بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
سوال نمبر ۱۔ سورۃ المائدہ، آیت نمبر55، پس اللہ ولی ہے تمھارا اور اس کے پیغمبر اور مومن جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور رکوع والے۔
تفسیر در منثور، جلد نمبر2، صفحہ نمبر293(علامہ جلال الدین سیوطیؒ)1
(1-۔ تفسیر فتح القدیر، جلد نمبر2، صفحہ نمبر53(علامہ شوکانی)
(1-c)تفسیر قادری، حضرت عبدا للہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ سورۃ المائدہ کی یہ آیت مولا علی ؓ کی شان میں اس وقت نازل ہوئی
جب مسجد نبوی ﷺ میں مولا علی ؓ نے حالت رکوع میں سائل کو انگوٹھی خیرات کی۔
جواب:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ۔
سورۃ المائدہ کی آیت نمبر55
اس کے شان نزول میں مفسرین کرام نے ہر گزحضرت مولیٰ علی شیر خدا کے حق میں نزول پر اتفاق نہیں کیا۔ بلکہ مفسرین نے اس میں اختلاف کیا ہے اور اس کے شان نزول مختلف بیان کیے گئے ہیں۔
نمبر1۔ چنانچہ تفسیر ابن جریر جلد چہارم، صفحہ 186 مطبوعہ بیروت، میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ جبکہ بنی خزرج سے حضر ت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میں تمھاری دوستی کو چھوڑتا ہوں ، کیوں کہ میں اللہ عز وجل و رسول اللہ ﷺ اور مومنین کو دوست رکھتا ہوں۔
نمبر 2۔ تفسیر روح المعانی صفحہ176/6 میں اس آیت کے تحت ایک اور روایت بیان کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جب ایمان لائے تو ان کی قوم نے ان سے بائیکاٹ کر دیا تو حضرت عبد اللہ بن سلام بہت پریشان ہوئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی، انما ولیکم اللہ ۔۔۔
نمبر3۔ جب کہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے متعلق اس آیت کا نازل ہونا شیعہ کی معتبر تفسیر مجمع البیان 210/2پر بھی موجود ہے جس کی عبار ت یہ ہے ۔ وقال الکلبی نزلت فی عبد اللہ بن سلام اصحابہ لما اسلموا فقطعت
الیھود موالاتھمیعنی کلبی نے کہا کہ یہ سوره مائده آیه 55 آیت، انما ولیکم اللہ ۔۔۔۔۔۔۔حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی جب وہ مشرف باسلام ہوئے اور اسلام لانے کے بعد یہودیوں نے ان سے دوستی ختم کر دی تھی۔
اور تفسیر فتح القدیر ، شوکانی، کا حوالہ ہمارے لیئے حجت نہیں کیونکہ شوکانی غیر مقلد ہے۔ سرکارﷺ نے مردوں پر سونا حرام فرما دیا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سونے کی انگوٹھی پہننا اس روایت کی غیر معتتبر ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ تفسیر فتح القدیر صفہ 6 پر لکھا ہے شوکانی شاگرد تھا عبد الحق بنارسی کا اور عبدالحق بنارسی کا سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں وہی عقیدہ تھا جو کہ شیعہ کا ہے ۔ دیکھو۔ کشف الحجاب ، عبد الحق بنارسی
دوسری بات مذھبہ و عقیدہ تفقہ علی مذھب الامام زید زیدی شیعہ تھا ۔ تفسیر فتح القدیر صفہ 6
مذکورہ بالا سنی اور شیعہ روایات سے ثابت ہوا کہ۔
۱۔ اس آیت کے شان نزول میں اختلاف ہے۔
۲۔ ان روایات مذکورہ میں سے پہلی روایت سے ثابت ہے کہ یہ آیت حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
۳۔ دوسری روایت یعنی روح المعانی ، شیعہ تفسیر مجمع البیان کی روایت سے ثابت ہے کہ یہ آیت حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
۴۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سوره مائده آیه 55 اس آیت میں ولی بمعنی دوست استعمال ہوا ہے لہٰذا قطعی طور پر اس کا شان نزول سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں قرار دینا درست نہیں ہے۔ جبکہ تفسیر در منثور صفحہ518/2مطبوعہ بیروت، میں اس آیت کا پہلا شان نزول ہی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ
کے برے میں بیان کیا گیا ہے۔
۵۔ فتح القدیر اہل سنت کی کتاب نہیں۔
دوسری روایت حضرت علی المرتضیٰ کے بارے میں اور تیسرا شان نزول حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے والد گرامی حضرت امام محمد باقر رضی اللہ عنہ سے منقول ، اصحاب محمد ﷺ ہیں۔ اور سائل نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت نبی پاک ﷺ کے اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان میںسے ہیں۔
واضح ہو گیا کہ شیعہ حضرات کا اس آیت کو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں قطعی طور قرار دینا درست نہیں ہے۔(جب بنیاد ہی
قائم نہ ہو سکی تو اس سے من گھڑت، خود ساختہ مفہوم کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟)
کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سائل کو چادر دی؟
پہلی بات:
بفرض محال ہم تسلیم کر لیں کہ یہ آیت پاک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض کتب شیعہ میں اس آیت مبارکہ کے ماتحت لکھا ہو ا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سائل کو چادر دی، بعض نے لکھا ہے کہ انگوٹھی دی، سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ سائل بھی بڑا عجیب تھا اس نے انتظار نہ کیا کہ حضرت علیرضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہو جائیں بعد میں سوال کروں ۔
دوسری بات:۔
چلو ہم مان لیں کہ سائل نے نماز کے اندر سوال کر لیا اور مولا علیرضی اللہ عنہ رکوع کی حالت میں انگوٹھی یا چادر سائل کو دے دی ، بات سمجھنے کی ہے کہ چادر مولا علی رضی اللہ عنہ نے اتار کر سائل کو دی اور یہ فعل کثیر ہے، اور فعل کثیر مفسدات نماز ہے۔ کیا باب العلم رضی اللہ عنہ کو اس بات کا بھی علم نہ تھا؟
حالانکہ رکوع سے مراد وہ لوگ جو زکوٰۃ دیتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور رکوع کرتے ہیں یہ حضور ﷺ کی امت میں ہے سابقہ امتوں
میں نماز تھی رکوع نہ تھا۔
تیسری بات:۔
اگر مولا علی رضی اللہ عنہ نے جو سائل کو زکوٰۃ دی ، تو جو ۱۰۰۰ درہم کی چادر دی اور حضرت علی رض کے قول کے مطابق کہ ساری زندگی زکوٰۃ فرض نہیں ہوئی، کیا جواد پر بھی زکوٰۃ ہوتی ہے؟
سوال نمبر 2۔ سورۃ التغابن، آیت نمبر8۔ تو خدا پر اور اس کے رسول پر اور نور پر جو ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لائو اور خدا تمھارے سب اعمال سے خبر دار ہے۔
(2-a)مسند(امام احمد بن حنبلؒ)
(2- مودت القرباء ( میر سید علی حمدانی )
(2-c)مناقب(ابن مغزالی شعفی )
(2-d)فردوس الاخبار(دیلمی )
میں اور علی، آدم 1400سال پہلے ایک ہی نور سے خلق ہوئے۔ یہ نور سلب عبد المطلب سے ہوتا ہوا حضرت عبدا للہ اور حضرت ابو طالب میں تقسیم ہوا۔اتنے Refrencesکے بعد بھی اس نور کو علماء کرام نے (قرآن ) سے تشبیہ دی ہے۔ اس نور کو اگر قرآن ہی مانا جائے تو قرآن پاک نبی پاک ﷺکے ظہور کے چالیسویں سال نازل ہوا جبکہ اس حدیث کے مطابق یہ نور علی ہے جو حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ہی نازل ہوا ہے ۔ یہ نور اگر آپ کے 40سال بعد نازل ہوا تو قرآن ہے اور اگر ساتھ نازل ہوا تو علی ہیں اس نور کو سمجھنے کیلئے دوبارہ قرآن مجیدکا مطالعہ کرتے ہیں۔
جواب:۔ اس آیت فاٰمنوا باللہ روسولہ والنور الذی انزلنا واللہ بما تعملون خبیر میں والنور الذی انزلنا سے حضرت علی رضی اللہ عنہرضی اللہ عنہ مراد لینا صریحاً تحریف ہے جو کہ یہود و نصاریٰ کا کام ہے۔ وہ نو ر جو ہم نے نازل کیا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نازل نہیں
ہوئے بلکہ ان کی /پیدائش مبارکہ ہوئی ہے۔
اور ظاہر ہے کہ اس میں اللہ و رسول ، قرآن شریف پر ایمان لانے کا حکم ہے، جس کو نور کہا ہے۔ مستند اور معتبر روایات سے ثابت ہے کہ
اس نور سے مراد قرآن مجید ہے، جیسا کہ:
تفسیر ابن کثیر صفحہ375/4پر ہے ، یعنی قرآن۔ یعنی اس نور سے مراد قرآن مجید ہے۔
تفسیر ابن عباس ؓ صفحہ 599پر ہے ۔ الکتاب یعنی اس سے مراد کتاب ہے یعنی قرآن مجید۔
تفسیر معالم التنزیل صفحہ353/4پر ہے ھوالقرآن، یعنی اس نور سے مراد قرآن مجید ہے۔
تفسیر روح المعانی، صفحہ 123/14الجز ء الثامن والعشرون میں ہے ، وھو القرآن، یعنی وہ نور جو ہم نے نازل کیا ہے وہ قرآن مجید ہے۔
تفسیر مدارک التنزیل صفحہ1818/3مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی میں ہے۔ یعنی قرآن ، یعنی اس نازل شدہ نور سے مراد قرآن مجید ہے۔
تفسیر خزائن العرفان صفحہ896حاشیہ14پر ہے نور سے مراد قرآن شریف ہے کیوں کہ اس کی بدولت گمراہی کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں اور ہر شے کی حقیقت، واضح ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا معتبر تفاسیر سے واضح ہے کہ سورۃ التغابن کی آیت نمبر8میں جس نور کا ذکر ہے اس سے مراد قرآن مجید ہے۔
باقی سوال مذکور میںجن کتب کے حوالے دیئے گئے ہیں ایک تو نامکمل ہیں اور دوسرے کتب شیعہ کے ہیں جو کہ اہل سنت وجماعت کے نزدیک معتبر نہیں ہیں ۔
اس سوال میں جن کتب کے حوالے دیئے ہیں ان میں اکثر کتب شیعہ اورہیں جو ہمارے لئے حجت نہیں ۔
پہلی کتاب مودت القربیء ، میر سید علی حمدانی
پہلی مودت القربیِء ، میر سید علی حمدانی، یہ کتاب اصل تو عربی میں ہے لیکن اس کا ترجمہ ایک شیعہ نے کیا ہے کیوں کہ عقائد شیعہ سے یہ کتاب بھری ہوئی ہے سو اسی سے کتاب کا ترجمہ لکھ کر باہر ٹائٹل پر لکھ دیا ہے زاد العقبیٰ ،ترجمہ مودۃ القربیٰ، مولف
