Pages

شیعی رسومات کی تاریخ: ایجاد و آغاز


"Be not Shia" -Quran 30:32

شیعہ مذھب بتدریج مرحلہ وار طریقه سے ڈیولپ ہوتا ہوا موجودہ کئی شکلوں میں موجود ہے- اس پر مختلف ادوار اور علاقوں کے اثرات شامل ہوتے رہے ہیں- ایران ، عراق ، انڈیا میں رسومات میں واضح فرق نظر اتا ہے-


لعنت کا آغاز:
351ھ میں معزالدولہ(احمد بن بُویہ دیلمی) نے جامع مسجد بغداد کے دروازے پر نعوذ باللہ نقل کفر کفر نہ باشد یہ  عبارت لکھوا دی۔
(لعن اللہ معاویۃ بن ابی سفیان ومن غصب فاطمۃ فدکا ومن منع من دفن الحسن عند جدہ ومن نفی اباذرومن خرج العباس عن الشوری)

عید غدیر کی ایجاد:
معزالدولہ نے 18ذوالحجہ 351ھ کو بغداد میں عید منانے کا حکم دیااور اس عید کا نام عید خم غدیر رکھا، خوب ڈھول بجائے گئے اور خوشیاں منائی گئیں۔ اسی تاریخ کو یعنی 18 ذوالحجہ 35ھ کو حضرت عثمانؓ غنی چونکہ شہیدہوئےتھےلہٰذااس روز شیعوں کےلیے خم غدیر کی عید منانے کا دن تجویز کیا گیا۔ احمد بن بویہ دیلمی یعنی معزالدولہ کی اس ایجاد کو جو 351ھ میں ہوئی، شیعوں نے یہاں تک رواج دیا کہ آج کل کے شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عید غدیر کا مرتبہ عیدالاضحٰی سے زیادہ بلند ہے۔
ماتم اور تعزیہ داری کی ایجاد:
352ھ کے شروع ہونے پر ابن بویہ مذکور نے حکم دیا کہ 10 محرم کو حضرت امام حسین رضی اللہ کی شہادت کے غم میں تمام دکانیں بند کردی جائیں، بیع و شراء بالکل موقوف رہے، شہر و دیہات کے لوگ ماتمی لباس پہنیں اوراعلانیہ نوحہ کریں۔ عورتیں اپنے بال کھولے ہوئے، چہروں کو سیاہ کیے ہوئے، کپڑوں کوپھاڑتے ہوئے سڑکوں اور بازاروں میں مرثیے پڑھتی، منہ نوچتی اور چھاتیاں پیٹتی ہوئی، نکلیں۔ شیعوں نے اس حکم کی بخوشی تعمیل کی مگر اہل سنت دم بخوداورخاموش رہے کیونکہ شیعوں کی حکومت تھی۔ آئندہ سال 353ھ میں پھر اسی حکم کا اعادہ کیا گیا اور سنیوں کو بھی اس کی تعمیل کا حکم دیا گیا۔اہل سنت اس ذلت کو برداشت نہ کرسکےچنانچہ شیعہ اور سنیوں میں فساد برپا ہوا اور بہت بڑی خون ریزی ہوئی۔ اس کے بعد شیعوں نے ہر سال اس رسم کو زیر عمل لانا شروع کردیا اور آج تک اس کا رواج ہندوستان میں ہم دیکھ رہےہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہندوستان (متحدہ) میں اکثر سنی لوگ بھی تعزیے بناتے ہیں۔ ( تاریخ اسلام اکبر خان نجیب آبادی۔ ج:2، ص 566، طبع کراچی)
شیعیت کا فتنہ:
بنی بویہ نہایت متعصب شیعہ تھے، چند دنوں تک وہ خاموش رہے پھر ان کے تعصب کا ظہور ہونے لگا۔ دولت عباسیہ کے بہت سے ورزاء اور متوسل عجمی اور شیعہ تھے لیکن ان میں سے کسی نے علانیہ شیعیت کی ترویج واشاعت کی جرأت نہ کی تھی۔ معز الدولہ نے خلفاء کی قوت ختم کرنے کے ساتھ ہی بغداد میں شیعیت کی تبلیغ شروع کردی اور 351ھ میں جامع اعظم کے پھاٹک پر یہ تبرا لکھوایا۔
 معاویہ بن ابی سفیان، غاصبین فدک، امام حسن کو روضہ نبوی ﷺ میں دفن کرنے سے روکنے والوں ، حضرت ابو ذر کو جلاوطن کرنے والوں ، عباس رضی اللہ کو شوری سے خارج کرنے والوں پر لعنت ہو۔ (تاریخ ابن اثیر، ج: 8، ص: 179)
خلیفہ میں اس بدعت کو روکنے کی طاقت نہ تھی، کسی سنی نے رات کو یہ عبارت مٹا دی، معزالدولہ نے پھر لکھوانے کاارادہ کیا لیکن اس کے وزیر مہلبی نے مشورہ دیا کہ صرف معاویہ کے نام کی تصریح کی جائے اور ان کے نام کے بعد والظالمین لآل محمد یعنی آل محمدﷺ پر ظلم کرنے والوں کا فقرہ بڑھا دیا جائے۔ معزالدولہ نے یہ مشورہ قبول کرلیا۔
غالباً تبرا کی اس منافقانہ شکل کی ابتداء اسی سے ہوتی ہے۔
معزالدولہ نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ بغداد میں شیعوں کے تمام مراسم جاری کردیے عید غدیر کے دن عام عید اور جشن مسرت منانے کا حکم دیا۔ محرم کے لیے حکم جاری کیا کہ عاشورے کے دن تمام دکانیں اور کاروبار بند رکھے جائیں، کل مسلمان خاص قسم کی ٹوپیاں پہن کر نوحہ و ماتم کریں۔
عورتیں چہرے پر بھبھوت مل پریشان مووگریبان چاک سینہ کوبی کرتی ہوئی شہر میں ماتمی جلوس نکالیں، سینوں پر یہ احکام بہت شاق گزرے لیکن شیعوں کی قوت اور حکومت کے کے سامنےبے بس تھے اس لیے ان احکام کو منسوخ تو نہ کرا سکے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محرم 353ھ میں شیعوں اور سنیوں میں سخت فساد ہوا۔ اور بغداد میں بڑی بدامنی پھیل گئی۔ (ابن اثیر،ج:8،ص:184۔ تاریخ اسلام ، شاہ معین الدین احمد ندوی، اعظم گڑھ، ج:4، ص:12، 13)

