Pages

شیعہ نوجوانوں کو راہِ حق پرلانےکے لینے 20 سوالات Unanswerable Questions for Shias


وہ اہم سوالات متلاشیان حق نوجوانوں کوراہ حق سے ہم کنارکرنے میں بڑاعظیم کردارہے!


70 UNANSWERED QUESTIONS to Shia, Eye-opening questions to Shia. May Allah guide the Shia through these questions. Amin. [.........]
ALSO seem more questions at the end of this page.....
شيعہ حضرات كا عقيده هے كہ حضرت على رضى الله عنہ امام معصوم هيں اور هم يہ بھى ديكھتے هيں كہ انہوں نے اپنى صاجزادى ام كلثوم كى شادى عمر بن خطاب سے كى جو كہ حسن و حسين رضى الله عنهم كى حقيقى بہن تھيں ، اور اس بات كا ذکر شيعہ حضرات كے كبار علماء نے اپنى كتب ميں كيا هے (مثلا كلينى ، طوسى اور ديگر كئى حوالہ جات كے لئے ديكھئے كتاب هذا ، صفحہ نمبر : 14، حاشيه نمبر : 1) ، شیعہ اپنے اس اعتراف كى بنياد پر دو صورتوں ميں سے كسى ايك صورت كو قبول كرنے پر مجبور هيں۔

سوال 1 : سيدنا على رضى الله عنہ غير معصوم هيں كيونكہ انھوں نے اپنى بيٹى كى شادى كافر سے كى هے! اور يہ چيز شيعہ مذهب كے عقائد اساسى كے منافى هے ۔ بلكہ اس سے يہ بھى پتہ چلا كہ كوئى امام بھى معصوم نهيں كيونكہ وه بھى تو انهىں كى اولاد ميں سے هيں۔

سوال 2: سيدنا على رضى الله عنہ نے برضا ورغبت سيدنا عمر رضى الله عنہ كو اپنا داماد بنايا هے ، لهٰذا يہ ان كے مسلمان هونے كى واضح دليل هے ۔

سوال3:۔۔ شیعہ حضرات ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو کافر گردانتے ہیں، ہمارے لیے تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ جو کہ شیعوں کے نزدیک امام معصوم ہیں، نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کو بسر وچشم قبول کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے دونوں کی بیعت بھی کی ہے۔

اس سے یہ لازم آتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ غیر معصوم تھے کیونکہ انہوں نے ، بقول شیعہ، ظالم دھوکے باز اور کافروں کی بیعت کی اور ان دونوں کے منصب خلافت کا بذات خود اقرار بھی کیا؟۔ یہ چیز علی رضی اللہ عنہ کی عصمت کو نیست و نابود کرنے والی ہے اور ظالم کو ظلم کے لیے شہ دینے والی بھی ہے جب کہ ایسی حرکت کسی صورت میں بھی معصوم سے سرزد نہیں ہوسکتی۔ علی رضی اللہ عنہ کا یہ موقف مبنی برصواب ہے کیونکہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں مومن صادق ہیں، دونوں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور دونوں ہی عدل و انصاف کا پیکر ہیں مذکورہ جواب سے پتا چلا کہ شیعہ حضرات، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی تکفیر اور ان پر لعن و طعن اور گالی گلوچ کرنے میں اور ان دونوں کی خلافت سے عدم رضامندی کے اظہار میں اپنے امام کے مخالف ہیں۔ یہاں ہم مذکورہ قضیہ میں حیرت و استعجاب کا شکار ہوجاتے ہیں کیا ہم ابولالحسن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی راہ اختیار کریں یا ان گنہگار و بدکردار شیعوں کا طریقہ اپنائیں؟

سوال4:۔۔ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد کئی عورتوں سے شادی کی ہے اور ان سے کئی بیٹے اور بیٹیاں بھی پیدا ہوئے جن میں سے درج ذیل اسماء قابل ذکر ہیں:
1۔ عباس بن علی بن ابی طالب
2- عبداللہ بن علی بن ابی طالب
3۔ جعفر بن علی بن ابی طالب
4- عثمان بن علی بن ابی طالب
ان لوگوں کی والدہ کا نام اُم البنین بنت حزام بن دارم ہے۔{ کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمہ}
5- عبیداللہ بن علی بن ابی طالب
6۔ ابوبکر بن علی بن ابی طالب
ان دونوں کی والدہ کا نام لیلی بنت مسعود الدارمیۃ تھا۔ {نفس المصدر}
علی رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کے ناموں میں سے یہ بھی ہیں:
7- یحیی بن علی ابی طالب
8- محمد اصغر بن علی بن ابی طالب
9- عون بن علی بن ابی طالب
یہ تینوں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے صاحبزادے ہیں۔{نفس المصدر۔}
آپ رضی اللہ کی اولاد میں مندرجہ ذیل نام بھی ہیں:
10- رقیہ بنت علی بن ابی طالب۔
11- عمر بن علی بن ابی طالب، جو 35 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ان دونوں کی والدہ کا نام ام حبیب بنت ربیعہ تھا۔{کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، لعلی الاربلی}۔
12- ام الحسن بنت علی بن ابی طالب
13- رملہ الکبری