مولوی سید علی ہمدانی شافعی سنی المذہب تاکہ پڑھنے والا سمجھے یہ کتاب سنیوں کی ہے ، ترجمہ کرنے والے کا نام مولوی سید شریف شیعی ہے پھر اس کتاب کو چھاپنے کا کام امامیہ کتب خانہ لاہور نے کیا ، صاحب مودۃ القربیٰ کے شیعہ ہونے پر شیعہ علما کی نصوص قطعیہ:۔
پہلی دلیل:
الذریعہ المودۃ القربیٰ لسید علی الھمدانی المتوفی سنہ ست وثمانین وسبعماتہ۷۸۶ طبعت مع
ینابیع المودۃ وایضاً مستقلاً فی سنۃ۱۳۰۱، وافرد القاضی نور اللہ المرعشی رسالۃ فی اثبات لتشیعہ کما فی مرفی9=11و ترجمہ فی المجالس الذریعہ الی تصانیف الشیعہ جلد۲۳، صفحہ۱۵۸، مطبوعہ بیروت
ترجمہ : سید علی ہمدانی متوفی۷۸۶ء کی کتاب مودۃ القربیٰ صفحہ۱۳۱۰ میں ینابیع المودۃ کے ساتھ ایک جلد میں چھپی اور قاضی نور اللہ مرعشی نے اس سے شیعہ ہونے پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے مجالس االمومنین میں علی ہمدانی کا تذکرہ موجود ہے۔
دوسری دلیل:
رسالۃ فی اثبات تشیع السید علی بن شھاب الدین محمد الھمدانی للقاضی نور اللہ اتستری ذکرھا بعض الموثقین ۔
ترجمہ:۔ سید علی بن شہاب الدین ہمدانی کا مذہب شیعہ ثابت کرنے کیلئے نور اللہ تستری نے ایک رسالہ لکھا ہے
بعض موثقین نے اس کا ذکر کیا ہے۔حوالہ: الذریعہ جلد نمبر11صفحہ نمبر7۔
مزید سید علی ہمدانی کے شیعہ ہونے کیلئے دیکھیں ۔
الذریعہ جلد نمبر1صفحہ ۲۳۳، جلد نمبر ۹/۲صفحہ ۵۶، مجالس المومنین، صفحہ۲ /۱۳۸،۱۳۹
فردوس الخبار ، دیلمی
دیلمی، جہاں تک دیلمی کا ذکر ہے یہ عالی شیعہ ہے، حوالہ الذریعہ جلد 1، ۳۱۹
اور پھر حدیث مذکورہ کی کوئی سند نہیں بیان کی گئی ہے ۔بغیر سند معتبر کے روایت قبول نہیں ہوتی۔پھر سند صحیح ثقہ کے ساتھ حدیث نور ہم سے سنئے۔
مصنف عبد الرزاق الجزء المفقود صفحہ51تا 55پر حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی حدیث نور مروی ہے، صفحہ53پر الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نور محمد ﷺ کے اپنے سامنے دیکھنے کا حکم فرمایا نور محمد ﷺاپنے سامنے اورپیچھے، اور دائیں او ر بائیں ایک ایک نور دیکھا، اور وہ نور، ابو بکر (صدیق)، عمر(فاروق) عثمان (غنی) اور علی (المرتضیٰ ) رضی اللہ عنھم اجمعین کا نور تھا۔
اس کی سند یہ ہے کہ عبد الرزاق عن معمر، عن الزھری، عن السائب بن یزیدقال۔۔۔۔۔۔۔۔
(الجز ء المفقود من المصنف عبد الرزاق ، مطبوعہ لبنان)
تو کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اس نازل شدہ نور سے مراد ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نور ہے یا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا نور ہے یا حضرت عثمان غنی کا نور ہے یا کٹھا حضرات خلفاء راشدین ، خلفاء اربعہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا نور مراد ہے۔جو کہ شیعہ کو کسی طرح بھی قبول نہیں ہے اور نہ ہی یہ درست ہے یعنی اگر نور کی روایت بفرض تقدیر ثابت بھی ہوتی (جو کہ ثابت بھی نہیں ہے) تو پھر بھی اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ معاذ اللہ اس سے مرادحضرت علی رضی اللہ عنہ کا نور ہے۔
اس تمام گفتگو سے واقع ہو گیا کہ سورہ تغابن کی آیت نمبر8 میں نازل شدہ نور سے مراد حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہرضی اللہ عنہ ہر گز مراد نہیں ہیں نہ ہی کوئی آدمی بلکہ اس سے مراد فقط قرآن مجید فرقان حمید ہے۔
سوال نمبر3۔ سورہ الاعراف، آیت نمبر 157، تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی اور جو نوران کے ساتھ نازل ہوا ہے
اس کی پیروی کی وہی مراد پانے والے ہیں۔
پس قرآن پاک کی یہ آیت واضح کرتی ہے کہ یہ نور نبی ﷺ کے ساتھ نازل ہوا پس وہ نور علی ہے۔
(3-a)صحیح بخاری، جلد نمبر2، باب فضائل اصحاب ؓ، النبی ﷺ، حدیث3 & 9
(3- صحیح مسلم ، باب من فضائل علی ، طبعہ مصر
(3-c)جامع ترمذی، صفحہ نمبر218، مطبوعہ نول کشور
(3-d)مشکوٰۃ شریف، جلد نمبر3، حدیث نمبر5826
(3-e)مسند احمد بن حنبل ؒ، جلد اوّل، صفحہ نمبر179
اے علی تیری منزلت مجھ سے وہی ہے جو ہارون کی موسیٰ سے تھی۔
یعنی علی ، حضرت محمد ﷺ کے وصی برحق ہیں اور ایمان بزریہ ء کلمات لانا ضروری ہے جیسے کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
جواب ۔
سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 157کہ یہ کہنا کہ اس آیت میں بھی جو نور حضور ﷺ کے ساتھ نازل ہوا ہے وہ نور علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہے خالص جھوٹ اور تحریف معنوی ہے۔ بلکہ اس نور سے مراد بھی قرآن مجید فرقان حمید ہے ، ملاحظہ فرمائیں۔