اہل سنت کے غور وفکر کے لیے چند باتیں:
 ماہ محرم کی ان بدعات و رسومات غیر شرعیہ کے علاوہ واقعۂ کربلاسے متعلق بھی اکثر اہل سنت کا زاویہ ٔ فکر صحیح نہیں۔ اس سلسلے میں چند باتیں پیش خدمت ہیں، امید ہے کہ اہل سنت حلقے اس پر پوری سنجیدگی، متانت اور علم وبصیرت کی روشنی میں غور فرمائیں گے۔
کیا یہ معرکہ ، حق و باطل کا تھا یا عام معمول کے مطابق ایک حادثہ؟اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اہل سنت کےخطباءاوروعاظ فلسفہ شہادت حسین کو بالعموم اس طرح بیان کرتے ہیں جو خالصتاً شیعی انداز فکر اور رافضی آئیڈیالوجی  کامظہرہوتاہےاوراس کے متعلق یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ تاریخ اسلام میں حق و باطل کا سب سے بڑامعرکہ تھا۔ یہ واعظین خوش بیان یہ نہیں سوچتے کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو اس دور خیر القرون میں جب کہ صحابہ ٔ کرام کی بھی ایک معتدبہ جماعت موجود تھی اور ان کے فیض یافتگان تابعین تو بکثرت تھے اس معرکے میں حضرت حسینؓ( رضی اللہ) ہی اکیلے کیوں صف آراء ہوتے؟ معرکہ ہوتا حق و باطل اور کفر واسلام کا اور صحابہ و تابعین اس سے نہ صرف یہ کہ الگ رہتے بلکہ حضرت حسینؓ( رضی اللہ) کو بھی اس سےروکتے،کیاایساممکن تھا؟ شیعی آئیڈیالوجی تو یہی ہے کہ وہ (معاذ اللہ) صحابۂ کرام رضی اللہ کے کفر و ارتداد اور منافقت کے قائل ہیں اور وہ یہی کہیں گے کہ ہاں اس معرکہ ٔ کفر و اسلام میں ایک طرفحضرت حسینؓ( رضی اللہ)  تھے اور دوسری طرف صحابہ سمیت یزید اوردیگر ان کے تمام حمایتی ، صحابہ و تابعین اس جنگ میں خاموش تماشائی بنے رہے اور حضرت حسینؓ( رضی اللہ)  نے اسلام کو بچانے کے لیے جان کی بازی لگا دی۔
لیکن کیا اہل سنت اس نقطہ ٔ نظر کو تسلیم کرلیں گے؟
کیا صحابہ وتابعین کی اس بے غیرتی و بے حمیتی کی وہ تصدیق کریں گے جو شیعی انداز فکر کا منطقی نتیجہ ہے؟
کیا صحابہ رضی اللہ نعوذ باللہ بے غیرت تھے؟ ان میں دینی حمیت اور دین کو بچانے کا جذبہ نہیں تھا؟

یقیناً اہل سنت صحابہ کرامؓ کے متعلق اس قسم کا عقیدہ نہیں رکھتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی بڑی تلخ ہے کہ اہل سنت شہادت حضرت حسینؓ( رضی اللہ) کا جو فلسفہ بیان کرتے ہیں وہ اسی تال سر سے ترتیب پاتا ہے جو شیعیت کا مخصوص راگ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ سانحۂ کربلاکو معرکہ حق و باطل باور کرانے سے صحابہ کرامؓ رضی اللہ کی عظمت کردار اور ان کی دینی حمیت مجروح ہوتی ہے اور شیعوں کا مقصد بھی یہی ہے لیکن یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے کہ واقعہ ایسا ہے یا نہیں؟ تو حقیقت یہ ہے کہ یہ حق و باطل کا تصادم نہیں تھا، یہ کفر واسلام کا معرکہ نہیں تھا، یہ اسلامی جہاد نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس راہ میں حضرت حسینؓ( رضی اللہ) اکیلے نہ ہوتے،ان صحابہ کرامؓ رضی اللہ کا تعاون بھی انہیں حاصل ہوتا جن کی پوری عمریں اعلائے کلمۃ اللہ میں گزریں جو ہمہ وقت باطل کےلیے شمشیر برہنہ اور کفر وارتداد کےلیے خدائی للکار تھے۔ یہ تصادم دراصل ایک سیاسی نوعیت کا تھا اس نکتےکوسمجھنےکےلیےحسب ذیل پہلو قابل غور ہیں۔
¦        واقعات کربلا سے متعلقہ سب ہی تاریخوں میں ہے کہ حضرت حسینؓ( رضی اللہ) جب کوفے کی طرف کوچ کرنےکےلیےتیارہوگئے تو ان کے رشتہ داروں اور ہمدردوں نے انہیں روکنے کی پوری کوشش کیاور اس اقدام کے خطرناک نتائج سے ان کو آگاہ کیا۔ ان میں حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو الدرداء،حضرت ابو واقد لیثی، جابر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عباس اورحضرت حسینؓ( رضی اللہ)  کے بھائی محمد بن الحنفیہ رضی اللہ نمایاں ہیں۔ آپ نے ان کے جواب میں نہ عزم
سفر ملتوی فرمایا نہ اپنے موقف کی کوئی دلیل پیش کی،ورنہ ممکن ہے کہ وہ بھی اس موقف میں ان کے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ ہوجاتے۔ دراصل حضرت حسینؓ( رضی اللہ)  کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اہل کوفہ ان کو مسلسل کوفہ آنے کی دعوت دے رہے ہیں ،یقیناً وہاں جانا ہی مفید رہے گا۔