ان دونوں کی والدہ کا نام ام مسعود بنت عروہ بن مسعودالثقفی تھا۔{نفس المصدر}۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی باپ اپنے جگر گوشہ کا نام اپنے دشمن کے نام پر رکھ سکتا ہے؟ ہمیں تعجب ہے کہ ایسا باپ جو غیرت و حمیت کا پیکر تھا۔ اپنے بیٹوں کو کیونکر ان مذکورہ ناموں سے موسوم کرسکتا ہے؟ ہم شیعہ حضرات سے پوچھتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں کو ان لوگوں کے ناموں سے کس طرح موسوم کرسکتے ہیں؟ جن کو تم علی رضی اللہ عنہ کا دشمن گردانتے ہو؟

کیا یہ بات باور کی جاسکتی ہے کہ ایک عقل مند انسان اپنے احباء و اقرباء کے نام اپنے دشمنوں کے ناموں پر رکھ سکتا ہے تا کہ ان کا نام زندہ جاوید رہے؟

یہ بات بھی معلوم ہے کہ علی رضی اللہ عنہ قریش خاندان کے سب سے پہلے فرد ہیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر، عمر اور عثمان رکھے ہیں؟ اگر انہیں ان ناموں سے بغض ہوتا تو وہ اپنے بیٹوں کو ان ناموں سے کیوں موسوم کرتے؟

نہج البلاغہ جو شیعوں کے نزدیک معتبر کتاب تسلیم کی جاتی ہے، کا مولف بیان کرتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے خلافت سے استعفی دے دیا اور استعفی دیتے وقت آپ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ میری جان چھوڑ دو!اور میرے علاوہ کسی اور کو اس منصب کے لیے تلاش کرو۔{ملاحظہ کریں نہج البلاغہ}۔

یہ فرمان مذہب شیعہ کے بطلان پر دلالت کرتا ہے جس کے شیعہ حضرات قائل ہیں، یہ بات کیسے ممکن ہے کہ علی رضی اللہ عنہ خلافت سےاستعفی دیکر دست بردار ہوں؟ جبکہ ان کو امام وقت کے منصب پر فائز کرنا اور خلیفہ وقت کا عہدہ دینا۔ بقول شیعہ اللہ تعالی کی طرف سے فرض عین لازمی حکم ہے اور وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اس کا مطالبہ بھی کیا کرتے تھے جیسا کہ تمہارا شیعہ حضرات کا خیال ہے۔

سوال 5:۔۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ جگر گوشہ رسول فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا کی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بے عزتی اور بے حرمتی کی گئی حتی کہ زدوکوب کے دوران میں ان کی پسلی توڑ دی گئی ان کے گھر کو جلانے کی کوشش کی گئی اور ان کے جنین کو ساقط کر دیا گیا جس کا انہوں نے محسن نام بتایا ہے،

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ کے ساتھ اس طرح کا حادثہ پیش آیا تو علی رضی اللہ عنہ کہاں بیٹھے رہے۔ انہوں نے اپنی بیوی کی بے حرمتی کا بدلہ تک نہیں لیا جبکہ علی رضی اللہ عنہ شجاعت و بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔ کمال حیرت ہے کہ اتنا سانحہ ہوجانے کے باوجود ان کی غیرت و حمیت کو جوش تک نہیں آیا؟

تاریخ شاہد ہے کہ کتنے کبار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اہل بیت نبی علہیم السلام سے رشتہ مصاہرت جوڑا۔ اس خاندان عالی شان میں شادی بیاہ کیے اور اپنی بیٹیوں کو بھی اس خاندان میں دیا۔ خصوصا شیخین نے اس خاندان میں شادی بیاہ کرکے آل بیت سے اپنے تعلقات کو مستحکم رکھا۔ ان حقائق کو مورخین و اہل سیر نے باتفاق بیان کیا ہے۔

چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ اور حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہ سے شادی کی اور یکے بعد دیگر اپنی دو بیٹیوں رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا رشتہ تیسرے خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیا۔ دنیا آپ رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کے لقب سے پکارتی ہے۔

آپ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب سے شادی کی۔ ام قاسم بنت الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب کی بیٹی مروان بن ابان بن عثمان کی زوجیت میں تھیں۔ زید بن عمرو بن عثمان کے عقد میں سکینہ بنت حسین تھین۔

ہم صحابہ کرام میں سے صرف خلفائے ثلاثہ کے ذکر پر اکتفا کریں گے ورنہ خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے علاوہ اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جن کا اہل بیت سے سسرالی تعلق تھا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل بیت اور صحابہ کرام کا آپس میں رشتہ و ناطہ تھا۔ {دامادی و رشتوں کی تفصیل الدرالمنثور من اھل البیت میں دیکھیں}۔