حوالاجات:
تفسیر خزائن العرفان صفحہ 279حاشیہ302اس نور سے مراد قرآن شریف ہے جس سے مومن کا دل روشن ہوتا ہے اور شک و جہالت کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں، اورعلم یقین کی ضیاء پھیلتی ہے۔
اور تفسیر ابن عباس صفحہ181پر ہے ، واتبعوا النور۔ (القرآن)یعنی اس آیت میں بھی نور سے مراد قرآن مجید ہے۔
اور تفسیر مظہری صفحہ نمبر418/3پر ہے یعنی القرآن، یعنی اس نور سے مراد قرآن مجید ہے۔
تفسیر معالم التنزیل صفحہ206/2 پر ہے کہ یعنی القرآن، یعنی اس نور سے مراد قرآن مجید ہے۔
تفسیر ابن کثیر صفحہ نمبر260/2پر ہے یعنی القرآن، کہ اس نور سے مراد قرآن مجید ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وحی فرمایا ہے۔
تفسیر مدارک التنزیل صفحہ555پر ہے ، ای القرآن، یعنی اس نور سے مراد قرآن مجید ہے۔
ان تمام حوالہ جات سے واضح ہے کہ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر157میں جس نور کا ذکر ہے وہ قرآن مجید ہے۔
یہ ہے کہ بلا شبہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن اس حدیث سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا آپ ﷺ کا وصی بالخلافت ہونا قطعاًباطل ہے۔
پہلے مکمل حدیث ملاحظہ فرمائیں۔ البدایہ والنھایہ ، صفحہ نمبر7/5پر مسند ابو داوٗد طیالسی کے حوالے سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے جب حضرت علی المرتضیٰ کو غزوہ تبوک کے وقت گھر پر ہی ٹھہرنے کو کہا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑیں گے( جو بوجہ بچے اور عورتیں ہونے کے جہاد سے مستثنیٰ ہیں)
یہ سن کر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تو یہ پسند نہیں کرتا کہ تیری حیثیت میرے نزدیک ویسی ہی ہو جائے جیسے ہارون ؑ کی موسیٰ ؑ کے
ساتھ تھی(یعنی طور پر جاتے ہوئے انہیں اپنا نائب بنا گئے تھے) لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
یہ ہے مکمل حدیث کوئی بھی ذی ہوش اس حدیث کو پڑھنے کے بعد اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وصی با الخلافت بعد الوفات رسول ﷺ ہونا نہ ثابت کر سکتا ہے اور نہ ہی ثابت ہونا ممکن ہے۔ فقط اتنی بات میں تشبیہ ہے کہ جس طرح موسیٰ ؑ نے طور پر جاتے ہوئے حضرت ہارون ؑ کو قوم کا نگہبان مقرر کیا اسی طرح آپ ﷺ نے غزوہ تبوک پر جاتے ہوئے حضرت علی المرتضیٰ کو مدینہ منورہ میں بچوں اور عورتوں کا نگہبان مقرر فرمایا۔
سوال نمبر4۔ سورۃالاعراف آیت نمبر121 to 122
اور کہنے لگے کہ ہم جہاں کے پرور دگار پر ایما ن لائے یعنی موسیٰ اور ہارون کے پرورد گارپر
پس قرآن مجید کی یہ آیت بھی واضح کرتی ہے کہ پہلے نبیوں کی پیروی اور ان پر ایمان لانے کے لیے نبی اور وصی دونوں پر ایمان لانا ضروری
و واجب تھا تو نبیوں کے سردار پر ایمان وصی ء رسول ﷺ پر ایمان لائے بغیر کیسے ممکن ہے۔؟
جواب:
حضرت موسیٰ ؑکے بعد حضرت ہارون ہر گز آپ ؑ کے وصی اور خلیفہ نہیں تھے کیونکہ حضرت ہارون ؑ کا انتقال ہی حضرت موسیٰ ؑ کی زندگی میں ہو گیا تھا( نہ رہے بانس نہ بجے بانسری) حضرت موسیٰ ؑ کے بعد آپ ؑ کے وصی حضرت یوشع بن نون تھے۔
شیعہ حضرات کے معتبر تفسیر فرات الکوفی صفحہ65مطبوعہ حیدریہ نجف اشرف۔ (سورہ ھود)
جناب سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد گرامی، حضرت عمر فارو ق رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے جب کہ ان کے پاس کعب الاخبار بھی موجود تھے، جو تورات اور کتب انبیاء کرام علیھم السلام کے عالم تھے ان سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے کعب بنی اسرائیل میںحضرت موسیٰ ؑ کے بعدسب سے بڑا عالم کون تھا، تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ سلام کے بعد بنی اسرائیل میںسب سے بڑے عالم جناب یوشع بن نون تھے اور یہی موسیٰ ؑ کے بعد ان کے وصی تھے۔
اصل عربی عبارت یہ ہے، کان اعلم بنی اسرائیل بعد موسیٰ، یوشی بن نون وکان وصی موسیٰ من بعدہ، تفسیر فرات الکوفی، مطبوعہ ، نجف اشرف صفحہ 65، صاحب تفسیر فرات الکوفی شیعہ نے ، اس مقام مذکورہ سے تھوڑاسا آگے
پھر یہ لکھا ہے کہ ،
فان موسیٰ لما توفیٰ اوصی الیٰ یوشیٰ بن نو ن علیہ السلام
یعنی جب موسیٰ ؑ کے وصال کا وقت ہوا تو آپ نے جناب یوشی بن نون ؑ کو اپنا وصی مقرر فرمایا۔
شیعہ تفسیر سے واضح ہو گیا کہ حضرت موسیٰ ؑ کے وصی حضرت یوشع بن نون ؑ تھے نہ کہ حضرت ہارون ؑ ۔ کیونکہ ہارون علیہ السلام تو حضرت موسیٰ
سے پہلے وفات پا گئے تھے پھر وہ موسیٰ ؑ کے بعد خلیفہ کیسے ہوئے۔
