ قرآن کا حصہ تھیں" (شرح نہج البلاغہ للبحرانی)
ایک اور شیعہ محدث نعمت اللہ الجزائری اپنی کتاب میں لکھتا ہے "قرآن مجید کو اصلی شکل و صورت میں یعنی جس طرح اللہ نے آسمان سے نازل کیا حضرت علی امیر المومنین کے سوا کسی نے جمع نہیں کیا" (الانوار النعمانیہ از نعمت اللہ الجزائری)
کلینی اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے جابر جعفی سے روایت کرتا ہے کہ اس نے کہا: "میں نے امام باقر علیہ السلام کو کہتے سنا ہے کہ "اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ اس نے اللہ کی طرف سے نازل کردہ مکمل قرآن جمع کیا ہے تو وہ کذاب ہے"....."مَا جمعه و حفظه كما أنزل إلا على بن أبى طالب رضي الله عنه والأئمة بعده" یعنی مکمل قرآن حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد کے دوسرے اماموں کے سوا کسی نے جمع اور حفظ نہیں کیا ہے" (اصول کافی للکلینی ج 1 ص 228)......
گویا شیعہ دین کے مطابق کوئی شخص اگر یہ دعوی کرے کہ صدیق و فاروق اور ذو النورين رضی اللہ عنہم کا جمع کردہ قرآن مکمل ہے تو وہ کذاب ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ پورے قرآن کا حافظ ہے تو وہ بھی جھوٹا ہے..... اللہ المستعان و علیہ التکلان..... اسی بنا پر آپ دیکھیں گے کہ شیعہ قوم نہ صرف یہ کہ قرآن مجید حفظ نہیں کرتی بلکہ حفاظ قرآن کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے.... فلعنۃ اللہ علیہم و الملائکۃ والناس اجمعین
ہم نے شیعوں کے ایک عقیدے "موجودہ قرآن اصلی نہیں ہے" کی وضاحت کی کوشش کی تھی اور اس کے ضمن میں ہم نے یہ بات بھی بیان کی تھی کہ ان کے اپنے عقیدے کے مطابق "قرآن میں حذف و تحریف کس نے کی"....... اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب موجودہ قرآن اصلی نہیں ہے اور اس میں صرف ایک تہائی آیات ہی درج ہیں، بقیہ دو تہائی آیتوں کو ختم کر دیا گیا تو اصلی قرآن کہاں ہے؟ اور وہ آج تک منظر عام پر کیوں نہیں آیا؟.... تو آج کی اس قسط میں ہم ان شاء اللہ اسی سوال کا جواب جاننے کی کوشش کریں گے....
_________________________
اصلی قرآن کہاں ہے؟
یہ بات بھی مذہب شیعہ اور شیعی دنیا کے معروف مسلّمات میں سے ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو قرآن مرتب کرایا تھا وہ اس کے بالکل مطابق تھا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور موجودہ قرآن سے مختلف تھا، وہ حضرت علی کے پاس ہی رہا اور ان کے بعد ان کی اولاد میں سے ہونے والے ائمہ کے پاس رہا اور اب اصلی قرآن اس امام کے پاس موجود ہے جو غار میں چھپ گئے تھے اور اب تک وہیں روپوش ہیں، جب وہ ظاہر ہوں گے تو اس اصلی قرآن کو بھی ظاہر کریں گے، اس سے پہلے کوئی بھی اصلی قرآن نہیں دیکھ سکتا....
اب آیئے ان کے اس عقیدے پر ان سے ہی دلیل مانگتے ہیں.... مشہور شیعہ مصنف احمد بن ابی طالب طبرسی (متوفی 588ھ) اپنی کتاب میں لکھتا ہے: "جب امام غائب ظاہر ہوں گے تو ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلحہ اور آپ کی تلوار ہوگی، ان کے پاس ایک رجسٹر ہوگا جس میں قیامت تک کے شیعوں کے نام درج ہوں گے، ان کے پاس " الجامعہ" بھی ہوگا جو کہ ایک رجسٹر ہے جس کی لمبائی ستّر ہاتھ ہے اور اس میں انسانی ضرورت کی ہر چیز کا ذکر ہے نیز ان کے پاس "حفر اکبر" بھی ہوگا جو کہ چمڑے کا ایک برتن ہے جس میں تمام علوم بھرے ہوئے ہیں حتی کہ خراش کی دیت کا ذکر بھی اس میں موجود ہے اور ان کے پاس مصحف فاطمہ یعنی حضرت فاطمہ علیہا السلام والا قرآن بھی ہوگا"..... (الاحتجاج علی اھل اللجاج للطبرسی، مقدمہ)
(مستفاد از الشیعۃ والسنۃ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ ص 102)
بعض شیعہ علماء کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کے کچھ حصے کا علم صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کو تھا کیونکہ بعض اوقات نزول وحی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی موجود ہوتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ آیات جو کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں نازل ہوئی تھیں انہوں نے جمع کیں، باقی صحابہ کو ان آیات کا علم نہ تھا اور یوں موجودہ قرآن اصلی نہ ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس والا قرآن اصلی ثابت ہوا.....
غور سے پڑھیں قارئین! کہ کتنی ڈھٹائی سے پوری شیعہ برادری نے صحابہ کرام کی پاکباز جماعت کو مطعون قرار دے دیا اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ کیا صدیق اکبر، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم سمیت چار کے علاوہ تمام صحابہ سے بغض و عناد رکھنے والے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
____________________________
تحریف قرآن کی چند مثالیں
دو ذیلی عناوین کی وضاحت کے بعد اب آیئے ان کے اپنے خیال کے مطابق قرآن میں کی جانے والی چند تحریفات کو بھی دیکھ اور سمجھ لیتے ہیں:
1. سورہ أحزاب کی آیت نمبر 71 میں اللہ فرماتا ہے "وَمَن یُطِعِ اللہَ وَرَسُولَہُ فَقَد فَازَ فوزاً عَظِیماً" یعنی جو اللہ اور اس کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی حاصل کر لے گا..... اس آیت کے بارے میں شیعہ کہتے ہیں جیسا کہ اصول کافی میں ابو بصیر کی روایت ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا کہ "یہ آیت اس طرح نہیں، بلکہ اس طرح نازل ہوئی تھی "وَمَن یُطِعِ اللہَ وَرَسُولَہُ فی وِلَایَۃِ عَلِیٍّ وَالائمۃ مَن بَعدَہ فَقَد فَازَ فوزاً عَظیماً" یعنی جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد کے ائمہ کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ بڑی کامیابی حاصل کر لے گا....... مطلب یہ ہوا کہ اس آیت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد کے ائمہ کی امامت کے بارے میں صراحت کے ساتھ حکم دیا گیا تھا لیکن اس میں سے "في ولاية علي والأئمة من بعده" کے الفاظ نکال دیئے گئے، جو موجودہ قرآن میں نہیں ہے" (اصول کافی ص 262)
2. سورہ نساء کی آیت نمبر 66 میں اللہ فرماتا ہے "وَلو اَنَّھُم فَعَلُوا مَا یُوعَظُونَ بِهِ لَکَانَ خیراً لَھُم" یعنی جس بات کی نصیحت انہیں کی گئی اگر وہ لوگ اس پر عمل کریں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا............... اس آیت کے سلسلے میں اصول کافی کی ہی ایک روایت ملاحظہ کریں کہ امام باقر فرماتے ہیں "سورہ نساء کی آیت نمبر 66 اس طرح نازل ہوئی تھی "وَلو اَنَّھُم فَعَلُوا مَا یُوعَظُونَ بِهِ فِي عَلِیٍّ لَکَانَ خیراً لَھُم" یعنی جس بات کی نصیحت انہیں علی کے بارے میں کی گئی ہے اگر وہ لوگ اس پر عمل کریں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا........ مطلب یہ ہے کہ اس آیت کا خاص تعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تھا لیکن اس میں سے "فِی عَلِیٍّ" نکال دیا گیا جو موجودہ قرآن میں نہیں ہے..... (اصول کافی 267)
(مستفاد از ایرانی انقلاب امام خمینی اور شیعیت مولانا منظور نعمانی ص 254)
3. محسن الکاشی اپنی تفسیر میں نقل کرتا ہے کہ قرآن کی آیت "یَا اَیُھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الکُفَّارَ وَالمُنَافِقِینَ" (اے نبی! آپ کفار اور منافقین سے جہاد کرو) اہل بیت کی قرات کے مطابق یوں ہے "یَا اَیُھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الکُفَّارَ بِالمُنَافِقِینَ" یعنی اے نبی! آپ کفار سے جہاد کرو منافقین کو ساتھ ملا کر"..... ( تفسیر الصافی للکاشی ج 1 ص 214)...... لا حول ولا قوۃ الا باللہ
مضمون اب تک
تمہید، آغاز کلام، بات شیعوں کے باوا عبد اللہ بن سبا کی، عبد اللہ بن سبا کی کارستانیاں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد، شیعوں میں مختلف فرقے، شیعیت کی بنیاد "مسئلہ امامت"، مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات، ائمہ معصومین سے متعلق شیعوں کے عقائد، صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد، شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں اور پھر اس بات کی وضاحت کہ تحریف قرآن کا مرتکب کون؟ اصلی قرآن کہاں ہے شیعوں کے عقیدے کے مطابق؟، تحریف قرآن کی چند مثالیں... اب آپ آگے پڑھیں
____________________________
اب ہم مزید دو مثالوں کا تذکرہ کرتے ہیں:
4. شیعہ مفسر القمی اپنے معصوم اور واجب الاطاعت امام ابو الحسن موسی الرضا سے نقل کرتا ہے کہ وہ آیت الکرسی کو اس طرح پڑھا کرتے تھے "الم اللّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ لاَ تَأْخُذُهُ سِنَهٌ وَ لاَ نَوْمٌ لَّهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الأَرْضِ وَمَا بَینَھُمَا وَمَا تَحتَ الثَّری، عَالمُ الغَیبِ وَالشَّھَادَۃِ، الرَّحمنُ الرَّحِیمُ" (تفسیر القمی ج 1 ص 84)
آیت الکرسی میں بھی تحریف کے مجرم ہیں یہ لوگ....