شیعہ حضرات کے معتمد علیہ مصادر و مراجع میں منقول ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کا نام ، جو آپ کی بیوی لیلی بنت مسعود کے بطن سے تھا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام پر رکھا تھا۔

علی رضی اللہ عنہ بنی ہاشم میں وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نے اپنے بیٹے کو اس نام سے موسوم کیا ہے۔ {مقاتل الطالبین لابی الفرج الاصبھانی الشیعی}
حسن بن علی رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹوں کے یہ نام رکھے تھے:
1-ابوبکر
2-عبدالرحمن
3-طلحہ
4۔ عبیداللہ
{التنبیہ والاشراف للمسعودی الشیعی}

علاوہ ازیں حسن بن حسن بن علی نے اپنے بیٹوں کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں سے موسوم کیا تھا۔ {مقاتل الطالبین لابی الفرج الاصبھانی الشیعی}

موسی کاظم نے اپنی صاحبزادی کا نام عائشہ رکھا تھا۔ اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ لوگوں نے ازراہ محبت اپنی کنیت ابوبکر رکھی تھی اگرچہ انکا نام کچھ اور تھا، مثال کے طور پر زین العابدین بن علی {کشف الغمۃ لاربلی} اور علی بن موسی الرضا۔ {مقاتل الطالبین لابی الفرج الاصبھانی الشیعی} نے اپنی اپنی کنیت کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام سے موسوم کررکھا تھا۔

اب ہم ان لوگوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کو عمر رضی اللہ عنہ کے نام سے موسوم کر کے پکارا تھا۔ ان میں بھی سر فہرست علی رضی اللہ عنہ کا نام نامی آتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کا نام عمر الاکبر رکھا تھا جو ام حبیب بنت ربیعہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھے باللف کے مقام پر اپنے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کی معیت میں ان کی شہادت کا حادثہ پیش آیا اور علی رضی اللہ نے اپنے دوسرے بیٹے کا نام عمر الاصغر رکھا تھا۔ ان کی والدہ کا نام الصہباء التغلبیہ رضی اللہ عنہا تھا۔ اللہ تعالی نے انہیں طویل زندگی سے نوازا تھا اور انہوں نے اچھی خاصی زندگی پائی اور اپنے بھائیوں کی شہادت کے بعد ان کے صحیح وارث اور جانشین کہلائے۔{ملاحظہ ہو: الارشاد للمفید، معجم رجال الحدیث للخوئی، و مقاتل الطالین لابی الفرج}

علی بن الحسین بن علی {الارشاد للمفید}، علی زین العابدین موسی کاظم، حسین بن زید بن علی، اسحاق بن الحسن بن علی بن الحسین، حسن بن علی بن الحسن بن الحسن بن الحسن نے اپنے آباو اجداد کی سنت کو زندہ رکھا اور اپنے بیٹوں کو خلیفہ ثانی کے اسم گرامی سے موسوم کر کے ان سے اپنے تعلق کا ثبوت پیش کیا۔

ان کے علاوہ اسلاف کی ایک طویل فہرست ہے لیکن اندیشہ طوالت کے باعث ہم صرف اہل بیت میں سے انہی متقدمین کے ذکر پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔{مزید تفصیل: مقاتل الطالبین، الدرالمنثور}

جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جنہوں نے اپنی بیٹیوں کا نام عائشہ رضی اللہ عنہا کے نام پر رکھ کر آل بیت سے محبت کا ثبوت دیا ہے ان میں موسی کاظم {الارشاد}اور علی بن الھادی کا نام نامی سرفہرست ہے۔{الارشاد المفید}

یہاں پر ہم صرف ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذکر پر اکتفا کریں گے۔

سوال6:۔۔کلینی نے کتاب الکافی میں ذکر کیا ہے کہ ائمہ علیہم السلام جاتنے ہیں کہ وہ کب مریں گے اور جب مریں گے اپنے اختیار سے ہی مریں گے {اصول الکافی للکلینی} مجلسی اپنی کتاب بحارالانوار میں ایک حدیث بیان کرتے ہیں کہ کوئی ایک امام ایسا نہیں جو فوت ہوا ہو بلکہ ان میں سے ہر ایک مقتول ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوا ہے۔



یہاں ہم شیعہ برداری سے پوچھنا چاہیں گے کہ اگر آپ کے امام علم غیب جانتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو اس بات کا پتہ تھا کہ انہیں کھانے کے لیے دستر خوان پر کیا پیش کیا جارہا ہے لہذا اگر کھانے پینے کی چیز تھی تو یہ بھی ان کے سابقہ علم میں تھی کہ یہ کھانا زہریلا ہے جس سے بچنا چاہیے۔ علم کے باوجود ان کا اس کو کھانا اور اس کو کھانے سے پرہیز نہ کرنا تو خودکشی ہے کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر زہریلا کھانے سے اپنے آپ کو لقمہ اجل بنایا ہے گویا وہ خودکشی کرنے والے ہوئے حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے متنبہ فرما دیا ہے کہ خودکشی کرنے والا آگ کا ایندھن ہے۔ کیا شیعہ حضرات اپنے آئمہ کے اس انجام سے راضی ہیں ؟