واضح ہو گیا کہ اس حدیث کا خلافت بلا فصل یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وصی ہونے کے وصی ہونے کے متعلق اس حدیث کا دور سے بھی تعلق نہیں ہے۔تو جب آپ کا وصی خلیفہ بلا فصل ہونا ہی ثابت نہیں توپھر سورۃ الاعراف کی آیت نمبر121-122سے استدلال کا کیامعنی؟
(فاعتبروا یا اولی الابصار)
سوال نمبر5۔ اے رسول ﷺ پوچھو ا ن سے کہ نبی کیسے رسول بنے،القرآن تفسیر غرید القرآن، جلد نمبر6، صفحہ نمبر39
نبی کریم ﷺ جب معراج شریف پر تشریف لے گئے تو تمام انبیاء کرام کو اکٹھے کیا اور پوچھا کہ تم نبی کیسے بنے تو سب نے یک مشت
ہو کر کہا کہ ہم نے جب تک اللہ کہ وحدانیت آپ کی رسالت اور علی کی ولایت کا اقرار نہ کیا ہم نبی نہیں بنائے گئے، جب تک تین شہادتوں کا
اقرار نہ کریں اس وقت تک نبی نہیں بنتے تو ایک گنہگار انسان مومن بن سکتا ہے؟
اگر ہم دوبارہ کلمہ کے متعلق قرآن مجید سے پوچھیں کہ کلمہ کتنی گواہیوں پر مشتمل ہے تو قرآن مجید میں ہمیں ،شھادتین ،کا لفظ نہیں ملتا جس کا
مطلب دو گواہیاں ہیں اور پورے قرآن پاک میں لفظ ، شھاد، ملتا ہے جس کا عربی میں تین یا تین سے زیادہ شہادتیں مطلب بنتا ہے۔
جواب:۔
شیعہ صاحب کا یہ کہنا اے رسول پوچھو ان سے کہ نبی کیسے بنے رسول کیسے بنے۔
جہاں تک میری معلومات ہیں قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت موجود نہیں ہے۔ البتہ شیعہ صاحب کے امام غائب کے پاس جو سترہ ہزار اآیات والا قرآن ہے شاید اس میں یہ من گھڑت آیت موجود ہو۔ یہ بے حیائی اور بے دینی کی آخری حد ہے کہ اپنا موقف ثابت کرنے کیلئے معاذ اللہ غیر آیت کے آیت قرآن بنا کر پیش کر دیا جائے۔ تو جب یہ آیت ہی قرآن مجید کی نہیں ہے تو پھر اس کے بعد شیعہ صاحب نے جو ایک من گھڑت قصہ بیان کیا ہے وہ خود بخو د ہی باطل ثابت ہو جاتا ہے۔ البتہ یہ آیت قرآن مجید میں موجود ہے۔
واسئل من ارسلنا من قبلک من ارسلنا اجعلنا من دون الرحمٰن الھۃ یعبدون
ترجمہ: اے محبوب پوچھ لو ان رسولوں سے جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا ہے کہ رحمٰن کے بغیرکسی اور کی عبادت کا بھی حکم دیا ہے۔
تو شب معراج جب جبرائیل ؑ نے آپ ﷺ سے یہ کہا تو حضور پر نور علی نور محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نہیں پوچھتا کیونکہ مجھے کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے،
تو اس آیت میں توحید الٰہی کا بیان ہے ، شیعہ صاحب کا باطل موقف اس آیت سے بھی کسی طرح ثابت نہیںہے۔
سوال نمبر6۔ سورۃ المعراج، آیت نمبر33تا 35
اور جو لوگ شہادات(تین یا زائد) پر قائم رہنے والے ہیں اور جو لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ایسے ہی لوگ جنتوں میں حفاظت پانے والے ہوں گے۔
جواب:۔
شیعہ صاحب نے لکھا ہے کہ سورۃ المعراج( جب کہ یہ غلط ہے اصل نام سورۃ المعارج ہے) کی آیت33تا 35میں لکھا ہے کہ اس میں شھادات کا لفظ ہے جو کہ تین گواہیوں پر دلالت کرتاہے اور باطل استدلال کیا ہے کہ جب تک نبیوں نے تیسری گواہی یعنی ولایت علی رضی اللہ عنہ کی گواہی نہ دی وہ نبی نہ بنے۔(معاذ اللہ)
شیعہ صاحب کا یہ استدلال گزشتہ سطور میں باطل ثابت کر دیااور اس کی بنیاد بھی وہی پہلا باطل استدلال ہے جب اصل دلیل ہی
ثابت نہ ہو سکی توپھر اس پر مزید عمارت کیسے استوار ہو سکتی ہے۔ شیعہ صاحب جب تک معنوی تحریف نہ کریں ان کا باطل موقف ثابت ہی نہیں ہو سکتا اس لیے بار بار بے چارے معنوی تحریف کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سچ کہا کسی نے :
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان پتی نے کنبہ جوڑا
یہ لفط مفرد ہو یا جمع کا شہادات ہو، تو اس سے ولایت علی ؓ کا نبیوں کیلئے اقرار کیسے ثابت ہو گیا۔ من مافی تفسیر یعنی تفسیر بالرائے کرنا کفر ہے جو کہ شیعہ صاحب کا ہی نصیب ہے۔اب ان آیات کا صحیح معنی واضح کیا جاتا ہے۔
تفسیر خزائن العرفان، حاشیہ نمبر29یعنی صدق و انصاف کے ساتھ نہ اس میں رشتہ داری کا پاس کرتے ہیں نہ زبردست کو کمزور پر ترجیح دیتے ہیں ، نہ کسی صاحب حق کا تلف حق گوارا کرتے ہیں۔
تفسیر ابن عباس میں ہے کہ ، عند الحکام اذا دعوا ولا یکتمونھا،صفحہ 615
یعنی جب گوہوں کی گواہی کی ضرورت ہو اور انہیں بلایا جائے تو وہ اس گواہی کو چھپاتے نہیں، بلکہ حکام کے سامنے گواہی دیتے ہیں۔
یعنی مضمون۔
تفسیر مظہری صفحہ68/10
تفسیر ابن کیثیر422/4،
تفسیر روح المعانی صفحہ109/15،
تفسیر ابن وھب، صفحہ438
وغیرہ میں بالفاظ مقاربہ موجود ہے۔مذکورہ بالا حوالہ جات سے واضح ہے کہ شیعہ کے باطل موقف کو اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ بلکہ ان آیات میں شرعی احکام کا بیان ہے۔