5. یہی مفسر القمی سورۃ الرعد کی آیت نمبر 11 "لَهُ مُعَقّبَاتٌ من بَینِ یَدَیهِ وَمن خَلفِه" کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
"کسی نے امام جعفر صادق کی موجودگی میں اس آیت کی تلاوت کی جس کا معنی یہ ہے کہ" ان میں سے ہر ایک کے لئے پہرے دار ہیں اس کے سامنے اور اس کے پیچھے، جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں".....
اس آیت کو سن کر امام صاحب فرمانے لگے:" کیا تم عرب نہیں ہو؟ کَیفَ تَکُونُ المُعَقّبَاتُ من بَین یَدَیهِ" یعنی "معقبات" (پیچھے رہنے والے) سامنے کس طرح ہو سکتے ہیں؟ "معقب" تو پیچھے رہ جانے والے کو کہا جاتا ہے؟
اس آدمی نے کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، پھر یہ آیت کس طرح ہے؟
آپ نے فرمایا: یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی "لَهُ مُعَقّبَاتٌ من خَلفِه وَرَقِیبٌ من بَین یَدَیه یَحفَظُونَه بِاَمرِ اللّه" یعنی اس کے لئے پہرے دار ہیں پیچھے اور نگہبان ہے آگے جو اللہ کے حکم اس کی حفاظت کرتے ہیں" (تفسیر القمی ج 1 ص 360)
اس روایت میں شیعہ مفسر کے بقول امام جعفر صادق نے اس آیت کے پڑھنے والے کو عربی قواعد سے نا واقف قرار دیا ہے... حالانکہ اگر غور کیا جائے تو بقول شیعہ خود امام صاحب ہی عربی سے نا واقف قرار پاتے ہیں... اس لئے کہ اہل عرب "المعقب" کو دو معنوں میں استعمال کرتے ہیں، ایک معنی ہے "الذی یجیئ عقب الآخر" یعنی جو کسی کے پیچھے آئے، دوسرا معنی ہے "الذی یکرر المجیئ" یعنی جو بار بار آئے.... اور اس آیت میں یہی دوسرا معنی مراد ہے.... (مستفاد از: الشیعة والسنة علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ ص 111-110)
____________________________
تحریف قرآن کے باطل عقیدے کی تردید قرآن سے
محترم قارئین! ہم نے تحریف قرآن کا عقیدہ رکھنے والوں کی باتیں اور اس کی چند مثالیں انہی کی کتابوں سے آپ کے سامنے رکھی... یہ تو صرف کچھ مثالیں ہیں ورنہ اس طرح کی باطل تاویلات کر کے انہوں نے پوری امت مسلمہ خصوصاً صحابہ کرام اور اخص الخاص خلفاء ثلاثہ کو خائن و فاسق اور کافر و فاجر قرار دیا ہے.... اب آیئے ہم ان کے اس باطل عقیدے کی تردید خود موجودہ قرآن کی چند آیتوں سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
1. اللہ فرماتا ہے "ذلك الکتاب لا ریب فيه" یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں (البقرة 1)
2. ارشاد باری تعالٰی ہے "لا يأتيه الباطل من بين يديه ولا من خلفه تنزيل من حكيم حميد" قرآن مجید پر باطل اثر انداز نہیں ہو سکتا نہ اس کے سامنے سے نہ پیچھے سے، یہ اس ذات کی طرف سے نازل کردہ ہے جو صاحب حکمت اور قابل تعریف ہے (حم السجدة 42)
3. ارشاد ربانی ہے "إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون" قرآن کو نازل بھی ہم نے ہی کیا ہے اور اس کی حفاظت بھی ہمارے ذمے ہے (الحجر 9)
4. اللہ کا فرمان ہے "إن علينا جمعه وقرآنه" قرآن کو جمع کرنا اور اس کی قرات کا اہتمام کرنا ہماری ذمہ داری ہے (القیامۃ 17)
5. اللہ کہتا ہے "کتاب أحكمت آياته ثم فصلت من لدن حكيم خبير" یہ ایسی کتاب ہے جس کی آیات کو محکم کیا گیا پھر ان کی تفصیل بیان کی گئی اس کی طرف سے جو حکیم و خبیر ہے (ھود 1)
6. قرآن میں اللہ نے فرمایا "يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك" اے رسول! آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو کچھ نازل کیا گیا ہے آپ اس کی تبلیغ کریں (المائدۃ 27)..... اب اگر بندہ یہ کہے کہ قرآن مکمل نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خائن قرار دے رہا ہے اور بلا شک ایسا سمجھنا انسان کو کافر بنا دیتا ہے....
7. ایک اور جگہ اللہ کا ارشاد ہے "إن هذا القرآن يهدي للتي هي أقوم" یہ قرآن سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے (بنی اسرائیل 9).... گویا کہ قرآن مکمل نہیں ہے کا عقیدہ رکھنا اس گمراہی کی طرف لے جاتا ہے کہ انسانوں کی رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے اور یہ سراسر اللہ پر بہتان اور افتراء ہے اور ایسے شخص سے بڑا کوئی ظالم نہیں ہو سکتا... وَمَن اَظلَمُ مِمَّنِ افتَرَی عَلَی الله کذبا أو کذب بآیاته ".......
................................................
شیعوں کا عقیدہ: کتمان و تقیہ
مذہب شیعہ کی اصولی تعلیمات میں "کتمان" اور "تقیہ" بھی شامل ہیں... آیئے سب سے پہلے ان دونوں لفظوں کا معنی و مطلب جان لیتے ہیں:
1 کتمان: اپنے عقیدہ اور مسلک و مذہب کو چھپانا اور دوسروں پر ظاہر نہ کرنا
2. تقیہ: اپنے قول و عمل سے واقعہ یا حقیقت کے خلاف یا اپنے عقیدہ و ضمیر کے خلاف ظاہر کرنا اور اس طرح دوسروں کو دھوکہ اور فریب میں مبتلا کرنا
____________________________
کتمان اور تقیہ کی ضرورت کیوں؟
ان دونوں الفاظ کا مطلب جان لینے کے بعد اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ان کی ضرورت کیوں پیش آئی اور شیعوں نے کس لئے ان دونوں عقیدوں کو اپنایا؟....... تو کتب شیعہ کے مطالعہ کے بعد اس کا جواب یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ "عبد اللہ بن سبا کے فیض یافتہ کوفہ کے جن لوگوں نے پہلی صدی ہجری کے اخیر اور دوسری صدی ہجری کے نصف اول میں (یعنی امام باقر اور جعفر صادق کے زمانے میں) اثنا عشری مذہب تصنیف کیا یا یوں کہہ لیں کہ اس کی بنیاد ڈالی تو انہوں نے اس ناقابل تردید دلیل اور شہادت کی زد سے "عقیدہ امامت" اور "شیعہ مذہب" کو بچانے کے لئے یہ دو عقیدے وضع کئے، ایک "کتمان" جس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے ان تمام ائمہ کو خود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہ تھا کہ وہ عقیدہ امامت کا اظہار نہ کریں بلکہ اس کو چھپائیں، اس لئے انہوں نے امامت کا عقیدہ عام مسلمانوں کے سامنے اور مجمع میں بیان نہیں کیا... اور دوسرا عقیدہ" تقیہ" کا تھا جس کی وجہ سے وہ تمام عمر اپنے اپنے ضمیر اور عقیدہ کے خلاف عمل کرتے رہے"..... بہر حال عقیدہ امامت (جس کی تفصیل و تشریح ہم اس سلسلے کی تیسری اور چوتھی قسط میں بیان کر چکے ہیں) کو بقیہ مسلمانوں کے طرز عمل کی زد سے بچانے کے لئے یہ دونوں عقیدے شیعوں نے ایجاد کئے....