سوال 7 :۔۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت سے ایسے موقع پر دستبرداری اور مصالحت کا اعلان کیا تھا، جس وقت ان کے پاس جان نثار بھی موجود تھے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ جاری رکھنا بھی ممکن تھا۔ اس کے برخلاف آپ رضی اللہ عنہ کے بھائی حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے خلاف اپنے چند اقارب کے ساتھ جنگ کو ترجیح دی۔ جبکہ باعتبار وقت، آپ رضی اللہ عنہ کے لیے نرمی اور مصلحت اندیشی کا پہلو اختیار کرنا زیادہ مناسب تھا۔

مذکورہ صورت حال اس نتیجے سے خالی نہیں کہ دونوں بھائیوں میں سے ایک حق پر تھے اور دوسرے غلطی پر، یعنی اگر حسن رضی اللہ عنہ کا لڑنے کی صلاحیت کے باوجو اپنے حق سے دستبرداری اختیار کرنا برحق ہے تو حسین رضی اللہ عنہ کا مصالحت کا امکان ہوتے ہوئے اور طاقت و قوت سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے خروج کرنا باطل ہوگا اور اگر حسین رضی اللہ عنہ کا کمزوری اور ناتوانی کے باوجود خروج کرنا برحق تھا تو حسین رضی اللہ عنہ کا قوت کے باوجود مصالحت اختیار کرنا اور اپنے حق خلافت سے دستبردار ہونا باطل ہوگا۔

اس سوال کا شیعہ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ اگر وہ یہ کہیں کہ حسنین رضی اللہ عنہما دونوں ہی حق پر تھے تو انہوں نے اجتماع ضدین کا ارتکاب کیا۔

اور اگر وہ حسن رضی اللہ عنہ کے فعل کے بطلان کی بات کرتے ہیں تو ان کے قول سے حسن رضی اللہ عنہ کی امامت کا بطلان لازم آتا ہے اور ان کی امامت کے باطل ہونے سے ان کے والد علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور عصمت خودبخود باطل ہوجاتی ہے کیونکہ علی رضی اللہ عنہ نے آپ کے بارے میں وصیت کی تھی اور شیعہ کے مطابق امام معصوم اپنے جیسے معصوم شخص کے لیے ہی وصیت کر سکتا ہے۔

اور اگر وہ حسین رضی اللہ عنہ کے فعل کے بطلان کی بات کرتے ہیں تب بھی ان کے لیے مفر نہیں ہے کیونکہ ان کے اس قول سے حسین رضی اللہ عنہ کی امامت و عصمت پر زد پڑتی ہے اور ان کی امامت اور عصمت کے باطل قرار پانے سے ان کے تمام بیٹوں اور کی ساری اولاد کی امامت اور عصمت باطل ہوجاتی ہے کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ کے دم سے ہی ان کی ذریت کی امامت و عصمت قائم ہے جب اصل کا بطلان ہوگیا تو فرع خودبخود باطل ہوگئی۔

سوال 8:۔۔ شیعہ کے مشہور عالم کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں یہ روایت نقل کی ہے کہ ہم سے ہمارے کئی ساتھیوں نے ابوبصیر رحمہ اللہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ میں ایک مرتبہ ابوعبداللہ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے ان سے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان جاوں، دراصل میں آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہیں کوئی ہماری سرگوشی سن تو نہیں رہا ہے؟ کہتے ہیں کہ ابوعبداللہ علیہ السلام نے پردہ گرادیا، پھر ابوبصیر کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: کہ اے ابو محمد!اب تمہارے جی میں جو آئے پوچھو۔ میں نے کہا میں قربان جاوں آپ پر ۔۔۔اس کے بعد آپ علیہ السلام نے تھوڑی دیر کے لیے سکوت اختیار کیا پھر فرمایا: ہمارے پاس مصحف فاطمہ علیھا السلام ہے اور ان کو کیا پتا کہ مصحف فاطمہ علیھا السلام کیا ہے؟ ابو بصیر نے کہا میں نے استفسارکیا! مصحف فاطمہ علیھا السلام کیا ہے؟ فرمایا: یہ وہ مصحف ہے جس میں تمہارے اس قرآن کے تین گنا زیادہ مواد موجود ہے اور تمہارے قرآن کا اس میں ایک حرف بھی موجود نہیں ہے۔ بصیر نے کہا میں نے کہایہی تو علم ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مصحف فاطمہ کی خبر تھی؟ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مصحف فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خبر نہیں تھی تو آل بیت کو اس کی خبر کیسے پہنچی؟ حالانکہ آپ تو اللہ کے رسول تھے؟ بالفرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر تھی تو آپ نے اس کو اپنی اُمت سے مخفی رکھا؟ جبکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ۔۔سورۃالمائدہ

" اے رسول ! جو کچھ بھی آپ پر آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔ آپ اسے اُمت تک پہنچا دیجئے اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کی رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔"​