 یہ بھی تمام تاریخوں میں آتا ہے کہ ابھی آپ راستے ہی میں تھے کہ آپ کو خبر پہنچی کہ کوفے میں آپ کےچچیرےبھائی مسلم بن عقیل شہید کردئیے گئے جن کو آپ نے کوفے کے حالات معلوم کرنے کےلیے ہی بھیجا تھا۔ اس المناک خبر سے آپ کا اہل کوفہ پر سے اعتماد متزلزل ہوگیا اور واپسی کا عزم ظاہر کیا، لیکن حضرت مسلم کے بھائیوں نے یہ کہہ کرواپس ہونے سے انکار کردیا کہ ہم تو اپنے بھائی مسلم کا بدلہ لیں گے یا خود بھی مر جائیں گے اس پر حضرت حسینؓ نےفرمایا:تمہارے بغیر میں بھی جی کر کیا کروں گا؟
(فھم ان یرجع وکان معہ اخوۃ مسلم بن عقیل فقالواواللہ لا نرجع حتی نصیب بثارنا او نقتل) (تاریخ الطبری: 292/4، مطبعۃ الاستقامۃ، قاہرۃ: 1939ء)
 چنانچہ حضرت حسینؓ نے واپسی کا ارادہ کرلیا، لیکن آپ کے ساتھ مسلم بن عقیل کے جو بھائی تھے، انہوں نے کہا کہ ہم تو اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک کہ ہم انتقام نہ لے لیں یا پھر خود بھی قتل ہوجائیں۔
اور یوں اس قافلے کا سفر کوفے کی طرف جاری رہا۔

 پھر اس پر بھی تمام تاریخیں متفق ہیں کہ حضرت حسینؓ( رضی اللہ) جب مقام کربلا پر پہنچے تو گورنر کوفہ ابن زیاد نے عمر بن سعدکو مجبور کرکے آپ کے مقابلے کےلیے بھیجا۔ عمر بن سعد نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سے گفتگو کی تومتعددتاریخی روائتوں کے مطابق حضرت حسینؓ( رضی اللہ)  نے ان کے سامنے یہ تجویز رکھی۔
(اختر منی احدیٰ ثلاث اما ان الحق بثغر من الثغور واما ان ارجع الی المدینۃ واما ان اضع فی ید یزید بن معاویۃ فقبل ذلک عمر منہ) (الاصابۃ:  71/2الطبعۃ 1995ء، دارالکتب العلمیۃ)
یعنی تین باتوں میں سے ایک بات مان لو۔ میں یا تو کسی اسلامی سرحد پر چلا جاتا ہوں یا واپس مدینہ منورہ لوٹ جاتا ہوں یا پھر میں (براہ راست جاکر) یزید بن معاویہ کی ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیتا ہوں(یعنی ان سے بیعت کرلیتا ہوں) عمر بن سعد نے ان کی یہ تجویز قبول کرلی۔
ابن سعد نے خود منظور کرلینے کے بعد یہ تجویز ابن زیاد (گورنر کوفہ ) کو لکھ کر بھیجی مگر اس نے اس تجویزکوماننےسےانکارکردیااور اس بات پر اصرار کیا کہ پہلے وہ (یزید کے لیے)میرے ہاتھ پر بیعت کریں۔
(فکتب الیہ عبید اللہ (ابن زیاد) لا اقبل منہ حتی یضع یدہ فی یدی) (الاصابۃ: 71/2، الطبری: 293/4)
حضرت حسینؓ( رضی اللہ) اس کے لیے تیار نہ ہوئے اور ان کی طبع خوددار نے یہ گوارا نہیں ، چنانچہ اس شرط کو مسترد کردیا جس پر لڑائی چھڑ گئی اور آپ کی مظلومانہ شہادت کا یہ حادثہ ٔ فاجعہ پیش آگیا۔
(فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ فامتنع الحسین فقاتلوہ۔۔۔ ثم کان آخر ذلک ان قتل ؓ وارضاہ)
اس روایت کے مذکورہ الفاظ جس میں حضرت حسینؓ نے بیعت یزید پر رضا مندی کا اظہار فرمایا الاصابہ کے علاوہ *تہذیب التہذیب، 328/2، 353 *تاریخ طبری، 293/4 *تہذیب تاریخ ابن عساکر، 325/4، 337*البدایۃ والنہایۃ،170/8۔175 *کامل ابن اثیر،283/3 اور دیگر کئی کتابوں میں بھی موجود ہیں ۔ حتی کہ شیعی کتابوں میں بھی ہیں۔ ان کے دوسرے الفاظ بھی ہیں تاہم نیتجے میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
ان تاریخی شواہد سے معلوم ہوا کہ اگر یہ حق و باطل کا معرکہ ہوتا توکوفے کے قریب پہنچ کر جب آپ کو مسلم بن عقیل کی مظلومانہ شہادت کی خبر ملی تھی۔ آپ واپسی کا عزم ظاہر نہ فرماتے۔ ظاہر بات ہے کہ راہ حق میں کسی کی شہادت سے احقاق حق اورابطال باطل کا فریضہ ساقط نہیں ہوجاتا۔
پھر ا ن شرائط مصالحت سے جو حضرت حسینؓ نے عمر بن سعد کے سامنے رکھیں، یہ بات بالکل نمایاں ہوجاتی ہے ہے کہ آپ کے ذہن میں کچھ تحفظات تھے بھی تو آپ ان سے دست بردار ہوگئے تھے ، بلکہ یزید کی حکومت تک کو تسلیم کرلینے پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔
ایک یہ بات اس سے واضح ہوئی کہ سیدنا حضرت حسینؓ( رضی اللہ) ، امیر یزید کو فاسق و فاجر یا حکومت کا نااہل نہیں سمجھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو وہ کسی حالت میں بھی اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دینے کے لیے تیار نہ ہوتے جیسا کہ وہ تیار ہوگئے تھے، بلکہ یزید کے پاس جانےکےمطالبے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ان سے حسن سلوک ہی کی توقع تھی۔ ظالم وسفاک بادشاہ کے جانے کی آرزو (آخری چارہ ٔ کارکے طور پر بھی) کوئی نہیں کرتا۔