___________________________
کتمان کے بارے میں شیعی کتب سے دلائل
دنیا کا ہر مذہب خواہ وہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو اپنے آپ کو کسی سے چھپاتا نہیں ہے، لیکن شیعیت دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو اپنے آپ کو دوسروں سے چھپاتا پھرتا ہے، چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب اصول کافی میں "باب الکتمان" کے نام سے ایک مستقل باب ہے، اس باب میں امام جعفر صادق کے خاص مرید اور راوی سلیمان بن خالد سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ
"امام جعفر صادق نے فرمایا کہ: اے سلیمان! تم ایسے دین پر ہو کہ جو شخص اس کو چھپائے گا اللہ اس کو عزت دے گا اور جو اس کو ظاہر کرے گا اللہ اس کو ذلیل و رسوا کر دے گا" (اصول کافی 485)
ایک اور روایت امام باقر کے حوالے سے بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے اپنے شیعان خاص سے فرمایا کہ "مجھے اپنے اصحاب میں (شاگردوں اور مریدوں میں) وہ شخص سب سے زیادہ پیارا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہو، دین کو زیادہ سمجھنے والا ہو اور ہماری باتوں کو زیادہ چھپانے والا اور راز میں رکھنے والا ہو" (اصول کافی 486)
آپ غور کریں کہ عزت و ذلت اور تقوی کی بنیاد اور ان کا معیار کیا بیان کیا جا رہا ہے؟ کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی بنیاد اور معیار بیان کیا ہے؟ افلا تعقلون؟
___________________________
تقیہ کے بارے میں شیعی کتب سے دلائل
تقیہ دراصل جھوٹ کا دوسرا اور خوبصورت نام ہے اور جھوٹ بولنا تمام مذاہب میں بدترین گناہ ہے، پوری دنیا کے عقل مند لوگوں نے بھی اس کو سخت ترین عیب تسلیم کیا ہے لیکن مذہب شیعہ نے اس کو اعلی ترین عبادت قرار دیا ہے، دین کے دس حصے بتلائے ہیں اور ان میں سے نو حصے جھوٹ بولنے کے لئے وقف کر دیئے ہیں، جھوٹ بولنا اللہ کا دین اور انبیاء و ائمہ کا دین بتایا گیا ہے... نعوذ باللہ من ذلك
چنانچہ اصول کافی میں " تقیہ" کا بھی مستقل باب ہے اور اس باب میں کئی روایتیں ہیں، چند ایک درج ذیل ہیں:
1. أبو عمیر اعجمی نامی راوی کہتا ہے کہ "امام جعفر صادق نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابو عمیر! دین کے دس حصوں میں سے نو حصے تقیہ میں ہیں اور جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے" (اصول کافی 482)
2. حبیب بن بشر راوی ہے، کہتا ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا کہ "اے حبیب! جو شخص تقیہ کرے گا اللہ اس کو رفعت اور بلندی عطا کرے گا اور جو تقیہ نہیں کرے گا اس کو اللہ پستی میں گرائے گا" (اصول کافی 483)
3. ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں.... امام باقر نے فرمایا کہ "تقیہ میرا اور میرے آباء و اجداد کا دین ہے، جو شخص تقیہ نہیں کرتا اس میں ایمان ہی نہیں" (اصول کافی 484)
تقیہ کب اور کیسے؟
شیعہ حضرات عوام الناس کے سامنے یہ باور کراتے ہیں کہ ہمارے یہاں تقیہ کی اجازت صرف اس صورت میں ہے جب جان کا خطرہ ہو یا اس طرح کی کوئی شدید مجبوری ہو... لیکن ان کی کتابیں ان کی زبان کے برعکس کچھ اور کہتی ہیں وہ یہ کہ شیعی روایات میں ائمہ معصومین کے بکثرت ایسے واقعات اور روایات موجود ہیں کہ بغیر کسی مجبوری اور بغیر کسی ادنی خطرے کے بھی انہوں نے تقیہ کیا اور کھلی غلط بیانی کی یا اپنے عمل سے لوگوں کو دھوکہ اور فریب دیا.... آیئے نمونے کے طور پر ایک روایت کا تذکرہ کئے دیتے ہیں:
زرارہ نامی راوی امام باقر سے روایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ نے فرمایا
"تقیہ ہر ضرورت کی چیز میں کیا جائے اور صاحبِ معاملہ اپنی ضرورت کے بارے میں زیادہ جانتا ہے (یعنی ضرورت وہ ہے جس کو صاحبِ معاملہ ضرورت سمجھے).... (اصول کافی 484)
اس روایت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ شیعوں کا عوام الناس کے سامنے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ تقیہ کی اجازت صرف اس صورت میں ہے "جب جان جانے کا خطرہ ہو یا ایسی ہی کوئی شدید مجبوری ہو"... بلکہ ان کے مذہب میں تقیہ کے حوالے سے معاملہ ہر شخص کی رائے اور صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے... جب بھی کوئی اپنی مصلحت یا مطلب سے تقیہ کی ضرورت سمجھے تقیہ کر سکتا ہے... یعنی یوں کہہ لیں کہ ان کی بنیادی تعلیمات میں جھوٹ بولنے کی ہر انسان کو کھلی آزادی ہے اور یہ سراسر اللہ کے حکم سے بغاوت ہے....
____________________________
تقیہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب اور ضروری ہے
گذشتہ تفصیل سے اگر آپ یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے یہاں تقیہ جائز ہے تو ابھی ٹھہریں اور یہ حقیقت اپنے ذہن میں بٹھا لیں کہ شیعہ مذہب میں "تقیہ" صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب اور ضروری نیز دین و ایمان کا جزء ہے... ایک روایت ملاحظہ کریں...
امام جعفر صادق ارشاد فرماتے ہیں کہ:
"اگر میں یہ کہوں کہ تقیہ نہ کرنے والا ایسے ہی گنہگار ہے جیسا کہ نماز کا ترک کرنے والا تو میری یہ بات صحیح اور سچ ہوگی اور مزید فرمایا کہ جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے"(من لا یحضرہ الفقيه بحوالہ تکملہ باقیات صالحات ص 216)
محترم قارئین! آپ دیکھیں کہ کتنی خوبصورتی سے تقیہ کو جائز ہی نہیں بلکہ واجب کہہ دیا گیا ہے اور اسی لئے آپ کو شیعی کتابوں میں ضرورت اور بلا ضرورت دونوں ہی صورتوں میں تقیہ کی بہت ساری مثالیں مل جائیں گی جس کے لئے آپ "الجامع الکافی" کے آخری حصہ "کتاب الروضة" کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ بات پوری طرح معلوم ہو جائے گی کہ یہ لوگ تقیہ یعنی جھوٹ بولنے کو واجب سمجھتے ہیں ضرورت اور بلا ضرورت دونوں صورتوں میں بلکہ اللہ کی پناہ یہ دینی مسائل کے بیان میں بھی تقیہ سے کام لیتے ہیں جس کی وضاحت کے لئے میں صرف ایک روایت انہی کی کتاب سے ذکر کر دینا مناسب سمجھتا ہوں:
ابان بن تغلب نامی راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق سے سنا وہ فرماتے تھے کہ
"میرے والد امام باقر بنو امیہ کے دور حکومت میں تقیہ کے طور پر فتوی دیتے تھے کہ باز یا شاہین جس پرندے کو شکار کریں اور وہ ذبح کرنے سے پہلے ہی مر جائے تو اس کا کھانا حلال ہے اور میں (امام جعفر صادق) اہل حکومت کے خوف سے اس مسئلہ میں تقیہ نہیں کرتا، میں فتوی دیتا ہوں کہ باز یا شاہین کا مارا ہوا پرندہ حرام ہے" (فروع کافی ج 2، جزء 2، ص 80)
اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ شیعہ حضرات کے یہ ائمہ تقیہ کے طور پر حرام کو حلال بھی بتلا دیتے ہیں اور یقیناً ان کے ماننے والے یعنی عوام ان کے فتوی کے مطابق اس حرام کو حلال سمجھ کر کھاتے تھے...... استغفر اللہ ولا حول ولا قوة الا بالله
بات اس سے آگے اور بڑھتی ہے تو یہ لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر بھی ذلیل ترین تقیہ کی تہمت لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں چنانچہ فروع کافی جلد اول صفحہ ننانوے اور سو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اہل بیت خصوصاً حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعوٰی کرنے والوں نے انہیں کس قدر پست کردار دکھایا ہے اور ان پر کس قدر ذلیل قسم کے تقیہ کی تہمت لگائی گئی ہے، اور صرف ان پر ہی نہیں بلکہ امام زین العابدین اور امام جعفر صادق پر بھی اسی طرح کی تہمتیں لگائی گئی ہیں.... معاذ اللہ
نوٹ! قارئین کے سامنے ائمہ کے حوالے سے جو روایات بیان کی جا رہی ہیں آپ ان سے یہ قطعی نہ سمجھیں کہ یہ سارے ائمہ واقعی ایسے تھے بلکہ ہمارا یقین ہونا چاہیئے کہ یہ سب اپنی جگہ محترم، مقدس اور پاکباز تھے لیکن شیعہ مذہب کے مصنفین اور راویوں نے ان کی طرف یہ خود ساختہ روایتیں منسوب کی ہیں، ان بزرگوں کا کردار اور ان کے دامن اس طرح کی منافقانہ بدکرداری، جھوٹ، دغا، فریب، دھوکہ اور تقیہ سے بالکل پاک ہے.....
نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ جاری ہے
شیعہ حضرات کے عقیدہ امامت (جس کا تذکرہ اوپرکیا گیا تھا) کا یہ بھی لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کو قبول کر لینے کے بعد "ختم نبوت" کا عقیدہ ختم اور بے معنی ہو جاتا ہے....
ظاہر ہے کہ نبوت و رسالت اور ختم نبوت و ختم رسالت یہ صرف الفاظ کے پیرائے نہیں ہیں بلکہ ان کی ایک متعین اور معلوم حقیقت بھی ہے اور وہ یہ کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " خاتم النبیین" ہیں اور اس کا یہ مطلب ہے کہ نبوت و رسالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دی گئی ہے، آپ کے بعد اب کوئی اور نبی یا رسول نہیں آنے والا، آپ کو ماننا شرط نجات اور آپ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، وحی کے ذریعے اللہ کی ہدایت اور اس کے احکام آنے کا سلسلہ آپ پر موقوف ہو گیا، اب قیامت تک کے لئے آپ پر نازل کی گئی اللہ کی کتاب قرآن مجید اور آپ کے ارشادات و اعمال (جن کا نام "سنت" ہے) ہی ہدایت کا سرچشمہ اور مرجع و ماخذ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخصیت ایسی نہ ہوگی جو انبیاء و رسل کی طرح بندوں کے لئے اللہ کی طرف سے حجت اور معصوم ہو... ختم نبوت کا مطلب یہی تھا، یہی ہے اور قیامت تک یہی رہے گا..........
لیکن شیعیت کے عقیدہ امامت کے مطابق (جس کی تفصیلات بیان کی جا چکی ہیں) جب یہ بات مان لیا جائے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ ائمہ اللہ کی طرف سے نبیوں اور رسولوں ہی کی طرح اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے حجت ہیں،
معصوم ہیں، ان کی معرفت اور ان کی اطاعت شرط نجات ہے،
اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے ان کو بھی ہدایت اور احکام ملتے ہیں،
ان کو وہ سارے فضائل و کمالات حاصل ہیں جو انبیاء کو حاصل تھے،
وہ مرتبے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر اور بقیہ انبیاء و رسل سے برتر ہیں،
وہ الہی صفات و اختیارات کے حامل بھی ہیں،
ما کان و ما یکون کا علم رکھتے ہیں،
کوئی بھی چیز ان سے پوشیدہ نہیں،
وہ مختار کل ہیں، دنیا اور آخرت ان کی ملکیت ہے جس کو چاہیں دے دیں اور بخش دیں اور
ان کی موت ان کے اختیار میں ہوتی ہے.....