سوال نمبر7۔ کتاب ار جح المطالب، مولوی عبد اللہ بسمل۔
نبی پاک ﷺ جب معراج سے واپس تشریف لائے تو اصحاب ؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے عرش پر جو کلمہ جنت سے دروازوں پر لکھا ہو پایا کیا آپ جاننا چاہو گے؟
سب نے عرض کی ضرور یا رسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ نے فرمایا،
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد حبیب خدا ہیں، علی اللہ کے ولی ہیں، فاطمہ کنیز خدا ہیں،حسنین صفواۃ اللہ ہیں ان کے دشمنان پر اللہ کی لعنت۔
کیا جنت کے طب گار جنت میں کلمہ شھادا پر دل و زبان سے ایمان لائے بنا جا سکتے ہیں؟
جواب:۔
کتاب ارجح المطالب مصنف، عبید اللہ امرتسری:
پہلی دلیل:
ارجع المطالب کے مصنف مولوی عبید اللہ امرتسری کا اپنی زبان سے اپنے شیعہ ہونے کا اقرار،ہمارے نزدیک سب شیخین نہایت امرتشیع ہے ہم اپنے امامیہ مذہب کے ساتھ ہر گز اس میں اتفاق نہیں کر سکتے ۔ اس عبارت سے واضح ہو ا کہ مولوی عبید اللہ امرتسری پکا امامیہ شیعہ ہے۔
دوسری دلیل:
ساری کتاب اس نے شیعہ کتب کے حوالوں سے لکھی ہے مثلاًفوائد السمطین ، تذ کرۃ الخواص الامہ، ینابیع المودۃ، المناقب للخوارزی، مروج الذہب، کفایۃ المطالب ابن حدید وغیرہ۔
ارجح المطالب کتاب کے کچھ حوالے:۔
پہلا حوالہ :۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجتہد تھے مگر معصوم نہیں تھے، بوجہ المجتہد ان سے فدک کے معاملے میں خطا فی الاجتہاد واقع ہو ئی ہے۔ سیر ت شیخین،ارجح المطالب، صفحہ نمبر۷۹۵
دوسرا حوالہ:۔ عن حذیفۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ علی خیر البشر من ابی فتد کفر اخرجہ ابن مرء دیہ۔
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺفرماتے تھے کہ علی رضی اللہ عنہ خیر البشر ہیں، جس نے انکار کیا وہ کافر ہوا۔
حوالہ: ارجح المطالب صفحہ۸۶۰
وضاحت: ابن مردویہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان تین چار صدیوں کا طویل زمانہ ہے ، کیونکہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ
صحابی رسول ﷺہیں اور ابن مردویہ نے۴۱۰ھ میں انتقال کیا۔ صاف واضح ہے کہ ان کی ملاقات نہ ہوئی لہٰذا کئی واسطوں سے یہ روایت ابن مردویہ تک پہنچی ہو گی وہ واسطے کیا ہیں اورکتنے اور کیسے ہیں کوئی علم نہیں،عبارت کی دیکھیں کفر تک پہنچا دیا ہے ۔
یہ کتاب شیعہ حضرات کی ہے جو کہ ہمارے لیے حجت نہیں، پھر اس روایت کی سند نہیں بیان کی تا کہ سند کا حال واضح ہو جاتا اور
بلا سند کوئی روایت کیسے قبول کی جاسکتی ہے۔ پھر اگر بفرض محال والتقدیر اگر اس روایت کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس کو خلافت بلا فصل، یا وصی رسول ہونے کے متعلق کیا واسطہ ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نہ صرف ولی اللہ ہیں بلکہ ہم اہلسنت وجماعت کے نزدیک تو آپ سید الاولیاء ہیں کہ سارے جہان بھر کے اولیاء ان کے غلام ہیں مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ آپ وصی رسول اور خلیفۃ بلا فصل ہیں (معاذ اللہ)
مختلف کتب حدیث میں کئی احادیث ہیں جن میں فرمایا گیا ہے آسمانوں پر جنت کی اشیاء وغیرہ پرحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام آپ ﷺ کے نام اقدس کے ساتھ لکھا ہوا تھا۔ اور کئی روایات میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نام کا ذکر بھی ملتا ہے۔ جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی ؒ نے خصائص الکبریٰ صفحہ 13/1پر کئی روایات بیان کی ہیں ، پہلی روایت : ابن عساکر کے حوالے سے جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے ، نبی پاک ﷺ نے فرمایا ، معراج کی رات میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا ،
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ابو بکر صدیق عمر فاروق عثمان ذوالنورین۔
دوسری روایت۔ مسند ابو یعلیٰ موصلی اور طبرانی کی اوسط، اور ابن عساکر اور حسن بن عرفہ، کے جزء کے حوالے سے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں جس آسمان سے بھی گزرا اس پر یہ لکھا ہوا پایا، محمد الرسول اللہ وابو بکر الصدیق خلفی
تیسری روایت : دارقطنی کی افراد، اور خطیب اور ابن عساکر کے حوالے سے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ
نبی پاک ﷺ نے فرمایا ، معراج کی رات عرش پر میں نے سفید نور لکھا ہوا دیکھا لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ابو بکرالصدیق عمرالفاروق،