سوال 9 :۔۔ کلینی کی کتاب الکافی کےجزء اول میں ان ناموں کی ایک فہرست ہے جن کے واسطے سے شیعہ حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور اہل بیت کے اقوال نقل کیے ہیں ان میں مندرجہ ذیل نام بھی ہیں۔

1-مفضل بن عمر، 2- احمد بن عمرالحلبی، 3- عمر بن ابان، 4- عمر بن اذینہ، 5- عمر بن عبدالعزیز، 6- ابراہیم بن عمر، 7- عمر بن حنظلۃ، 8- موسی بن عمر، 9- عباس بن عمر۔۔۔ وغیرہ

ان تمام ناموں میں عمر ہے۔ خواہ وہ راوی کا نام ہے خواہ راوی کے باپ کا، بہرحال عمر ہر نام میں موجود ہے۔

آخر ان تمام لوگوں کا نام عمر کیوں رکھا گیا ہے؟ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان لوگوں کو عمر رضی اللہ عنہ سے محبت اور لگاو تھا۔

سوال 10:۔۔ اللہ تعالی اپنی کتاب محکم میں ارشاد فرماتا ہے:

وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴿١٥٥﴾ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ﴿١٥٧﴾ سورۃ البقرہ

"اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے جنہیں جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو اس وقت وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایات یافتہ ہیں۔"

وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ۔۔۔ ﴿١٧٧﴾ سورۃ البقرہ

" اور تنگ دستی تکلیف و جنگ کے وقت صبر سے کام لینے والے ہیں۔"

علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: " اے نفس!اگر تجھے جزع و فزع اور نوحہ و ماتم سے نہ منع کیا گیا ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کی تلقین نہ کی ہوتی تو میں رو رو کر آنکھوں کا پانی خشک کر لیتا۔"{نہج البلاغہ اور مستدرک الوسائل}۔

یہ روایت بھی مروی ہے کہ علی علیہ السلام نے فرمایا ہے " جس نے مصیبت کے وقت اپنی رانوں پر ہاتھ مارا تو اس کا عمل ضائع اور برباد ہوئے گا۔{الخصال للصدوق اور وسائل الشیعہ}۔

حسین رضی اللہ عنہ نے حادثہ کربلا میں اپنی بہن زینب کو مخاطب کرکے فرمایا تھا میری پیاری بہن! میں تم کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں اگر میں قتل کر دیا جاوں تو تم مجھ پر گریبان چاک نہ کرنا اور اپنے ناخنوں سے اپنے چہرے کو نہ چھیدنا اور میری شہادت پر ہلاکت و تباہی کی دہائی نہ دینا۔

ابو جعفر القمی نے نقل کیا ہے امیر المومنین علیہ السلام کو جب اپنے ساتھیوں کے متعلق معلوم ہوا فرمایا: "تم کالا لباس زیب تن مت کیا کرو کیونکہ یہ فرعون کا لباس ہے۔ " {من لا یحضرہ الفقیہ اور کتاب وسائل الشیعہ}

تفسیر صافی میں اس آیت { وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ۔۔﴿١٢﴾ سورۃ الممتحنۃ} کے ضمن میں یہ ہی کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے اس بات پر بیعت لی کہ وہ بطور سوگ کالا لباس نہیں پہنیں گی اور نہ گریبان چاک کریں گی اور نہ ہلاکت وبربادی کی پکار لگائیں گی۔

کلینی کی کتاب فروع الکافی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وصیت کی تھی کہ جب میرا انتقال ہوجائے تو نہ تو اپنے چہرے کو نوچنا اور نہ ہی مجھ پر بال لٹکا لٹکا کر غم کا اظہار کرنا اور نہ ہی ہلاکت و بربادی کی دہائی دینا اور نہ میرے لیے کسی نوحہ کناں کو مقرر کرنا۔ {ملاحظہ ہو:فروع الکافی}۔

شیعہ کے علماء المجلسی، النوری اور البردجردی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" نوحہ و ماتم اور گانے بجانے کی آوازیں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔"{بحارالانوار، مستدرک الوسائل، جامع احادیث الشیعہ اور من لایحضرہ الفقیہ}۔

ان تمام روایات اور حقائق کی نقاب کشائی کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیعہ حضرات کیوں حق کی مخالفت پر آمادہ ہیں؟ اب آپ ہی بتلائیں کہ ہم کس کی تصدیق کریں اللہ کی، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اہل بیت کی یا شیعہ کے ذاکرین کی؟؟۔​

سوال 11:۔۔ اگر زنجیر زنی، نوحہ خوانی اور سینہ کوبی میں عظیم اجروثواب ہے جیسا کہ شیعہ حضرات کا دعوی ہے { دیکھیے ارشاد السائل اور صراط النجاۃ}۔ تو شیعوں کے مذہبی رہنما اور ان کے ملاں و ذاکر زنجیر زنی کیوں نہیں کرتے ہیں؟؟۔