معصوم ہیں، ان کی معرفت اور ان کی اطاعت شرط نجات ہے،
اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے ان کو بھی ہدایت اور احکام ملتے ہیں،
ان کو وہ سارے فضائل و کمالات حاصل ہیں جو انبیاء کو حاصل تھے،
وہ مرتبے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر اور بقیہ انبیاء و رسل سے برتر ہیں،
وہ الہی صفات و اختیارات کے حامل بھی ہیں،
ما کان و ما یکون کا علم رکھتے ہیں،
کوئی بھی چیز ان سے پوشیدہ نہیں،
وہ مختار کل ہیں، دنیا اور آخرت ان کی ملکیت ہے جس کو چاہیں دے دیں اور بخش دیں اور
ان کی موت ان کے اختیار میں ہوتی ہے.....
ظاہر ہے جب ان ائمہ کے تعلق سے ان ساری باتوں کو تسلیم کر لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ ختم نبوت کا عقیدہ بے معنی ہو جاتا ہے بلکہ عقیدہ یہ بنتا ہے کہ معاذ اللہ "گھٹیا درجے کی نبوت کا سلسلہ ختم ہو کر اب امامت کے عنوان سے ترقی یافتہ اور اعلی درجے کی نبوت کا سلسلہ قیامت تک کے لئے جاری ہو گیا ہے اور اس سلسلے کے خاتم امام مہدی غائب ہیں جن سے ان کمالات کا ظہور ہوگا جن کا ظہور خاتم النبیین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نہیں ہوا تھا".....
استغفر اللہ ربي واتوب الیہ..... مذہب شیعہ کا ترجمان اعظم علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے کہ "امامت بالاتر از مرتبہ پیغمبری است" یعنی امامت کا درجہ پیغمبری سے بالاتر اور اعلی ہے.......... اس تفصیل کا ما حصل یہ ہے کہ
"عقیدہ امامت کو تسلیم کر لینے کا لازمی اور حتمی نتیجہ دو اور دو چار کی طرح یہ نکلتا ہے کہ "نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ" امامت" کے عنوان سے ترقی کے ساتھ جاری اور ساری ہے"........ (امام خمینی اور شیعیت از مولانا منظور نعمانی ص 243_241)
ویسے ہی ہم شیعوں کو کافر تھوڑی کہتے ہیں جناب، یہ ختم نبوت کے منکر ہیں اور ختم نبوت کا منکر پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منکر ہے اور آپ کا منکر اللہ کا منکر ہے اور جس نے اللہ کا انکار کیا وہ بہر صورت مسلمان نہ ہو کر کافروں میں اپنا شمار کرا لیتا ہے......
_____________________________
"رجعت" کا عقیدہ
"رجعت" کا عقیدہ بھی شیعہ حضرات کے مخصوص عقائد میں سے ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ "امام مہدی غائب جب ظاہر ہوں گے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، امیر المومنین (حضرت علی رضی اللہ عنہ)، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، حسن و حسین رضی اللہ عنہما، تمام ائمہ اور ان کے علاوہ تمام خواص مومنین زندہ ہو کر اپنی قبروں سے باہر آئیں گے اور یہ سب امام مہدی کی بیعت کریں گے، ان میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المومنین علی مرتضی رضی اللہ عنہ بیعت کریں گے، ابو بکر و عمر، عائشہ اور ان سے محبت و مودت کا خصوصی تعلق رکھنے والے خواص کفار و منافقین بھی زندہ ہوں گے اور امام مہدی ان کو سزا دیں گے، ہزاروں بار ان کو مار مار کے جلائیں گے اور سولی پہ چڑھائیں گے، اس کے بعد اللہ جہاں چاہے گا ان کو لے جائے گا اور عذاب دیتا رہے گا... (حق الیقین از علامہ باقر مجلسی ص 145 در بیان رجعت)
شیعی کتاب "تحفۃ العوام" میں ایک جگہ "عقیدہ رجعت" کا بیان ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
"اور رجعت پر بھی ایمان لانا واجب ہے یعنی جب امام مہدی ظہور و خروج فرمائیں گے اس وقت مومن خاص اور کافر و منافق مخصوص زندہ ہوں گے اور ہر ایک اپنی داد اور انصاف کو پہنچے گا اور ظالم سزا و تعزیر پاوے گا" ( تحفۃ العوام ص 5)
محترم قارئین! یہ تو تھا شیعوں کا عقیدہ، جبکہ جمہور امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد تمام بنی آدم، مومن و کافر اور صالح و فاسق دوبارہ صور پھونکنے کے بعد ہی زندہ کئے جائیں گے اور پھر حشر کے میدان میں اللہ ان کے درمیان جزا و سزا نیز جنت و جہنم کا فیصلہ کرے گا... لیکن شیعہ حضرات کے نزدیک قیامت سے پہلے بھی امام مہدی کے ظہور پر ایک قیامت قائم ہوگی اور نہ صرف یہ کہ نبی معصوم حبیب دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں گے بلکہ وہ امام مہدی کی بیعت بھی کریں گے... نعوذ باللہ... اس پر مستزاد یہ کہ کافر و فاجر اور مومن و صالح کے سلسلے میں سزا اور جزا دینے والے خود امام مہدی ہی ہوں گے.... فلعنۃ اللہ علی الظالمين و الکاذبین والفاجرین والکافرین
شیعوں کا ایک بیہودہ عقیدہ: متعہ جائز ہے
اس ضمن میں ہم سب سے پہلے شریعت کی نظر میں "متعہ" کی حیثیت کا جائزہ لیں گے پھر اس سلسلے میں شیعوں کا عقیدہ ذکر کیا جائے گا....
متعہ کی تعریف: متعہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی عورت سے مقررہ معاوضے کے بدلے مقررہ مدت تک کے لئے نکاح کر لے مثلاً دو دن، تین دن یا اس کے علاوہ کسی متعینہ مدت تک کے لئے.....
متعہ کا حکم: نکاح کے سلسلے میں شریعت کی تعلیم تو یہ ہے کہ اس میں استمرار اور دوام ہو، موقّت شادی یعنی "متعہ" شروع اسلام میں جائز تھا پھر بعد میں اسے حرام کر دیا گیا اور اب قیامت تک کے لئے یہ عمل حرام ہی رہے گا.... اپنی اس بات پر ہم کچھ نبوی فرامین ذکر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں:
1. عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه:"أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن متعة النساء يوم خيبر" یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے سال متعہ کرنے سے منع کر دیا" (بخاری 3979، مسلم 1407).....
2. عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه: "أن رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم نهى عن متعة النساء يوم خيبر وعن أكل لحوم الحمر الإنسية" حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے "متعہ" کرنے اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے خیبر کے روز منع کر دیا تھا.... (بخاری 4216) اور یہ بات معلوم اور مشہور ہے کہ غزوۂ خیبر محرم سن7ھ میں پیش آیا.....
3. عن إياس بن سلمة عن أبيه قال:"رخّص رسول الله صلى الله عليه وسلم عام أوطاس في المتعة ثلاثا،ثم نهى عنها" ایاس بن سلمہ اپنے باپ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "اوطاس" کے سال تین دن کے لئے نکاح متعہ کی اجازت دی تھی اور پھر اس سے منع کر دیا.... (مسلم 1405)
"اوطاس کے سال" سے مراد "غزوۂ حنین" کا سال ہے اور یہ واقعہ سن8ھ میں فتح مکہ کے بعد پیش آیا.....
4. عن سَبُرَة الجهني رضي الله عنه قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا أيها الناس إني قد كنت أذنت لكم في الأستمتاع ألا وإن الله قد حرمها إلى يوم القيامة , فمن كان عنده منهن شيء فَلْيُخَل سبيلها,ولا تأخذوا مما آتيتموهن شيئاً" سبرہ الجھنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن اب اللہ نے اسے روزِ قیامت تک کے لئے حرام قرار دے دیا ہے، پس جس کے پاس بھی ان عورتوں (متعہ والی) میں سے کوئی ہو تو وہ اسے چھوڑ دے اور تم جو کچھ انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو" (مسلم 1406).......