مواھب الدنیہ اور شرح زرقانی وغیر ہ میں اور بھی روایات ہیں جن میں نبی پاک ﷺ کے نام اقدس کے ساتھ خلفاء راشدین ، خلفاء اربعہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے نام بھی ہیں۔
بھلا ان روایات کو وصی رسول ہونے اور خلیفہ بلافصل ہونے سے کیا واسطہ ہے ۔ ہاں البتہ یہ ایک قسم کی فضیلت ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
کے ساتھ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہ کو بھی حاصل ہے۔ فقط
مذکورہ بالا سطور سے واضح ہے کہ شیعہ صاحب کا اس سے استدلال بھی باطل اور سو فیصد ناکافی۔
سوال نمبر8۔ جواھر خمسہ، صفحہ نمبر473، شیخ غوث، (چور پکڑنے کا طریقہ)
امام اہل سنت شیخ غوث ؒ نے چور پکڑنے کا عمل لکھا اور رات کو پڑھنے سے صبح چور کا پتہ چل جاتا ہے عمل مندرجہ ذیل ہے۔
اللھم بحق لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ وعلی ولی اللہ،
نبی پاک ﷺ نے جو قبر کے تین سوال بتائے تو فرمایا کہ وہ پہلا سوال ہو گا کہ تمھارا رب کون ہے؟ دوسرا سوال ہو گا کہ تمھارا نبی کون ہے؟اور تیسرا سوال ہو گا کہ تمھارا امام کون ہے؟ جو زبان دنیا میں لا الہ الا اللہ پڑھتی رہی ہوگی وہ یہی بولے گی، جو زبان محمد الرسول اللہ پڑھتی رہی ہو گی وہ یہی کہے گی اور جو زبان دنیا میں علی ولی اللہ ،پڑھتی رہی ہو گی وہ بھی یہی جواب دے گی اور ایمان کامل کے صدقے عذاب قبر سے قیامت تک محفوظ رہے گی(بے شک) اور شیخ علی معزوقی ؒکی مندرجہ ذیل کتا ب کا مطالعہ کرنے سے تمام شکوک شبھات ختم ہو جاتے ہیں،
جواب:
شیعہ صاحب نے لکھا ہے چور پکڑنے کا طریقہ ، پھر عملیات کی ایک کتاب جوہر خمسہ کے حوالے سے لکھا ہے۔ اس عمل میں یہ عبارت مذکور ہے،اللھم بحق لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ وعلی ولی اللہ،
جواہر خمسہ عملیات کی کتاب ہے اس سے کلمہ شریف کے ساتھ علی ولی اللہ کے الفاظ نقل کرنا کیا یہ اس کی دلیل ہے کہ کلمہ شریف میںعلی ولی اللہ کے الفاظ بھی شامل ہیں۔ہر گز نہیں، پہلی بات یہ ہے کہ شیعہ صاحب جب اپنا کلمہ قرآن مجید سے احادیث نبویہ سے آثار صحابہ سے ثابت نہ کر سکے تو عملیات و وظائف کی دنیا میں کو د پڑے۔ اور ایک عمل ذکر کر دیا جب کہ عاملین پر یہ بات واضح ہے کہ عملیات کی کئی کتب میں ہر قسم کے عملیات ہوتے ہیں۔ وہ فقط عملیات کی حد تک ہی ہوتے ہیں نہ کہ شرعی حجت۔
یہ مذہب بھی کیسا یتیم مذہب ہے کہ نہ قرآن سے ثابت نہ حدیث سے ثابت اب دلیل کے طور پر عملیات کی کتاب جواہر خمسہ پیش کر دی ہے۔
یہ ہے اس مذہب کی حقیقت۔ گزشتہ سطور میں بھی یہ ذکر ہو چکا ہے کہ ہم اہلسنت وجماعت کے نزدیک حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہنہ صرف کہ اللہ تعالیٰ کے ولی ہیں بلکہ آپ سید الاولیاء ہیں، مگر اس سے یہ کب ثابت ہو ا کہ یہ الفاط کلمہ شریف کا حصہ ہیں۔ (معاذ اللہ)
سوال نمبر 9: کتاب الازمنہ والامکینہ، الشیخ ابی علی احمد بن محمد الحسن المرزرقی
جب مولا علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیھا نے وفات پائی تو نبی پاک ﷺ نے انہیں قبر مبارک میں اتارنے کے بعد تلقین پڑھی تھوڑی دیر بیٹھے اور کہنے لگے کہ وہ تیرا بیٹا ہے، وہ تیرا بیٹا ہے، اصحاب ؓ نے جب وجہ دریافت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میںنے دیکھاکہ فاطمہ بنت اسد کو حوریں آئیں اور اپنے ساتھ لے گئیں اتنی دیر میںمبشر و بشیر آئے اور سوال جواب کرنے لگے پہلے رب پوچھا، پھر نبی پوچھا جب ولی پوچھا آپ سوچ میں پڑ گئیں کہ کونسا نام لوں تو میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ وہ تیر ا بیٹا ہے وہ تیرا بیٹا ہے تب
آپ ﷺ نے جواب دیا کہ ، ابن علی ولی اللہ،کیا جب مولا علی رضی اللہ عنہ کی اپنی ماں قبر علی ولی اللہ کا جواب دئیے بغیر جنت میں نہیں جا سکتیں تو کیا انسان نبی پاک ﷺ کاامتی ہو کر جنت میں جا سکتا ہے جسکے ہر دروازے پر شہادت کا کلمہ لکھا ہے؟
جواب:۔
کتاب الازمنہ والامکینہ، کی عبارت نقل کی گئی کہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ کا وصال قبر میں سرکار ﷺ نے تلقین پڑھی، ان النبی ﷺ تولی دفن فاطمہ بنت اسد وکان اشعر :
ھا قمیصالۃ فسمع وھویقول ابنک فسل علیہ سید فقال امھا سئلت عن ربھا فاجابت وعن بنھیا فاجابت وعن امامھا فلجلجت ، مقلت ابنک ابنک۔کتاب الازمنہ والامکینہ صفحہ ۴۷۳
اسی عبارت کے نیچے صفے پر لکھا ہو ا ہے، الظاہران ھٰذہ الروایۃ من کتب الشیعۃ الامامیہ ۔
حوالہ کتاب الازمنہ والامکینہ، صفحہ۴۷۳
ثابت ہوا کہ یہ عبارت شیعہ مسلک کی ہے اہلسنت کی نہیں۔