سوال 12 :۔۔ شیعوں کے دعوی کے مطابق غدیر خم کے دن ہزاروں صحابہ کرام وہاں موجود تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی وصیت براہ راست سنی تھی ، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان ہزاروں صحابہ کرام میں سے ایک صحابی بھی علی رضی اللہ عنہ کی طرفداری کے لیے کیوں نہیں کھڑا ہوا؟؟۔ حتی کہ عمار بن یاسر، مقداد بن عمرو اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم بھی خلیفہ وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں استغاثہ لے کر کیوں نہیں آئے کہ آپ نے علی رضی اللہ کی خلافت کا حق غصب کیا؟ جبکہ آپ کو پتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیرخم کے دن کیا وصیت فرمائی تھی یا کیا تحریر لکھوائی تھی۔ علی رضی اللہ عنہ تو بڑے بے باک صحابی تھے جنہیں اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف نہ تھا اور نہ ہی وہ کسی سے دب کر بات کرنے کے عادی تھے اور انہیں پتا تھا کہ حق بات پر سکوت اختیار کرنے والا گونگا شیطان کہلاتا ہے۔​

سوال 13:۔۔ عالم شیعہ کی مذہبی کتاب الکافی کی اکثر و بیشتر روایات ضعیف ہیں؟ اس کے باوجود یہ لوگ کس بنیاد پر یہ دعوی کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی تفسیر ایک کتاب میں مدون ہے، جس کی اکثر وبیشتر روایات ان کے اعتراف کے مطابق ضعیف اور مردود ہیں، کیا یہ دورغ گوئی اور بہتان تراشی نہیں ہے؟

سوال 14 :۔۔ عبودیت صرف اللہ تعالی کی ذات کے لیے خاص ہے، ارشاد باری تعالی ہے: {بَلِ اللَّـهَ فَاعْبُدْ۔۔ سورۃ الزمر} بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کرو۔ شیعہ حضرات اپنی برادری کے لوگوں کو عبدالحسین، عبد علی، عبدالزھراء اور عبدالامام وغیرہ ناموں سے موسوم کرتے ہیں؟ لیکن ائمہ اپنے بچوں کے نام عبد علی اور عبدالزھراء وغیرہ نہیں رکھتے تھے۔​

سوال 15:۔۔ اگر علی رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم تھا کہ وہ نص قطعی کی بنیاد پر اللہ تعالی کی طرف سے خلیفہ متعین ہیں تو انہوں نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاتھوں بیعت خلافت کیوں کی؟

اگر تم یہ کہو کہ وہ مجبور تھے، تو عاجز اور مجبور شخص خلافت کے لیے کیونکر موزوں ہوسکتا ہے؟ کیونکہ خلافت اسی کے لائق ہے جو خلافت کے بوجھ اور ذمہ داریوں کو اپنے کاندھوں پر اُٹھا سکتا ہے۔ اور اگر تم یہ کہو کہ وہ خلافت کے بوجھ اُٹھانے کی استطاعت رکھتے تھے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تو یہ قول خیانت ہے اور خائن کو امامت کے منصب پر فائز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی رعایا کے بارے میں اس پر اعتماد اور بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔

جب کہ ہمارا ایمان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی ذات ان تمام عیوب سے منزہ اور مبرا ہے۔
تمہارا جواب کیا ہے؟

سوال 16:۔۔ علی رضی اللہ عنہ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اپنے پیش رو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین ہی کا راستہ اختیار کیا بلکہ آپ رضی اللہ عنہ منبر خلافت سے برابر یہی کلمات دہراتے "خیر ھذہ الامۃ بعدنبیھا ابوبکر وعمر"

"اس اُمت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل ترین ابوبکر اور عمر ہیں"

لطف کی بات یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نےحج تمتع نہیں فرمایا، اور فدک کا مال بھی نہیں حاصل کیا ایام حج میں لوگوں پر متعہ واجب نہیں کیا اور نہ ہی اذان میں "حی علی خیر العمل" کے کلمہ کو رواج دیا اور نہ اذان سے "الصلاۃ خیر من النوم" کا جملہ حذف کیا۔

اگر شیخین رضی اللہ عنہما کافر ہوتے اور انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے خلافت زبردستی غصب کی ہوتی تو اس چیز کو علی رضی اللہ عنہ نے کھول کر بیان کیوں نہیں کیا؟ جبکہ حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں تھی۔ بلکہ ہم کو تو علی رضی اللہ عنہ کا ذاتی عمل اس کے برعکس نظر آتا ہے کہ انہوں نے شیخین {ابوبکر و عمر} کی تعریف کی ہے اور دل کھول کر ان کی مدح سرائی کی ہے۔

تم کو اسی قدر پر اکتفا کرنا چاہئے جس پر امیرالمومنین نے اکتفا کیا یا تم پر یہ بات لازم آتی ہے کہ تم یہ کہو امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ نے اُمت اسلامیہ کے ساتھ خیانت سے کام لیتے ہوئے ان کے سامنے حقیقت بیانی سے کام نہیں لیا ہے حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ اس سے پاک اور مبرا ہیں۔​