محترم قارئین! مذکورہ بالا ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ "نکاح متعہ" پہلے حلال تھا پھر قیامت تک کے لئے اسے حرام قرار دے دیا گیا... مزید آپ چند محدثین اور ائمہ کے اقوال بھی دیکھتے چلیں:
1. حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "رخصت کے بعد چھ مختلف مقامات پر "نکاح متعہ" کا منسوخ ہو جانا مروی ہے: 1. خیبر میں (7ھ).... 2. عمرۃ القضاء میں (7ھ).... 3. فتح مکہ کے سال (8ھ).... 4. اوطاس کے سال (8ھ).... 5. غزوہ تبوک میں (9ھ).... 6. حجۃ الوداع میں (10ھ)...... (فتح الباری ج 9 ص 173)
2. امام نووی رحمه اللہ فرماتے ہیں: "درست بات یہ ہے کہ متعہ دو مرتبہ جائز ہوا اور دو ہی مرتبہ حرام ہوا اور پھر قیامت تک کے لئے حرام کر دیا گیا، یہ غزوۂ خیبر سے پہلے حلال تھا پھر اسے غزوۂ خیبر کے موقع پر حرام کیا گیا، پھر اسے فتح مکہ کے موقع پر جائز کیا گیا (اور اسی کو "عام اوطاس" بھی کہتے ہیں) اس کے بعد ہمیشہ ہمیش کے لئے اسے حرام کر دیا گیا".... (شرح مسلم ج9 ص 181)
3. جمہور سلف و خلف کا قول: نکاح متعہ منسوخ ہے (فتح الباری ج 9 ص 173)
4. قاضی عیاض رحمہ اللہ نے "نکاح متعہ" کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ صرف شیعہ حضرات اسے جائز قرار دیتے ہیں (شرح مسلم للنووی ج 9 ص 79)
5. سعودی مستقل فتوی کمیٹی نے یہ فتوی دیا ہے کہ "نکاح متعہ" حرام ہے اور اگر واقع ہو جائے تو باطل ہے (فتاوی اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء ج 18 ص 440)
____________________________
نکاح متعہ کی شرعی حیثیت
اب تک کی ہماری گفتگو سے ممکن ہے کہ "نکاح متعہ کی شرعی حیثیت" آپ کی سمجھ میں آ چکی ہو... یہ باتیں وہ تھیں جو شریعت کی تعلیمات کی روشنی میں ہم نے بیان کی ہیں..... اب آیئے اس نکاح کو جائز کہنے والے "رافضیوں" اور "شیعوں" کی باتوں کو بھی سمجھ اور جان لیتے ہیں... اس حوالے سے سب سے پہلے بات آپ یہ ذہن نشین کر لیں کہ "متعہ" مذہب شیعہ کا مشہور مسئلہ ہے، چنانچہ ایرانی انقلاب کے روح رواں سمجھے جانے والے خمینی صاحب نے اپنی کتاب "تحریر الوسيلة" میں "کتاب النكاح" کے تحت تقریباً چار صفحات پر "متعہ" سے متعلق جزوی مسائل لکھے ہیں، ہم ان میں سے ایک بات کا تذکرہ مناسب سمجھتے ہیں، خمینی صاحب لکھتے ہیں:
"يجوز التمتع بالزانية على كراهة خصوصا لو كانت من العواهر المشهورات بالزنا وإن فعل فليمنعها من الفجور" یعنی "زانیہ عورت سے متعہ کرنا جائز ہے مگر کراہت کے ساتھ، خصوصاً جبکہ وہ مشہور پیشہ ور زانیہ ہو، اور اگر اس سے متعہ کر لے تو اسے (بطور نصیحت) بدکاری کے پیشہ سے منع کر دے" (تحریر الوسیلہ ج2 ص 292)......واہ بھائی واہ! گویا کہ چھوڑنے کا دل کر رہا ہے مگر پکڑنا بھی ضروری ہے....
"متعہ" کا مقام شیعوں کی نظر میں
"متعہ" یعنی زناکاری کو شیعہ نماز، روزہ اور حج سے بھی افضل عبادت مانتے ہیں، جو جتنی زیادہ زناکاری (متعہ) کرے اس کا رتبہ اتنا ہی زیادہ بڑھ جاتا ہے یعنی ایسا کر کے وہ بتدریج اور بالترتیب حضرت حسین، حضرت حسن، حضرت علی رضی اللہ عنہم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجے اور ان کے مرتبے تک پہنچ سکتا ہے...
ہم اپنی اس بات کے لئے خمینی صاحب کی کتاب "منہج الصادقين" میں موجود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ایک حدیث بطورِ دلیل پیش کئے دیتے ہیں:
"مَنْ تَمَتَّعَ مَرَّۃً فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ الحُسَین، وَمَن تَمَتَّعَ مَرَّتَین فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ الحَسَن ،وَمَن تَمَتَّعَ ثَلَاثَ مَرَّات فَدَرجَتُه کَدَرجَةِ عَلِيٍّ، وَمَن تَمَتَّعَ اَربَعَ مَرَّات فَدَرجَتُه کَدَرجَتِي"....
یعنی جو ایک مرتبہ متعہ کرے وہ امام حسین علیہ السلام کا درجہ پائے گا، اور جو مرتبہ متعہ کرے وہ امام حسن علیہ السلام کا درجہ پائے گا، اور جو تین مرتبہ متعہ کرے وہ امیر المومنین علیہ السلام (علی رضی اللہ عنہ) کا درجہ پائے گا، اور جو چار مرتبہ متعہ کرے وہ میرا (پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) درجہ پائے گا.... (منہج الصادقين للخمینی ج 1 ص 356)
نعوذ باللہ من ذلك.... لیجئے صاحب! اب مقام و مرتبے اعمال صالحہ کرنے اور نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور زکوۃ دینے سے نہیں بلکہ "زناکاری" (متعہ) کا ارتکاب کر کے حاصل کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے...
محترم قارئین! لیں اسی طرح کی ایک اور روایت بلکہ فضیلت پڑھتے ہوئے اپنی حیرت میں مزید اضافہ کریں...
امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ
"ایک عورت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ "میں نے زنا کیا ہے لہذا آپ مجھے پاک کر دیجئے".... چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا...... لیکن جب اس کی اطلاع امیر المومنین علیہ السلام (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کو دی گئی تو انہوں نے اس عورت سے پوچھا کہ "تو نے کس طرح زنا کیا تھا؟"...... اس عورت نے جواب دیا کہ "میں جنگل میں گئی تھی، وہاں مجھ کو سخت پیاس محسوس ہوئی، تو ایک اعرابی سے میں نے پانی کا سوال کیا، اس نے مجھے پانی پلانے کے لئے ایک شرط رکھی کہ میں اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دوں.... جب مجھ کو پیاس نے بہت زیادہ مجبور کر دیا اور مجھے اپنی جان کا اندیشہ ہوا تو میں راضی ہو گئی اور میں نے اس کی شرط مان لی، اس نے مجھے پانی پلایا اور میں نے اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیا"..... یہ پورا معاملہ سننے کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: "قسم کعبہ کے رب کی، یہ تو زنا نہیں بلکہ نکاح ہے".... (فروع کافی ج 2، ص 198)
دیکھئے اس روایت کو پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے اپنے خیال کے مطابق زنا کا وجود دنیا سے اٹھ گیا ہے، بازاروں میں جس زنا کا ارتکاب ہوتا ہے اس میں تو مرد و عورت دونوں باہم راضی ہو ہی جاتے ہیں... یہاں اس روایت کے مطابق اگر پانی کے بدلے زنا پر آمادگی و رضامندی دے دی تو وہاں اس سے بڑھ کر دولت و روپیہ دیا جاتا ہے... گواہ، وکیل، ولی اور ایجاب و قبول کی شرطیں نہ یہاں ہیں نہ وہاں ہیں.... شاباش....
بقول شاعر
منظور ہے کہ سیم تنوں کا وصال ہو
مذہب وہ چاہیئے کہ زنا بھی حلال ہو
___________________________
متعہ اور زنا میں مماثلت
محترم قارئین! ہماری اوپر کی گفتگو میں آپ نے بارہا "متعہ" کے بدلے لفظ "زنا" کا استعمال دیکھا اور پڑھا ہے... ایک سوال شاید آپ کے ذہن میں انگڑائیاں لے رہا ہو کہ میں نے آخر ایسا کیوں کیا... تو آیئے آپ کے اس سوال کا جواب بھی دے دیتے ہیں:
* زنا میں زانیہ کو اجرت دی جاتی ہے اور کبھی کبھی زانیہ زانی کو اجرت دیتی ہے...
* زنا کے لئے وقت بھی متعین کیا جاتا ہے کہ کب سے کب تک...
* زنا میں تنہائی ضروری ہوتی ہے...
* زنا میں عورتوں کی قید نہیں ہے، جتنی عورتوں سے چاہو زنا کر لو...
* زنا صرف جنسی لذت کے لئے ہوتا ہے...
* زنا میں مقررہ وقت کے بعد جب جدائی ہوتی ہے تو کوئی طلاق و خلع کی بات نہیں ہوتی...
* زانیہ وارث نہیں بن سکتی...
* زانی کے ذمے زانیہ کا نان و نفقہ بھی نہیں ہوتا ہے...
اوپر کی عبارت پڑھنے کے بعد اب آپ ہر جملے سے لفظ "زنا" نکال دیں اور اس کی جگہ "متعہ" کا لفظ رکھ دیں اور پھر پوری عبارت پڑھیں، دونوں میں ذرا بھی فرق آپ کو نہیں ملے گا، ہاں بس ایک ہی چیز کا فرق ہوگا کہ اِسے "زنا" کہا جاتا ہے اور اُسے "متعہ" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے... اب اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد اللہ کا فرمان بھی پڑھ لیں... "وَلَا تَقرَبُوا الزِّنَا اِنَّهُ کَانَ فَاحِشَةً" یعنی زنا کے قریب بھی نہ جانا کیونکہ یہ بہت ہی بری اور فحش چیز ہے... (بنی اسرائیل 32)
متعہ کے جواز پر شیعی دلائل اور ان کا رد
محترم قارئین! رافضی شیعوں نے متعہ کی اباحت پر ایسے دلائل اور استدلالات کا تذکرہ کیا ہے کہ جن میں سے کسی بھی دلیل سے ان کا موقف اور استدلال صحیح اور درست نہیں ہے، آپ بھی ان کے دو دلائل اور ساتھ ہی ان کا رد ملاحظہ فرمائیں:
شیعی دلیل نمبر 1: اللہ کا فرمان ہے:
"فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْھُنَّ فَآتُوھُنَّ اُجُورَھُنَّ" (النساء:24)
ترجمہ: "پس ان عورتوں میں سے جس سے بھی تم فائدہ اٹھاؤ تو ان کا مقرر کیا ہوا معاوضہ انہیں دے دو"...
شیعوں کا کہنا ہے کہ: "اس آیت میں متعہ کے مباح ہونے کی دلیل موجود ہے، اور اللہ کے فرمان "اُجُورَھُنَّ" اور "اِستَمتَعتُم" سے متعہ کا معنی لینے کا قرینہ موجود ہے کہ یہاں اس سے مراد "متعہ" ہے....