اس تفصیل سے اس حادثے کے ذمہ دار بھی عریاں ہوجاتے ہیں اور وہ ہے ابن زیاد کی فوج، جس میں سب وہی کوفی تھے جنہوں نے آپ کو خط لکھ کر بلایا تھا، انہی کوفیوں نے عمر بن سعد کی سعیٔ مصالحت کو بھی ناکام بنادیا جس سے کربلا کا یہ المناک سانحۂ شہادت پیش آیا۔ وَكَانَ أَمْرُ ٱللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا 
حضرت عثمانؓ اور عمر فاروقؓ رضی اللہ کی شہادت:جب واقعہ یہ ہے کہ یہ معرکہ سیاسی نوعیت کا حامل ہے، حق وباطل کا معرکہ نہیں ہے ، تو بہتر ہے کہ ایام محرم میں اس موضوع ہی سےاحتراز کیا جائے کہ ان دنوں میں اس سانحے کو اپنے بیان و خطابت کا موضوع بنانا بھی شیعیت کو فروغ دینا ہےکیونکہ تاریخ اسلام میں اس سے بھی زیادہ اہم شہادتوں کو نظر انداز کرکے سانحۂ کربلاکواجاگرکرنایہ بھی رفض و تشیع ہی کا انداز ہے۔حضرت عثمانؓ غنی رضی اللہ کی شہادت کچھ کم جگر سوز اور دل دوز ہے جو 18 ذو الحجہ کو ہوئی؟ حضر ت عمر فاروقؓ کی شہادت ِ عظمیٰ کیا معمولی سانحہ ہے جو یکم محرم کو پیش آیا؟ اسی طرح اور بڑی بڑی شہادتیں ہیں لیکن ان سب کو نظر انداز کرکے صرف شہادت حسین کو اپنی زبان و قلم کا موضوع بنانا کسی طرح صحیح نہیں، اور جو شخص ایساکرتا ہے وہ بالواسطہ اور شعوری یا غیر شعوری طور پر شیعی انداز فکر کو فروغ دینے کا باعث بنتا ہے۔
امام اور علیہ السلام:اسی طرح اہل سنت کی اکثریت حضرت حسینؓ( رضی اللہ) کو بلا سوچےسمجھے اما م حسین علیہ السلام بولتی ہے حالانکہ سیدنا ححضرت حسینؓ( رضی اللہ) کے ساتھ امام کا لفظ بولنا اور اسی طرح ؓ کے بجائے علیہ السلام کہنا بھی شیعیت ہے۔ ہم تمام صحابہ ٔ کرام رضی اللہ کے ساتھ عزت و احترام کے لیے حضرت کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر ، حضرت عثمان، حضرت علیؓ وغیرہ۔ ہم کبھی امام ابو بکر صدیق، امام عمر نہیں بولتے۔ اسی طرح ہم صحابہ کرامؓ کے اسمائے گرامی کے بعد ؓ لکھتے اور بولتے ہیں۔ اور کبھی ابوبکر صدیق علیہ السلام یا حضر ت عمر علیہ السلام نہیں بولتے، لیکن حضرت حسینؓ کے ساتھ ؓ کے بجائے علیہ السلام بولتے ہیں۔ کبھی اس پر بھی غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ دراصل یہ شیعیت کا وہ اثر ہے جو غیر شعوری طور پر ہمارے اندر داخل ہوگیا ہے اس لیےیاد رکھیے کہ چونکہ شیعوں کا ایک بنیادی مسئلہ امامت کا بھی ہے اور امام ان کے نزدیک انبیاء کی طرح من جانب اللہ نامزداورمعصوم ہوتا ہے۔ حضرت حسینؓ بھی ان کے بارہ اماموں میں سے ایک امام ہیں، اس لیے ان کے لیے امام کا لفظ بولتے ہیں اور اسی طرح ان کے لیے علیہ السلام لکھتے اور بولتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ ایک صحابی ٔ رسول ہیں امام معصوم نہیں، نہ ہم شیعوں کی امامت معصومہ کے قائل ہی ہیں۔ اس لیے ہمیں انہیں دیگر صحابہ ٔ کرام کی طرح حضرت حسینؓ ؓ لکھنا اور بولنا چاہیے۔ امام حسین علیہ السلام نہیں۔ کیونکہ یہ شیعوں کے معلوم عقائد اور مخصوص تکنیک کے غماز ہیں۔

یزید پر سب و شتم کا مسئلہ:
اسی طرح ایک مسئلہ یزید پر سب و شتم کا ہے جسے بدقسمتی سے رواج عام حاصل ہوگیاہےاوربڑےبڑے علامہ فہامہ بھی یزید کا نام برے الفاظ سے لیتے ہیں ، بلکہ اس پر لعنت کرنے میں بھی کوئی حرج نہین سمجھتے اور اس کو حب حسین اور حب اہل بیت کا لازمی تقاضا سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بھی اہل سنت کے مزاج اور مسلک سے ناواقفیت کانتیجہ ہے محققین علمائےاہل سنت نے یزید پر سب و شتم کرنے سے بھی روکا ہے اور اسی ضمن میں اس امر کی صراحت بھی کی ہےکہ یزید کا قتلحضرت حسینؓ( رضی اللہ) میں نہ کوئی ہاتھ ہے نہ اس نے کوئی حکم دیا اور نہ اس میں اس کی رضا مندی ہی شامل تھی۔ ہم یہاں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  کے اقوال کے بجائے امام غزالی کی تصریحات نقل کرتے ہیں جن سے عام اہل سنت بھی عقیدت رکھتےہیں۔ علاوہ ازیں امام ابن تیمیہ کا موقف کتاب کےآخر میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔

امام غزالی فرماتے ہیں:
(ما صح قتلہ للحسین ؓ ولا امرہ ولا رضاہ بذٰلک ومھما لم یصح ذٰلک لم یجز ان یظن ذٰلک فان اسآءۃالظن ایضا بالمسلم حرام قال اللہ تعالیٰ: }يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱجْتَنِبُوا۟ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ ٱلظَّنِّ إِثْمٌۭ {۔۔۔فھذا الامر لا یعلم حقیقہ اصلا واذا لم یعرف وجب احسان الظن بکل مسلم یمکن احسان الظن بہ) (وفیات الاعیان: 450/2، طبع جدید)