شیعہ صاحب نے کتاب الأزمنة والأمكنةکے حوالے سے بیان کیا ہے کہ قبر میں تین سوال ہونگے، تیرا رب کون ہے ، تیرا نبی کون ہے اور تیرا امام کون ہے۔ اور شیعہ صاحب نے امام سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات مراد لیا ہے۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں قبر میں سوال ہونا خالص جھوٹ ہے جو کہ ایجاد شیعہ ہے۔ پھر فقط امام سے خود ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات مراد لینا خالص کذ ب بیانی ہے۔
اس چیز کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ بندہ نا چیز پہلے گزارش کر چکا ہے کہ جب تک شیعہ صاحب تحریف معنوی نہ کریں گے ہر گز ان کا موقف ثابت نہیں ہو سکتا۔
صحیح بات یہ ہے کہ قبر میں تین سوال ہوتے ہیں، تیرا رب کون ہے، تیرا دین کونسا ہے، اور آقا محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کے متعلق کہ تو ان کے بارے میں کیا کہتا تھا۔
تفصیل کیلئے دیکھیے۔
جامع ترمذی، بہیقی، مشکوٰۃبروایۃ ترمذی، مسند امام احمد عن البراء بن عازب، ابو داوٗد، مشکوٰۃباب عذاب القبر صفحہ25۔
ان تمام کتب حدیث میں روایات صحیحہ سے تین سوال ثابت ہیں۔ تیر ارب کون ہے، تیرا دین کونسا ہے، اور آقا محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔کسی بھی ایک صحیح روایت میں یہ موجود نہیں ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی قبر میں پوچھا جاتا ہے۔ یہ خالص شیطان کی مکاری ہے جو اس نے شیعہ صاحب کو عطاکی ہے۔ (العیاذ با للہ تعالیٰ)
یہ ہے کہ خالص جھوٹ ہے اس کی کوئی اصل نہیں کسی بھی صحیح روایت میں ثابت نہیں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میںقبر میں فرشتے سوال کرتے ہیں۔ یہ کہانی خالصتاً ایجاد شیعہ ہے۔ جس کا کتاب و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ حضور ﷺکی ذات اقدس پر جھوٹ بولا گیا ہے اور آپ ﷺ پر عمداً جھوٹ بولنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جیسا کہ متواتر حدیث میں ہے۔
تمام کتب حدیث میں سوالات کے بارے میں تین سوال مذکور ہیں۔رب تعالیٰ کے متعلق، دین کے متعلق، اور آقا محمد الرسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس سے متعلق۔
پھر تمام کتب حدیث میں بھی سوالات کی حدیث مفصل مذکور ہے اس میں یہی مذکور ہے کہ جب تم میت کو دفن کر کے لوٹتے ہو تو قبر میں فرشتے آتے ہیں اور سوالات کرتے ہیں۔ جب کہ شیعہ صاحب کی من گھڑت روایت میں ذکر ہے کہ ابھی قبر میں اتارا ہی تھا ، حضور ﷺ ابھی قبر کے اندر ہی تشریف فرما تھے اور فرشتوں نے سوالات شروع کر دیئے۔جبکہ احا دیث صحیحہ اس کے مخالف ہیں ان میں ہے کہ جب تم دفن کر کے واپس ہوتے ہو ۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ سوالات قبر میں دفن کے بعد واقع ہوتے ہیں، یہ بات بھی اس کے بطلان پر گواہ ہے۔ اور صحیح روایت جو کہ امام طبرانی نے طبرانی کیبر صفحہ351/24پر روایت فرمائی ہے اس میں یہ الفاظ جو کہ ایجاد شیعہ ہیں، نہیں ہیں۔بلکہ آپ ﷺ کا قبر میں لیٹنا اور ان کی مغفرت کی دعا مانگنا ثابت ہے۔ فقط دعا کے الفاظ یہ ہیں۔
اغفر لامی فاطمۃ بنت اسد وسع علیھا مدخلھابحق نبیک والانبیاء الذین من قبلی فانک ارحم الراحمین۔
ترجمہ: اے اللہ میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما اور ان کی قبر کو وسیع فرما بطفیل اپنے نبی اکرم ﷺ اور مجھ سے پہلے انبیاء کرام ؑ کے کیونکہ تو ہی ارحم الراحمین ہے۔
یہ ہے وہ روایت معتبر،جس میں من گھڑت خود ساختہ الفاظ کا ذکر نہیں ہے کیونکہ وہ خالص ایجاد شیعہ ہے جس کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان تمام سوالات اور جوابات سے یہ بات واضح ہے کہ شیعہ مذہب باطل ہے اور خود ساختہ مذہب ہے۔ اور اہلسنت وجماعت کے عقائد بالکل قرآن سنت کے عین مطابق ہیں۔ یہی مذہب ہے صحابہ کرام ، اہل بیت کرام ، تابعین، تبع تابعین، اولیاء کرام اور تمام اہل
ایمان کا اور ان تمام کا نام اہل سنت وجماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ہے اور وہی ذات اقدس شیطان کے شر سے پناہ دینے والی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارا خاتمہ بالخیر کرے اور گمراہوں کے ہدایت عطا کرے آمین۔ بجاہ سید المرسلین ﷺ
یہ چند سطور ہیں جو کہ شیعہ کے سوالات کے جوابات پر مشتمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے خالص اپنے لیے بنائے اور فقیر راقم الحروف کیلئے اور اسکے اساتذہ و مشائخ کیلئے باعث مغفرت و باعث درجات بلندی فرمائے، آمین۔
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *
Humanity, Religion, Culture, Ethics, Science, Spirituality & Peace