دلیل نمبر 1 کا رد: 1. پہلی بات تو یہ کہ اللہ نے اس قرآنی جملے سے پہلے والی آیت یعنی آیت نمبر 23 میں یہ بات ذکر کی ہے کہ مرد پر کون سی عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے، جبکہ اِس آیت میں مرد کے لئے حلال عورتوں کا تذکرہ ہے کہ جن عورتوں سے مرد شادی کر سکتا ہے اور پھر اللہ نے اِس جملے میں شادی شدہ عورت کو اس کا حق مہر دینے کا حکم دیا ہے... مزید یہ کہ اللہ نے یہاں اس آیت میں شادی کی لذت یعنی بوس و کنار اور جماع وغیرہ کو "استمتاع" سے تعبیر کیا ہے، اور حدیث مبارکہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "استمتاع" سے شادی کی لذت کی طرف اشارہ کیا ہے... دلیل کے طور پر صحیح بخاری حدیث نمبر 4889 اور صحیح مسلم حدیث نمبر 1468 آپ اپنے پاس رکھیں...
2. دوسری بات یہ کہ ہم شیعوں کی اس دلیل پر اس طرح بھی رد کر سکتے ہیں کہ "اس آیت میں اللہ نے مہر کو "اجرت" سے تعبیر کیا ہے، لیکن یہاں اجرت سے مراد وہ اجرت نہیں ہے جو متعہ کرنے والا مرد ممتوعہ عورت کو بطور اجرت دیتا ہے، اللہ نے ایک دوسری جگہ بھی مہر کو اجرت کے لفظ کے ساتھ ذکر کیا ہے...
"یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ اللَّاتِی آتَیْتَ اُجُوْرَھُنَّ" (الأحزاب 50)
ترجمہ: "اے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے آپ کے لئے آپ کی ان بیویوں کو حلال کیا ہے جنہیں آپ نے ان کی اجرت (مہر) دے دی ہے"...
اب اگر نعوذ باللہ ہم یہ کہیں کہ شیعہ کا سورہ نساء کی مذکورہ آیت سے متعہ کے جواز پر استدلال درست ہے تو اس آیت کو پڑھنے کے بعد یہ کہنا پڑے گا کہ معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ نے متعہ جائز قرار دیا تھا، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے... معلوم یہ ہوا کہ شیعہ جس آیت سے متعہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں اس میں متعہ کی اباحت پر نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی قرینہ پایا جاتا ہے...
3. تیسری بات یہ کہ اگر بالفرض ہم یہ مان بھی لیں کہ مذکورہ آیت متعہ کے مباح ہونے پر دال ہے تو ہم اس آیت کے بارے میں یہ کہیں گے کہ "یہ آیت منسوخ ہے"... اور اس کا ثبوت سنت صحیحہ میں موجود ہے کہ قیامت تک کے لئے اللہ نے متعہ حرام قرار دے دیا ہے..... اور اس تعلق سے ہم نے کئی دلائل کا تذکرہ قسط نمبر 12 میں کیا تھا، قارئین وہاں دیکھ سکتے ہیں...
____________________________
شیعی دلیل نمبر 2: "بعض صحابہ کرام خصوصاً ابن عباس رضی اللہ عنہما سے متعہ کے جواز پر روایتیں ملتی ہیں"...
دلیل نمبر 2 کا رد: روافض و شیعہ اپنی خواہشات کے غلام اور اپنے نفس کے پیروکار ہیں... ایک طرف تو یہ چار کے علاوہ بقیہ سارے صحابہ کو نعوذ باللہ کافر و مرتد قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف انہی کے اقوال و افعال سے اپنی مطلب کی بات پر استدلال بھی کرتے ہیں... یعنی کہ میٹھا میٹھا گپ، کڑوا کڑوا تھو...
رہی بات ان صحابہ کی کہ جن کی جانب سے متعہ کے جواز کا قول ملتا ہے تو سیدھی سی بات ہے کہ ہم ان کے تعلق سے یہ کہیں گے کہ انہیں متعہ کی حرمت والی نص نہیں ملی اس لئے انہوں نے متعہ کو جائز قرار دیا...
جہاں تک بات حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اباحتِ متعہ کے قول کا تو خود صحابہ کرام نے ان کا رد کیا ہے جن میں شیعوں کے پہلے امام حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شامل ہیں... آپ بھی رد والے وہ روایت ملاحظہ کریں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں سنا کہ وہ عورتوں سے متعہ کے بارے میں نرمی کا مظاہرہ کرتے تو کہا کہ: "اے ابن عباس رضی اللہ عنہما! ذرا ٹھہرو! بلا شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن متعہ سے اور گھریلو گدھوں کا گوشت استعمال کرنے سے منع کر دیا تھا" (مسلم 1407)
____________________________
محترم قارئین! چونکہ اس سلسلے میں ہم نے اپنی تمام باتوں کو اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے لہذا اسی طریقے کو اپناتے ہوئے ہم اس باب میں بھی بس انہی دو دلیلوں اور ان کے رد پر اکتفا کرتے ہیں... جس طرح ان کی یہ دونوں دلیلیں بالکل بودی اور پھسپھسی ہیں ایسی ہی حالت ان کی ساری دلیلوں کی ہے... فائدے کے پیش نظر نیچے ہم قرآن و سنت کے وہ حوالے ذکر کر دیتے ہیں کہ جن سے "نکاح متعہ" کی حرمت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے:
دلائل قرآن سے:
1. سورۃ النساء آیت نمبر 25
2. سورۃ النور آیت نمبر 33
اور دیگر دوسری آیات
دلائل سنت مطہرہ سے:
1. صحيح بخاری 3979، صحیح مسلم 1407
2. صحيح مسلم 1406
3. تلخیص الحبیر للحافظ ابن حجر، ج 3، ص 154
4. ارواء الغلیل للعلامة الألباني، ج 6، ص 318
5. صحيح الجامع الصغير، ج2، ص1177، حدیث نمبر 7022
6. صحيح مسلم 1405
7. صحيح بخاری 4216
8. صحیح سنن ابن ماجہ للالبانی ج2، ص 154
9. صحیح بخاری 5066، صحيح مسلم 1400
شیعوں کے چند مزید متفرق عقائد و مسائل
محترم قارئین! گذشتہ سطور میں ہم نے جو تفصیل "شیعیت اپنے عقائد و نظریات کے آئینے میں" کے عنوان سے آپ کے سامنے پیش کی وہ تمام ہی مسلمانوں کو شیعوں کی حقیقت اور ان کی حیثیت بتانے کے لئے کافی و شافی ہے، البتہ ہم اس تذکرے کے بعد بھی ان کے چند متفرق عقائد و مسائل کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں...
1. گناہوں کے کفّارے کا ایک انوکھا عقیدہ
اس سلسلے میں شیعہ مصنف علامہ باقر مجلسی کی کتاب "حق الیقین" کی ایک روایت کو دو زاویوں سے پیش کرنا مناسب ہے...
زاویہ نمبر 1: مذکورہ کتاب کی ایک روایت میں امام جعفر صادق کے خاص مرید مفصل بن عمر کے ایک سوال کے جواب میں امام جعفر صادق کا یہ ارشاد منقول ہے:
امام جعفر صادق نے فرمایا کہ "اے مفصل! رسول خدا نے دعا کی کہ خداوندا! میرے بھائی علی بن ابی طالب کے شیعوں اور میرے اُن فرزندوں کے جو میرے وصی ہیں ان سب کے اگلے پچھلے اور روزِ قیامت تک کے سب گناہ تو میرے اوپر لاد دے اور شیعوں کے گناہوں کی وجہ سے پیغمبروں کے درمیان تو مجھے رسوا نہ کر، پس اللہ نے سبھی شیعوں کے تمام گناہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر لاد دیا، اور پھر وہ سارے گناہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اللہ نے بخش دیئے"... (حق الیقین ص 148)
زاویہ نمبر 2: مفصل نے دریافت کیا کہ "اگر آپ کے شیعوں میں سے کوئی اس حال میں مر جائے کہ اس کے ذمے کسی مومن بھائی (یعنی شیعہ) کا قرضہ ہو تو اس کا کیا انجام ہوگا؟".... تو حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا کہ "جب امام مہدی ظاہر ہوں گے تو وہ سب سے پہلے ساری دنیا میں یہ منادی کرائیں گے کہ ہمارے شیعوں میں سے اگر کسی پر کسی کا قرضہ ہو تو وہ آئے اور ہم سے وصول کر لے، پھر آپ سب قرض خواہوں کا قرضہ ادا فرما دیں گے"..... (حق الیقین 148)
قارئین دیکھیں کتنی ہوشیاری اور ہٹ دھرمی سے ان لوگوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور امام جعفر صادق پر یہ بہتان باندھا کہ ان دونوں نے ایسا اور ایسا کہا تھا... کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسی کوئی خواہش یا دعا اللہ سے کی کہ ان کافروں اور فاجروں کے گناہوں کو مجھ پر لاد دے اور مجھے رسوا نہ کرنا؟؟؟... ھاتوا برهانكم ان کنتم صادقین
____________________________
2. کربلا کعبہ سے افضل، برتر اور بالاتر (نعوذ باللہ)
ہر مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ دنیا کی تمام جگہوں میں سب سے مقدس، محترم، پاک، افضل اور بہتر و برتر جگہ "خانہ کعبہ" ہے، لیکن شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ نہیں، بلکہ کربلا دنیا کی تمام جگہوں میں سب سے افضل اور برتر ہے یہاں تک کی کعبہ سے بھی......
اسی "حق الیقین" نامی کتاب میں ہے کہ امام جعفر صادق نے اپنے اسی مرید مفصل بن عمر کو دینی حقائق و معارف بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
".......... واقعہ یہ ہے کہ زمین کے مختلف قطعات اور مقامات نے آپس میں ایک دوسرے پر فخر اور برتری کا دعوٰی پیش کیا کہ اسی اثناء میں خانہ کعبہ نے کربلائے معلّی کے مقابلے میں فخر اور برتری کا دعوٰی کر دیا، تو اللہ نے کعبہ کو وحی فرمائی کہ خاموش ہو جاؤ! کربلا کے مقابلے میں فخر اور برتری کا دعوٰی مت کرو".... (حق الیقین 145)
لیجئے صاحب! اب کعبہ کو بھی وحی آنے لگی اور جبرئیل کے وحی لانے کا کام ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ جاری و ساری ہے..... اور تو اور یہاں زمینی مقامات بھی بحث اور مناظرے میں مشغول ہوتے ہیں اور کوئی شیعہ بڑے غور سے ان سب کو نوٹ کر رہا ہوتا ہے....