یعنی حضرت حسینؓ( رضی اللہ) کو یزید کا قتل کرنا یا ان کے قتل کرنے کا حکم دینا یا ان کے قل پر راضی ہونا، تینوں باتیں درست نہیں اورجب یہ باتیں یزید کے متعلق ثابت ہی نہیں تو پھر یہ بھی جائز نہیں کہ اس کے متعلق اسی بدگمانی رکھی جائے کیونکہ کسی مسلمان کے متعلق بدگمانی حرام ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، بنا بریں ہر مسلمان سے حسن ظن رکھنے کے وجوب کا اطلاق یزیدسےحسن ظن رکھنے پر بھی ہوتا ہے۔
اسی طرح اپنی معروف کتاب احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:
 (فان قیل ھل یجوز لعن یزید بکونہ قاتل الحسین او آمراً بہ قلنا ھٰذا لم یثبت اصلاً ولا یجوز ان یقال انہ قتلہ او امر بہ مالم یثبت)(131/3)
 یعنی اگر سوال کیا جائے کہ کیا یزید پر لعنت کرنی جائز ہے کیونکہ وہ (\حضرت حسینؓ( رضی اللہ) کا ) قاتل ہے یا قتل کاحکم دینے والا ہے ؟
تو ہم جواب میں کہیں گے کہ یہ باتیں قطعاً ثابت نہیں ہیں اور جب تک یہ باتیں ثابت نہ ہوں اس کے متعلق یہ کہنا جائز نہیں کہ اس نے قتل کیا یا قتل کا حکم دیا۔
پھر مذکورۃ الصدر مقام پر اپنے فتوے کو آپ نے ان الفاظ پر ختم کیا ہے:
(واما الترحم علیہ فجائز بل مستحب بل ہو داخل فی قولنا فی کل صلوٰۃ اللھم اغفر للمؤمنین والمؤمنات فانہ کان مؤمنا۔ واللہ اعلم) (وفیات الاعیان: 450/3، طبع جدید)
یعنی یزید کے لیے رحمت کی د عا کرنا (رحمۃ اللہ علیہ کہنا) نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے اور وہ اس دعا میں داخل ہے جو ہم کہاکرتےہیں ۔ (یا اللہ! مومن مردوں او ر مومن عورتوں سب کو بخش دے) اس لیے کہ یزید مومن تھا! واللہ اعلم

مولانا احمد رضا خاں:
مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی،یزیدکے بارے میں یہ وضاحت فرمانے کے بعد کہ امام احمد اسے کافر جانتے ہیں او رامام غزالی وغیرہ مسلمان کہتےہیں، اپنامسلک یہ بیان کرتے ہیں کہ:
 اور ہمارے امام سکوت فرماتے ہیں کہ ہم نہ مسلمان کہیں نہ کافر، لہٰذا یہاں بھی سکوت کریں گے۔۔۔ (احکام شریعت،ص:88،حصہ دوم)

فسق و فجور کے افسانے؟
رہی بات یزید کے فسق وفجور کے افسانوں کی، تو یہ بھی یکسر غلط ہے جس کی تردید کے لیے خود حضرت حسینؓ کے برادر اکبر محمد بن الحنفیہ کا یہ بیان ہی کافی ہے جو انہوں نے اس کے متعلق اسی قسم کے افسانے سن کردیا تھا۔
(ما رایت منہ ما تذکرون وقد حضرتہ واقمت عندہ فرایتہ مواظباً علی الصلوٰۃ متحریا للخیر یسال عن الفقہ ملازماً للسنۃ) (البدایۃ والنہایۃ: 236/8، دارالدیان للتراث، الطبعۃ 1988ء)
یعنی تم ان کے متعلق جو کچھ کہتے ہو میں نے ان میں سے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی، میں نے ان کے ہاں قیام کیا ہے اور میں نےانہیں پکا نمازی ، خیر کا متلاشی، مسائل شریعت سے لگاؤ رکھنے والا اور سنت کا پابند پایا ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج:8، ص:233)

غزوۂ قسطنطنیہ کے شرکاء کی مغفرت کے لیے
بشارت نبوی:علاوہ ازیں کم از کم ہم اہل سنت کو اس حدیث کے مطابق یزید کو برا بھلا کہنے سے باز رہنا چاہیے جس میں رسول اللہﷺ نے غزوۂ قسطنطنیہ میں شرکت کرنے والوں کے متعلق مغفرت کی بشارت دی ہے اور یزید اس جنگ کا کمانڈر تھا۔ یہ بخاری کی صحیح حدیث ہے اور آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے، کسی کاہن یا نجومی کی پیشین گوئی نہیں کہ بعد کے واقعات اسے غلط ثابت کردیں۔ اگر ایساہوتو پھر نبی کے فرمان اور کاہن کی پیشین گوئی میں فرق باقی نہ رہے گا۔ کیا ہم اس حدیث کی مضحکہ کہ خیزتاویلیں کرکے یہی کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ یہ حدیث مع ترجمہ درج ذیل ہے:
(أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ) (صحیح البخاری ، الجہاد والسیر، باب ما قیل فی قتال الروم، ح: 2924)
 میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) میں جہاد کرے گا، وہ بخشا ہوا ہے۔
مؤلف : حافظ صلاح الدین یوسف
https://tehreemtariq.wordpress.com/2013/11/14/
...............................................................................