سوال 17:۔۔ شیعوں کا خیال ہے کہ خلفائے راشدین کافر تھے ان کے ہاتھوں پر اللہ تعالی نے اسلامی فتوحات کا دروازہ کھول کر اسلام اور مسلمانوں کو عزت و سربلندی عطا فرمائی تھی اور مسلمانوں کو تاریخ میں ایسا دورمشاہدہ کرنے کو نہیں ملا۔

کیا یہ بات اللہ تعالی کے اس دوٹوک فیصلے کے موافق ہے جس کی رو سے اللہ تعالی نے کفار اور منافقین کو ذلیل و رسوا کیا ہے؟

اس کے بالمقابل ہم دیکھتے ہیں کہ امام معصوم کی خلافت میں جن کی ولایت کو اللہ تعالی نے لوگوں کے لیے رحمت بنایا ہے اُمت اسلامیہ کا شیرازہ منتشر ہوگیا اور خانہ جنگی کی آگ بھڑک اُٹھی یہاں تک اعدائے اسلام، اسلام اور مسلمان کے خلاف کمربستہ ہوگئے۔ کیا امام معصوم کےدور کو اس طرح کی صورتحال کے تناظر میں رحمت سے تعبیر کیا جائے گا؟ آخر یہ کون سی رحمت ہے جس کا امام معصوم کی خلافت کے دوران وجود پذیر ہونے کا شیعہ حضرات دعوی کر رہے ہیں؟ کیا اس قسم کی کوئی باعث رحمت صورت حال ائمہ معصوم کے دور میں پیش آئی، اگر نہیں اور بالکل نہیں، تو پھر یہ شیعہ حضرات کس رحمت کے متقاضی ہیں؟

سوال 18:۔۔ شیعہ کا دعوی ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کافر تھے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے ان کے حق میں خلافت سے دست برداری کا اعلان کیا، حالانکہ حسین امام معصوم ہیں لہذا یہاں پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے ایک کافر کے لیے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا حالانکہ یہ چیز حسین رضی اللہ عنہ کی عصمت کے خلاف ہے یا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہیں ، ان دو صورتوں میں ایک صورت کو بہرحال تسلیم کرنا ہے۔​

سوال 19:۔۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تربت حسینی پر سجدہ کیا ہے؟ جس پر شیعہ حضرات سجدہ کرتے ہیں؟

اگر شیعہ حضرات ہاں میں جواب دیتے ہیں تو ہمارا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ اللہ کی قسم یہ جھوٹ ہے۔

اور اگر وہ نفی میں جواب دیتے ہیں تو ہم ان سے یہ کہنے کے مجاز ہیں کہ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو۔
ہم یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دیں کہ شیعہ کی روایات بتاتی ہیں کہ جبریل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں کربلا کی مٹی لائے تھے۔

سوال 20:۔۔ شیعوں کا دعوی ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور وہ پہلی کیفیت پر آگئے تھے۔

ہمارا شیعہ حضرات سے سوال کہ کیا اصحاب رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل شیعہ اثنا عشریہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اہل سنت والجماعت ہوگئے تھے۔یا لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل اہل سنت والجماعت تھے اور بعد از وفات شیعہ اثنا عشریہ ہوگئے ؟

کیونکہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کو ہی انقلاب، تغیر اور تبدل کہا جاتا ہے؟؟


Can You, Shia, Answer These Questions?

Al-Hassan bin Ali relinquished for Mu'awiya and made peace with him, that happened at a time where he had enough armies and allies which would allowed him to continued fighting. Al-Hussain bin Ali came out to war despite the small number of his followers at a time when he could have made peace. This tells us that one of them was right and the other was wrong because:

If Al-Hassan's concession with the ability to fight was right, then Al-Hussain's war with lack of means was wrong.

If Al-Hussain's war with lack of means was right, then Al-Hassan's concession with the ability to fight was wrong.

And this puts you in a place where no one can envy you. Because if you say that both of them are right, you agree to two opposite things and this destroys your roots and logic.

So if you say that Al-Hussain's action was wrong then you have to believe in the falsehood of his leadership "Imamah" and the falsehood of the leadership of his father and his infallibility. Because he was given a trust and the infallible leader does not give the trust to anyone but an infallible like him. And if you say that Al-Hassan's action was wrong then you have to believe in the falsehood of his leadership "Imamah" and the falsehood of the leadership of his children and progeny because he is the root of their leadership and through him came the leadership. And if the root is wrong, then the branches are all wrong.

And we say to every Shia:

Regardless of what you answer to this conundrum, your answer is not convincing for this reason:

You would believe that Ali accepted to himself what the low Bedouins of the Arabs would not accept for themselves and he is from the Prophet's family? And I repeat the question to you, if Umar's shortcomings are like what you describe then how would Ali accept him as a husband to his daughter? So do the Shia put Ali in a class that's lower than the Bedouins (since Bedouins won't accept this shame for themselves)? And would Al-Hussain accept this? Or would Al-Hasan accept this?