آگے مزید اسی روایت میں ہے کہ "اس موقع پر اللہ نے کربلا کی وہ خصوصیات اور فضائل بیان کیں کہ جن کی وجہ سے اس کا مرتبہ مکہ مکرمہ سے برتر اور بالاتر ہے"... (حق الیقین 145)
____________________________
3. ایک انتہائی شرمناک مسئلہ
شیعہ حضرات کی مستند ترین کتابوں میں ائمہ کے حوالے سے ایسے بہت سارے مسائل بیان کئے گئے ہیں جو انتہائی شرمناک ہیں مگر دل گواہی دیتا ہے کہ ان مقدس بزرگوں نے ایسی کوئی بات ہرگز نہ کی ہوگی، بلکہ یہ سب انہی شیعوں کی کارستانیاں ہیں....... ایک مسئلہ بطور نمونہ ذکر کیا جاتا ہے اور پھر اسی پر بقیہ مسائل کو آپ قیاس کر سکتے ہیں کہ کس طرح ہوں گے اور ان کا معیار کیا ہوگا.......
شیعوں کی اصح الکتب "الجامع الکافی" کے دوسرے حصہ "فروع کافی" میں پوری سند کے ساتھ امام جعفر صادق کا یہ ارشاد اور فتوی نقل کیا گیا ہے...
عَنْ اَبِی عَبدِ اللّه أنّه قَالَ: "اَلنَّظْرُ اِلَی عَوْرَۃٍ مَنْ لَیْسَ بِمُسْلِمٍ مِثْلُ نَظْرِكَ اِلَی عَوْرَۃِ الْحِمَارِ" (فروع کافی جلد 2، جزء ثانی، ص 61)
ترجمہ: "ابو عبد اللہ امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: "کسی غیر مسلم (عورت یا مرد) کی شرمگاہ کو دیکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ گدھے (یعنی کسی جانور) کی شرمگاہ کو دیکھنا (مطلب یہ کہ کسی غیر مسلم عورت یا مرد کی شرمگاہ کو دیکھ لینے سے بندہ گنہگار نہیں ہوگا بلکہ اس کا حکم جانور کی شرمگاہ دیکھنے کی طرح ہوگا)...
........ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے........
حضرت امام جعفر صادق تو ایک صالح انسان تھے، کیا کوئی بھی سلیم الفطرت اور عقلمند نیز شریف انسان ایسی شرمناک اور حیا سوز بات اپنی زبان سے نکال سکتا ہے یا اپنے قلم سے لکھ سکتا ہے اور وہ بھی ایک شرعی مسئلے اور فتوے کے طور پر؟؟؟.... نہیں ہر گز نہیں....... اسی بنا پر تو ہم کہتے ہیں کہ شیعہ کافر ہے......
..............
بات شیعوں کے باوا عبد اللہ بن سبا کی، عبد اللہ بن سبا کی کارستانیاں شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد، شیعوں میں مختلف فرقے، شیعیت کی بنیاد "مسئلہ امامت"، مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات، ائمہ معصومین سے متعلق شیعوں کے عقائد، صحابہ کرام کے تعلق سے شیعوں کے عقائد، شیعوں کا ایک عقیدہ: موجودہ قرآن مکمل نہیں اور پھر اس بات کی وضاحت کہ تحریف قرآن کا مرتکب کون؟ اصلی قرآن کہاں ہے شیعوں کے عقیدے کے مطابق؟، تحریف قرآن کی چند مثالیں اور اس باطل عقیدے کی تردید، شیعوں کا عقیدہ: کتمان اور تقیہ اور ان کی مکمل مختصر تفصیل، نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ جاری ہے، رجعت کا عقیدہ، شیعوں کے ایک بیہودہ عقیدے "متعہ" کی شرعی حیثیت، شیعوں کی نظر میں "متعہ کے جواز" کی ابتدائی بات اور شیعوں کی نظر میں متعہ کا مقام اور اس کی فضیلت نیز زنا اور متعہ میں مماثلت کی جانب اشارہ، ان کے اس باطل عقیدے کی کچھ دلیلیں اور ان کا رد اور پھر اخیر میں ان کے چند متفرق عقائد و مسائل کا تذکرہ...) اب آپ آگے پڑھیں
____________________________
یہودیت اور شیعیت: نام الگ مگر کام ایک
محترم قارئین! ہم نے اب تک شیعوں کے عقائد و نظریات کا مختصر مگر جامع تذکرہ آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ کس قدر خبیث ہیں اور ان کے عقائد و نظریات کا معیار کیا ہے... اب آیئے ذیل کے چند سطور میں ہم "شیعیت" کا موازنہ اس قوم سے کر لیتے ہیں جسے اللہ نے سب سے بدترین قوم کہا ہے، جن پر اللہ کا غضب ہے اور جو مسلمانوں کے سب سے سخت دشمن ہیں، میری مراد "یہودیت" ہے... اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے شیعہ دراصل کافر ہیں، قوم یہود کے پروردہ اور انہی کی ایجاد کردہ ہیں اور یہ حقیقت تو ہر کسی کو معلوم ہے کہ سانپ کا بچہ سپولا (سانپ) ہی ہوتا ہے، وہ انسان تو ہونے سے رہا....
_______________________
یہودیت اور شیعیت کی مشترکہ باتیں:
1. دین میں غلو اور مبالغہ آرائی: یہودیوں کی سب سے پہلی صفت جو شیعوں نے اختیار کی وہ "غلو" اور "مبالغہ" ہے... جیسا کہ اللہ یہودیوں کے تعلق سے کہتا ہے:
"وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ ابْنُ اللّه"
یہود نے حضرت عزیر علیہ السلام کے بارے میں یہ کہا کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں"...
(التوبة 30)
یہودیوں نے ایک نیک اور صالح انسان کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا، حالانکہ اللہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ ہی کسی کا باپ.... جس طرح یہودیوں نے اللہ کے بندے عزیر علیہ السلام کے تعلق سے غلو اور مبالغہ سے کام لیا ایسے ہی شیعوں نے اپنے "ائمہ معصومین" کے تعلق سے غلو اور مبالغہ سے کام لیتے ہوئے یہودی نسل سے ہونے کی ایک مضبوط دلیل پیش کی... ان کے عقیدے کے مطابق ان کے یہ تمام ائمہ نبی اور رسول ہی کی طرح معصوم ہوتے ہیں، انبیاء و رسل ہی کی طرح امت پر ان کی اطاعت فرض ہوتی ہے اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے یہ تمام انبیاء سے افضل اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہیں...
چنانچہ ایران کے مقتدر شیعی رہنما جناب آیت اللہ خمینی صاحب لکھتے ہیں:
"وَاِنَّ مِنْ ضَرُوْرِیَّاتِ مَذْھَبِنَا أَنَّ لِاَئِمَّتِنَا مَقَاماً لَا یَبْلُغُهُ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ"
یعنی ہمارے مذہب (شیعیت) کے ضروری اور بنیادی عقائد میں سے یہ عقیدہ بھی ہے کہ ہمارے ائمہ کو وہ مقام و مرتبہ حاصل ہے کہ جس تک کوئی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل بھی نہیں پہنچ سکتا"
(الحکومۃ الاسلامیۃ آیت اللہ خمینی 52)
اسی طرح سے تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ کائنات کی ہر ہر چیز پر اللہ کی حکومت ہے اور تمام چیزیں اس کی مطیع و منقاد ہیں اور یہ شان کسی نبی اور رسول کی بھی نہیں، صرف اللہ کی ہے.... لیکن اہل تشیع کا غلو اور مبالغہ سے بھرپور یہ عقیدہ ہے کہ
"فَاِنَّ لِلْاِمَامِ مَقَاماً مَحْمُوْداً وَدَرَجَةً سَامِیَةً وَخِلَافَةً تَکْوِیْنِیَّةً تَخْضَعُ لِوِلَایَتِھَا وَ سَیْطَرَتِھَا جَمِیْعُ ذَرَّاتِ الْکَوْنِ"
مطلب امام کو مقام محمود، بلند درجہ اور ایسی تکوینی حکومت حاصل ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم اور اقتدار کے آگے سرنگوں ہے"
(الحکومة الإسلامية 52)....... نعوذ باللہ من ذلك
دیکھیں کس قدر ائمہ کی شان میں غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لیا جا رہا ہے، بھلا بتاؤ کیا ایسی صورت میں اِن میں اور اُن میں کوئی فرق رہ جاتا ہے؟؟....
_____________________
2. اپنے دینی رہنماؤں کو اللہ کے اختیارات سے متّصف کرنا:
یہ وہ دوسری صفت ہے جو شیعوں نے یہودی قوم سے وراثت میں حاصل کی ہے، اللہ یہودیوں کی اس صفت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
"اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ اللّه"
کہ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے دینی پیشواؤں اور علماء کو اپنا رب بنا لیا"...
(التوبة 31)
یہ مذموم اور مشرکانہ عقیدہ شیعوں کے یہاں بھی موجود ہے، چنانچہ "اصول کافی" کے دو اقتباس آپ ملاحظہ کریں:
1. محمد بن سنان سے روایت ہے کہ انہوں نے محمد بن علی نقی (نویں امام) سے حلال و حرام کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ:
"اے محمد! اللہ ازل سے اپنی وحدانیت میں منفرد رہا، پھر اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کو پیدا کیا، پھر یہ لوگ ہزاروں سال باقی رہے، اس کے بعد اللہ نے دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا کیا، پھر مخلوقات کی تخلیق پر ان حضرات کو گواہ بنایا اور ان کی اطاعت ان تمام مخلوقات پر فرض کی اور ان کے تمام معاملات ان حضرات کے حوالے کر دیئے، اب یہ حضرات جس چیز کو چاہتے ہیں حلال کر دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں حرام کر دیتے ہیں، اور یہ وہی چاہتے ہیں جو اللہ چاہتا ہے"...