خلاصہ کلام :
کربلااسلامی تاریخ کا ایک قابل افسوس سانحہ ہے،  جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اس  سانحہ سے نصف صدی قبل جب حج الوداع کے موقع پر المائدہ کی آیات ٣ ،  نازل ہوئی جس میں دین کے کامل (perfect) ہونے کا اعلان کر دیا گیا:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدہ ،آیات ٣)
اس آیت میں بتایا گیا کہ جس دین کا داعی بنا کر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا تھا آج وہ ظاہری اور باطنی، صوری اور معنوی ہر لحاظ سے پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس دین کے غلبہ اور فتح مندی کا جو وعدہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے کیا گیا تھا وہ پورا کر دیا گیا۔ نیز وہ عقائد جن پر انسان کی  نجات کا انحصار ہے وہ مکمل طور پر سکھادئیے گئے۔ شریعت وقانون کے وہ بنیادی قواعد تفصیلا یا اصولا بتا دئیے گئے جو ہر زمانہ اور تمام حالات میں مسلمانوں کے لئے روشنی کا مینار ثابت ہوں گے۔ ایسے اصولوں کی تعلیم بھی دے دی جن کی مدد سے تم ہر نئی مشکل کا حل اور ہر جدید مسئلہ کا جواب معلوم کر سکو گے۔
x
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کامل(perfect) کر دیا ہے اور اپنے نبی اور مومنوں کو اس کا کامل ہونا خود اپنے کلام میں فرما چکا ہے اب یہ رہتی دنیا تک کسی زیادتی کا محتاج نہیں ، اسے اللہ نے پورا کیا ہے جو قیامت تک ناقص نہیں ہوگا۔ اس سے اللہ خوش ہے اور کبھی بھی ناخوش نہیں ہونے والا ۔ حج اکبر والے دن جبکہ یہ آیت اتری تو حضرت عمر رونے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے ، اب وہ کامل ہو گیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہو جاتا ہے ، آپ نے فرمایا سچ ہے ، اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہو جائیگا ، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے حضرت فاروق اعظم سے کہا تم جو اس آیت ( ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5۔ المائدہ:3) کو پڑھتے ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منا لیتے ''حضرت عمر نے فرمایا واللہ مجھے علم ہے کہ آیت کس وقت اور کس دن نازل ہوئی ، عرفے کے دن جمعہ کی شام کو نازل ہوئی ہے ، ہم سب اس وقت میدان عرفہ میں تھے ، تمام سیرت والے اس بات پر متفق ہیں کہ حجتہ الوادع والے سال عرفے کا دن جمعہ کو تھا-(ابن کثیر)
سانحہ کربلا سے دین اسلام میں کوئی اضافہ یا کمی نہیں ہوسکتی، حکمران یزید(بن معاویہ،رضی الله)کے سیاسی و فوجی اقدامات تاریخ کا حصہ ہیں جن پر صدیوں سے تنقید اور تبصرے ہو رہے ہیں- مگرکچھ لوگوں نے اس سانحہ کو  امت مسلمه میں تفرقہ کی بنیاد رکھنے کے لئے استعمال کیا جو ایک افسوسناک عمل ہےجس کی قرآن اجازت نہیں دیتا:
إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( ١٥٩ سورة الأنعام)
"جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے-
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ( آل عمران،3 :103)
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)
الله کا حکم بلکل واضح ہے، اللہ کے دئیے گئے نام میں تبدیلی ، کمی یا اضافہ کا کوئی جواز یا تاویل قابل قبول نہیں ہو سکتی:
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ  ( سورة الحج22:78)
اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام "مسلم" رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ -
تفرقہ بازی کو ختم کرنے کے لئیے:
1.پہلا قدم یہ ہے کہ اپنے آپ کو اللہ کے حکم کے مطابق صرف مسلمان کہلانا شروع کر دیں-
2.تمام نظریات اور اطوارجو دین اسلام میں آیت : " الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ(المائدہ ،آیات ٣) کے بعد شامل کیئے گئے وہ دین اسلام کا جزو نہیں، ان کو ترک کر دیں-
3.مسلمان ایک دوسرے کومہذب اور پر امن طریقه سے "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" کی دعوت دیں مگراس کی آڑمیں زبردستی اپنا نقطہ نظر دوسروں پر ٹھونسنے سے احتراز کریں- یاد رکھیں الله منصف اعلی ہے جو اختلافی معاملات کا فیصلہ  قیامت کے دن کرے گا-  شدت پسندی اور دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں-
پھر ہم دعوی کر سکتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور دین اسلام جو الله کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسانی کے لئے تا قیامت لائے اس پر عمل پیرا ہیں- الله ہماری مدد فرمائے-
http://salaamforum.blogspot.com/2017/09/Karbala-Yazeed.html
………………………………..