And if you accept that, then they are less class than the Bedouin of Arabs! and that is not acceptable to us. The issue is that you make up accusations against Umar bin Al-Khattab and then you want us to accept an excuse which is worse than the sin itself. And your excuse is Taqiyya. So was it for Taqiyya that Ali married his daughter off to Umar? You curse Umar, make up bad things about him, and allege that he was an apostate, then after all that you want to claim that Ali was a coward too? This is not acceptable to us for Umar nor for Ali. And if Umar in your opinion is an Infidel and you claim that Ali knew that, then why did he marry him off to his daughter?!

The whole thing is illogical completely. If the Sahaba (companions of the Prophet) were really apostates, as you claim, then did Ali use Taqiyyah instead of fighting them? If using Taqiyyah is the right thing to do, then why did Ali fight the infidels during the time of the Prophet instead of using Taqiyyah to end the matter? If the Kuffar's land was a land of war (Dar Harb), then the Muslim land -under Abu Bakr and Umar- is for sure a land of war as well. In the land of the Kuffar, the infidels used to be fought and calls for war were called. And in the Muslim land under Abu Bakr and Umar, as you claim it to be a land of war, you consider the Rightly Guided Khalifas infidels just like you consider Yazeed and even worse. Don't you consider them Murtadeen (apostates)? Then what is Ali's duty? To get along with this one and be submissive to others? Would the Imam Ali submit to an infidel (as you claim) who took the mother of Mohammad bin Al-Hanafiyah (the son of Imam Ali bin Abi Talib) as a woman prisoner during the time of Abu Bakr (who in your opinion is an unfair oppressor)?  According to Shia Fiqh, everything that an oppressor does and all his rulings are invalid. So why did Imam Ali take that woman and have a child from her? This is an insult to the Imam form your side.

If you compare Ali with Ammar, then you should remember that Ali's class is much higher than Ammar's since Ali's position to the Prophet was like the status of Haroon to Musa, isn't that what you say? Then how do you compare this to that? And despite all that, it was an exception for Ammar to be used only in times of necessity. But for you, it is a religion and a creed. It is a profession rather than a hobby. Doesn't one of your sayings say "Taqiyya is my religion and the religion of my fathers and grandfathers"? Then it is a religion and not an exception. It is a creed and a root and not a special case. So would Ali submit to the infidels? and would he marry his daughter off to an infidel? and would Ali accept to himself what the lowest of Arabs would never accept? And is there an insult worse than submitting to the infidels? And is there is any more humiliation than marrying his daughter off to a pervert who allegedly hit and caused his wife, Fatimah, to miscarriage? Wouldn't you declare war against him? And you also claim that Umar used to drink Alcohol? And you curse him and accuse him of more insults than that but you still expect Ali to submit to him?

Then why did Imam Ali go to war against the Kuffar if he was going to submit to the alleged apostates? Then who is supposed to fight against the oppressors and the apostates? And you say that Ammar was given an excuse by the messenger? There were no Ayahs from the Quran about Ammar's leadership as you claim for Ali. And he will not be considered an Imam by you at any case. And he does not carry a responsibly like the responsibility of Ali as you say. This is because Ammar was led but did not lead. And Ali lead, but you claim that he cannot be lead. He was a leader, not a follower. However, he submitted once to Abu Bakr, once to Umar, and once to Uthman and they were all apostates as you claim! Your Taqiyya is a rubber that extends here and shrinks there! You give it to Ammar when he was under torture while it was an exception for one time only. And for Imam Ali, the free man and the brave war hero, you used it to justify his submission to Abu Bakr and then his submission to Umar. Then you used it again to explain his submission to Uthman. Then once again, it was used as a justification for him marrying his daughter Umm Kulthoom to Umar. And again it was used to justify Ali taking Umm Mohammad bin Al-Hanafyeh even though she was a war prisoner and the ruler was an oppressor.  This is not allowed in Shia Jurisprudence at all. So it is actually an admittance of the leadership of Abu Bakr. Then what was Ali's duty in the first place if he did not fight oppression and injustice? This is basically the truth of your words.
Shia References:

1- Ya'qooby's History, Volume 2, page 149-150 
2- Al-Forroh min Al-Kafy, the book of  Al-Nikah, Chapter of The Marriage of Umm Kulthoom. Volume 5, Page 346. 
3- Tahzeeb Al-Ahkam, the book of inheritance, the chapter of inheritance from the drowned and the ones who die under collapsed buildings. Volume 9, Page 115-116. 
4- Al-Shafi by Mr. Murtada Alam Al-Huda, Page 116 and his book "Tanzeeh Al-Anbya" page 141, Tahran Issue. 
5- Ibn Shaher Ashob in his book "Manaqeb Aal Ali bin Abi Talib" volume 3 page 162. 
6- Ibn Aby Al-Hadeed in his commentary on "Nahj Albalagha" volume 3 page 124 
Read More.... مزید پڑہیں