(الصافی شرح اصول کافی جزء 3، جلد 2، ص 149)
واضح رہے کہ اس روایت میں محمد، علی اور فاطمہ سے مراد یہ تینوں حضرات اور ان کی نسل سے پیدا ہونے والے تمام ائمہ ہیں....
2. اصول کافی ہی میں امام جعفر صادق سے روایت ہے:
"وِلَایَتُنَا وِلَایَةُ الله اَلَّتِي لَمْ یُبْعَثْ نَبِيٌّ قَطُّ اِلَّا بِھَا"
ہماری ولایت (یعنی بندوں اور تمام مخلوقات پر ہماری حاکمیت) بعینہ اللہ کی ولایت و حاکمیت جیسی ہے، جو نبی بھی اللہ کی طرف سے بھیجا گیا وہ اس کی تبلیغ کا حکم دے کر بھیجا گیا"...
(اصول کافی 276)
محترم قارئین! دیکھیں ان شیعی روایات کے مطابق ان کے تمام ائمہ الہی صفات کے مالک ہیں، انہیں ما کان و ما یکون کا علم ہے، کوئی بھی چیز ان سے مخفی نہیں، ان کے بارے میں غفلت، سہو اور نسیان کو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، کائنات کے ذرے ذرے پر اللہ کی حکومت جیسی ان کی بھی حکومت ہے، وہ دنیا و آخرت کے مالک ہیں، جس کو چاہیں دیں اور جس کو چاہیں محروم کر دیں، حلال و حرام کے فیصلے کی اتھارٹی بھی ان کے پاس ہے.... اور ان جیسے دوسرے مذموم اور مشرکانہ عقائد.... انا للہ و انا الیہ راجعون.... کیا اب بھی ان کے کافر ہونے میں کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟؟؟؟
یہودیت اور شیعیت کی مشترکہ باتیں
محترم قارئین! اس ذیلی عنوان کے تحت ہم نے گذشتہ قسط میں دو پوائنٹس کا تذکرہ کیا تھا، اب اسی سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ہم مزید کچھ نکات کا تذکرہ کرنے کی کوشش کریں گے:
3. التباس اور کتمان حق:
قرآن مجید کے مطالعہ سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہود و نصاری کے اندر جو خامیاں اور برائیاں ہیں ان میں سے ایک بری صفت یہ بھی ہے کہ وہ حق کو چھپانے والے اور دین کی سچی تعلیمات پر نفاق اور جھوٹ کا پردہ ڈالنے کا جرم کرنے والے ہیں.... جیسا کہ اللہ سورہ آل عمران میں ارشاد فرماتا ہے:
"یَآ اَھْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ"
"اے اہل کتاب! تم حق کو باطل سے کیوں ملاتے ہو اور حق کو کیوں چھپاتے ہو، حالانکہ تمہیں معلوم ہے"
(آل عمران 71)
یہودیوں کی یہ مذموم صفت شیعہ قوم نے بھی اختیار کی، ان لوگوں نے بھی حق کو خلط ملط کرنے اور اسے چھپانے کا کام کیا بلکہ اس معاملے میں یہ اپنے گرو سے بھی دو قدم آگے نظر آتے ہیں، کیونکہ "التباس" اور "کتمان حق" شیعوں کے نزدیک باقاعدہ "تقیہ" اور "کتمان" کے عنوان سے عقیدے کی حیثیت رکھتا ہے اور اس بات کی وضاحت ہم نے گزشتہ سطور میں تفصیل کے ساتھ پیش کی ہے.... اگر اس معاملے میں یہودیوں اور شیعوں کے مابین کچھ فرق ہے تو صرف اس قدر کہ یہود دنیاوی مفاد کے لئے حق کو باطل میں خلط ملط کرنے اور اللہ کی تعلیمات کو پوشیدہ رکھنے کے مجرم تھے یا ہیں جبکہ ان کے یہ معنوی "سپوت" یعنی شیعہ حضرات اللہ کی مخلوق کو گمراہ کرنے کے لئے دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں اپنے باطل عقائد و نظریات کو حق کے لبادے میں چھپا کر پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں....
تقیہ اور کتمان کے باب میں ہم نے شیعوں کی کتاب سے بہت ساری دلیلیں ذکر کی تھیں، یہاں ہم ان دلیلوں میں سے صرف ایک دلیل کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں:
قَالَ اَبُوْ جَعْفَر عَلَیْهِ السَّلَام: "اَلتَّقِیَّةُ مِنْ دِیْنِیْ وَ دِیْنِیْ آبَائِیْ وَلَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَا تَقِیَّةَ لَهُ"
امام باقر ابو جعفر نے فرمایا: "تقیہ میرا اور میرے آباء و اجداد کا دین ہے، جو شخص تقیہ نہیں کرتا اس میں ایمان کی نہیں ہے"...
(اصول کافی 484)
حقیقت یہ ہے کہ "تقیہ" اور "کتمان" کے اس خطرناک عقیدے کے ذریعے یہودی عقائد کو امت مسلمہ میں نافذ کرنے اور مسلمانوں کے درمیان نفاق و تفرقہ کی بیج بونے میں جس قدر کامیابی ہوئی ہے وہ کسی اور ذریعے سے ممکن نہ تھی، ظاہر ہے کہ یہودیت تو براہ راست مسلمانوں کے قلوب و اذہان پر اثر انداز نہ ہو سکتی تھی اس لئے یہودیت نے شیعیت کے روپ میں ایک نئے فرقے کو جنم دیا اور جب یہ فرقہ جوان ہوا تو اس نے مسلمانوں کو مختلف کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس کام میں پوری طرح یہودیوں کی مدد کی اور ان کے لئے اپنے مشن میں کامیابی پانے کا "تقیہ" اور "کتمان" سے بہتر کوئی اور راستہ نہ تھا.... اور آج حالت یہ ہے کہ کھلے عام یہ لوگ اپنے معتقدین پر "شیعیت" یا دوسرے لفظوں میں "یہودیت" کی دعوت و تبلیغ میں مصروف ہیں اور یہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے....
اللہ امت مسلمہ کو ان کے فتنے سے محفوظ رکھے آمین....
____________________
4. مسلمانوں سے شدید عداوت و دشمنی:
اس صفت کے تعلق سے قرآن مجید گواہی دیتا ہے کہ "یہودی" مسلمانوں کے سخت ترین دشمن ہیں...
اللہ کا فرمان ہے:
"لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً للَّذِیْنَ آمَنُوْا الْیَھُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا"
"تم مومنوں کا سب سے سخت دشمن ان لوگوں کو پاؤ گے جو یہودی ہیں اور ان لوگوں کو جنہوں نے شرک کیا"
(المائدة 82)
دیکھیں یہ ہے قرآن کی گواہی اور اللہ کی سچی بات..... وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّه حَدِیْثاً....
یہودیوں کی مسلمانوں سے یہ عداوت و دشمنی ان سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ مسلمانوں کا وجود ختم کر دیں، چنانچہ یہودیوں نے مسلمانوں سے اپنی شدید دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ ان لوگوں نے "شیعیت" کے روپ میں آ کر عام مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت اور تبرّا کا محاذ کھول دیا، یہاں تک کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خیر القرون کے مسلمانوں سے عام لوگوں کو بدظن کرنے کے لئے ہر اس حربے اور ہتھکنڈے کا استعمال کیا جو ان کے امکان میں تھا...
شیعوں کی مسلمانوں خصوصاً صحابہ سے دشمنی کی چند مثالیں:
1. ابو بكر وعمر اور عثمان (رضی اللہ عنہم) تینوں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت ترک کر دینے کی وجہ سے ایمان و اسلام سے خارج اور مرتد ہو گئے...
(اصول کافی:265)
2. عائشہ و حفصہ (رضی اللہ عنہما) نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دے کر شہید کر دیا تھا...
(حیات القلوب، ملا باقر مجلسی، ص:870)
3. عائشہ و حفصہ (رضی اللہ عنہما) دونوں بدبخت ہیں... معاذ اللہ
(حیات القلوب، ملا باقر مجلسی، 742)
4. ان دونوں (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام بنی آدم کی لعنت ہو...
(کتاب الروضة، ابو جعفر کلیدی، 115)
5. مہدی علیہ السلام جب ظاہر ہوں گے تو عائشہ (رضی اللہ عنہا) کو زندہ کر کے ان پر حد جاری کریں گے اور فاطمہ کا انتقام ان سے لیں گے...
(حق الیقین، ملا باقر مجلسی، 139)
6. مہدی جب ظاہر ہوں گے تو وہ کافروں سے پہلے سنّیوں اور خاص کر ان کے عالموں سے کاروائی شروع کریں گے اور ان سب کو قتل کر کے نیست و نابود کر دیں گے....
(حق الیقین، ملا باقر مجلسی، 138)
اللہ تم سب کو ہدایت دے .. آمین....
تحریر : حافظ خلیل الرحمٰن سنابلی
Source:
http://forum.mohaddis.com/threads/شیعیت-اپنے-عقائد-و-نظریات-کے-آئینے-میں.33473
نوٹ : یہ تحریر مصنف حافظ خلیل الرحمٰن سنابلی کی تحقیق ہے جس کا مصنف ذمہ دار ہے-
مزید پڑھیں ...
.......................................................
یہ 17 منٹ کی دستاویزی فلم آپ کو شیعیت کی حقیقت اُنہیں کی
کتابوں سے ثابت کر دے گی!
Video
Embed Code:
<iframe src="https://www.facebook.com/plugins/video.php?href=https%3A%2F%2Fwww.facebook.com%2Fmessagetv%2Fvideos%2F805623742800629%2F&show_text=0&width=560" width="560" height="315" style="border:none;overflow:hidden" scrolling="no" frameborder="0" allowTransparency="true" allowFullScreen="true"></iframe>