نوٹ :
روایت واقعہ کربلا  کی تاریخی حقیقت :
واقعہ کربلا کو بیان کرنے والے اکثر رواۃ جھوٹے’مجہول ’غیرمعتبر’غالى اور کٹر فرقہ پسند ہیں’ انہوں نے مبالغہ آرائیوں اور داستانوں سے بھرے ہوئے واقعات بیان کئے اور بہت سی روایتیں خود گھڑی ہیں اور مؤرخین نے انکو بلا تحقیق اور بلا کسی نقد وتبصرہ نقل کیا – یہی وجہ ہے کہ واقعات کربلا کی اصل حقیقت سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ نا واقف رہ گیا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید(بن معاویہ، رضی اللہ) کے سلسلے میں طرح طرح کی غلط فہمیوں کا شکارہوگیا- واقعات کربلا کے بیان میں تاریخ کی کتابوں میں اتنا تضاد ہے کہ ان میں واقعہ کی صحیح نوعیت کی پہچان بڑا مشکل امرہے اور کونسی روایت صحیح ہے اور کونسی غلط ہے اسکی تمییز کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں رہا ہے-
تاریخ طبری:
تاریخ طبری کو بہت سے محقق ریفر کرتے ہیں- علامہ ابن جریر بن یزید طبری (المتوفی: ۳۱۰ھ)، کی تفسیر طبری کے علاوہ تاریخ طبری بہت زیادہ مشہور و معروف ہے- اسی نام کا دوسرا شخص "ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم طبری" رافضی تھا،اس کی بہت ساری تصانیف بھی ہیں،ان میں سے ایک ”کتاب الرواة عن أہل البیت“ بھی ہے،حافظ سلیمانی رحمہ اللہ کے کلام ”کان یضع للروافض“ کا مصداق بھی یہی شخص ہے- چوں کہ دونوں کا نام ولدیت اور کنیت ایک جیسی ہے؛ اس لیے بہت سارے خواص بھی اس سے دھوکہ کھا جاتے ہیں،پہچان کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں کے دادا کا نام جدا جدا ہے،سنی ابن جریر کے داد کا نام یزید ہے اور شیعہ ابن جریر کے دادا کا نام رستم ہے۔ خود شیعہ مصنّفین اور اصحابِ رجال میں سے بحرالعلوم طباطبائی،ابن الندیم، علی بن داوٴد حلّی، ابو جعفر طوسی،ابو العباس نجاشی اور سیّد خوئی وغیرہ نے ابن جریر بن رستم طبری کا اہلِ تشیع میں سے ہونے کی تصریح کی ہے- اسی تشابہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیعہ علماء نے ابن جریر شیعی کی بہت ساری کتابوں کی نسبت ابن جریرسنی کی طرف کرنے کی کوشش کی ہے؛ چناں چہ ڈاکٹر ناصر بن عبداللہ بن علی قفازی نے ”أصول مذھب الشیعة الإمامیة الإثني عشریة عرض و نقد“ میں لکھا ہے :”روافض نے اس تشابہ کو غنیمت جان کر ابن جریر سنی کی طرف بعض ان کتابوں کی نسبت کی ہے جس سے ان کے مذہب کی تائید ہوتی ہے،جیسا کہ ابن الندیم نے الفہرست،ص:۳۳۵ میں ”کتاب المسترشد في الإمامة“ کی نسبت ابن جریر سنی کی طرف کی ہے؛ حالاں کہ وہ ابن جریر شیعی کی ہے،دیکھیے: طبقات أعلام الشیعة في المائة الرابعة،ص:۲۵۲،ابن شہر آشوب،معالم العلماء، ص:۱۰۶،آج بھی روافض بعض ان اخبار کی نسبت امام طبری کی طرف کرتے ہیں جن سے ان کے مذہب کی تائید ہوتی ہے؛حالاں کہ وہ اس سے بری ہیں،دیکھیے: الأمیني النجفي، الغدیر: ۱/۲۱۴-۲۱۶۔
علامہ ابن جریر بن یزید طبری بہت بڑے اور بلند مرتبہ کے عالم تھے، خاص کر قرونِ ثلاثہ کی تاریخ کے حوالہ سے ان کا نام اور کتاب کسی تعارف کے محتاج نہیں ،قدیم و جدید تمام موٴرخین نے ان سے استفادہ کیا. ان ساری خصوصیات کے باوجود تاریخ طبری میں جگہ جگہ حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق ایسی بے بنیاد اور جھوٹی روایات مروی ہیں، جن کی کوئی معقول و مناسب توجیہ نہیں کی جاسکتی ہے ،جب کہ عدالتِ صحابہٴ کرام پرموجود قطعی نصوص قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے پیش نظر منصف مزاج اہل علم امام طبری اور خاص کر ان کی تاریخ میں مروی اس طرح کی روایات پر کلام کرنے پہ مجبور ہوئے ہیں، روایات پر کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ تاریخ طبری میں بڑے بڑے دروغ گو ، کذّاب اور متہم بالکذب راویوں کی روایات بھی جگہ جگہ موجود ہیں۔ جن میں مشہور دروغ گو راوی محمد بن سائب کلبی کی بارہ (۱۲) روایات،حشام بن محمد کلبی کی پچپن (۵۵) روایات ،ابو مخنف لوط بن یحی ٰ کی چھ سو بارہ (۶۱۲)روایات شامل ہیں ۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیے : مدرسة الکذابین فی روایة التاریخ الإسلامي و تدوینیہ، ص:۴۵۔۴۷،دار البلاغ الجزائر)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ طبری نے ان جھوٹے اور بدنام زمانہ لوگوں کی واضح جھوٹی روایات کو اپنی کتاب میں کیوں جگہ دی جن سے بعد میں فتنوں کا دروازہ کھلا اور اصحاب رسول کے خلاف زبان درازی کا لوگوں کا موقع ملا ؟ اس سوال کا جواب ہم خود طبری کی زبان سے ہی پیش کرتے ہیں۔ کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
“میں نے اس کتاب میں جو کچھ ذکر کیا ہے ا س میں میرا اعتماد اپنی اطلاعات اور راویوں کے بیان پر رہا ہے نہ کہ عقل و فکر کے نتائج پر ، کسی پڑھنے والے کو اگر میری جمع کردوں خبروں اور روایتوں میں کوئی چیز اس وجہ سے ناقابل فہم اور ناقابل قبول نظر آئے کہ نہ کوئی اسکی تک بیٹھتی ہے اور نہ کوئی معنی بنتے ہیں تو اسے جاننا چاہیے کہ ہم نے یہ سب اپنی طرف سے نہیں لکھا ہے بلکہ اگلوں سے جو بات ہمیں جس طرح پہنچی ہے ہم اسی طرح آگے نقل کردی ہے”۔ (مقدمہ تاریخ طبری)
ابن جریر(سنی) کے ثقہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ "تاریخ طبری" کی تمام روایات صحیح ہیں، بلکہ ابن جریر سے لے کر اوپر تک ساری سند کا صحیح ہونا ضروری ہے۔ تاریخ طبری کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کا نوے (۹۰) فیصد حصہ موضوع و باطل ہے جس کی وجہ مجروح راوی ہیں، جن سے طبری نے روایات لے کر اپنی کتاب میں درج کررکھی ہیں۔
اس معاملہ کو اس سے بھی زیادہ سنگین اس بات نے کردیا کہ طبری کے بعد آنے والے اکثر موٴرخین نے قرونِ ثلاثہ کے بارے میں ان سے بہ کثرت روایات نقل کی ہیں ، جیسا کہ ابن جوزی نے اپنی کتاب ”المنتظم“‘ میں، ابن الاثیر نے ”الکامل“ میں اور ابن کثیر نے ”البدایہ“ میں بغیر سند کے نقل کیا ہے، اور ان حضرات کا اس طرح بغیر سند کے روایات نقل کرنے سے ثقہ اور دروغ گو راویوں کی روایات خلط ملط ہوگئیں ہیں، بسا اوقات تاریخ طبری کی طرف مراجعت کے بغیر ان روایات میں تمیز مستحیل ہوجاتی ہے۔
کیا صرف سند کے ساتھ رطب و یابس، غث و سمین اور ثقہ و غیر معتبر ہر طرح کی روایات کا نقل محض کسی بھی ثقہ مصنف کے لیے معقول عذر بن سکتا ہے؟ کیا اس بنیاد پر ثقہ مصنف کی نقل کردہ ہر روایت کو قبول کیا جاسکتا ہے. ؟
واقعہ کربلا کے راوی ابومحنف اور ہشام بن محمد سائب بھی ہیں۔ لیکن وہ قابل اعتبار نہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ منہاج السنہ میں لکھتے ہیں :
((ابومحنف وھشام بن محمد بن سائب وامثالھما من المعروفین بالکذب عند اھل العلم))
(مفتاح السنہ ص : 13 ج : 1 ، میزان الاعتدال ذہبی ص : 550 ج : 3 )
ابومحنف اور ہشام اور ان جیسے راوی اہل علم کے نزدیک جھوٹے ہیں۔ ابومحنف اپنی کتاب ” مقتل حسین رضی اللہ عنہ ‘ میں ایسی عجیب و غریب روایات بیان کرتے ہیں جن کو عقل بھی تسلیم نہیں کرتی۔
مثلاً لکھتے ہیں
:” کہ جب امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو ان کا گھوڑا ہنہنانے لگا وہ میدان کربلا میں مقتولین کی لاشوں کے پاس سے گزرتا ہوا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی لاش کے پاس آ کر ٹھہر گیا۔ اس نے اپنی پیشانی خون میں ڈبو دی۔ وہ اگلے پاؤں سے زمین پر ٹپکنے لگا اور اس قدر زور سے ہنہنانے لگا کہ اس کی ہنہناہٹ سے میدان کربلا گونج اٹھا۔ ابن سعد کی نظر جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر پڑی تو اس نے کہا خدا کی مار ہو تم پر اسے پکڑ کر میرے پاس لاؤ ، یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ گھوڑوں میں سے ہے۔ لشکریوں نے اس کا تعاقب کیا ، جب گھوڑے نے دیکھا کہ لوگ اسے پکڑنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے پاؤں زمین پر ٹپکنے لگا اور اپنی مدافعت کرنے لگا حتیٰ کہ اس نے بہت سے آدمیوں کو ہلاک کر دیا اور کئی شاہسواروں کو گھوڑوں سے گرا دیا۔ مگر لشکری اس پر قابو نہ پا سکے۔ “ (مقتل الحسین رضی اللہ عنہ ص : 94 )
دوسری جگہ لکھتا ہے کہ؛ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جس روز شہید ہوئے آسمان سے خون کی بارش ہوئی۔ (مقتل الحسین رضی اللہ عنہ ص : 119 )
مذکورہ بالا نمونہ سے پتہ چلتا ہے کہ ابومحنف راوی اپنی طرف سے باتیں بنا لیتا ہے۔ لہٰذا قابل اعتبار راوی نہیں ہے- اسی طرح کے راویوں کی روایت کی بنیاد پراگر ایک نیا مذہبی بیانیہ ترتیب دیا جائےتو اس کی کیا حثیت ہو گی ، کوئی بھی اندازہ کر سکتا ہے!
……………………………………………..

خونی ماتم کے حوالے سے امام خامنہ ای کے فتوی پر عمل کرنے پر علماء کی تلقین: https://goo.gl/VxLtkM